Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاولیٰ ۱۴۲۹ھ جون ۲۰۰۸ء

ہ رسالہ

4 - 12
ایک قابل رشک انسان
ایک قابلِ رشک انسان

پیر ۷/ ربیع الثانی ۱۴۲۹ھ بمطابق ۱۴/ اپریل ۲۰۰۸ء رفیق محترم حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب فجر کی نماز پڑھانے کے لئے موٹر سائیکل پر جارہے تھے کہ ایک بدبخت انسان کی گولی کا نشانہ بن کر شہید ہوگئے۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
مفتی صاحب مرحوم جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کی ملیر شاخ کے نہ صرف ایک گراں قدر‘ محنتی‘ قابل اور خداترس استاذ تھے‘ بلکہ ہمارے لئے ایک مرنجاں مرنج اور باغ وبہار دوست بھی تھے‘ ان کی شہادت سے سات بچوں اور بچیوں کے سر سے ایک شفیق باپ کا سایہ عاطفت اٹھ گیا اور ان کے والدین اور گھر والوں کی امیدوں کا چراغ بجھ گیا‘ ان کے دوست تو ایک طرف ان سے تعارف رکھنے والوں نے بھی ان کی جدائی کا غم شدت سے محسوس کیا۔ مفتی صاحب مرحوم مختلف دینی اداروں میں تقریباً سات برس تک تدریس کرنے کے بعد ۱۹۹۹ء میں مدرسہ عربیہ اسلامیہ ملیر میں استاذ مقرر ہوئے اور آخر دم تک اسی ادارہ میں مختلف کتابوں کا درس دیتے رہے اور ساتھ ساتھ انتظامی ذمہ داریاں بھی نبھاتے رہے‘ وہ تدریس کے دوران متعلقہ اسباق کی خوب محنت کے ساتھ تیاری کرتے تھے اور ات دیر تک مطالعہ فرماتے تھے۔ ظہر کے سبق کے لئے بھی جب تک مطالعہ نہ کرلیتے دوپہر کو آرام نہیں فرماتے تھے ‘ پابندی کے ساتھ درس دینا ان کا شعار رہا۔ انتظامی معاملات میں ان کی مشاورت قابل قدر ہوتی تھی اور ان کے مشورے نہایت مفید ثابت ہوتے تھے‘ وہ خود بھی ادارے کی تعلیم وتربیت کے مسائل میں متحرک کردار ادا کرتے تھے۔ وہ ایک ایسے مثالی دوست تھے جو نہایت پُر خلوص طریقے سے اپنا تعلق نبھاتے تھے۔ خدمت کے وقت ساتھیوں کی خدمت اور مشاورت کے وقت انفرادی اور اجتماعی امور میں ساتھی ان کی مشاورت سے مستفید ہوتے تھے‘ ساتھیوں کی حوصلہ افزائی اور ان کی خوبیوں کا کھلے دل سے اعتراف اور اظہار ان کا خاصہ تھا‘ ان کی تواضع کا یہ حال تھا کہ انہیں مطالعہ کے دوران اگر کوئی دقت پیش آتی تو ساتھیوں سے تعاون لینے میں کوئی حجاب محسوس نہیں کرتے تھے‘ درحقیقت یہ ان کی عظمت تھی کہ وہ اس معاملے میں اپنے سے چھوٹی عمر کے ساتھیوں سے بھی پوچھنے میں حرج محسوس نہیں فرماتے تھے۔ شگفتہ اور برجستہ گفتگو کی وجہ سے دوستوں کی محفلیں ان کے دم قدم سے آباد تھیں‘ وہ جہاں بیٹھتے تو بقول شورش کاشمیری طاؤس کی طرح اپنی محفل خود ہی آراستہ کرتے ان کی خوش کلامی سے پریشان حال ہمنشین کی باچھیں کھل جاتیں اور وہ اپنا غم بھول جاتا۔ کہتے ہیں :
”اطلب الجار قبل الدار والرفیق قبل الطریق“
یعنی گھر سے پہلے پڑوسی تلاش کرو اور راستے سے پہلے ساتھی تلاش کرو۔ یہ یقینا ہماری خوش قسمتی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مفتی صاحب جیسا رفیق اور پڑوسی عنایت فرمایا تھا‘ جس طرح وہ ایک مثالی رفیق تھے اسی طرح وہ ایک مثالی پڑوسی بھی تھے ‘ مثالی پڑوسی وہ ہے جو اپنے دیگر پڑوسیوں کے لئے باعث راحت ہو‘ اذیت کا باعث نہ ہو اور بلاشبہ یہ صفات ان میں مکمل طور پر موجود تھیں۔ ذکر واذکار‘ قرآن کریم کی تلاوت اور نماز تہجد ان کے روز مرہ معمولات میں سے تھے۔ بیرونی ذمہ داریوں کے علاوہ وہ گھریلو معاملات بھی نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیتے تھے ‘ والدین کی ضروریات پوری کرنے کی مقدور بھر کوشش فرماتے تھے اور ان کی صحت کے متعلق وقتاً فوقتاً آگاہی حاصل کرتے رہتے تھے۔ اگر ان کو علاج معالجے کی ضرورت ہوتی تو اس کا بند وبست فرماتے تھے‘ اپنی بساط سے بڑھ کر ان کی خدمت فرماتے تھے ایک ذمہ دار باپ ہونے کے ناطے اپنے بچوں کی تعلیم کے متعلق فکر مند رہتے تھے‘ امامت وخطابت کی ذمہ داریاں ملنے سے پہلے باقاعدہ عصر کو اپنے بچوں کے پاس بیٹھ کر ان کا سبق سنا کرتے تھے اور ان کے ساتھ کچھ دیر تک بیٹھ کر اپنی پدرانہ محبت اور شفقت کا انہیں احساس دلاتے تھے۔ انفرادی اور اجتماعی اصلاح کے متعلق وہ فکرمند رہتے تھے‘ ان کی کوشش ہوتی تھی کہ وقتا فوقتا مختلف بزرگان دین کو مدرسہ میں آنے کی دعوت دیجاتی رہے اور مدرسہ میں ان کے اصلاحی بیان ہوں‘ تاکہ علمی وعملی سرگرمیاں پہلو بہ پہلو جاری رہیں اور رشد وہدایت کے یہ چشمے امت مسلمہ کی بیداری میں زیادہ سے زیادہ بار آور ثابت ہوں۔ امامت وخطابت سے وابستگی کے بعد وہ اس لحاظ سے زیادہ خوش تھے کہ ان کے لئے دعوت وارشاد کا میدان نسبتا کشادہ ہوا اور ان کے لئے عام لوگوں تک اپنی صدائے حق پہنچانا ممکن بناتھا‘ اپنی مسجد میں کام کرنے کے لئے ان کو نہایت ہی مختصر عرصہ مل سکا‘ لیکن ان کی اصلاحی کوششوں کے اثرات اہل محلہ نے بجا طور پر محسوس کئے تھے۔ وہ اپنے اساتذہ کی خوبیوں کا تذکرہ شاگروں اور ساتھیوں میں یکساں کرتے تھے‘ اپنے اساتذہ کے تقویٰ‘ پرہیزگاری‘ علمی گہرائی‘ اتباع سنت اور دینی صلابت کے متعلق ان کی گفتگو اب بھی کانوں میں گونج رہی ہے۔ بلاشبہ وہ ایک مثالی اور قابل رشک انسان تھے‘ انہوں نے اپنی خوبیوں کے جو ان گنت نقوش چھوڑے ہیں‘ ان شاء اللہ! اس کے اثرات تادیر باقی رہیں گے۔
ومادام ذکر العبد بالفضل باقیا
فذاک حی وہو فی التراب ہالک
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , جمادی الاولیٰ ۱۴۲۹ھ جون ۲۰۰۸ء, جلد 71, شمارہ 5

    پچھلا مضمون: ناپاکی کی حالت میں تلاوت قرآن اور عورت کی امامت کا حکم 
Flag Counter