Deobandi Books

ماہنامہ الابرار اکتوبر 2009

ہ رسالہ

7 - 12
ملفوظات حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم
ایف جے،وائی(October 11, 2009)

۱۷محرم الحرام ۱۴۲۱ھ بمطابق ۲۳اپریل ۲۰۰۰ءبروز اتوار،
صبح سات بجے، سندھ بلوچ سوسائٹی گلستان جوہر کراچی

جو نفس کا دشمن نہیں وہ اﷲ کا دوست نہیں

فرمایا کہ حدیث پاک میں ہے: اِنَّ اَعدٰی عَدُوِّکَ فِی جَنبَیکَ
تمہارا سب سے بڑا دشمن تمہارا نفس ہے جو تمہارے دونوں پہلووں کے درمیان ہے۔ جس نے نفس کو دشمن نہیں سمجھا وہ اللہ کا دوست بھی نہیں ہے، بتائیے! کیسا جملہ ہے یہ؟ اچھا جملہ وہ ہے جو خود دل میں گھر کرلے، اچھے جملہ کی تعریف یہ ہے کہ سننے والا وجد میں آجائے، اصل تعریف وہ ہے جو خود منہ سے نکل جائے، یہ تھوڑی کہ دوسروں سے فرمائش کی جائے کہ بھئی! میری بات کی کچھ تعریف کردو لاَحَولَ وَلاَ قُوَّةَ بس جو اپنے نفس کا دشمن نہیں ہے وہ اللہ کا دوست بھی نہیں ہے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نفس کو دشمن قرار دیاہے تو جب نبی کے فرمان پر ہم عمل نہیں کریں گے تو اللہ تعالیٰ کا فرمان گویا ہم نے توڑ دیا، فرمانِ خدا میں اور فرمانِ نبی میں فرق مت کرو، نبی سفیر ہوتا ہے خدا کا جیسے ہر ملک کا سفیر اپنے ملک کے سلطان کا ترجمان ہوتا ہے۔

اپنی عزت کو خاک میں نہ ملاو

اب ایک بات اور بتاتا ہوںکہ اللہ جس کو جتنی عزت دے وہ اور زیادہ اﷲ کا شکر ادا کرے اور اپنے نفس کی اور زیادہ دیکھ بھال کرے کیونکہ جب معزز آدمی ذلیل ہوتا ہے تو اس کی رسوائی کا بہت چرچہ ہوتا ہے۔ ایک آدمی سے کسی نے کہا کہ ہم تجھ کو بے عزت کر دیں گے، اس نے کہا حضور میرے پاس تو عزت ہے ہی نہیں آپ مجھے کیا بے عزت کریں گے، عزت ہوتی تب بے عزت کرتے، میںتو پہلے ہی بے عزت آدمی ہوں لیکن جس کو خدائے تعالیٰ نے بین الاقوامی عزت دی ہواسے کسی نامناسب موقع پر شلوار نہیں کھولنی چاہےے ورنہ خودکشیاں تک کرنا پڑیں گی، ہارٹ فیل ہوجائے گا، ایسی عالمی رسوائی ہوئی کہ بعض لوگوں کا ہارٹ فیل ہوگیا، کیونکہ وہ عالمی محترم تھے، عالمی طور پہ عزت حاصل تھی لیکن ذلیل کام کرنے سے پہلے سوچ لو، بعد میں تم شرمندہ ہوتے ہو، پہلے ہی نفس کو کیوں نادم نہیں کرتے، بعد میں کہتے ہواس کی شکل بڑی ڈراونی تھی، نفس وہ ظالم ہے کہ ڈراونی شکل سے بھی بدفعلی کرلیتا ہے۔ اس لیے اﷲ تعالیٰ نے امکانِ رسوائی پر بھی پابندی عائد کر دی کہ نظر ہی مت ڈالو یعنی گناہوں کی فرسٹ ایڈ ہی تمہارے نفس دشمن کو نہ ملے، نفس مردہ اور ذلیل و خوار پڑا رہے، اس میں تمہارے مقابلے کی اور تم سے دشمنی کر نے کی طاقت ہی نہ رہے لہٰذا نظر بچاو یَغُضُّوا مِن اَبصَارِھِم پر عمل کرو، نظر کی حفاظت کرو، یہ حق تعالیٰ کا نہایت کرم ہے، اللہ کو عزیز ہے کہ میرے بندے عزت سے رہیں، جو اپنے کو خبیث حرکتوں سے ذلیل کرتا ہے سمجھ لو کہ اللہ کا انتہائی مبغوض ہوتا ہے، خدائے تعالیٰ بھی اس سے بغض رکھتے ہیں کہ اس خبیث نے اپنی عزت کا ذرا بھی خیال نہیں کیا لہٰذ ااسی سے سمجھ لو کہ اللہ کا کتنا عظیم کرم ہے جنہوں نے پہلی ہی نظر کو منع کردیا کہ دیکھو ہی مت تاکہ تمہارے نفس کو گناہوں کی فرسٹ ایڈ نہ ملے۔ اور نظر بچاتے وقت یہ بھی نہ سوچو کہ اس میں کوئی خاص حسن نہیں ہے، اس سے کیا نظر بچائیں، یاد رکھو! لوگ بھنگن تک کے عشق میں مبتلا ہوگئے ہیں، جب چوہا گرم ہوتا ہے تو پھربل کا حسن نہیں دیکھتا کہ بل کالا ہے یا سفید۔ اس پر میرا ایک شعر سن لو

بے کسی اے میر اس چوہے کی دیکھا چاہےے
بلیوںکی میاوں ہو اور پاس کو ئی بل نہ ہو

بتائیے! کیسا شعر ہے؟اگر کوئی نواب ہوتا تو ابھی ایک لاکھ روپیہ دے دیتا، بلیاں جب میاوں میاوں کرتی ہیں تو چوہے کی دوڑ شروع ہوجاتی ہے، گھبراہٹ میں بھاگتے ہوئے وہ اُلٹ پلٹ ہوجاتا ہے اور پھر وہ یہ نہیں دیکھتا کہ بل ماربل کا ہے یا مٹی کا، جیسا بھی ہو اس میں گھس جاتا ہے ۔

بس پوری دنیا کا حاصل، پوری کائنات کا حاصل، پوری زندگی کا حاصل صرف ایک جملہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے خوش ہوجائیں، بس مالک کو خوش کرنے کا غم حاصل کر لو،اللہ کے نام پر، مجھ پر، میرے بڑھاپے پر رحم کرو، جو لوگ مجھ سے تعلق رکھتے ہیںان سے کہتا ہوں کہ مجھ پر ظلم مت کرو، اپنی زندگی غیر اﷲ پر ضائع کرکے میری محنتوں اور آہوں کو رائیگاں مت کرو۔ بس آج سے عزم کرلو کہ زندگی کی ہر سانس اﷲ کو راضی رکھیں گے اور ایک بھی سانس خدا کی نافرمانی میں مبتلا نہیں ہوں گے۔

ایک مختصر اِستخارہ

ارشاد فرمایا کہ آج ایک حدیث کا درس دیتا ہوں، جس کی آئے دن ہم کو ضرور ت پڑتی ہے۔ بعض دفعہ کسی کام کے بارے میں ترَدُّد ہوتا ہے کہ یہ کام کریں یا نہ کریں، حدیث پاک میں ہے ایسے وقت میں استخارہ کرلو، استخارے کا ایک بڑا نفع یہ ہے کہ تَرَدُّدُ بَینَ الاَمرَینِ سے نجات مل جاتی ہے، یعنی دوچیز کا تردد ہوتو ایک چیز دل میں جم جائے گی، لیکن بعض وقت استخارے کے لیے دو رکعت پڑھنے کا وقت نہیں ہوتااور فیصلہ جلدی کرنا ہوتا ہے، تو حکیم الامت مجدد الملت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی ہمارے دادا پیر رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حدیث میں ایک مختصر استخارہ عطا فرمایا گیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ مجھے بھی جب جلدی فیصلہ کرنا ہوتا ہے تو میں بھی اس پر عمل کرتا ہوں وہ یہ ہے:
اَللّٰھُمَّ خِر لِی وَ اختَر لِی
(سننُ الترمذی، کتابُ الدعوات)

یعنی اے اللہ! آپ کے علم میں میرے لےے جو کام خیر ہو وہ آپ میرے دل میں ڈال دیجےے۔ اسے سات دفعہ پڑھ لیں۔ جب کوئی فیصلہ جلدی کر نا ہو اور دو رکعت نمازِ استخارہ پڑھنے کے لیے وقت نہ ہو یا کسی کو بے حد ضعف ہے، بیماری ہے، کمزوری محسوس ہورہی ہے، دورکعات پڑھنے اور پھر دعا مانگنے کا وقت نہ ہو تو اس مختصر استخارہ کو پڑھ لے، کوئی کام دماغ میں ہو تو چلتے پھرتے بھی اس کو پڑھ سکتے ہیں۔ استخارہ کے یہ الفاظ حدیث سے ثابت ہیں، جو دعا زبانِ نبوت سے نکلی ہو اس کی قبولیت میں کیاشک ہے۔ ایک بڑے پیارے نے بڑے پیارے کی زبان سے جو دعا اپنے بندوں کو سکھائی وہ کتنی پیاری ہوگی۔
اور استخارہ محتاجِ اشارہ نہیں ہے، نہ کوئی رنگ نظر آنا ضروری ہے، نہ کوئی خواب دیکھنا ضروری ہے، نہ دل میں کوئی آواز آنا ضروری ہے، جو خیر ہوگا وہ دل میں جم جائے گا، آپ اس کے خلاف کرہی نہیں سکتے، آپ مجبور و مقید ہوجائےں گے، مجبورِ خیر ہوجائےں گے۔ یہ ہے اصل چیز۔ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ کوئی خواب تو نظر آیا نہیں، نہ کوئی آواز آئی، نہ کوئی ہرا بھرا رنگ نظر آیا، نہ باغات وغیرہ نظر آئے بلکہ اگر بلی یا اُلو وغیرہ نظر آگیا تو سمجھتے ہیں کہ یہ خطر ناک بات ہے، اُلو اور بلی سے استخارہ مت نکالو مثلاً اگر بیٹی کے لیے کوئی اچھا رشتہ آتاہے اور اس میں خوبیاں ہیں، دیندار ہے ،روزی ہے، مکان ہے، سب کچھ دے سکتا ہے، اخلاق بھی اچھے ہیں تو اِستشارہ اور استخارہ دونوں کام کرو، دونوں کام ضروری ہیں، استخارہ بھی کرو اور مشورہ بھی کرو اور مشورہ کے بعد پھر ظاہری حالات جیسے ہوں اس کے مطابق فیصلہ کرو، استخارہ برکت کے لیے کریں، کچھ نظر آئے یا نہ آئے ان شاءاللہ تعالیٰ اللہ تعالیٰ دل اس طرف کردیں گے جس میں خیر ہوگی، اور یہ دعا بھی مانگ لو کہ اے اللہ! آپ کے علم میں ہمارے لیے جو خیر ہو وہی ہمارے دل میں جمادیجئے۔

حدیث پاک کی دو دعاوں کی عجیب تشریح

اب ایک دعا اور بتاتا ہوں، یہ برابر پڑھتے رہو: اَللّٰھُمَّ ارحَمنِی بِتَرکِ المَعَاصِی وَ لاَ تُشقِنِی بِمَعصِیَتِکَ
گناہ ہمارا راستہ کھوٹا کرنے والے ہیں۔ گناہ ایسی خبیث چیز ہے جو اللہ اور ہمارے درمیان فاصلہ کرتا ہے، تو بجائے اس کے کہ ہم گناہ کر کے حرام لذت حاصل کریں، اس گناہ سے فاصلہ مانگ لو۔ اور کتنا فاصلہ مانگو؟ اَللّٰہُمَّ بَاعِد بَینِی وَ بَینَ خَطَایَایَ کَمَا بَاعَدتَّ بَینَ المَشرِقِ وَ المَغرِبِ
(صحیحُ البخاری،کتابُ الاذان، باب ما یقرا بعد التکبیر،ج:۱، ص۳۰۱)

جتنا مشرق ومغرب میں ہے، اے اللہ! میرے اور میری خطاوں میں اتنی دوری کردے جتنی دوری مشرق اور مغرب میں ہے یعنی اے اﷲ! میرے گناہوں میں مشرق اور مغرب جتنا فاصلہ کردیجئے۔ کیا مشرق کبھی مغرب سے مل سکتا ہے؟ جتنا مشرق کی طرف جاو گے مغرب سے اتنا ہی فاصلہ بڑھتا جائے گا،مغرب کی طرف جاو گے مشرق سے فاصلہ بڑھتا جائے گا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو گنا ہوں سے بچانے کے لیے ایسا بلیغ مضمون عطا فرمایا۔
اور اللہ نے ایک علم عظیم عطا فرمایا کہ مباعدت بابِ مفاعلة ہے جس میں دونوں طرف سے فعل صادر ہوتا ہے یعنی اے اللہ! مجھے اسبابِ گناہ سے دور کردیجیے اور جتنے اسبابِ گناہ ہیں ان کو مجھ سے دور کردے تاکہ گناہ میرے پاس آئیں ہی نہیں، ایک اللہ والے کا شعر ہے

الٰہی پیار سے دیکھے نہ پھر گناہ مجھے

تو مباعدت کا مطلب ہے کہ گناہ ہم سے بھاگیں اور ہم گناہوں سے بھاگیں، جب دونوں طرف سے فرار ہو، تب سمجھو دعا قبول ہوگئی، یہ مباعدت کا ترجمہ ہے کہ دونوں طرف سے دوری ہو، یعنی گناہ ہم سے بھاگ رہے ہوں اور ہم گناہ سے بھاگ رہے ہوں۔ دیکھو یہ کیسا نکتہ ہے! یہ ہے گرامر کہ نفس کو گرا دے اور نفس مرجائے پھر گرامر فائدہ دیتی ہے۔ اور دوسری دعا ہے: اَللّٰھُمَّ ارحَمنِی بِتَرکِ المَعَاصِی وَ لاَ تُشقِنِی بِمَعصِیَتِکَ
اے اﷲ مجھ پر وہ رحمت نازل فرمائیے جس سے میں گناہوں کو چھوڑ دوںاور اپنی نافرمانی سے مجھے بد نصیب نہ کیجئے۔ یہ کون سِکھا رہا ہے ؟ رحمةللعلمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سِکھا رہے ہیں۔ وَلاَ تُشقِنِی اور معصیت سے ہم کو شقی اور بد نصیب نہ کیجےے لا اس وقت داخل ہوتا ہے جب اندیشہ اثبات ہو۔ معلوم ہوا کہ گناہ میں بدنصیب بنانے کی خاصیت ہے۔ بس اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچنے کے لیے جان کی بازی لگادو، اللہ کے غضب اور قہر کے اعمال میں اپنے کو مبتلا مت کرو، خود کو ذلیل نہ کرو، تم خود اپنے کو ذلیل کرتے ہو اور پھر شیطان مزید تم کو تباہ کرتا ہے کہ میری قسمت ہی خراب معلوم ہوتی ہے جو میری اصلاح نہیں ہورہی حالانکہ خود اپنے ارادے سے گناہ کرتے ہو۔
بریانی اور پلاو کھا کر یہ مت سمجھو کہ ہم بہت مزے میں ہیں، یہ دیکھو کہ تم گنا ہ کتنے کرتے ہو؟ اگر تم گناہ سے بچ گئے تو اب سمجھو کہ تم رحمت کاسایہ پاگئے، تمہیں اللہ کا پیار مل گیا۔ اس لیے کہتا ہوں کہ اَللّٰھُمَّ ارحَمنِی بِتَرکِ المَعَاصِی بکثرت پڑھتے رہو تاکہ آسمان والے سے رابطہ قائم رہے، کاروبار کرتے ہوئے بھی تھوڑی تھوڑی دیر بعد اﷲ کا ذکر کرتے رہو، سُبحَانَ اﷲ، اﷲ اکبر پڑھتے رہو، گاہک آگیا فوراً کہو اَلحَمدُ ِﷲِ اللہ تعالیٰ نے ہم کو، ہماری بندگی کے دائرے کو سراپا بندگی بنا دیاکہ میرے بندے کو جب نعمت ملے تو اَلحَمدُ ِﷲِ پڑھیں اور جب کوئی مصیبت آجائے یا کوئی تکلیف پہنچ جائے تو فوراً اِنَّا ِﷲِ وَ اِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُونَکہیں، کوئی تعجب کی بات ہوتو سُبحَانَ اﷲ کہیں، اوپر چڑھ رہے ہوں تو اﷲ اکبر کہیں، نیچے اتریں تو سُبحَانَ اﷲ پڑھیں، بس انہوں نے ہر وقت ہمیں اپنی یاد کے دائرے میں بند کردیا کہ تم ہم کو چھوڑتے ہو لیکن ہم تم کو ہر وقت اپنی بندگی کے دائرے میں رکھتے ہیں، کوئی بھی

حالت پیش آئے تم میرا نام لیتے رہو۔
تقدیر کے متعلق ایک اِشکال کا جواب

بعض لوگوں کو شیطان اُلو بناتا ہے کہ ہماری قسمت میں تصوف نہیں ہے، شاید میں بدنصیب ہوں، میری قسمت ہی خراب ہے، اپنے کرتوت، اپنی نالائقیوں کو تقدیر کے حوالے کرتے ہو، یاد رکھو! تقدیر علمِ الٰہی کا نام ہے امرِالٰہی کا نہیں ہے یعنی اﷲ نے تم کو حکم نہیں دیا کہ تم یہ کام کرو بلکہ جو کام ہم اپنے ارادے سے کرنے والے ہیں اس کو اللہ نے لکھ دیا، ایسا نہیں کہ نعوذ باﷲ، اللہ لکھتا ہے کہ تم اب زِنا کرو تب ہم زِنا کرتے ہیں یا اللہ چاہتا ہے کہ تم جھوٹ بولو تب ہم جھوٹ بولتے ہیں بلکہ یہ سب ہماری بدمعاشیاں اور خباثتِ طبع ہے، سب کمینے، بے غیرت اور جاہل لوگ ہیں جو اپنے عیب کو چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں، اس کا نام کوششِ ناکام ہے، احمقانہ کوشش ہے، لیکن اس سے نقصان کیا پہنچتا ہے؟ جب آدمی اپنی برائیوں کو تقدیر پر ڈال دیتا ہے تو پھر اس کو استغفار وآہ وزاری کی توفیق نہیں ہوتی، کہتا ہے کہ ہماری قسمت میں یہی لکھا تھا اب کس چیز کی توبہ کریں؟ یاد رکھو! یہ بہت خطرناک شیطانی مرض ہے، اس کی وجہ سے ایک تو شیطان تم کو اللہ والوں سے بدگمان کردے گا کہ ان کے پاس خانقاہ میں اتنے دن رہے پھر بھی قسمت نہ بنی اور دوسرے استغفار وآہ و زاری کی توفیق بھی نہیں ہوگی۔

گناہ پر مجبور نہ ہونے کی دلیل

اچھا!اگر تمہاری قسمت میں ہے، تم مجبور ہوتو برا فعل کرنے کے بعد تم کو ندامت کیوں ہوتی ہے؟ تم شرمندہ کیوں ہوتے ہو؟ یہ ندامت دلیل ہے دوچیزوں کی۔ ایک تو یہ کہ یہ کام برا ہے، اچھے کام پر ندامت ہوتی ہے؟ آپ لوگ یہاں دینی مجلس میں آئے ہیں کیا کسی کو ندامت ہے کہ ہم یہاں کیوں آئے؟ سب کادل خوش ہے یا نہیں؟ تو ندامت علامت ہے دوچیزوں کی، نمبرایک یہ کام برا ہے، نمبر دو تم نے اپنے اختیار سے کیا ہے، اس لیے تم اندر سے شرمندہ ہو کہ میں نے یہ کام کیوں کیا، کاش میری بات ظاہر نہ ہوتی اور میرے بڑے اس سے واقف نہ ہوتے اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس سے واقف نہ ہوتے کہ تم میرے امتی ہوکر ایسا کررہے ہو ۔
جس کا کھانا پینا، چائے سب عمدہ ہے مگر اس سے گناہ نہیں چھوٹتے تو بہت بڑی رحمت سے محروم ہے، اِلاَّمَا رَحِمَ رَبِّی سے یہ ظالم مشرف نہیں ہے۔ اسی لیے حضور صلیہ اﷲ علیہ وسلم نے یہ دعا سکھائی ہے وَلاَ تُشقِنِی اور اپنی نافرمانی سے ہم کو بدنصیب اور شقی اور بد بخت نہ کیجئے، معلوم ہوا کہ نافرمانی میں یہ خاصیت ہے کہ انسان کی قسمت تباہ ہوجاتی ہے، نصیب بگڑ جاتا ہے،جب قسمت ساز کو ناراض کرو گے تو قسمت کیسے ساز گار رہے گی؟ واہ! ماشاءاﷲ! کیا جملہ اﷲ تعالیٰ نے میرے قلب کو عطا فرمایا ہے، میں سوچتا نہیں ہوں، اللہ تعالیٰ الفاظ ہی ایسے عطا فرمادیتے ہیں، جب اپنے ارادے سے قسمت ساز کو ناراض کرو گے تو پھر تمہاری قسمت کیسے سازگار رہے گی؟ دیکھو! ایک خاص بات بتاتا ہوں، اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں گناہ کرنے پر مجبور ہوجاتا ہوں، عادت غالب آجاتی ہے تو یاد رکھو! تم بالکل غلط کہتے ہو، تم مجبور نہیں ہوتے ہو، تم کو بدبختی کی عادت ہے، تم اپنا نصیبہ خراب کرنے والے پرانے کہنہ مشق نالائق ہو، بعض نالائق ہوتے ہیں، مگر کہنہ مشق نہیں ہوتے اور بعض ایسے خبیث ہوتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے کی مستقل عادت پڑی ہوتی ہے، اگر تم مجبور ہو تو اپنے فعل پر نادم کیوں ہوتے ہو؟ جیسے کسی کا ہاتھ مسلسل ہل رہا ہے، اس مرض کانام ہے رعشہ تو اس کو کوئی ندامت ہوتی ہے؟ وہ بیچارہ تو بیمار ہے، دیکھنے والے بھی کہتے ہیں کہ بیمار ہے، معذور ہے، مجبور ہے، ہر مجبور معذور ہوتا ہے اور ہر معذور ماجور ہوتا ہے۔ معلوم ہوا کہ معذور وہ ہے جس کو کام کرنے کی قدرت ہی نہ ہو اور جس کو کسی کام کے کرنے کی بھی قدرت ہو اور اس کو نہ کرنے کی بھی قدرت حاصل ہے وہ معذور نہیں ہے۔ اس سے ثابت ہوگیا کہ آدمی گناہ پر مجبور نہیں ہے اپنے اختیار سے گناہ کرتا ہے۔

فناءالفناءکے معنیٰ

ارشاد فرمایا کہ نفس کو اتنا مٹا و کہ مٹنے کا بھی احساس نہ ہو، تصوف کی اصطلاح میں اس کا نام فناءالفناءہے یعنی اپنے کو ایسا مٹاو کہ یہ احساس بھی نہ رہے کہ ہم نے اپنے کو بہت مٹایا ہے، اگر یہ احساس باقی ہے تو ابھی نفس زندہ ہے، اگر احساسِ فنائیت ہے تو ابھی نفس نہیں مٹا اور یہ بھی تکبر میں داخل ہے اور بڑائی ابھی نہیں نکلی، لہٰذا نفس کو ایسا مٹانا کہ مٹنے کا احساس بھی نہ رہے۔ اس کی ایک ایسی عجیب مثال اﷲ تعالیٰ نے میرے دل کو عطا فرمائی کہ آپ لوگ بھی کہہ اٹھیں گے کہ

پسلی پھڑک گئی نظرِ انتخاب کی

جب آدمی گہری نیند سو رہا ہوتا ہے تو اسے سونے کا احساس نہیں رہتا، اگر سونے کا احساس ہے تو اس کا مطلب ہے کہ نیند اچھی نہیں ہے، ناقص ہے، اگر اس کو احساس ہے کہ میں سو رہا ہوں تو سویا ہوا کہاں ہے، وہ تو جاگ رہا ہے۔ نیند اس کا نام ہے کہ آدمی سو جائے اور سونا اس کا نام ہے کہ سونے کا احساس بھی نہ ہو۔ اسی طرح مٹنا وہ پسندیدہ ہے کہ مٹنے کا بھی احساس نہ ہو۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو اتنا مٹا دے جتنا مٹنے سے وہ خوش ہوجائیں۔

خانقاہ کا مقصد

ارشاد فرمایا کہ ہمارے ہاں خانقاہ میں لکھا ہوا ہے کہ یہاں سیاسی گفتگو ممنوع ہے۔ یعنی خالص اللہ ہو، اللہ تعالیٰ کی خالص محبت ہو، آپ خالص دودھ چاہتے ہیں یا پانی کی ملاوٹ والا دودھ پسند کرتے ہیں؟ تو خانقاہ کو آہ کے لیے خالص رکھو۔ میرا شعر ہے

اہلِ دل کے دل سے نکلے آہ آہ
بس وہی اختر ہے اصلی خانقاہ

خانقاہ وہ جگہ ہے جہاں آہ میں باہ نہ ملائی جائے، نہ جاہ ملاو، خانقاہ نام ہے خالص آہ کا، جس میں نہ جاہ ہو نہ باہ ہو یعنی شہوتِ نفسانی نہ ہو، بدنظری نہ ہو اور جاہ نہ ہو۔ یہی دو بڑی بیماریاں ہیں،جاہ اور باہ۔ اگرجاہ سے جیم نکل جائے اور باہ سے با نکل جائے تو خالص آہ رہ جائے گی، اب آہ میں اور اللہ میں کوئی فاصلہ نہیں ہے، انہی دو بیماریوں کی اصلاح کے لیے شیخ بنایا جاتا ہے، شیخ روحانی ڈاکٹر ہے، شیخ منع کرتا ہے کہ دیکھونظر کی حفاظت کرنا ورنہ اگر تم رسوا ہوئے تو ہماری ذمہ داری نہیں، اب اگر چھپ چھپ کر شیخ کی تعلیمات کے خلاف کوئی کام کرتا ہے تو بتاو!شیخ کی کیاذمہ داری ہے، یہ خود اپنے پیر پر کلہاڑی مار رہا ہے۔ اسی طرح دوسری بیماری جاہ ہے، تکبر نہ کرو، اکڑ کر مت چلو، اگر موبائل سننا ہے تو کمر کو ٹیڑھی مت کرو، ذرا تواضع سے رہو جیسے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مکہ شریف جب فتح فرمایا تو آپ جھک گئے اور اتنا جھکے کہ ڈاڑھی مبارک کجاوے سے لگ گئی۔ ایک انگریز مورخ کافر ہوکر لکھتا ہے کہ اگر مسلمانوں کا یہ پیغمبر سچا نہ ہوتا، اگر یہ بادشاہ ہوتا تو اس وقت تکبر آجاتا اور اکڑ کے چلتا، آنکھیں لال ہوتیںکہ تم لوگوں نے مجھے بہت ستایا تھا، آج میں نے تمہارا ملک فتح کرلیا ہے، اب تمہاری خیر نہیں، اب تمہاری اینٹ سے اینٹ بجادوں گا۔ لیکن آپ صلی اﷲ علیہ وسلم بجائے اکڑفوں کے تواضع سے جھکتے چلے گئے، آپ عظمتِ الٰہیہ سے دب گئے یہاں تک کہ ڈاڑھی مبا رک کجاوے سے لگ گئی۔ جو عظمتِ الٰہیہ سے دباہوتا ہے وہ کیسے گناہ کرے گا؟ وہ کیسے بدنظری کرے گا؟ جو لوگ گناہ کرتے ہیں یہ غافلین کی جماعت ہے گو صورتاً یَقظَان لوگ ہیں لیکن صورت بنانے سے کام نہیں چلتا، سیرت بھی بناو، سیرتِ اولیاءمیں کارِ شیطانی مت کرو۔ میر تقی کا ایک پرانا شعر ہے

میر صاحب زمانہ نازک ہے
دونوں ہاتھوں سے تھامیے دستار

اب اس زمانے میں تو سید لوگ بھی عمامہ نہیں باندھتے، تبلیغی جماعت میں جو لگ گئے وہ مستثنیٰ ہیں۔ تو میں نے اس شعر کی ترمیم کردی

میرصاحب زمانہ نازک ہے
دونوں ہاتھوں سے تھامیے شلوار

کیونکہ اب دستار خطرہ میں نہیں شلوار خطرہ میں ہے اور ویسے بھی اب دستار نہیں باندھی جاتی۔ اب دیکھئے! یہ میر صاحب ہیں، یہ بھی دستار نہیں باندھتے، نگینے کے بہترین سید ہیں،آلِ رسول ہیں،ان کے بارے میں ہم سب کو نیک گمان کرنا چاہےے کہ ان کے خون میںحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا خون ہے، جیسے جب تک کوئی شرعی دلیل نہ ہو ہر چیز پاک ہوتی ہے مثلاً جنگل میں حوض ملا، یا گڑھا ملا جس میں پانی تھا، تو شریعت کا قاعدہ ہے کہ اگر وہ دس ہاتھ لمبا اور دس ہاتھ چوڑا ہو تو جدھر نجاست نظر نہ آئے وہاں سے وضو کر سکتا ہے، مگر شرط یہ ہے کہ دس ہاتھ چوڑا اور دس ہاتھ لمبا ہو۔

شک سے یقین زائل نہیں ہوتا

ایک مرتبہ صحابہ کرام حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ جنگل سے گذر رہے تھے کہ پانی کا تالاب نظر آیا، حضرت عمر نے فرمایا یہ پانی پاک ہے، اس سے وضو وغیرہ کرلو، صحابہ نے عرض کیا کہ اے امیر المومنین یہاں بھڑئیے، کتے وغیرہ پانی پیتے ہوںگے، تو فرمایا کیا تم نے انہیں پانی پیتے ہوئے دیکھا ہے؟ ہر چیز کو پاک سمجھو جب تک اس کی ناپاکی یقینی نہ معلوم ہوجائے۔ ایسے ہی بعض لوگوں کو ہر وقت وضو کاشبہ رہتا ہے تو فقہاءنے لکھاہے کہ جب تک قسم نہ کھالو کہ خداکی قسم میرا وضو ٹوٹ گیاتب سمجھو کہ ٹوٹا ہے ورنہ شک و شبہ ہے اور محض شک و شبہ سے وضو نہیں ٹوٹتا، وضو تو یقینی کیا اور یقین شک سے نہیں ٹوٹتا، لوہے کو لوہا کاٹے گا، جب اتنا یقین ہوجائے کہ قسم کھالو کہ خدا کی قسم میرا وضو نہیں رہا، اب بے شک وضو کرو، ورنہ شیطان وسوسہ ڈالتا رہے گا۔ ایسے ہی بعض لوگوں کو شیخ کے بارے میں وسوسہ ہوتا ہے کہ شیخ آج کل ناراض ہے، تو میرے شیخ نے مجھے لکھا کہ جب تک قسم نہ کھا سکوکہ خدا کی قسم شیخ ناراض ہے تب تک سمجھو کہ شیخ راضی ہے۔

جنت کی نعمتوں کی شان

ارشاد فرمایا کہ جنت میں جب جنتی لوگ جائیں گے تو ان کی ہر سانس سے اَلحَمدُ ِﷲِ نکلے گا، وہاں ذکر کے لیے ارادہ نہیں کرنا پڑے گا، ہر سانس میں ڈھلا ڈھلایا اَلحَمدُ ِﷲِ نکلے گا اور وہاں کی نعمتیں خود ہمارے پاس آئیں گی، یہاں تک کہ خیمے میں جو حوریں ہیںتو آپ کو ان کے خیموں تک جانا نہیں پڑے گا۔ ایک مفسر عظیم لکھتا ہے کہ حوریں جن خیموں میں رہیں گی وہ خیمے حوروں کو لے کر خود اس جنتی کے پاس آئیں گے، جنت میںخیمہ چلے گا فَاِنَّ الخِیَامَ تَسِیرُ بِھِنَّ اِلٰی اَزوَاجِھِنَّ اپنے اپنے شوہروں کی طرف وہ خیمے بمع حوروں کے چلیں گے کیونکہ خیمہ اگر خالی ہوتا تو شوہروں کی آہ نکل جاتی

بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیراتو ایک قطرہ خوں نہ نکلا

کہ ہم تو سوچ رہے تھے کہ خیمہ ہماری حور کو لارہا ہے اور جب خیمہ میں جھانکا تو سب غائب۔ لیکن جنت میں یہ نہیں ہوگا، وہاں ہر نعمت موجود ہوگی وہاں حسرت کا نام نہیں۔ اس لیے مفسرین لکھتے ہیں کہ اپنے اپنے شوہروں کی طرف خیمے حوروں کو لے کرچلیں گے، خالی نہیں آئیں گے اور یہ کب آئیں گے؟ عِندَ اِرَادَتِھِم اہلِ جنت جب ارادہ کریں گے، یہ تھوڑی ہے کہ ہر وقت سر پر خیمہ چڑھا ہواہے اور جب قریب آجائے گا تب خیمہ رُک جائے گا فَاِنَّ الحُورَ تَنزِلُ مِنَ الخِیَامِ پھر اپنے اپنے خیموں سے وہ نزول کریں گی یعنی اوپر سے نیچے اُتریں گی، لبِ بام سے اترنے کا بھی الگ مزہ ہے۔ اب میر صاحب سے لبِ بام کا شعر سن لو

ہم خاک نشیں تم سخن آرائے لبِ بام
پاس آکے ملو دور سے کیا بات کرو ہو

دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو

دنیا میں اہل اللہ نفس کو ایسے ہی قتل کرتے ہیں، یہ ان کی ہر وقت کی کرامت ہے، ہر ولی اللہ کو ہر وقت استقامت حاصل ہے جو ہزار کرامت سے افضل ہے بلکہ ان کے غلاموں کو بھی اللہ یہ صفت دے دیتا ہے، جنہوں نے اللہ والوں کی غلامی کی ہے اﷲ تعالیٰ ان کو بھی صاحبِ استقامت اور صاحبِ کرامت بنا دیتے ہیں، ان کی آنکھوں سے، ان کی گفتگو سے حق تعالیٰ کی تجلیاتِ ہدایت نشر ہوتی رہتی ہیں جیسے چنبیلی کے پودے کی طرف سے ہوا آرہی ہے تو اس کی خوشبو آپ تک بھی پہنچے گی لہٰذا اللہ والوں کی صحبت میں رہو۔ اس لےے جہاں تک ہوسکے شیخ کے پاس بیٹھنا چاہےے، ان کے دائرہ نظر میں رہو، اگر ان کے ٹارگٹ میں رہو گے تو مارگریٹ تم کو نقصان نہیں پہنچا سکتی، اگر شیخ کی نظر کے ٹارگٹ میں رہو گے تو کوئی پھٹیچر تمہاری ٹیچر نہیں ہوسکتی، نہ تم کو اپنا فیچر دِکھا سکتی ہے۔

(جاری ہے۔)
Flag Counter