ماہنامہ انوار مدینہ لاہوراپریل 2002 |
اكستان |
|
ان چیزوں کی مزید تفصیل و وضاحت مطلوب ہو تو بیہقی و محدث جلیل حضرت قاضی ثناء اللہ صاحب پانی پتی کی تفسیر (تفسیر مظہری ) میں آیت کریمہ ولا تقولوا لمن یقتل فی سبیل اللہ اموات بل احیا ء ولکن لا تشعر ون کی تفسیر ملاحظہ کیجئے ۔ (٣،٤) مردہ قبر میںشعور و احساس بھی رکھتاہے ،اور سنتا او ر دیکھتا بھی ہے جیسا کہ مرنے کے بعد نکیر ین سے مردہ سے سوال و جواب کی روایت سے معلوم ہوتا ہے اور زیارتِ قبور کی روایات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ جب زیارت کرنے والا السلام علیکم الخ کہتا ہے تو وہ اس کوسنتا ہے ، اور جواب بھی دیتا ہے ،اور یہ الگ بات ہے کہ وہ جسد مادی کی زبان سے جواب نہیں دیتا ہے ا س لیے ہم اس کو عنصری کانوں سے نہیں سنتے ۔ نیز مصنف ابن ابی شیبہ او ر حاکم کی روایت جو عقبہ بن عامر سے اور حضرت حذیفہ سے مروی ہے (معلوم ہوتا ہے )حضرت عقبہ بن عامر صحابی کے الفاظ یہ ہیں لا ن اطا ٔعلی جمرة او علی حد سیف حتی یخطفہ رجلی احب الی من ان مشی علی قبر رجل مسلم وما اُبا لی أ فی القبور قضیت حا جتی ام فی السوق بین ظہرانیہ والناس ینظر ون ١ اور اسی روایت کو انہی الفاظ میں ابن ماجہ نے حضرت حذیفہ سے روایت کیا ہے ۔ (شرح الصدور للسیوطی ص ١٢٤) نیز حضرت عائشہ صدیقہ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے جس میں ارشاد نبو ی اس طرح ہے مامن رجل یزور قبر اخیہ ویجلس عند ہ الا استأ نس بہ ورد علیہ حتی یقوم ٢(کتاب الروح للعلامة ابن قیم )نیز حضرت ابن عبّاس کی روایت سے جس میں ارشاد نبوی بایں الفاظ منقول ہے ما من رجل یمر علی قبراخیہ المؤمن کان یعر فہ فیسلم علیہ الا رد علیہ السلام ٣ پھر یہی روایت حضرت ابو ہریرہ سے مرفوعاً مروی ہے ۔ غرض اس قسم کی روایات مختلف سندوں سے اس طرح کثرت سے مروی ہیں کہ سب مجموعہ حدیث حسن لغیرہ تک پہنچتا ہے اور اس کا ضعف مرتفع ہو کر ان کو ضعیف یا سقیم کہنا صحیح نہ ہو گا۔ ١ میںکسی ا نگارے پر پائوں رکھوں یا تلوار کی دھار پر حتی کہ وہ میرے پائوں میں گھس جائے یہ مجھے زیادہ محبوب ہے اس بات سے کہ میں کسی مسلمان آدمی کی قبر پر چلوں پھروں ۔ اور مجھے اس بات کی پروا نہیں کہ میں قبر ستان میں قضا ء حاجت کروں یا بر سر عام لوگوں کے سامنے کروں ۔ ٢ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی قبر کی زیارت کرتا ہے اور اس کے پاس بیٹھتا ہے تو وہ مردہ اس سے مانوس ہوتا ہے اور اس کے سلام کا جواب دیتا ہے حتی کہ وہ اٹھ کر چلا جائے ۔ ٣ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی قبر پرگزرتا ہے جس سے اس کی جان پہچان ہوتی ہے اور اسکو سلام کرتا ہے تو وہ صاحب قبر اس کے سلام کا جواب دیتا ہے ۔