Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاولیٰ ۱۴۲۹ھ جون ۲۰۰۸ء

ہ رسالہ

7 - 12
چند مطبوعہ تفاسیر کی خصوصیات وامتیاز
چند مطبوعہ تفاسیر کی خصوصیات وامتیازات
موصوف کے نزدیک ساری شریعت اسلامی کا یہی خلاصہ اور نچوڑ ہے ،چنانچہ وہ قرامطہ باطنیہ‘ اسماعیلیہ‘ مزدکیہ‘ اخشونیہ جیسے ملحد زنادقہ کے گروہ میں شامل ہوگئے ،جنھوں نے قطعی ضروریات دین میں دور از کار تاویلات کردیں، بلکہ موصوف ان کے روحانی شاگرد معلوم ہوتے ہیں کہ ان کے ہی افکار کو اخذ فرماکر یہ گمان کر بیٹھے کہ خود ان نظریات کے موجد ہیں، شیطان نے انہیں ان گمراہ راستوں کو مزین دکھلایا تو انہوں نے نصوصِ قرآنی اور احادیثِ نبوی میں ایسی نکمی اور بیکار تاویلات کیں جن سے طبائع سلیمہ کراھت محسوس کرتی ہیں اور سماعت صحیحہ مسترد کردیتی ہیں ،اس طرح کی تاویلات تو ایک عقلمند شخص کے کلام کی بھی نہیں کی جاسکتیں، چہ جائیکہ خدائے پاک کے بلیغ وفصیح اور معجز کلام میں ایسی نکمی تاویلات کو راہ دی جائے یا حضور پاک ا کو جنہیں جامع کلمات کی گویائی سے سرفراز فرمایا گیا ،کے کلام کی ایسی بھونڈی تاویلات زیر غور لائی جائیں۔ در اصل خدائے پاک نے موصوف کی خرد وبصیرت کو اندھا فرما دیا تھا ،جس کی بناء پر وہ اتنی تمیز بھی نہ کر سکے کہ آیا ان تاویلات کی من حیث العربیة قرآن وسنت کے کلمات میں گنجائش بھی ہے یا نہیں؟ اور یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ اعدائے دین اور دشمنان ملت نے واضح جہالت کے پردے ان کی آنکھوں پر ڈالدیئے تھے اور جس کو خدا نور سے نہ نوازے ،واقعةً وہ نورِ فہم وفراست سے سرفراز ہو ہی نہیں سکتا ہے۔ ستم برآں! کہ ان تاویلات کو وہ دین کی خدمت خیال کرتے تھے اور تاویلات کے ذریعے کافروں اور مسلمانوں کو ایک مذہب کے پیرو بتلاتے تھے ۔ اس طرح کی تاویلات سے موصوف نے قرآن پاک میں تحریف کی اور دین اسلام کی تعلیمات کو مسخ کردیا اور شریعت مطہرہ کے ستھرے خد وخال کو بدصورت وبدنما کردیا ،انہیں فاسد تاویلات کی بنیاد پر موصوف نے ”تفسیر القرآن“ کے نام سے اردو میں تفسیر تالیف کی ،یہ تفسیر ”تفسیر القرآن“ کے بجائے ”تحریف القرآن“ کہلائے جانے کی مستحق ہے ،بلکہ موصوف اپنی اس تحریف (بنام تفسیر )میں یہودی علماء سے بھی ایسی سبقت لے گئے کہ ان کو کہیں دور چھوڑ دیا ،لیکن چونکہ نظمِ قرآن کی حفاظت کا خدائے پاک نے وعدہ فرما رکھا ہے،اس لئے موصوف اس نظم قرآنی میں تحریف وتغیر پر قادرنہ ہوسکے ،وگرنہ ان کی شخصیت سے یہ تغیروتحریف بھی کچھ بعید نہ تھا ، اور قریب تھا کہ ان کو اس تحریف لفظی سے کوئی چیز نہ روکتی ۔اس طرح موصوف نے اہل یورپ ومغرب کی دین مٹانے کی سازش کے لئے اپنا قیمتی دین فروخت کردیا ۔ پھر ان کی یہ تحریفات یہاں تک ہی منحصر نہ رہیں، بلکہ اس الحاد وزندقہ آمیز تاویلات کو انہوں نے اپنی تفسیر اور دیگر تالیفات وخطبات میں خوب پھیلایا ،لیکن خدائے پاک نے قیامت تک کا اپنے دین کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے اور اپنے بندوں میں اس کی سنت وطریق یہ رہا ہے کہ کوئی بھی دور دینی معاملات کے محافظ اہل حق سے خالی نہیں رہا مشہور ضرب المثل ہے کہ” ہر فرعون کے لئے موسیٰ ہوتا ہے اور ہر پھٹن کے واسطے پیوند کار بھی ہوتا ہے“ چنانچہ اس ملحد وزندیق کے کفر والحاد کو مٹانے اور اس کی باطنی خباثت ونجاست سے دین کو پاک وصاف کرنے کے لئے خدائے پاک نے مولانا ابو محمد عبد الحق کو منتخب فرمایا، جودہلی کے رہنے والے اور دیوبند کے تعلیم یافتہ تھے،حقانی کے لقب سے معروف تھے ،چنانچہ انہوں نے قلم اور زبان سے ان کی خوب تردید کی ، اور جلتا انگاراس ملحد کے پہلو اور پسلیوں میں رکھدیا اور اس کی روداد زندگانی وبدباطنی سے لوگوں کو آشنا کردیا ۔ اسی طرح خدائے پاک ! گمراہ فرقوں کی سرکوبی کے لئے ایسے قابلِ قدر افراد امت کو چنتے ہیں جو تجربہ کار بھی ہوتے ہیں اور زمانہ کی فتنہ انگیزیزیوں اور نیرنگیوں سے خوب واقف بھی ،جو ایسے ملحدین وزنادقہ کی خفیہ اسکیموں اور پروگراموں کو خوب پرکھ لیتے ہیں اور ان کے خسائس ورذائل اور بدباطنی پر مطلع ہوتے ہیں ،جس کے باعث وہ ان کی ستھری اسکیموں کو گندگی سے الگ کرنے کے فن میں کمال رکھتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ محترم مولانا عبد الحق  نے ”فتح المنان“ کے نام سے سر سید کی تفسیر پر رد تحریر فرمایااور امت کو اللہ تعالیٰ نے اس تفسیر کو خوب نفع مند فرمایا۔ انہی فاضل مؤلف کی ایک مبسوط کتاب بھی ہے جو گویا ان کی تفسیر کے لئے مقدمہ کی حیثیت رکھتی ہے، جس میں فاضل مؤلف نے سرسید کے الحاد کی بنیاد کو آشکارائے عالم کیا ہے اور اس کے فاسد وباطل اصول کی خوب تنقید وتردید کی ہے ۔اس کتاب کانام ”البیان فی علوم القرآن“ ہے،اس کتاب کا انگریزی میں بھی ترجمہ کیا گیا ،جس کو مشرقی ومغربی ممالک میں خوب پذیرائی حاصل ہوئی،سرسید کے کردار کے متعلق یہ چند نمونے ہیں ،اس کے مطابق اے ہوشمندو باخبر مخاطب !انصاف فرمایئے۔ انصاف بہترین صفت ہے۔ میں آپ کو اللہ کا واسطہ دے کر آپ سے سوال کرتا ہوں کہ دینی معاملات یا حمیتِ وطنی اور حریتِ وطن میں سے کوئی معاملہ ایسا ہے جس کو تباہ وبرباد کرنے کی اس ملحد وزندیق نے کوشش نہ کی ہو، کاش !کہ اس کے یہ کفریہ نظریات وافکار لوگوں میں نہ پھیلتے !!!ورنہ تو موصوف نے یہ ارادہ کرلیاتھا کہ لوگوں کو اپنے دین کے تابع بنادیں اور لو گ ان کے منہ سے بکے ہفوات کو تسلیم کریں اور ان پر کاربند رہیں ۔ اپنی بعض کتابوں میں موصوف نے حجة الاسلام امام غزالی تک کے افکار کا استہزاء کیا ہے ،اندازہ لگایئے کہ اس بیوقوف ملحد وزندیق کی بیوقوفی کہاں تک پہنچ گئی اور اس کا یہ اندھاپن اسے کن راہوں پر گامزن کر گیا کہ اپنی باطل تاویلات وتحریفات کو دقائق واسرار شمار کرنے لگا، یہاں تک کہ اپنی تفسیر میں صحابہ کرام کے متعلق یوں کہہ گیا کہ:
”اونٹ چرانے والے ‘ چرواہوں کو ان حقائق کی کیا خبر اورکیا سمجھ ہوسکتی ہے ،اسی واسطے شریعت اسلامی نے ان کے لئے باریک مثالوں کے بجائے ان کی فہم ودانست کے مطابق ادنیٰ سی مثالیں بیان فرمائیں“
افسوس صد افسوس! اس کی شر انگیزی کتنی بڑھی ہوئی تھی، ان کے افکار تو بمثل اس مقولہ کے ہیں کہ:
”شرحدودپھلانگنے لگااورچھری سرایت کرتے کرتے ہڈی تک پہنچ گئی“۔
مزید تعجب مجھے مشہور مؤرخ ”سیرة النبی“ اور ”الفاروق“ وغیرہ جیسی گرانمایہ کتابوں کے مصنف علامہ شبلی نعمانی پر ہوتا ہے کہ موصوف سرسید کے متعلق کیسی عجیب عقیدت رکھتے تھے ،مجھے تو اس پر اس قدر افسوس ہوا جو ناقابل برداشت وبیان ہے، جب موصوف اپنے مکاتیب میں سر سید کو یوں کہتے ہوئے مخاطب ہوئے” سیدی ومولائی “اور جب سرسید کا انتقال ہوا تو اسکے کسی معتقد کو موصوف علامہ شبلی نعمانی یوں لکھتے ہیں کہ:

”ملت اسلامی کے ستون اس حادثہ سے ہلنے لگ گئے ،میری مراد سرسید احمد خان کا رب ذو الجلال کی رحمت کی طرف انتقال ہے ،یہ حادثہ بروز اتوار ۲۷/ مارچ کو پیش آیا،ہماری جمعیت بکھر گئی اور میں کچھ دیر تو بالکل ناکارہ بے حواس ہورہا ۔ والسلام ،شبلی نعمانی ۲۹/مارچ ۱۸۹۸ء ۔“ ( مکاتیب شبلی)
یہ اس خط کے عربی الفاظ ہیں ،راقم یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ آیا چند مشترکہ مصالح کے پیش نظر یہ دینی مداہنت تھی یا پھران دونوں شخصیات کی ارواح کی آپس میں مناسبت تھی اور فہم ودانائی میں دونوں کے مقاصد کا اشتراک تھا کہ ان کے علم کو یہاں تک رسائی حاصل ہوئی ۔ ان تمام باتوں کی وضاحت اعلانیہ طور پر اس لئے ضروری سمجھتا ہوں کہ کافر سے چشم پوشی برتنا بھی دین نہیں ہے ،جس طرح ایک مسلمان کو کافر گرداننا دین نہیں ہے ۔ اس مسئلہ میں لو گ دو بالکل مخالف اطراف میں چلے ہیں :بعضوں نے افراط کیا ہے اور بعضوں نے تفریط۔ جس کی وضاحت ہمارے حضرت علامة العصر مولانا شاہ محمد انور کشمیری نے اکفار الملحدین میں بیان فرمائی ہے ،بلکہ درحقیقت کافر سے چشم پوشی، تکفیر مسلم سے زیادہ اسلام کے لئے ضرر رساں ہے ،لیکن چونکہ یہ مقام اس مسئلہ کی تفصیلات کا متحمل نہیں ،اس لئے ہم ان تفصیلات سے اعراض کرتے ہیں ۔ بہرحال اس مذکورہ مکتوب کو خوب پڑھئے ۔اگر سرسید احمد خان جیسا شخص ملت اسلامی کے ارکان میں سے شمار کیا جاوے گا تو ملت اسلامی کے متعلق کیا خیال ہے، آپ کا؟حالانکہ آپ دیکھ چکے ہیں کہ اس نے ملت اسلامیہ کے بنیادی ارکان میں سے کسی بھی رکن کومتزلزل کرنے کی کسر نہیں چھوڑی ،اگرچہ وہ اس کی ناکام ونامرادکوششوں سے متزلزل نہیں ہوسکتے ؟؟ لیکن تعجب اس بات پر ہے کہ ایک شخص قرآن اور دین اسلامی کی تحریف کرتا ہے اور دین کو ایک امر عقلی گردانتا ہے ،برطانوی سامراج کے جال کو مضبوط کرنے کے لئے ان کی امداد واعانت میں کوشاں ہے‘ اللہ اور اس کے رسول ا کے ساتھ ،وطن اور باشندگانِ وطن کے ساتھ خیانت ،ملعون حکومت کی مساعدت ومعاونت کرکے خیانت وبددیانتی کرتا ہے ،پھر بھی اس کو ملت اسلامی کا ستون کہا جائے؟ اگر ملت اسلامی وہ ہے جو اس زندیق نے بیان کی ہے تو ایسی گمراہ وباطل ملت سے میں خداوند کریم کے حضور میں برأت کا اعلان کرتا ہوں۔ افسوس صد افسوس! ان لوگوں کے حال پر جن کی طرف انگلیوں سے اشارہ کیا جاتا ہے، یہ ان لوگوں کے ظاہری وباطنی عیوب ہیں اور یہ ان کے ظاہر وباطن میں فرق ہے ،انہی فاضل مؤرخ علامہ شبلی ہی کو لے لیجئے جنہوں نے اپنی کتابوں میں ایسے مسائل واصول ذکر کئے ہیں، جن کو ایک ایسا شخص جو خود خدا ورسول پر ایمان رکھتا ہو اور اس کا دل اس ایمان سے ٹھنڈا اور پُر سکون ہو، نیز خدائے پاک نے اس کے سینے کو اسلامی تعلیمات کے فہم کے واسطے منشرح کردیا ہو ،وہ ان اصول ومسائل کو ہرگز قبول نہ کر سکے گا ۔ موصوف اپنے بہت سے نظریات میں اسی ملحد سرسید کے افکار کے متبع نظر آتے ہیں ،اس مؤرخ کے عذر کوقبول کرتے ہوئے آخری حد یہ ہے کہ ہم اس کو غالی معتزلی شمار کریں (ورنہ ان کا معاملہ بھی نازک اور افکار خطرناک ہیں )۔ دراصل فی زمانہ امت میں شرانگیزی اور فتنہ وفساد کا سیل رواں جاری ہے اور دینی مداہنت اور عملی نفاق کا دور دورا ہے ،ہاں جو شخص خدائے پاک کے حضور سالم صحیح دل کے ساتھ حاضر ہوجائے یا جس شخص کو خداوند کریم محفوظ رکھیں، وہی شخص فوزو فلاح سے ہمکنار ہوگا ۔ پھر جب اس شخص کا یہ حال ہے تو اس کے متبعین واحباب کا کیا حال ہوگا،بیشک توفیقِ خیر، تو الٰہی کارفرمائی ہے ،اور سیدھی راہ کی طرف ہدایت، خداوند کے قبضہٴ قدرت میں ہے ۔ علامہ شبلی نعمانی کے متبعین علماء پر بھی تعجب ہے کہ موصوف مؤرخ نے جہاں اسلام کے اجماعی عقیدہ کی مخالفت کی ہے اور صریح احادیث کے مخالف ومقابل تاویلات فرمائی ہیں ،وہ ان تمام اغلاط پر پردہ ڈالتے ہیں۔ درحقیقت انسانی ارواح جب عالم ارواح میں لشکروں کی صورت میں جمع تھیں، تب جو روحیں آپس میں مناسبت رکھتی تھیں ،وہ دنیا میں بھی باطنی طور پر آپس میں متعارف رہیں اور جن ارواح میں مناسبت نہ تھی، وہ دنیا میں بھی آپس میں اوپری اور اجنبی رہیں ،انہی حضرات کی طرح ان کے متبعین علماء کی بھی قرآن وحدیث اور تاریخ کے متعلق کئی ہفوات ہیں ،جن پر تنبیہ ضروری ہے، لیکن اس مختصر رسالہ میں ان تمام تفاصیل کا بیان کردینا ممکن نہیں ہے۔ا اللہ تعالیٰ امت محمدیہ کو راہ راست بتلائے اور ہمیں بھی الحاد وزندقہ کی فضاء سے محفوظ فرمائے اور تمہیں بھی اللہ محفوظ رکھے ،اللہ واقعی اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے ۔ دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمیں درست دین اسلامی اور ستھری شریعت محمدی کی اتباع کرتے ہوئے دنیا سے اٹھائے اور سیدھی راہ کی ہدایت خدا کے ہاتھ میں ہے۔
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , جمادی الاولیٰ ۱۴۲۹ھ جون ۲۰۰۸ء, جلد 71, شمارہ 5

    پچھلا مضمون: گستاخ رسول کی سزااورحکومت وقت کی ذمہ داری 
Flag Counter