Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاولیٰ ۱۴۲۹ھ جون ۲۰۰۸ء

ہ رسالہ

5 - 12
اسلام کا نظام معیشیت قرآن و سنت کی روشنی میں
اسلام کا نظام معیشت قرآن وسنت کی روشنی میں (۱)
اسلام معاشی اور سماجی سرگرمیوں پر پابندی نہیں لگاتا‘ کیونکہ ایسا کرنا رہبانیت بن جاتا ہے، جس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ‘ قرآن کریم میں ہے:
”ورہبانیة ابتدعوہا ما کتبناہا علیہم الا ابتغاء رضوان اللہ فما رعوہا حق رعایتہا، فاٰتینا الذین آمنوا منہم اجرہم وکثیر منہم فاسقون“۔ ( الحدید:۲۷)
ترجمہ:․․․”اور ترک دنیا کو انہوں نے تراش لیا، ہم نے اس کو ان پر فرض نہیں کیا تھا‘ صرف اللہ کی رضامندی طلب کی تھی، انہوں نے اس کی رعایت ملحوظ نہ رکھی پھر دیا ہم نے ان لوگوں کو جو ان میں ایماندار تھے ان کا بدلہ اور بہت ان میں نافرمان ہیں“۔ قرآن پاک نے رہبانیت کو اختراعی اور من گھڑت قرار دیا اور اعلان کردیا کہ انسانی فطرت کی یہ قدرتی راہ نہیں ہے اور نہ قدرت نے آدمی کو اس جبلت کے ساتھ پیدا کیا ہے اور نہ ہی اس زمانے میں کبھی اس کا مطالبہ کیا۔ قرآن پاک واضح الفاظ میں اپنے ماننے والوں کو بتاتا ہے کہ زمین اور آسمان کی تخلیق اور رات اور دن کا اختلاف انسانی ضرورت کے لئے ہے‘ کارخانہ قدرت میں قرآن کریم اس امر کی تلقین کرتا ہے‘ جیساکہ ارشاد ہے:
”ربنا ما خلقت ہذا باطلا“۔ (آل عمران:۱۹۱)
ترجمہ:۔”اے ہمارے رب! تونے کار خانہ قدرت میں کوئی چیز بیکار پیدا نہیں کی“۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کا ہرایک ذرہ کسی نہ کسی کام کو انجام دینے کا پابند ہے‘ گو ہمیں عالم ہستی میں سینکڑوں اشیاء بیکار نظر آتی ہیں اور ان کے وجود کا کوئی فائدہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا‘ لیکن کسی شے کے فوائد سے عدم واقفیت ہرگز اس امر کی دلیل نہیں ہوسکتی کہ وہ چیز درحقیقت بیکار پیدا کی گئی‘ قدرت کے نزدیک اس کا کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور ہے۔شاعر مشرق نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:
”اسلام کی روح مادہ کے قرب سے نہیں ڈرتی“(۳)
معاش کے ذرائع
قرآن پاک نے بار بار زور دے کر بیان کیا کہ تمام ذرائع ورسائل اللہ تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے ہیں‘ جس پر انسان کی معاش کا انحصار ہے‘ ارشاد ربانی ہے:
۱-”ہو الذی جعل لکم الارض ذلولا فامشوا فی مناکبہا وکلوا من رزقہ والیہ النشور“۔ (الملک:۱۵)
ترجمہ:۔”وہی ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو رام کردیا‘ پس چلو اس ․․زمین․․․ کی پہنائیوں میں اور کھاؤ اس ․․اللہ․․ کا رزق اور اسی کی طرف تمہیں دوبارہ زندہ ہوکر واپس جانا ہے“۔
۲- ”اللّٰہ الذی خلق السموت والارض وانزل من السماء ماءً فاخرج بہ من الثمرات رزقاً لکم‘ وسخر لکم الفلک لتجری فی البحر بامرہ‘ وسخر لکم الانہار‘ وسخر لکم الشمس والقمر دائبین‘ وسخر لکم اللیل والنہار‘ واٰتاکم من کل ما سألتموہ‘ وان تعدوا نعمة اللّٰہ لاتحصوہا ان الانسان لظلوم کفار“۔ (ابراہیم:۳۲تا۳۴)
ترجمہ:۔”اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور آسمان سے پانی برسایا پھر اس کے ذریعہ سے تمہارے رزق کے لئے پھل نکالے اور تمہارے لئے کشتی کو مسخر کیا‘ تاکہ وہ سمندر میں اس کے حکم سے چلے اور تمہارے لئے دریاؤں کو مسخر کیا اور سورج اور چاند کو تمہارے مفاد میں ایک دستور پر قائم کیا کہ پہیم گردش کر رہے ہیں اور دن اور رات کو تمہارے مفاد میں ایک قانون کا پابند کیا اور وہ کچھ تمہیں دیا جو تم نے مانگا‘ اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو نہیں کرسکتے‘ بے شک آدمی بڑا بے انصاف ہے ناشکرا ہے“۔
۳- ”ولقد مکناکم فی الارض وجعلنا لکم فیہا معایش، قلیلاً ما تشکرون“۔ (الاعراف:۱۰)
ترجمہ:۔”ہم نے زمین میں تم کو اقتدار بخشا اور ہمارے لئے اس میں زندگی کے ذرائع فراہم کئے، تم بہت کم شکر کرتے ہو“۔
رزق کی وسعت اور تنگی
کائنات کے تمام ذی روح کو رزق اللہ تعالیٰ عطا کرتا ہے‘ وہ سب چیزوں کا مالک ومختار وہی اور پوری دنیا کا نظام وہی چلاتا ہے‘ رزق کی وسعت اور تنگی اللہ کے اختیار میں ہے۔ ارشاد الٰہی ہے:
”اولم یرو ان اللّٰہ یبسط الرزق لمن یشاء ویقدر، ان فی ذلک لاٰیات لقوم یؤمنون“۔ (الروم:۳۷)
ترجمہ:۔”کیا نہیں دیکھ چکے کہ اللہ پھیلا دیتاہے روزی کو جس پر چاہے اور ماپ کردیا جس کو چاہے‘ اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو یقین رکھتے ہیں“۔
اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے دوسرے انداز میں بیان کیا ہے:
”قل ان ربی یبسط الرزق لمن یشاء ویقدر‘ ولکن اکثر الناس لایعلمون“ ۔ (سبا:۳۶)
ترجمہ:۔”آپ فرمادیجئے کہ میرا رب جس کے لئے چاہے رزق کو بڑھا دیتا ہے اور ماپ کردیتا ہے‘ لیکن بہت لوگ سمجھ نہیں رکھتے“۔ اللہ تعالیٰ کی بالا تر ملکیت کے تحت اور اس کی عائد کردہ حدود کے اندر قرآن شخصی ملکیت کا اثبات کرتا ہے‘ اس ضمن میں قرآن پاک کے واضح احکامات ملتے ہیں:
۱-”یا ایہا الذین آمنوا لاتاکلوا اموالکم بینکم بالباطل الا ان تکون تجارة عن تراض منکم“۔ (النساء:۲۹)
ترجمہ:۔”اے ایمان والو! ایک دوسرے کے مال ناجائز طریقوں سے نہ کھاؤ‘ مگر یہ کہ تمہارے درمیان تجارت ہو آپس کی رضامندی سے“۔
۲- واحل اللّٰہ البیع وحرم الربوٰا“۔ (البقرة:۲۷۵)
ترجمہ:۔”حالانکہ اللہ نے حلال کیا ہے تجارت کو اور حرام کیا سود کو“۔ ظلم کے طریقے پر مال حاصل کرنا اسلامی معاشی نظام میں ناجائز اور حرام ہے‘ ارشاد ربانی ہے:
۱:-”واٰتوا الیتمیٰ اموالہم‘ ولاتتبدلوا الخبیث بالطیب ولاتاکلوا اموالہم الی اموالکم ،انہ کان حوبا کبیراً“۔ (النساء:۲)
ترجمہ:۔”اور دے ڈالو یتیموں کو ان کا مال اور بدل نہ لو برے مال کو اچھے مال سے‘ نہ کھاؤ ان کے مال اپنے مالوں کے ساتھ‘ یہ ہے بڑا وبال“۔
دوسری جگہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:
۲:- ان الذین یاکلون اموال الیتمیٰ ظلماً انما یاکلون فی بطونہم ناراً، وسیصلون سعیراً“۔ (النساء:۱۰)
ترجمہ:۔”جو لوگ یتیموں کے مال ظلم اور ناجائز طور پر کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ بھرتے ہیں اور وہ دوزخ میں ڈالے جائیں گے“۔
۳:- ”مثل الذین ینفقون اموالہم فی سبیل اللّٰہ کمثل حبة انبتت سبع سنابل فی کل سنبلة مائة حبة‘ واللّٰہ یضاعف لمن یشاء واللّٰہ واسع علیم“۔ (البقرة:۲۶۱)
ترجمہ:۔”جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ بو یا جائے تو اس سے سات بالیں نکلیں‘ ہربالی میں سو دانے‘ اور اللہ بڑھاتا ہے جس کے واسطے چاہے اور اللہ بے انتہا بخشنے والا ہے سب کچھ جانتا ہے“۔
اخلاق اور مذہب
دین اسلام نے معاشی زندگی کی تربیت وتہذیب کے جو اصول پیش کئے وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ اسلام نے بتایا کہ اخلاق اور مذہب کا تعلق انسان کی معاشی زندگی سے گہرا ہے‘ ارشاد ربانی ہے:
”یا ایہا الذین آمنوا اذا نودی للصلوٰة من یوم الجمعة فاسعوا الی ذکر اللّٰہ وذروا البیع‘ ذلکم خیر لکم ان کنتم تعلمون‘ فاذا قضیت الصلوٰة فانتشروا فی الارض وابتغوا من فضل اللّٰہ واذکروا اللّٰہ کثراً لعلکم تفلحون“۔ (الجمعة:۹‘۱۰)
ترجمہ:۔”اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کے لئے اذان ہوجائے تو تم اللہ کی یاد کی طرف دوڑو اور لین دین چھوڑ دو‘ اگر تم جانتے ہو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے‘ پھر جب نماز ختم ہوجائے تو تم پھر زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور اللہ کا ذکر کثرت سے کرتے رہو‘ تاکہ تم فلاح پاؤ“۔
احکام الٰہی کی بجا آوری
قرآن پاک نے معاش کو ”فضل اللہ“ کہا ہے‘ مسلمان اپنی معاشی زندگی میں بھی حدود اللہ کا احترام کرنے والا ہوتا ہے‘ معاشی سرگرمی، اسے اللہ کی یاد اور احکام الٰہیہ کی بجا آوری سے غافل نہیں کرتی‘ بڑے سے بڑا بیوپاریا معمولی خرید وفروخت کی کوئی شے اسے اللہ کے ذکر سے نہیں روکتی‘ ارشاد ربانی ہے:
”رجال لاتلہیہم تجارة ولابیع عن ذکر اللّٰہ واقام الصلوٰة وایتاء الزکوة یخافون یوماً تتقلب فیہ القلوب والابصار“۔ (النور:۳۷)
ترجمہ:۔”وہ مرد کہ نہیں غافل ہوتے سودا کرنے میں اور نہ بیچنے میں اللہ کی یاد سے اور نماز قائم رکھنے سے اور زکوٰة دینے سے‘ ڈرتے رہتے ہیں اس دن سے جس میں الٹ جائیں گی دل اور آنکھیں“۔
میدان عمل
اسلام نے ساری زمین بلکہ پوری کائنات کو انسان کے لئے میدان عمل قرار دیا ہے اور انسان کو ترغیب دی ہے کہ وہ اپنے معاش کے حصول اور اللہ کی مخلوق کے لئے فارغ البالی کے حصول کے لئے زیادہ سے زیادہ جد وجہد کرے‘ اسلامی معاشیات میں پیداوار کی تکثیر اور اللہ کے بندوں کے لئے سامان معاش کا حصول بنیادی اہمیت کا حامل ہے اور اسلامی حکومت کا یہ فریضہ ہے کہ وہ ایسا انتظام کرے جس میں معاشرہ کے ہرفرد کی بنیادی ضروریات بھی پوری ہوتی رہیں اور انسانی صلاحیتیں بھی پورے پورے طور پر نشو نما پائیں۔ اسلام نے انسانوں کو مختلف طریقوں سے محنت ‘معاشی جد وجہد اور حصول رزق کی کوشش پر ابھارا ہے ‘ بے عمل‘ بے روزگاری اور گدا گری کو ناپسندیدہ قرار دیا ہے اور اس پر سخت وعید سنائی گئی۔ ایک حدیث میں ہے، رسول اللہ ا نے فرمایا:
”تمہارے لئے کام کرنا بہتر ہے بہ نسبت اس کے کہ قیامت کے دن تم اپنے چہرے پر سوال کا داغ لئے ہوئے آؤ“ ۔(۲) (جاری ہے)
حوالہ جات
۱- اخبار ”مملکت“ حیدر آباد دکن ج:۲:۱۴ مؤرخہ ۷ صفر ۱۳۲۶ھ مطابق ۱۳ فروری ۱۹۴۴ء بحوالہ یوسف الدین‘ اسلام کے معاشی نظریئے ج: ۱‘ ص:۱۳۱۔
۲- ابوداؤد‘ سلیمان بن الآشعث۔

۲ ص۱۲۶ مطبعة السعادة بمصر‘ الطبعة الثانیة ۱۳۶۹ھ -۱۹۵۰
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , جمادی الاولیٰ ۱۴۲۹ھ جون ۲۰۰۸ء, جلد 71, شمارہ 5

    پچھلا مضمون: ایک قابل رشک انسان 
Flag Counter