Deobandi Books

ماہنامہ الابرار اکتوبر 2009

ہ رسالہ

5 - 12
ملفوظات حضرت تھانویؒ
ایف جے،وائی(October 11, 2009)

از جدید ملفوظات

(گذشتہ سے پیوستہ)
بعض بدعتیوں کی بدعقلی کی ایک حکایت

فرمایا کہ حضرت مولانا محمود الحسن صاحب دیوبندیؒ بعض بدعتیوں کی حس اور عقل کے متعلق فرماتے تھے کہ ایک مرتبہ میں اپنے بچپن کے زمانہ میں جبکہ اچھی طرح پیشاب کے بعد ڈھیلا لینا بھی نہ جانتا تھا کسی کے ہمراہ پیران کلیر کے میلہ میں گیا اتفاق سے جو غسل کا وقت تھا اس وقت میں خاص مزار شریف کے پاس کھڑا ہوا تھا سقہ جو آیا اس نے یکدم مشک چھوڑ دی اور اس کی مشک چھٹنے کے ساتھ ہی آدمیوں کا ریلا اندر آگیا میں چونکہ بچہ تھا ہجوم کی وجہ سے اس پانی میں گرگیا اور تمام کپڑے شرابور ہوگئے جب میں باہر نکلا تو لوگوں نے میرے تمام کپڑے اتار کر مجھے ننگا کردیا اور اس کا پانی نچوڑ کر تبرک سمجھ کر پی گئے اور پائجامہ کا پانی بھی پی گئے جو یقینا ناپاک تھا۔

حضرت مولانا گنگوہیؒ کی شانِ حق گوئی

فرمایا کہ ایک مرتبہ میں دیوبند میں پڑھتا تھا وہاں ایک سیاح ولائتی صاحب آئے وہ حضرت حاجی محمد عابدؒ صاحب سے جمعہ کی نماز پڑھانے کی اجازت لے کر منبر پر پہنچ گئے خطبہ شروع کیا چونکہ ربیع الاول کا زمانہ تھا خطبہ کے اندر مولود شریف شروع کردیا اور خطبہ نہایت طویل کہ ختم ہونے ہی پر نہ آئے لوگ پریشان ہوگئے حضرت مولانا گنگوہیؒ بھی اتفاقاً تشریف فرما تھے چونکہ مولانا کو حق تعالیٰ نے ہمیشہ سے اظہارِ حق کی شان دی تھی ان مولوی صاحب سے فرمایا کہ مولانا خطبہ ختم کیجئے وہ بولے چپ رہو خطبہ میں بولنا حرام ہے (وہ پہچانتا نہ تھا) مولانا گنگوہیؒ نے فرمایا کہ حرام و حلال کیا لیے پھرتے ہو تم اس قابل ہو کہ منبر سے تمہارا ہاتھ پکڑ کر اتار دیا جائے پھر اس نے یہ ہی جواب دیا چپ رہو مگر اس نے جلدی خطبہ ختم کردیا خطبہ کے بعد لوگوں نے کہا کہ ہم اس کے پیچھے نماز نہ پڑھیں گے نہ معلوم یہ کون بلا ہے مولانا نماز پڑھانے کے لیے کھڑے نہ ہوئے (تاکہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ سب کچھ اپنی امامت کے لیے کہا تھا) مولانا محمد یعقوب صاحبؒ نے نماز پڑھائی مولانا گنگوہیؒ نے یہ دانشمندی کی کہ نماز کے بعد فوراً جوتہ اٹھا کر چل دیئے ان ولایتی صاحب نے نماز کے بعد کہا کہ بلاﺅ اس وہابی کو جو خطبہ میں بولتا تھا اور بہت دیر تک بکتا رہا حضرت مولانا محمد یعقوب صاحبؒ نماز پڑھتے رہے آپ کو غصہ بھی بہت آیا لیکن تحمل کیا ہمارے حضرت نے فرمایا کہ ہماری جماعت کے حضرات فتنہ کو پسند نہ فرمایا کرتے تھے مولاناگنگوہیؒ کو یہ خیال ہوا کہ اگر میں موجود ہوا تو فساد ہوجائے گا کیونکہ لوگ میری حمایت کریں گے اس لئے دفع الوقتی فرماگئے اور اب یہ حالت ہے کہ فتنہ و فساد کو تلاش کرتے پھرتے ہیں خطبہ کی طوالت پر فرمایا کہ فقہ کی بات یہ ہے کہ خطبہ کو خفیف کرے اور نماز کو طویل یعنی بہ نسبت خطبہ کے طویل کرے۔

حضرت مولانا گنگوہیؒ کی خانقاہ تھانہ بھون سے محبت

فرمایا کہ مولانا گنگوہیؒ کو اس جگہ (یعنی خانقاہ امدادیہ اشرفیہ) سے بڑی محبت تھی جب بینائی جاتی رہی ہے تو فرماتے تھے کہ اگر آنکھیں ہوتیں تو اس جگہ کو اب دیکھتا (کیونکہ حضرت حاجی صاحبؒ کی یہاں بودوباش رہی ہے اس وجہ سے حضرت کو بڑا تعلق تھا)
درمنزلیکہ جاناں روزے رسیدہ باشد
باخاک آستانش داریم مرحبائی

حضرت مولانا گنگوہیؒ کی مدرسہ تھانہ بھون کے لیے دعا

فرمایا کہ ایک مرتبہ حضرت مولانا گنگوہیؒ کو میں نے اطلاع کی کہ حضرت یہاں مدرسہ کی سی صورت ہوگئی ہے دعا فرمادیجئے گا مولانا نے تحریر فرمایا کہ اچھا ہے بھائی مگر خوشی تو جب ہوگی کہ جب یہاں اﷲ اﷲ کرنے والے جمع ہوجائیں گے۔ جامع کہتا ہے کہ سبحان اﷲ حضرت کی خواہش باحسن الوجوہ پوری ہوگئی
تو چنیں خواہی خدا خواہد چنیں
می دہد یزداں مراد متقیں
گفتہ او گفتہ اﷲ بود
گرچہ از حلقوم عبداﷲ بود

حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے حفظِ قرآن کی کرامت

فرمایا کہ حضرت مولانا محمد قاسمؒ جہاز میں روز ایک پارہ حفظ کرکے شام کو تراویح میں سنادیا کرتے تھے اور آہستہ آہستہ یاد فرماتے تھے کسی کو پتہ بھی نہیں چلا یہ حضرت مولانا کی کرامت ہے ایک شخص نے عرض کیا کہ مولانا خلیل احمد صاحبؒ نے رمضان شریف میں آدھا قرآن شریف حفظ کرلیا تھا تبسم سے فرمایا کہ چونکہ وہ  ولاناؒ سے آدھے تھے اس لیے کرامت بھی آدھی ہوگئی۔

حضرت حاجی صاحبؒ کی دعا بعد ختم درس مثنوی شریف

فرمایا کہ حضرت حاجی صاحبؒ کا معمول تھا کہ جب مثنوی کا درس ختم فرماتے تو یوں دعا فرمایا کرتے تھے اے اﷲ جو جو اس کتاب میں لکھا ہے اس میں سے ہمیں بھی حصہ دے دے۔ (آمین)جامع

حضرت حاجی صاحبؒ کا درس مثنوی

فرمایا کہ ایک دفعہ حضرت حاجی صاحبؒ کی خدمت میں مثنوی کا درس ہورہا تھا اور جلسہ عجیب جوش و خروش سے پُر تھا اس روز حضرت نے پکار کر یوں دعا فرمائی ”اے اﷲ ہم لوگوں کو بھی ایک ذرہ محبت عطا فرما آمین۔“ پھر دعا کے بعد فرمایا کہ الحمدﷲ سب کو عطا ہوگیا (الہام ہوا ہوگا) پھر دوسرے جلسہ میں فرمایا کہ بھائی ذرہ سے زیادہ کا تحمل بھی نہیں ہوسکتا۔

یارب چہ چشمہ ایست محبت کہ من ازاں
یک قطرہ آب خوردم وردریا گریستم
بحریست بحر عشق کہ ہیچش کنارہ زیست
ایں جاجزایںکہ جاں بسپار ندچارہ نیست

شعر مثنوی مولوی معنوی ہست قرآں درزبان پہلوی پر شبہ کا جواب

فرمایا کہ جب مثنوی کے درس کا وقت آتا تو حضرت حاجی صاحبؒ یوں فرمایا کرتے تھے کہ آﺅ بھائی مثنوی کی تلاوت کرلیں۔ ایک شعر ہے مثنوی مولوی معنوی ہست قرآں در زبان پہلوی اس کا لوگوں نے اس طرح حل کیا ہے کہ اس میں زیادہ مضامین قرآن شریف کے ہیں لیکن حضرت نے عجیب تفسیر فرمائی کہ بھائی قرآن سے مراد کلام الٰہی ہے اور کلام الٰہی کبھی وحی سے ہوتا ہے اور کبھی الہام سے ہوتا ہے تو معنی مصرع کے یہ ہیں کہ مثنوی کلام الٰہی یعنی الہامی ہے (حضرت اس تفسیر کی بناءپر تلاوت کا لفظ استعمال فرماتے تھے) جامع۔

حضرت مولانا محمد قاسم صاحبؒ نے فرمایا تین کتابیں البیلی ہیں

فرمایا کہ حضرت مولانا قاسم صاحبؒ فرماتے تھے کہ تین کتابیں البیلی ہیں ایک کلام اﷲ ایک بخاری شریف ایک مثنوی شریف ان کا کسی سے احاطہ نہیں ہوسکا بخاری شریف کے تراجم کی دلالت کہیں خفی کہیں جلی سچ یہ ہے کہ اس کا کسی سے احاطہ نہ ہوا ایسے ہی قرآن شریف اور مثنوی شریف کا بھی۔

منشی تجمل حسین صاحب کے انتقال پر حضرت حاجی صاحبؒ کی نسبت کا ظہور ہوا

فرمایا کہ مولوی صدیق احمد صاحب گنگوہیؒ سناتے تھے کہ ایک شخص منشی تجمل حسین تھے وہ حضرت حاجی صاحبؒ سے بیعت تھے اور ان کے ایک بھائی نقشبندیہ طریقہ کے اچھے بزرگ اور خود شیخ تھے یہ نقشبندی بزرگ اپنے بھائی تجمل حسین سے کہا کرتے تھے کہ میاں تم نے چشتیہ کا تو مزہ لے ہی لیا اب ہم سے بھی کچھ حاصل کرلو یہ کہہ دیتے تھے کہ جب ہمارے یہاں نہ ہوگا تو تم سے حاصل کرلیں گے وہ کہا کرتے تھے کہ میاں پچھتاﺅ گے لیکن ان کا جی ہمیشہ یہ چاہتا تھا کہ مجھے ان نقشبندیوں کے یہاں کے بھی کمالات حاصل ہوجائیں نقشبندیوں کے یہاں قلب کا ذاکر ہونا ایک کمال ہے چشتیہ کے اندر عبدیت غالب ہوتی ہے وہاں کوئی عرفی کمال کمال ہی نہیں ایک مرتبہ ان کی بیوی نے حضرت مولانا گنگوہیؒ کے پاس کہلا بھیجا کہ یہ جابجا مارے پھرتے ہیں خاندان کو بدنام کریں گے ان کی خبر لیجئے جب یہ مولانا کے پاس پہونچے تو مولانا نے فرمایا کہ میاں تجمل حسین تم ارے مارے کیوں پھرتے ہو انہوں نے کہا کہ حضرت یوں جی چاہتا ہے کہ قلب ذاکر ہوجائے فرمایا قلب کا ذاکر ہونا بھی کوئی کمال ہے انہوں نے کہا نہیں حضرت جی چاہتا ہے مولانا نے فرمایا کہ جاﺅ مسجد میں جاکر بیٹھو لوگ یہی سمجھے کہ ٹال دیا یہ تعمیل حکم کے لیے مسجد میں جا بیٹھے مولانا وضو کے بعد کھڑاﺅں پہن کر مسجد میں تشریف لاتے تھے۔ عصر کا وقت آگیا کہ حضرت نے عصر کے لیے وضو کیا اور کھڑاﺅں پہن کے چلے بس جوں ہی کھڑاﺅں کی آواز ان کے کان میں پڑی قلب پر ایک چوٹ لگی اور فوراً قلب جاری ہوگیا بس حضرت کے قدموں میں گر گئے حضرت نے فرمایا کہ بھائی اس میں رکھا کیا ہے؟ جب ان کے انتقال کا وقت ہوا ہے تو یہ بے ہوش تھے لوگ ان سے کلمہ کو کہتے تھے مگر یہ کسی کو جواب ہی نہیں دیتے تھے (ایسے وقت کلمہ کی تلقین خطاب سے مناسب نہیں نہ معلوم بے ہوشی میں زبان سے کیا نکل جائے ہاں پاس بیٹھنے والے کلمہ بلند آواز سے پڑھتے رہیں جس سے وہ خود پڑھنے لگے اس سے پڑھنے کا تقاضا نہ کریں جامع) ان کے بھائی کو جو نقشبندی شیخ تھے خبر ہوئی وہ ان کے پاس آئے اور طعن سے یہ کہا کہ اب وہ حاجی صاحبؒ کی نسبت کہاں گئی وہ سلسلہ کیا ہوا کلمہ بھی زبان سے نہیں نکلتا میں کہتا نہ تھا کہ کچھ حاصل کرلو نہیں تو پچھتاﺅ گے اس طعن سے فوراً ان کی آنکھ کھل گئی اور للکار کر کہا یا لیت قومی یعلمون بما غفرلی ربی و جعلنی من المکرمین معلوم ہوتا ہے کہ اب کو بشارت ہوئی ہوگی (کیونکہ مرنے کے وقت ملائکہ کے ذریعہ صالحین کو بشارت دی جاتی ہے جامع) پھر کلمہ بلند آواز سے پڑھا اور جان دے دی(اور یہ کچھ ایسے پڑھے ہوئے نہ تھے مگر ایسے وقت ایسی برمحل آیت کا پڑھنا اﷲ تعالیٰ کو حضرت حاجی صاحبؒ کی نسبت کی مقبولیت دکھلانا منظور تھا جامع) پھر مولوی صدیق صاحب بھی وہاں موجود تھے کہنے لگے کہ بس اسی پر شیخ بنتے تھے اس کے مقام کی بھی خبر نہ ہوئی دیکھئے حضرت حاجی صاحبؒ کی نسبت اور سلسلہ ہمارے حضرت نے فرمایا کہ چشتیوں میں فنا کی شان غالب ہوتی ہے اورنقشبندیوں میں بقاءکی چشتیوں کو اپنے مومن ہونے میں بھی شبہ ہوتا ہے بھلا جس کا یہ حال ہو وہ بزرگی کا کیا خاک دعویٰ کرے گا چشتیوں کا حاصل تو یہ ہی ہے

افروختن و سوختن وجامہ دریدن
پروانہ زمن شمع زمن گل زمن آموخت

انکی طلب یہ ہی ہے کہ کچھ طلب ہی نہ ہو

فراق و وصل چہ باشد رضائے دوست طلب
کہ حیف باشد ازوغیر او تمنائے

کسی نے گویا اس کا ترجمہ کیا ہے

نہ فراق اچھا ہے اے دل نہ وصال اچھا ہے
یار جس حال میں رکھے وہی حال اچھا ہے

یہ تو نہ دوائر قطع کرتے ہیں نہ کوئی لطیفہ جاری کرتے ہیں ان کے یہاں تو ساری عمر رونا ہی رونا ہے

حافظ زدیدہ دانہ اشکے ہمیں فشاں
باشد کہ مرغ وصل کند قصد دام ما

جاری ہے۔
Flag Counter