Deobandi Books

ماہنامہ الابرار اکتوبر 2009

ہ رسالہ

8 - 12
اولیاءاﷲ کی پہچان
ایف جے،وائی(October 11, 2009)

حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم

(گذشتہ سے پیوستہ)

بیویوں کے ساتھ نرمی کیجیے

حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
اَلمَراَةُ کَالضِّلعِ اِن اَقَمتَھَا کَسَرتَھَا وَ اِنِ استَمتَعتَ بِھَا استَمتَعتَ بِھَا وَ فِیھَا عِوَج
(صحیحُ البخاری، بابُ المداراة مع النسآئ، ج:۲)
عورت پسلی کی طرح ٹیڑھی ہے اگر اسے سیدھا کرنے کی کوشش کی تو ٹوٹ جائے گی اور اگر اس سے ٹیڑھے پن کے ساتھ فائدہ اٹھایا تو فائدہ پہنچائے گی۔ لوگ کہتے ہیں کہ ہم اپنی بیوی کو مار مار کر سیدھی کردیں گے، جو اپنی بیوی کو مار مار کرسیدھی کرتا ہے اس کو چاہےے کہ پہلے اپنی پسلی سیدھی کرے، اگر لوگ ہسپتال میں جاکر اپنی پسلی سیدھی کرائیں گے تو ٹوٹ جائے گی یا نہیں؟ آج کتنے گھر اِنہی لڑائیوں کی وجہ سے برباد ہو گئے۔ اسی لیے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اپنی بیوی کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آو، کچھ لوگ دوستوں کے ساتھ تو خوب ہنستے بولتے ہیں مگر جب بیوی کے پاس پہنچتے ہیں تو آنکھیں لال ہوتی ہیں، فرعون بنے ہوتے ہیں جبکہ کچھ لوگ بایزید بسطامی بنے آنکھیں بند کیے تسبیح پڑھتے ہوئے گھر میں داخل ہوتے ہیں، دونوں عمل سنت کے خلاف ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ جب سرورِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم گھر میں تشریف لاتے تو مسکراتے ہوئے آتے اور فرماتی ہیں
لَنَاشَمس وَّ لِلآفَاقِ شَمس
وَشَمسِی خَیر مِّن شَمسِ السَّمَآئِ
فَاِنَّ الشَّمسَ تَطلَعُ بَعدَ فَجرٍ
وَشَمسِی طَالِع بَعدَ العِشَآئِ
یہ کس کا شعر ہے؟ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا جو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ اور ہم سب کی ماں ہیں، یہ اُن کا شعر ہے کہ ایک سورج میرا ہے اور ایک سورج آسمان کا ہے ، میرا سورج آسمان کے سورج سے افضل وبہتر ہے یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم، کیونکہ آسمان کا سورج فجر کے بعد نکلتا ہے اور میرا سورج عشاءکی نماز کے بعد طلوع ہوتا ہے۔
تو میں عرض کررہا تھا کہ مسجد میں داخل ہونے کی پانچ سنتیں ہیں اور مسجد سے نکلنے کی بھی پانچ سنتیں ہیں اور ایک نیکی پر دس گُنا اجر کا وعدہ ہے، مسجد میں داخل ہونے کی پانچ سنتوں کو دس سے ضرب کریں تو پچاس نیکیاں مل گئیں اور جب مسجد سے نکلے تو پھر پچاس نیکیاں مل گئیں اور دن میں پانچ نمازیں ہیں تو پانچ نمازوں میں صرف مسجد میں داخل ہونے اور نکلنے پر ہی ڈھائی سو نیکیاں مل گئیں اور نماز باجماعت کا ثواب الگ ہے اور جب آپ مسجد میں داخل ہوتے وقت اور نکلتے وقت کہیں گے بِسمِ اﷲِ -اَلصَّلٰوةُ وَالسَّلاَ مُ عَلٰی رَسُولِ اﷲِ تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر صلوٰة و سلام پڑھنے کا ثواب الگ رہا، یہ مشکوٰة شریف کی روایت ہے اور یہاں عَلٰی کا لفظ ہے عَلَیکَ کا لفظ نہیں ہے۔

سنت کے خلاف چل کر کوئی ولی اﷲ نہیں بن سکتا

اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں، حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے خلاف اپنی طرف سے کوئی طریقہ مت نکال لینا۔ میرا ایک رسالہ ہے پیارے نبی کی پیاری سنتیں اے چاٹگام والو! اس کو چھپوا لو، میں اپنے دوستوں سے کہتا ہوں کہ اس کو چھاپ لو تو ان شاءاﷲ امید ہے کہ قیامت کے دن حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت مل جائے گی، لہٰذا اس کو چھاپ کر تقسیم کرو تاکہ امتِ مسلمہ سرورِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے طریقہ پر چل کر اللہ کی پیاری بن جائے۔ اور حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاکیزہ طریقے ہوتے ہوئے ہم دوسرا طریقہ کیسے اختیار کریں، ہم لندن والوں کی طرح کھڑے ہوکر کھائیں یا مدینہ والے پیارے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے طریقے پر کھائیں؟ آپ خود فیصلہ کرلیں۔
تو حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے خواجہ حسن بصری رحمة اللہ علیہ کو دو دعائیں دیں اَللّٰھُمَّ فَقِّہہُ فِی الدِّینِ اے اللہ! اس کو دین کافقیہ بنادے وَحَبِّبہُ اِلَی النَّاسِاور مخلوق کا محبوب بنا دے۔ محدثین لکھتے ہیں فَاِنَّ حَسَنَ البَصرِی قَد رَاٰی مِائَةَ وَّعِشرِینَ صَحَابِیاً خواجہ حسن بصری رحمة اللہ علیہ نے ایک سو بیس صحابہ کی زیارت کی تھی، حضرت خواجہ حسن بصری بصرہ کے بہت بڑے ولی اللہ ہیں رحمة اللہ علیہ رحمةًواسعةً اور ان کا ایمان ایسا تھا کہ جب تقریر کرتے تھے تو معلوم ہوتا تھا کہ جنت اور جہنم کو دیکھ رہے ہیں فَبَکٰی وَاَبکٰی روتے تھے اور رُلا دیتے تھے۔

خواجہ حسن بصری اور غلام کا واقعہ

خواجہ حسن بصری رحمة اﷲ علیہ نے بصرہ میں ایک غلام خریدا، وہ غلام بھی ولی اللہ، صاحبِ نسبت اور تہجد گذار تھا، حضرت حسن بصری نے اس سے پوچھا کہ اے غلام! تیرا نام کیا ہے؟ اس نے کہا کہ حضور! غلاموں کا کوئی نام نہیں ہوتا، مالک جس نام سے چاہے پکارے، آپ نے فرمایا اے غلام! تجھ کو کیسا لباس پسند ہے؟ اس نے کہا کہ حضور! غلاموں کا کوئی لباس نہیں ہوتا جو مالک پہنا دے وہی اس کا لباس ہوتا ہے، پھر انہوں نے پوچھا کہ اے غلام! تو کیا کھانا پسند کرتا ہے؟ غلام نے کہا کہ حضور غلاموں کا کوئی کھانا نہیں ہوتا جو مالک کھلا دے وہی اس کا کھانا ہوتا ہے۔ خواجہ حسن بصری چیخ مار کر بیہوش ہوگئے، جب ہوش میں آئے تو فرمایا اے غلام! میں تجھ کو آزاد کرتا ہوں ، میں نے تجھے پیسے سے خریدا تھا مگر اب تجھ کو پیسہ نہیں دینا ہے، میں تجھ کو مفت میں آزاد کرتا ہوں، غلام نے پوچھا کہ کس نعمت کے بدلے میں آپ مجھ کو آزاد کررہے ہیں؟آپ نے فرمایا تم نے ہم کو اللہ کی بندگی سکھا دی، تم ایسے غلام ہو کہ اگر مجھے میرا پیسہ دے دیتے تو غلامی کے طوق سے آزاد ہوسکتے تھے لیکن ہم اللہ کے ایسے غلام ہیں کہ سلطنت بھی دے دیں تو بھی خدا کی غلامی سے، طوقِ بندگی سے آزاد نہیں ہوسکتے، ہماری بندگی کا طوق موت تک ہے وَاعبُد رَبَّکَ حَتّٰی یَاتِیَکَ الیَقِینُ پس تم نے ہمیں ہمارے اللہ کی بندگی سِکھا دی ،اب ہم کو اللہ جو کھلائے گا ہم یہی کہیں گے کہ مالک آپ کا احسان ہے، جوپہنائے گا یہی کہیں گے کہ مالک آپ کا احسان ہے، جس نام سے خدا پکارے گا وہی ہمارا نام ہے، اے غلام! تو نے ہمیں اللہ کی بندگی سکھا دی۔ یہ ہے اللہ والوں کاراستہ کہ جس حالت میں خدا رکھے راضی رہو، رضا بالقضا کا مقام اخلاص سے بھی زیادہ اونچا ہے۔

حضرت بایزید بسطامی کی بے نفسی کا واقعہ

حضرت بایزید بسطامی رحمة اللہ علیہ اکابر اولیاءاللہ میں سے تھے، کہیں جارہے تھے کہ ایک بد کار عورت نے ان پر راکھ پھینک دی، ان کے منہ سے بے ساختہ نکلاالحمد ﷲ، مرید وں نے کہا کہ حضور حکم دیں تاکہ ہم اس نالائق عورت کی پٹائی کریں، فرمایا کہ اگر تم لوگ صبر سے کام نہیں لے سکتے تو میرا ساتھ چھوڑ دو، اللہ والوں کا راستہ صبر کا راستہ ہے، مریدوں نے پوچھا کہ اچھا یہ تو بتائیں کہ آپ نے الحمدللہ کیوں پڑھا؟ فرمایا کہ جو سر اپنے گناہوں کی وجہ سے آگ برسنے کے قابل تھا خدا نے اس پر صرف راکھ برسادی لہٰذا ہم اس کا شکریہ ادا کررہے تھے کہ اے اللہ! چھوٹے امتحان سے ہمارا کا م بن جائے، بڑے عذاب سے ہم کو بچالے، ایسے ہوتے ہیں اولیاءاللہ !
حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دانت ٹوٹ گیا، آپ نے یہ نہیں کہا کہ اے اللہ! آپ نے میرا دانت کیوں توڑ دیا؟ آپ نے کہا اے اللہ! تیرا شکر ہے کہ تو نے میری آنکھ کی روشنی نہیں ضائع کی، تو نے میرے کان کی سننے کی طاقت نہیں ضائع کی، اَلحَمدُ ِﷲِ الَّذِی لَم یَذھَبِ السَّمعَ وَالبَصَرَ کا شکر ادا کیا۔
تو جب حافظ شیرازی کے والد نے سلطان نجم الدین کبریٰ کو بتایا کہ میرا ایک بیٹا پاگل ہے جو جنگلوں میں جا کر روتا رہتا ہے تو سلطان نجم الدین کبریٰ نے فرمایا کہ میں اسی پاگل کو ڈھونڈنے آیا ہوں، جب جنگل میں گئے تو دیکھا کہ حافظ شیرازی اللہ کی یاد میں رو رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ اے خدا! آپ کا نام لینے میں اتنا مزہ آرہا ہے
چو حافظ گشت بے خود کے شمارد
بیک جو مملکت کاوس و کے را
اے اللہ! جب حافظ شیرازی تیرے نام سے مست ہوتا ہے تو ایک جو کے بدلے سلطنت کاوس وکے کو خریدنے کے لےے تیار نہیں ہوتا، اس کو اللہ والا کہتے ہیں، آج کوئی پانچ سو ٹکہ، پانچ ہزار ٹکہ، ایک لاکھ ٹکہ دے دے فوراًایمان بیچ دیتے ہیں، سینما کے افتتاح پر بسم اللہ لکھتے ہیں اور وہا ں جاکر دعا بھی کرتے ہیں، بتاو سینما کی آمدنی حرام ہے یا نہیں؟ سینما میں گانا بجانا ہوتا ہے یا نہیں؟ سرورِ عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی سنت پر اُسترا چلتا ہے یا نہیں؟ لیکن جو بکاو ملا ہوتا جو اللہ والوں کی صحبت نہیں اٹھاتا وہ جعلی بھی ہوتا ہے اور بکاو بھی ہوتا ہے، اس کو جو چاہے خرید لے لیکن جن لوگوں نے اللہ والوں کی جوتیاں اٹھائیں، بزرگوں کی صحبتیں اٹھائیں، ان کا ایمان ویقین پڑھے لکھے ملاوں سے زیادہ ہوتا ہے۔ کراچی میں ایک امام کو کہا گیا کہ چلو ہمارے سینما میں پیسے کے رجسٹر پر بسم اللہ لکھ دو تو اس نے کہا لاَ حَولَ وَلاَ قُوَّةَ اِلاَّبِاﷲِ دس کروڑ روپیہ بھی دو گے تو بھی میں نہیں جاوں گا، حرام کام پر بسم اللہ پڑھنے سے آدمی کافر ہوجاتا ہے، اگر کوئی شراب پیتے ہوئے بسم اللہ کہہ دے تو کافر ہوجائے گا، اسی طرح بدبودار جگہ پر اللہ کا نام لینے میں بھی خوفِ کفر ہے اس لیے علماءدین سے خاص کر کہتا ہوں کہ میرے پیارے معزز علمائے دین اور طلباءکرام اپنے علم پر ناز نہ کرو، اللہ والوں کی جوتیاں اٹھا کر اپنے ایمان و یقین کو اولیاءصدیقین کے مقام تک پہنچانے کی کوشش کرو پھر آپ کو ان شاءاللہ وزارت بھی نہیں خرید سکتی، پورے بنگلہ دیش کاخزانہ بھی نہیں خرید سکتا، دیکھ لو حافظ شیرازی کا یہ ارشاد
چو حافظ گشت بے خود کے شمارد
بیک جو مملکت کاوس و کے را
جب حافظ شیرازی اللہ کے نام کی لذت سے مست ہو تا ہے تو مملکت کاوس و کے کو ایک جو کے بدلے میں خریدنے کے لےے تیار نہیں ہوتا، بتاو دوستو! گنے میں رس کون پیدا کرتا ہے جس رس سے چینی پیدا ہوتی ہے۔ مولا نا رومی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں
اے دل ایں شکر خوشتریا آںکہ شکر سازد
اے دل! یہ چینی زیادہ میٹھی ہے یا چینی کا پیدا کرنے والا زیادہ میٹھا ہے؟ مٹھائی کی دوکانوں پر کھڑے نظر لگا رہے ہیں، دوسرے کے پیٹ میں اماشے (پیچش) پیدا کررہے ہیں بھئی اللہ کو یاد کرو، ان کے نام میں اتنا مزہ ہے اتنامزہ ہے کہ ساری دنیا کے مزے بھول جاو گے ان شاءاللہ! بتاو ساری دنیا کا مزہ کون پیدا کرتا ہے؟ اللہ تو پوری کائنات کی تمام لذتوں کا مرکز سرچشمہ اور مخزن ہے، اس کا نامِ پاک سیکھنے کی مشق کرو، ان شاءاللہ بغیر الیکشن کے بادشاہت ملے گی، بغیر الیکشن کے آپ کواتنی دولت دل میں محسوس ہوگی کہ کسی مالدار کو آپ خاطر میں نہیں لائیں گے۔
ایک ولی اللہ لکھنو میں تھا، اس کا خادم ان کے مقام پر نہیں تھا، ایک مرتبہ بادشاہ ان سے ملنے آیا، خادم گھبرا گیا اور کانپتا ہوا آیا کہ حضرت بادشاہ آیا ہے، فرمایا تو تو ایسا کانپ رہا ہے کہ میں سمجھا کہ میری گدڑی میں کوئی بڑی سی جوں نکل آئی ہے۔ جس کے دل میں اللہ آتا ہے، جو تخت و تاج و سلطنت کی بھیک دینے والا ہوتا ہے وہ بادشاہوں سے مرعوب ہوگا؟ ان کے تخت وتاج اس کے سامنے نیلام ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں، دیکھو شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ نے دلی کی جامع مسجد میں فرمایا کہ اے مغل خاندان کے بادشاہو! جب تم مرو گے تو تمہارا تاج اُتار لیا جائے گا، قبر میں صرف کفن لے کر جاو گے، بادشاہت کا خزانہ اور تخت وتاج تمہارے ساتھ نہیں جائے گا، اے سلاطینِ مغل! ولی اللہ تم سے کہتا ہے کہ اِس ولی کے سینہ میں ایک دل ہے، اِس دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت کے موتی بھرے ہوئے ہیں، جب میں مروں گا تو کفن کے ساتھ اللہ کی محبت کا خزانہ، اللہ تعالیٰ کی محبت کے موتی لے کر اپنے اللہ کے سامنے حاضر ہوں گا
دلِ دارم جواہر پارہ عشق است تحویلش
کہ دارد زیرِ گردوں میر سامانے کہ من دارم
میں اپنے سینے میں ایسا دل رکھتا ہوں جس کے اندر اﷲ کی محبت کے موتیوں کا خزانہ ہے، تم اللہ والوں کو کیا سمجھو گے۔ سلطان ابراہیم ابن ادھم رحمة اللہ علیہ نے اﷲ کے نام پر سلطنتِ بلخ چھوڑ دی، آدھی رات کو گدڑی پہنی اور بادشاہت کا تخت وتاج نیلام کردیا ۔ مولانا رومی کس انداز سے اس کو بیان کرتے ہیں
از پئے تو در غریبی ساختہ
شاہی و شہزادگی در باختہ
سلطان ابراہیم ابن ادھم کی کرامت
آہ! مولانا جلال الدین رومی رحمة اﷲ علیہ جیسے ولی اللہ کی زبان سے سنو! فرماتے ہیں کہ سلطان ابراہیم ابن ادھم شاہی وشہزادگی کو آپ کی محبت میں ہار گیا، آپ کی محبت میں دریائے دجلہ کے کنارے عبادت کررہاہے، جب عبادت کرتے ہوئے دس سال ہوگئے تو ایک وزیر آیا اس نے کہا کہ آہ! بادشاہت چھوڑکر یہ بیوقوف کیسا ملابن گیا ہے بس حضرت کو اللہ کے حکم سے کشف ہوگیا، سمجھ گئے کہ یہ وزیر مجھ کو بیوقوف سمجھ رہا ہے فوراً اپنی سوئی دریا میں ڈال دی اور حکم دیا کہ اے دریا کی مچھلیو! میری سوئی لاو، دوستو! یہ واقعہ مولانا رومی کی مثنوی سے پیش کررہا ہوں، فارسی کو اردو میں بیان کررہا ہوں، فرمایا اے مچھلیو! میری سوئی لاو، مولانا جلال الدین رومی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں
صد ہزاراں ماہےے اَللّٰہیے
سوزنِ زر بر لبِ ہر ماہےے
میرے شیخ کبھی اس شعر کو پڑھاتے تھے تو انگلی ہونٹوں کے سامنے رکھ کر اشارہ کرتے تھے۔ سوزنِ زر یعنی سونے کی سوئی ہر مچھلی کے منہ میں تھی، ایک لاکھ مچھلیاں سونے کی سوئی لے کر حاضر ہوگئیں، آپ نے ڈانٹ کر فرمایا کہ اے مچھلیو! اس امت کے لیے سونے چاندی کا استعمال جائز نہیں ہے، میری لوہے کی سوئی لاو، ایک مچھلی نے غوطہ مارا اور لوہے کی سوئی لے آئی، وزیر قدموں میں گر کررونے لگا کہ آہ! یہ مچھلیاں جانور ہوکر اس ولی اللہ کو پہچانتی ہیں اور میں انسان ہوکر اس ولی اللہ کو نہیں پہچان سکا،مجھ سے بہتر تو یہ جانور ہیں، بعض لوگ ایسے بھی نالائق ہوتے ہیں جو اولیاءاللہ کے ساتھ بدگمانی کرتے ہیں، ا نہیں نہیں پہچانتے
اشقیا را دیدہ بینا نہ بود
نیک و بد در دیدہ شاں یکساں نمود
خدا کسی بدبخت کو دید و بینائی نہیں دیتا، اللہ اپنی محبت کا غم کس کو دیتا ہے؟ سرمد رحمة اﷲ علیہ فرماتے ہیں
سرمد غمِ عشق بوالہوس را نہ دہند
سوزِ غمِ پروانہ، مگس را نہ دہند
اے سرمد! اللہ اپنی محبت کا غم دنیا کے کتوں کو نہیں دیتا ، دنیا کے لالچیوں کو نہیں دیتا، پروانے کا چراغ پر جل جانے اور فدا ہونے کا جذبہ مکھیوں کو نہیں ملتا، مکھیوں کا کام اپنے آپ کو پیشاب پاخانے کی غلاظت و نجاست میں ڈبونا ہے اور پروانوں کا کام روشنی پر فدا ہونا ہے، اللہ جس کو یہ نعمت دے دے اس کا بہت بڑا احسان ہے۔
تو اس وزیر نے کہا کہ جو درجہ آپ کو ملا ہے مجھے بھی اﷲ سے یہ درجہ دلوا دیں، میں بھی آپ کے ساتھ دریا کے کنارے رہوں گا چنانچہ وہ وزیر چھ مہینے ان کے ساتھ رہا اور ولی اللہ بن کر واپس ہوا، جو ولی کے ساتھ پیوند لگائے گا ولی اللہ نہیں بنے گا؟ دیسی آم لنگڑے آم سے پیوند لگائے گا تو وہ دیسی آم رہے گا؟ لنگڑا آم بن جائے گا مگر ایک شرط ہے نیکی کی شاخ سے پیوند اور جوڑ مضبوط ہو اور گنا ہوں سے بھی بچتا ہو،کنکر پتھر چھوڑ دینے میں تاخیر کرنا بیوقوفی ہے، کیا گناہ اچھی چیز ہے؟ کنکر پتھر ہے، خراب چیز دے کر اگر اللہ مل جائے تو نہایت سستا سودا ہے۔ ایک بزرگ شاعر کہتے ہیں کہ جب میں نے سب گناہوں کو چھوڑ دیا تو اللہ کو پا گیا، تب یہ شعر کہا
جمادے چند دادم جاں خریدم
بحمداللہ عجب ارزاں خریدم
چند کنکرپتھر جیسے گناہ کو چھوڑ کر میں اللہ کو پاگیا، خدا کا شکر ہے کہ نہایت سستے داموں مجھے خدا مل گیا۔
اب پیر چنگی کا قصہ سنا کر ختم کرتا ہوں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا زمانہ ہے، مدینہ کے قبر ستان میں گانے بجانے والا پیر چنگی ایک ٹوٹی ہوئی قبر میں لیٹا چنگ بجا کر اﷲ کو اپنا بھجن سنا رہا ہے اور کہہ رہا ہے اے اللہ! میں نے ساری عمر دنیا کو اپنی آواز سے مست کیا لیکن جب بڑھاپے میں میری آواز خراب ہو گئی تو دنیا نے مجھے چھوڑ دیا، اب میں تجھے اپنی آواز سناوں گا کیونکہ تو نے مجھے پیدا کیا ہے، میں تیرا ہی بندہ ہوں، جب ماں باپ اپنے لنگڑے لولے اپاہج نالائق بچوں کو نہیں چھوڑتے، ان کو بھی روٹی دےتے ہیں تو آپ نے تو مجھ کو پیدا کیا ہے، میری خراب آواز کا خریدار اب آپ کی رحمت کے سوا کوئی نہیں ہے، سب نے مجھ کو لات مار دی، اب نہ کوئی بڈھا سنتا ہے نہ بڈھی، نہ بچہ نہ جوان سب مجھ سے بھاگ گئے۔ جب اس نے یہ کہا کہ پوری دنیا میں اب میرا تیرے سوا کوئی نہیں ہے، اب آپ ہیں اور میں نالائق ہوں، اگر آپ نے بھی میری آواز قبول نہیں کی تو میں کہاں جاوں گا؟ تو اللہ کو اس کی یہ آہ و زاری پسند آگئی۔ آہ! اگر کوئی بچہ ماں کے سینے پر پیخانہ کررہا ہو تو کیا ماں اس کو اٹھا کر پھینک دیتی ہے؟ اسی طرح یہ ظالم گناہ کرکے بھی خدا کا پیار پا رہا ہے حالانکہ چنگ بجارہا ہے اور بھجن گا رہا ہے، بتاو یہ شریعت کے خلاف ہے یا نہیں؟ لیکن چونکہ اخلاص کے ساتھ کہہ رہا تھا اور اللہ تعالیٰ اسے اپنا بنانے والے تھے، جس کو خدا اپنا بناتا ہے تو اس کے دل میں پہلے ہی اثرات پیدا ہونے لگتے ہیں، جب سورج نکلتا ہے تو مشرق کی طرف آسمان لال ہوجاتا ہے یا نہیں؟ سورج نکلنے سے ایک گھنٹہ پہلے آسمان لال ہوجاتا ہے، جس کو خدا اپناولی بنا نا چاہتا ہے اس کے دل میں بھی کچھ آثار وانقلاب پیدا ہوتے ہیں جو اس کے حالات بدل دیتے ہیں اور وہ بزبانِ حال یہ کہتاہے
نہ میں دیوانہ ہوں اصغر نہ مجھ کو ذوقِ عریانی
کوئی کھینچے لےے جاتا ہے خود جیب و گریباں کو
اور
ہم نے لیا ہے داغِ دل کھو کے بہارِ زندگی
ایک گلِ تر کے واسطے میں نے چمن لٹا دیا
بد نظری کرنے والوں سے کہتا ہوں، اپنے دوستوں سے بھی کہتا ہوں اور اپنے نفس سے بھی کہ اللہ ایسے نہیں ملے گا، دنیا کے جتنے حسین ہیں ان سب کو چھوڑ دو تب خدا ملتا ہے، مگر حلال بیوی کومت چھوڑ دینا اگر چہ اس کی جدائی شاق ہو لیکن وہ مضر نہیں ہے
توڑ ڈالے مہ و خورشید ہزاروں ہم نے
تب کہیں جا کے دِکھایا رُخِ زیبا تو نے
نظر کی حفاظت کروایمانی حلاوت ملے گی ان شاءاللہ، نظر بچانے سے دل کو دُکھ تو ہوگا مگر اس ٹوٹے ہوئے دل پر اللہ تعالیٰ کا اتنا پیار نازل ہوتا ہے کہ وہ بہت بڑ ا ولی اللہ بنایا جاتا ہے، نظر کی حفاظت کو معمولی عمل مت سمجھئے، دل بادشاہ ہے لہٰذا اس کی مزدوری بھی بہت بڑی ہے، ایک ایک نظر بچانے پر اتنا ایمان بڑھے گا کہ آسمان برائے نام آسمان ہو گا۔ میرا شعر سن لیجئے
گذرتا ہے کبھی دل پر وہ غم جس کی کرامت سے
مجھے تو یہ جہاں بے آسماں معلوم ہوتا ہے
یعنی ساتوں آسمان نام کے رہ جاتے ہیں گویا ہم خدا کو دیکھ رہے ہیں۔ تھوڑی سی ہمت کرو دوستو! تھوڑی سی محنت کرو، گناہ چھوڑنے کا غم اٹھا لو، ہم زیادہ وظیفے نہیں بتاتے، صرف یہی کہتے ہیں کہ سب گناہ چھوڑ دو، فرض، واجب، سنت موکدہ اور گناہ سے بچنا اولیاءاللہ کا راستہ ہے مگر جب اللہ اپنا ولی بنائے گا تو بغیر ان کے ذکر کے آپ کو خود چین نہیں ملے گا، بتاو مچھلی کو پانی کے بغیر چین ملتا ہے؟ جب مچھلی کو پانی سے نکالتے ہو تو وہ تڑپتی ہے یا نہیں؟ تو اللہ والا وہ ہے جو خدا کی محبت میں اپنے دل کو تڑپتا ہوا محسوس کرنے لگے، وہ مجبورِ محبت ہوکر رہ جائے
بھلاتا ہوں پھر بھی وہ یاد آرہے ہیں
تو اللہ تعالیٰ کا پیار دیکھو جب پیر چنگی نے کہا کہ اے خدا! اب میری آواز کسی کو پسند نہیں ہے، ساری دنیا نے مجھ کو چھوڑ دیا، اگر آپ بھی پیا ر نہیں کریں گے اور میرے پیٹ میں روٹی نہیں ڈالیں گے تو میں تو بھوکوں مر جاوں گا۔ کیا کوئی ابا اما ں اپنے لنگڑے لولے بچے کو چھوڑ دیتے ہیں، دنیا والوں نے تو چھوڑ دیا اب تو آپ ہی کو کچھ سناوں گا۔ بتائےے! اللہ میاں کو بھجن سنا رہا ہے اور باقاعدہ چنگ بھی بجا رہا ہے۔ مولانا رومی فرماتے ہیں کہ جیسے پاخانہ کرنے کی حالت میں بھی ماں کے دل میں بچہ کی محبت کم نہیں ہوتی اور وہ بچہ کو صاف کرکے، صابن سے اس کا منہ دھوکر اس کا چوما لے لیتی ہے۔ اسی طرح جو خدا کے علم میں ولی ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کی رحمت بھی اسے نہلا دھلا کر اس کا چوما لے لے گی اَلتَّائِبُ حَبِیبُ اﷲِ توبہ کرنے والا اللہ کا پیارا بن جاتا ہے۔ اب دیکھئے مولانا رومی کی یہ بات بہت بڑی مستند کتاب سے پیش کررہا ہوں، کسی اخبار کی بات نہیں ہے۔
پیر چنگی کے قصہ میں کیا سبق ہے؟
تو مولانا رومی فرماتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خواب میں دِکھایا کہ میرا ایک بندہ مدینہ کے قبر ستان میں ایک ٹوٹی ہوئی قبر میں لیٹا ہوا بھجن گا رہا ہے گو وہ اس وقت شریعت کے خلاف کام کررہا ہے لیکن ہم سے فریاد کر رہا ہے کہ اے خدا! اب میری آواز خراب ہوگئی ہے، اب آپ کے سوا میرا کوئی سہارا نہیں ہے لہٰذا اے عمر! میں نے اس کو اپنا ولی بنا لیا ہے، یہ نہ سمجھنا کہ وہ گناہ سے توبہ نہیں کرے گا، توفیقِ توبہ میرے ہاتھ میں ہے، میں جس کو بھی ولی بناتا ہوں اس کو توفیقِ توبہ دے دیتا ہوں، توفیقِ توبہ ولایت کی علامات میں سے ہے ثُمَّ تَابَ عَلَیھِم لِیَِتُوبُوا اَی وَفَّقَھُم لِلتَّوبَةِ اس کو آسمان سے تو فیقِ توبہ دیتے ہیں تاکہ وہ زمین پر توبہ کرلے، توفیقِ توبہ آسمان سے آتی ہے تاکہ زمین والا توبہ کرکے اﷲ کا پیارا بن جائے، ان کی رحمت یہاں بھی ہے وہاںبھی ہے، ان کا ہاتھ ہر جگہ پہنچا ہوا ہے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو الہام فرمایا کہ اے عمر! تم جلالی ہو، لیکن میرے اس بندے کو کوڑے مت مارنا اگرچہ اس وقت نافرمانی کی حالت میں ہے، میںنے اس کو اپنا ولی بنانے کا فیصلہ کرلیا ہے، وہ بغیر کوڑے کے توبہ کرے گا۔ اب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حکمِ خدا سے مدینہ کے قبرستان کی ایک ایک قبر میں جھانک کر پیر چنگی کو تلاش کررہے ہیں، دیکھا کہ ایک ٹوٹی ہوئی قبر میں ایک بڈھا سارنگی لےے ہوئے چیںچیں پیں پیں کر رہا ہے اور اللہ کو بھجن سنا رہا ہے کہ اے اللہ! سوا تیرے کوئی سہارا نہیں ہے، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سمجھ گئے کہ یہی ہے وہ لیکن جب بڈھے نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا تو کانپنے لگا کہ اب توپٹائی ہوگی، کوڑے لگیں گے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب اس کو دیکھا کہ ڈر کے مارے کانپ رہا ہے تو فرمایا کہ اے شخص! عمر کی مجال نہیں ہے کہ تجھ کو کوڑا مارے، خدا نے تجھ کو سلام فرمایا ہے اور کہا ہے کہ میرے بندہ کو خوشخبری سنا دو، میں نے اس کے بھجن کوقبول کرلیا، اس کی آواز کو قبول کرلیا اور اے عمر! بیت المال سے ہر مہینہ اس کے لےے وظیفہ مقرر کر دو، اللہ نے تیرا وظیفہ تیرے کھانے پینے کا گذارہ الاونس مقرر کردیا ہے، اب تو کوئی فکر مت کر۔بس جب پیر چنگی نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اللہ کا سلام سنا تو پتھر اٹھایا اور آلہ گناہ یعنی سارنگی کو چور چور کردیا اور امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر بیعت ہوکر تابعی ہوا، ولی اللہ ہوا اور اس نے کہا کہ اے امیر المومنین سن لیجیے! اب میں کبھی اللہ کی نافرمانی نہیں کروں گا کیونکہ ساری دنیا نے مجھ کو لات ماری مگر میرے اللہ نے اس حالت میں بھی مجھے نہیں چھوڑا، میری آہ کو سن لیا، جس کاکوئی نہ ہو اس کا اللہ ہوتا ہے، جس کو ساری دنیا چھوڑ دے اللہ اس کو بھی نہیں چھوڑتا۔
تو پیر چنگی سارنگی توڑ کر تائب ہوگیا، متقی ہوگیا، سب گناہوں سے توبہ کرلی۔ اللہ تعالیٰ جس کو اپنا بنا نا چاہتاہے اس کی ولایت کا نقطہ آغاز توبہ ہے، گناہ چھوڑنا ہے، جس ظالم کو گنا ہ چھوڑنے کی توفیق نہیں ہو رہی وہ بہت خسارہ میں ہے، اگر اسی وقت موت آگئی تو گنا ہ کی حالت میں جائے گا یا نہیں؟ بس اس لےے چند باتیں اور عرض کردیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی محبت عطا فرمائے، آمین۔

ہدایت کے معنیٰ

میں نے خطبہ میں جو آیت تلاوت کی تھی اب اس کی تفسیر سن لیجئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اللہ جس کی ہدایت کا ارادہ کرتا ہے اس کا سینہ کھول دیتا ہے اور ہدایت کے دو معنی ہیں اِرَائَ ةُ الطَّرِیقِاور اِیصَالُ اِلَی المَطلُوبِ اللہ جس کے لیے ہدایت چاہتا ہے، جس کو اپنا پیارا بنانا چاہتا ہے تو اسے اراءة الطریق بھی دیتا ہے اور ایصال الی المطلوب بھی دیتا ہے یعنی اسے راستہ بھی دِکھاتا ہے اور منزل تک بھی پہنچاتا ہے، یہ نہیں کہ راستہ تو دِکھا دیا لیکن منزل تک نہیں پہنچایا تو اﷲ جسے اللہ والا بنانا چاہتا ہے اُس کا سینہ اسلام کے لےے کھول دیتا ہے یعنی مثبت اعمال مثلاً نماز روزہ بھی اس پر آسان کردیتا ہے اور عورتوںسے بد نظر ی کرنا، شراب پینا، ماں باپ سے لڑنا، بیوی کی پٹائی کرنا غرض جتنی باتیں اللہ کی ناراضگی اور سرورِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی نافرمانی کی ہیں سب باتیں چھوڑ دینا بھی اس پر آسان فرما دیتا ہے پھر گناہ کرنے میں اس کو موت نظر آنے لگتی ہے، اللہ اس کا سینہ اسلام کے احکام پر عمل کرنے کے لیے کھول دیتا ہے۔

شرح صدر کے معنیٰ

جب یہ آیت نازل ہوئی:
فَمَن یُّرِدِ اﷲُ اَن یَّھدِیَہ  یَشرَح صَدرَہ  لِلاِسلاَمِ
تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے صحابہ! آج یہ آیت نازل ہوئی ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ اپنا بنانا چاہتا ہے تو اپنی خوشی کے اعمال کو اس پر آسان کردیتا ہے اور اپنی ناراضگی اور غضب کے اعمال کو اس پر مشکل کردیتا ہے اور ان کا راستہ بند کردیتا ہے۔ صحابہ نے پوچھا یَا رَسُولَ اﷲ مَا ھٰذَا الشَّرحُ؟ یارسول اﷲ! اس کی کیا شرح ہے یعنی سینہ کس طرح کھلتا ہے؟ آپ نے فرمایا اِنَّ النُّورَ اِذَا قَذَفَ فِی القَلبِ جب اللہ کا نور سینہ میں داخل ہوتا ہے تو اِنشَرَحَ لَہُ الصَّدَرُ سینہ کھل جاتا ہے، دل بہت بڑا ہوجاتا ہے جیسے ایک راجہ نے ایک غریب جھونپڑی والے سے کہا کہ میرا دل تم سے دوستی کرنے کو چاہ رہا ہے، اس نے کہا کہ حضور! آپ تو جب آئیں گے ہاتھی پر بیٹھ کر آئیں گے اور میری جھونپڑی کا دروازہ چھوٹا سا ہے، میں خود جھک کر داخل ہوتا ہوں لہٰذا میں آپ کی دوستی کے قابل نہیں ہوں، راجہ نے کہا کہ تم فکر مت کرو، میں جس سے دوستی کرتا ہوں اس کے گھر کا دروازہ اتنا بڑا بناتا ہوں جس میں میں اپنے ہاتھی پر بیٹھ کر داخل ہوسکوں، تو بزرگانِ دین فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جس کو اپنا ولی بنانا چاہتے ہیں اس کا دل اتنا بڑا بنا دیتے ہیں کہ وہ اللہ کے حکموں پر جان دیتا ہے، خدا کی ناراضگی کو وہ اپنی موت سمجھتا ہے۔ اس مثال سے بات سمجھ میں آگئی کہ جس کا دل اللہ اپنے لےے تجویز کرے گا اس کا دل بڑا بنائے گا یا نہیں؟ جس طرح راجہ مخلوق ہوکر غریبوں کا گھر بناتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ جس کے دل کو اپنا گھر بناتے ہیں اس کا دل بھی بڑا کردیتے ہیں۔ مولانا رومی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں
بادہ در جوشش گدائے جوشِ ما است
چرخ در گردش اسیرِ ہوشِ ما است
یہ شراب کیا جانے مستی کو، اس کی مستی میری مستی کی گدا ہے اور پورا آسمان میرے دل کا ادنیٰ قیدی ہے، میرے ہوش کا قیدی ہے اور فرماتے ہیں کہ اولیاءاللہ کے جسم کی کمزوری دیکھ کران کو حقیر مت سمجھو
ظاہرش را پشّہ آرد بچرخ
باطنش باشد محیط ہفت چرخ
اگرچہ اولیاءاللہ کا ظاہر کمزور ہے کہ اگر انہیں ایک مچھر بھی کاٹ لے تو بیچارے پریشان ہوجاتے ہیں لیکن ان کا دل ساتوں آسمانوں کو اپنے اندر لےے ہوئے ہوتا ہے، ارے! جب آسمان والے کو لےے ہوئے ہے، جب آسمان کے خالق کو اپنے اندر رکھتے ہیں تو آسمانوں کی کیاحقیقت ہے۔ ایک بزرگ سے کسی نے کہا کہ حضور! لوگ آپ کو شاہ صاحب شاہ صاحب کہتے ہیں تو آپ کے پاس کتنا سونا ہے؟ وہ سمجھتا تھا کہ شاہ ہونے کے لیے سونا ہونا ضروری ہے ،اس اللہ والے نے کہا
بخانہ زر نمی دارم فقیرم
ولے دارم خدائے زر امیرم
میرے گھر میں سونا نہیں ہے میں فقیر ہوں لیکن میں سونے کا خالق، سونا پیدا کرنے والا اپنے دل میں رکھتا ہوں، تم اپنے دل میں مخلوق رکھتے ہو، میں خالق رکھتا ہوں، تم مخلوق زر کو رکھتے ہو، میں خالقِ زر رکھتاہوں۔ آہ! میں کس طرح اپنے دل کی بات آپ کے دلوں میں اتاردوں، واللہ! مسجد میں اختر کہتا ہے کہ اگرہم اللہ والے بن جائیں تو سلطنت، سورج اور چاند، آسمان و زمین آپ کو اپنے قدموں کے نیچے معلوم ہوں گے۔ ایک بزرگ فرماتے ہیںکہ جب بندہ دعا مانگتا ہے تو اس کا ہاتھ خدا کے سامنے ہوتا ہے اور پوری کائنات اس کے ہاتھ کے نیچے ہوتی ہے، دعا مانگتے وقت اس کاہاتھ براہِ راست اﷲ کے سامنے ہوتا ہے؟ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے اولیاءکی عظمت عطا فرمائے۔

شرحِ صدر کی علامات

میر صاحب نے ایک بات یاد دلائی کہ صحابہ نے پوچھا کہ سینہ کیسے کھلتا ہے؟ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ایک نور دل میں داخل ہوتا ہے جس سے سینہ کھل جاتا ہے پھر صحابہ نے عرض کیا ھَل لِذَالِکَ مِن عَلاَمَةٍ؟ کیا اس کی کوئی علامت ہے کہ نور دل میں داخل ہوگیا ہے؟ ارشاد فرمایا کہ تین علامات ہیں جس کی ہدایت کا اللہ ارادہ کرتا ہے اور اپنا نور اس کے دل میں ڈالتا ہے تو اس پر تین علامات ظاہر ہوجاتی ہیں نمبر ۱:
اَلتَّجَافِی عَن دَارِ الغُرُورِ
دنیا سے اس کا دل اُچاٹ ہوجاتا ہے، سب حسین مردہ نظر آتے ہیں، کتنی ہی خوبصورت عورتیں سامنے ہوں سمجھتا ہے کہ سب قبر میں جانے والی ہیں، ساری دنیا اس کو مُردار نظر آتی ہے، دنیا دھوکہ کا گھر ہے، جب قبر میں جنازہ اُتر تا ہے تو کسی کی بیوی ساتھ جاتی ہے؟ کاروبار، موٹر، ٹیلی فون کیا قبر کے اندر جاتا ہے؟ اس لےے اس کا دل سمجھ جاتاہے کہ یہ سب چند روز کے دوست ہیں، زمین کے نیچے میرا اللہ ہی کام آئے گا، اس لےے وہ اللہ کی محبت کو اپنے اوپر بیوی بچوں سے بھی زیادہ غالب رکھتا ہے، کاروبار سے بھی زیادہ غالب رکھتا ہے، موٹر اور کار سے بھی زیادہ غالب رکھتا ہے اور ساری دنیا، ساری کائنات بلکہ سورج اور چاند سے بھی رُو کش ہو جاتا ہے
خدا کی یاد میں بیٹھے جو سب سے بے غرض ہوکر
تو اپنا بوریہ بھی پھر ہمیں تختِ سلیماں تھا
اور
تمنا ہے کہ اب کوئی جگہ ایسی کہیں ہوتی
اکیلے بیٹھے رہتے یاد ان کی دل نشیں ہوتی
ستاروں کو یہ حسرت ہے کہ وہ ہوتے مرے آنسو
تمنا کہکشاں کو ہے کہ میری آستیں ہوتی
دِکھاتے ہم تمہیں اپنے تڑپنے کا مزہ لیکن
جو عالم بے فلک ہوتا جو دنیا بے زمیں ہوتی
جب ہم اﷲ کی یاد میں تڑپ کر اوپر جاتے ہیں تو ہم کو آسمان روکتا ہے، نیچے تڑپ کے آتے ہیں تو زمین روکتی ہے، ایک اللہ والے کا شعر ہے
نہیں کرتے ہیں وعدہ دید کا وہ حشر سے پہلے
دلِ بے تاب کی ضد ہے ابھی ہوتی یہیں ہوتی
اہل اللہ سے بدگمانی کرنے والو سن لو کہ خواجہ صاحب کیا فرماتے ہیں، اس سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ والوں کی زندگی کس طرح گذرتی ہے
پتہ چلتا کہ غم میں زندگی کیوں کر گذرتی ہے
ترے قالب میں کچھ دن کو مری جانِ حزیں ہوتی
کسی اللہ والے کی جان تمہارے جسم میں ڈال دی جائے تب پتہ چلے گا کہ وہ کتنی تلوار کھاتے ہیں، ہر گناہ سے بچتے ہیں، اللہ کے لےے ہر وقت غم اُٹھاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ شہیدوں کے ساتھ اُٹھائے جائیں گے، جو عورتوں سے نظر بچائے گا، برے برے گندے تقاضوں کا خون کرے گا، بری خواہش پر اللہ کے حکم کا چاقو چلائے گا وہ قیامت کے دن شہیدوں کے ساتھ اُٹھایا جائے گا، کافر سے لڑکر گردن پر جو تلوار چلتی ہے اس خون کو دنیا دیکھتی ہے لیکن جو اندر ہی اندر تقویٰ کے لےے اپنی بری خواہشات کا خون کررہے ہیں اس خون کو صرف اللہ دیکھتا ہے۔ دیکھ لو تفسیر بیان القرآن میں ہے کہ سالکین اور جہادِ اکبر یعنی نفس کامقابلہ کرکے جو لوگ گناہ چھوڑتے ہیں اللہ ان کو شہیدوں کے ساتھ اُٹھائے گا۔
شرحِ صدر یعنی سینہ کھلنے کی دوسری علامت ہے: اِلاِنَابَةُ اِلٰی دَارِ الخُلُودِ
ہندو سادھو بھی اَلتَّجَافِی عَن دَارِ الغُرُورِ پر عمل کرلیتا ہے مگر آخرت کی طرف وہ متوجہ نہیں ہوتا اس لےے دوسری شرط لگا دی وَالاِنَابَةُ اِلٰی دَارِ الخُلُودِ اس کو ہر وقت آخرت کی یاد رہتی ہے جیسے اگر مچھلی پانی سے نکالی جائے تو اسے ہر وقت پانی ہی کی یاد رہتی ہے ایسے ہی اُنہیں بھی ہر وقت آخرت کی یاد رہتی ہے اور شرحِ صدر کی آخری علامت ہے: وَ الاِستِعدَادُ لِلمَوتِ قَبلَ نُزُولِہ
(مشکوٰة المصابیح، کتاب الرقاق، ص:۶۴۴، روح المعانی، ج:۸، ص:۲۲)
موت کے آنے سے پہلے قضا نماز، قضا روزے ادا کرلیتے ہیں، زکوٰة کا بقایا دے دیتے ہیں، اپنی فائل درست رکھنے کی کوشش کرتے ہیں
نہ جانے بلالے پیا کس گھڑی
تو رہ جائے تکتی کھڑی کی کھڑی
اب دو تین سنتیں بتا تا ہوں تاکہ ہماری زندگی میں سنتیں زندہ ہوں، نمبر۔۱ جب اوپر چڑھوتو اﷲ اکبرکہو، نیچے اترو تو سبحان اﷲکہو،یہ بخاری شریف کی روایت ہے، حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ دوسری سنت یہ ہے کہ نماز کی نیت باندھتے وقت سر جھکانے کو علماءنے بدعت لکھا ہے، سر جھکانا اور ہاتھ باندھنا یہ نماز کے اندر کا ادب ہے، اللہ کے دربار کا ادب ہے، جب تک امام اللہ اکبر نہ کہے ہاتھ نہ باندھو،ہاتھ کھولے رکھو۔
ایک خاص وظیفہ
ایک وظیفہ بتاتا ہوں سو مرتبہ لااِلٰہ الا اﷲ پڑھ لیا کیجئے، درمیان درمیان میں محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم بھی ملاتے رہیں تو قیامت کے دن چہرہ ایسا چمکے گا جیسے چودہویں تاریخ کا چاند اور اگر کوئی مقروض ہو، کسی کی بیٹی کا رشتہ نہ مل رہا، کسی پر قرض ہے، کوئی روپیہ لے کر بھاگ گیا یا پیسہ نہیں دے رہا ہے تو میں ایک وظیفہ بہت زبردست تجربہ کا بتاتا ہوں جس نے پڑھا ہے الحمد للہ کامیاب ہوا ہے یَا نَاصِرُ یَاعَزِیزُ یَامُغنِیُ یَاصَمَدُ اﷲ تعالیٰ کے ان چار ناموں کو کثرت سے پڑھے۔
اب ایک قصہ سناتا ہوں، ایک حافظ عالم قاری مقروض ہوگئے، بیٹی کا رشتہ بھی نہیں مل رہا تھا، میں نے ان کو یہ چار نام یَا نَاصِرُ یَاعَزِیزُ یَامُغنِیُ یَاصَمَدُ بتادیئے۔ چھ مہینے کے بعد میں ساوتھ افریقہ گیا، راستہ میں عمرہ کرنے کے لےے جدہ اُترا تو ان سے ملاقات ہوگئی تو میں نے کہا کہ حاجی صاحب کیا حال ہے؟ کہنے لگے آپ نے تو مٹی کو سونا بنا دیا، آپ نے اللہ کے چار نا م جو بتائے تھے میں نے ان کو میں پڑھا تو قرضہ بھی ادا ہوگیا، بیٹیوں کا رشتہ بھی ہوگیا اور میں مالدار بھی ہوگیا۔ اگر ان چار ناموں کو ایک سو گیارہ دفعہ پڑھ لیں تو بہتر ہے ورنہ چلتے پھرتے جتنا ہوسکے پڑھ لیں، کوئی تعداد نہیں ہے، ایک سو گیارہ مرتبہ اس لیے بتایا ہے کہ یہ یَا کَافِی کا ابجد ہے۔ ایک مرتبہ میں نے ایک صاحب سے پوچھا کہ چائے پئیں گے؟ کہنے لگے نہیں کافی پیوں گا، میں نے کہا چائے میں چ ہے اور کافی میں اللہ کا نام ہے لہٰذا اس کو کافی پلاو، تو وہ بہت ہنسے۔
ڈھاکہ میں ایک تاجر کو ایک آدمی ان کے چار پانچ لاکھ روپے نہیں دے رہا تھا، انہوں نے بھی اﷲ کے یہ چار نام پڑھے تو اُس آدمی نے ان کا پیسہ بھی دے دیا اور میرے ہاتھ پر تائب اور بیعت بھی ہوگیا۔ اس وظیفہ کی برکت کے ایک دو نہیں کئی واقعات ہیں یہاں تک کہ میرے شیخ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب نے مدینہ شریف میں ایک پریشان حال شخص کوجس کی بیٹی کا رشتہ نہیں مل رہا تھا اور وہ کچھ مقروض ہوگیا تھا اﷲ کے یہ چار نام بتائے اور یہ بات حضرت نے خود مجھے بتائی، اللہ کا شکر ہے کہ میرے وظیفہ کو میرے شیخ نے بھی قبول فرمایا۔
یَا نَاصِرُسے مدد آجائے گی، یَا عَزِیزُکے معنیٰ ہیں زبردست طاقت والا، یَا مُغنِیُکے معنیٰ ہیں مالدار کرنے والا اور علامہ آلوسی السید محمود بغدادی اپنی تفسیر روح المعانی میں حضرت ابو ہُریرة رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی روایت نقل فرماتے ہیں قَالَ اَبُو ھُرَیرَةَ فِی تَفسِیرِ الصَّمَدِ اَلمُستَغنِی عَن کُلِّ اَحَدٍ وَالمُحتَاجُ اِلَیہِ کُلُّ اَحَدٍ یعنی صمد کی تفسیریہ ہے کہ اﷲ سارے عالم سے بے نیاز ہے اور کسی کا محتاج نہیں لیکن سارا عالم اُس کا محتاج ہے تو جو بندہ ان ناموں کو پڑھے گا ان شاءاللہ وہ کسی کا محتاج نہیں ہوگا بلکہ اس نام کی برکت سے لوگو ں کی خدمت کرے گا، دوسروں کو مال دے گا، اس لیے میں علماءحضرات اور مدرسہ چلانے والوں کو کہتا ہوں کہ اللہ میاں کو زیادہ یاد کرو ان شاءاللہ مالداروں کو اللہ آپ کے پاس بھیجے گا۔
اور جو بڈھا مرنے کے قریب ہو وہ یَاکَرِیمُپڑھتا رہے کیونکہ کَرِیمُ کے معنیٰ ہیں جو نالائقوں پر بھی مہربانی کرے تو جب یہ سمجھو کہ اب ہمارا اللہ کے یہاں ڈیپارچر ہونے والا ہے، بلاوا قریب ہے اُس زمانہ میں یَا کَرِیمُ زیادہ پڑھتے رہو اور یَاکَرِیمُکے معنیٰ ہیں اَلَّذِی یَتَفَضَّلُ عَلَینَا بِدُونِ الاِستِحقَاقِ یعنی جو ہم ہمارے استحقاق کے بغیر مہربانی کردے، ہم تو جہنم کے قابل ہیں مگر وہ اپنی رحمت سے ہمیں جنت دے دے۔ محدثین نے کَرِیمُکے معنیٰ لکھے ہیں کہ جو نالائقوں پر بھی مہربانی کردے وہ کریم ہے لہٰذا جب بندہ یَا کَرِیمُکہے گا تو اللہ کا کرم جوش میں آئے گا کہ میرا بندہ مجھے کریم کہہ رہا ہے لہٰذا میں کریم کی خوبی اس پر نازل کرتا ہوں اگرچہ تو تو نالائق ہے لیکن یَاکَرِیمُ کہہ رہا ہے اور کریم کے معنیٰ ہیں جو نالائقوں کو بھی محروم نہ کرے تو ہم اس کو کیسے محروم کردیں، اس ظالم نے تو میرے ننانوے ناموں میں سے ایسا زبردست نام لیا ہے کہ اپنی نالائقی کو بھی لائق بنا گیا
چلی شوخی نہ کچھ بادِ صبا کی
بگڑنے پر بھی زلف اس کی بناکی
اللہ تعالیٰ کی رحمت کے کرم سے، یَاکَرِیمُ کہنے سے گنہگار کے بگڑے ہوئے حالات سنور جاتے ہیں بلکہ آج ہی سے یَاکَرِیمُ کہو تاکہ جب خدا کا کرم آئے گا تو بندہ ولی اللہ ہوجائے گا ان شاءاللہ تعالیٰ۔
اب دعا کرلیں کہ یا اللہ! ہماری جانِ ناتواں پر اپنی رحمت سے ایک کروڑ جانِ توانا عطافرما، اے اللہ! سارے عالم میں آپ کی محبت کے نشر کرنے میں اور اپنے کریم ہونے کے صدقہ میں اختر کوبھی قبول فرما،میرے سارے دوستوں کو بھی قبول فرما، جو لوگ مجھ سے بیعت ہیں، میری کشتی میں ہیں ان کو میری کشتی کے ساتھ سلامتی کے ساتھ پار کرا دے، یارب العٰلمین میرے شاگردو ں کو ایسا درد بھرا دل عطافرمادے کہ سارے عالم میں آپ کی محبت کے درد کو پھیلائیں
دونوں عالم کی کیا ہے حقیقت
جتنے عالم ہوں تجھ پر لٹائیں
دونوں عالم کی کیا حقیقت ہے، لاکھوں عالم آپ پر فدا کردئےے جائیں تو بھی آپ کی محبت کا حق ادا نہیں ہوسکتا، اے خدا! تیری محبت، تیری بڑائی، تیری عظمت کی تعریف سرورِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خونِ نبوت سے کی ہے، طائف کے بازار میں اور احد کے دامن میں تیرے واسطہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا خونِ مبارک بہا ہے، ہم آپ کی محبت کا حق کیا ادا کریں گے صرف آپ کی توفیق کا سہارا ہے، اپنی رحمت سے ہم سب کو اللہ والا بنا دے اور ہماری آخرت بھی بنا دے، جس کو جس گناہ کی عادت ہے اے اللہ وہ گناہ اسے چھوڑنے کی توفیق دے دے، جب تک گناہ کرتا رہے گا ولی اللہ نہیں بنے گا، یا اﷲ تمام گنا ہوں کو چھوڑنے کی توفیق عطا فرما اور اپنے جذب سے ہم سب کو اپنا بنا اور جہاں جہاں بنگلہ دیش میں اختر کا بیان ہوا ہے جہاں جہاں کائنات میں روئے زمین پر سفر ہوا ہے اے اللہ جہاں جہاں آپ کی محبت کی بات سنائی ہے سب کو، جانِ اختر کو، میرے گھر والوں کو، میرے سب دوستوں کو اور ان کے گھر والوں کو سب کو اولیاءاللہ بنا دے، آمین۔
وَ اٰخِرُ دَعوَانَا اَنِ الحَمدُ ِﷲِ رَبِّ العٰلَمِینَ
وَصَلَّی اﷲُ تَعَالٰی عَلٰی خَیرِخَلقِہِ مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِہِ وَصَحبِہ اَجمَعِینَ
بِرَحمَتِکَ یَآ اَرحَمَ الرَّاحِمِین
Flag Counter