ماہنامہ انوار مدینہ لاہوراپریل 2002 |
اكستان |
|
علامہ ابن قیم نے کتاب الروح میں اس بات پراجماعِ سلف نقل کیا ہے کہ روحیں اپنی زیارت کرنے والے کو پہچا نتی ہیںاور اسی سے بشارت لیتی ہیں ،ان کے الفاظ یہ ہیں۔و السلف مجمعون علی ھذا وقد تواترت الآثار عنھم بان المیت یعرف زیارة الحی لہ ویستبشربہ۔ ١ ایک شبہہ : رہ گیا یہ شبہہ کہ نکیرین والی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر مر نے وا لے سے یہ سوال وجواب ہوتاہے ،لیکن ہر مرنے والا قبر میںدفن نہیں ہوتاتو یہ سوال و جواب سب سے کس طرح ہوگا اور روایت کا عموم وشمول کس طرح صحیح ہو گا۔ جواب شبہہ : جواب یہ ہے کہ چونکہ عموماً مردے اسی قبر میں دفن ہوتے ہیں جو زمین میں گڑھا کھو د کر بنائی جاتی ہے ورنہ قبر کے پورے معنی یہ ہیں ''مقرّالجسد بعد الموت '' مرنے کے بعد جسم کی جگہ ۔ پس مرنے کے بعد نظر انسانی سے اوجھل ہو کر جہاں بھی اور جس حال وشکل میں جسد رہے گا وہی اس کی قبر ہے اور وہیں نکیرین کا سوال وجواب ہوتا ہے ۔لہذا اب روایت کے عموم و شمول میں اس سے کوئی فرق نہ پڑے گا۔ ایک اور شبہہ اور اس کا ازالہ : آیت کریمہ ان اللّٰہ یسمع من یشاء وما انت بمسمع من فی القبور الآیة ٢ سے معلوم ہوتا ہے کہ مردے قبروں میں نہیں سن سکتے ورنہ وما انت بمسمع الخ نہ فرمایا جاتا۔ جواب یہ ہے کہ یہ آیت کریمہ قلیب بدر میں جو مقتولین کفار ڈالے گئے تھے ان سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح خطاب فرما رہے تھے جس طرح زندوں سے خطاب ہوتاہے تواللہ تعالی نے فرمایا کہ آپ زندوں کی طرح ان کو نہیں سنا سکتے ،اللہ تعالی جس کو چاہے سنوا سکتا ہے اسی مفہوم کو روح المعانی میں بیان کیا ہے ۔المراد نفی الا سماع بطریق العادة۔ ٣ ١ اسلاف کا اس پر اجماع ہے اوراُن کے اس سلسلہ میں تو اتر کی حد تک آثار منقول ہیںکہ میت اپنی زیارت کے لیے آنے والے زندہ شخص کو پہچا نتی ہے اور اس سے خوش ہوتی ہے ۔ ٢ بلا شبہہ اللہ تعالی سناتے ہیں جسے چاہتے ہیں اور آپ نہیں ہیں سنانے والے ان کو جو قبروں میں ہیں ۔ صفحہ نمبر 6 کی عبارت ٣ اس سے بطریق عادت سنانے کی نفی مراد ہے ۔