Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الاول ۱۴۳۳ھ - فروری۲۰١۲ء

ہ رسالہ

8 - 9
حضرت نواب عشرت علی خان قیصر
حضرت نواب عشرت علی خان قیصر

۵/صفرالمظفر ۱۴۳۳ھ مطابق ۳۱/دسمبر۲۰۱۱ء بروزہفتہ حکیم الامت حضرت تھانوی قدس سرہ کے شاگردرشید ،حضرت اقدس مولانافقیرمحمدپشاوری ومسیح الامت حضرت مولانامسیح اللہ خان صاحب کے خلیفہ مجاز ، ہزاروں سالکین ومریدین کے شیخ ومصلح حضرت نواب عشرت علی خان قیصراس دنیافانی کی ۹۶بہاریں گزار کرراہی عالم آخرت ہوگئے ،إناللّٰہ وإناإلیہ راجعون،إن للّٰہ ماأخذولہ ماأعطیٰ وکلّ شیء عندہ بأجل مسمی۔
حضرت نواب عشرت علی خان قیصر رحمہ اللہ کی شخصیت طبقہٴ اہل علم میں محتاج تعارف نہیں ، آپ کا شمار ان اکابر اہل اللہ میں ہوتا ہے جن پر شرافت ودیانت ناز کرتی ہے ، جن کے دم قدم سے زندگی نقش پاڈھونڈتی ہے اور جن کے وجود سے علم وعرفان کی مجالس رونق پاتی ہیں اور جن کے زہد وتکشف پر ملائکہ رشک کرتے ہیں ۔
آپ نے رجب المرجب ۱۳۳۸ھ مطابق ۱۹۲۰ء ضلع علی گڑھ قصبہ مینڈھو میں جناب محمد مسعود علی خان کے گھر میں آنکھ کھولی ، آپ کے والد ماجد صوم وصلوٰة کے پابند اور نہایت دین دارتھے ، مسجد سے خاص تعلق تھا ، تکبیراولیٰ کے ساتھ نماز کی پابندی اور ذکر اللہ کی کثرت ان کاخاصہ تھا ۔
محدث العصر حضرت علامہ سید محمدیوسف بنوری  نے آپ کے والد ماجد (متوفیٰ :۷شوال ۱۳۹۷ ھ )کے بارہ میں لکھا ہے :
”مرحوم کی بعض صفات وکمالات دیکھ کر رشک آتا تھا کہ اس پرآشوب دور میں قوت ایمان کے ایسے دلکش نمونے موجود ہیں ، حدیث صحیح بخاری شریف میں جن سات اشخاص کے بارہ میں لسانِ نبوت سے یہ بشارت سنی تھی اور پڑھی تھی کہ سات اشخاص قیامت کے روزمیدانِ حشر میں عرش عظیم کے سایہ تلے ہوں گے ، ان میں ایک شخص کے بارہ میں یہ الفاظ ہیں :”ورجل قلبہ معلق فی المساجد“کہ” ایک شخص وہ ہے جس کا دل ہر وقت مسجد میں رہتا ہے “ پہلی مرتبہ اس کا مصداق مرحوم کودیکھا کہ ہر وقت مسجد کی حاضری کی فکر دامن گیر رہتی تھی ، نماز پڑھ کر آتے ہی دوبارہ دوسری نماز کی فکر کاشدید تقاضا شروع ہوجاتا ، بیماری اور بے ہوشی کے عالم میں بھی مسجد جانے کی فکر اور تقاضا رہا ، اس آخر عمر میں ہروقت زبان پر ذکر اللہ جاری رہتا ، حدیث نبوی میں ہے :”لایزال لسانک رطبا من ذکر اللّٰہ “کہ تمہاری زبان اللہ کی یاد سے ہر وقت تروتازہ رہے “اس حدیث کامصداق آپ کی ذات گرامی کودیکھا“ (بینات، ذوالقعدہ ۱۳۹۷ھ)
حضرت نواب صاحب کی ابتدائی تعلیم آپ کے دادامرحوم کے قائم کردہ مدرسہ یوسفیہ میں ہوئی ، حکیم الامت حضرت تھانوی نے آپ کو تفسیر میں جلالین، فقہ میں ہدایہ اول اور حدیث میں مؤطاامام مالک کی بسم اللہ کرائی ۔دینی تعلیم مکمل ہونے پر حضرت تھانوینے آپ کے سرپردستارِفضیلت رکھی ، جو آپ کے پاس محفوظ تھی ،بعد میں علی گڑھ یونیورسٹی سے ایم اے اور قانون کی ڈگری بھی آپ نے حاصل کی تھی ، آپ بچپن سے ہی اپنے گھر کے افراد کے ساتھ تھانہ بھون حاضری دیا کرتے تھے ، حضرت تھانوی نے آپ کو کھانے میں شریک کیا اور اٹھارہ سال کی عمر میں حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے آپ کو بیعت کے شرف سے نوازا ، حضرت تھانوی نے آپ کو نماز باجماعت کی تاکید اور اپنے مواعظ وملفوظات پڑھنے کی نصیحت فرمائی جس پر ساری زندگی آپ عمل پیرا رہے ، آپ کی اہلیہ محترمہ کے بقول پچاس سال سے نماز میں آپ کی تکبیر اولیٰ فوت نہیں ہوئی ۔
حضرت تھانوی کے انتقال کے بعد آپ نے اس وقت کے اکابر سے اپناتعلق جوڑا اوران کی صحبت بابرکت سے مستفیدہوتے رہے ، باقاعدہ اصلاحی تعلق حضرت اقدس مولانا فقیرمحمدپشاوری قدس سرہ سے قائم کیا اور حضرت پشاوری  نے آپ کو خلافت سے نوازا، بعد میں اصلاحی مکاتبت کاسلسلہ حضرت مسیح الامت سے رہا اور حضرت مسیح اللہ خان صاحب نے بھی آپ کو ”اجازتِ بیعت“سے سرفراز فرمایا۔
آپ کے معمولات میں دعاکاذوق وشوق ، تکبیراولیٰ کے ساتھ نماز کااہتمام نمایاں تھا، طبیعت میں سادگی، تحمل وبردباری ، جودوسخا، بزرگانِ دین کااحترام ، علماء سے تعلق جیسے اوصاف کے جامع اور نمودونمائش وشہرت سے کوسوں دور تھے ۔آپ صوفیائے کرام کے چار مشہورسلاسل چشتیہ ، قادریہ ، نظامیہ، سہروردیہ میں بیعت فرماتے تھے ۔
حضرت مولانا مفتی عبدالقدوس ترمذی مدظلہم نے حضرت کامرتب کردہ دستور العمل ومعمولات برائے سالکین روزنامہ اسلام ، ۱۸/صفر۱۴۳۳ھ ، ۱۳/جنوری ۲۰۱۲ء بروزِجمعہ میں شامل اشاعت مضمون میں نقل کیا ہے ، افادہ عام کے لئے بعینہ اسے یہاں نقل کیا جاتا ہے :
۱:․․․پنے شب وروزکی ضروری مصروفیات کو پیش نظر رکھ کر اک مضبوط نظام الاوقات بنالیناچاہئے اور پھر اس کے مطابق مستقل مزاجی کے ساتھ عمل کرنا چاہئے ، اس کی وجہ سے کام کرنے میں بہت برکت ہوتی ہے ، تھوڑے وقت میں زیادہ کام ہوجاتا ہے اوراس کی برکت سے مشکل کام بھی آسان ہوجاتا ہے :
نظم پیدا کیجئے اوقات میں
برکتیں پھر دیکھئے دن رات میں
۲:․․․شرعی احکام خواہ ان کا تعلق کرنے سے ہو یا چھوڑنے سے ، ان کا علم حاصل کرنا چاہئے اور پھر ان پر عمل بجالاناچاہئے ، سب سے پہلے اپنے عقیدے ٹھیک کئے جائیں اور ضروری ضروری مسئلے سیکھے جائیں اور نئے مسئلے کی ضرورت پیش آئے تو کسی مستند عالم دین سے ان کا شرعی حکم معلوم کرلیا جائے ۔ یہ بات سمجھ لینے کی ہے کہ اصل مقصود اللہ تعالیٰ کی رضا کوطلب کرنا ہے، جس کے لئے تقویٰ حاصل ہوناشرط ہے ، اسی کے لئے سب جدوجہد ی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہونے کے لئے گناہوں سے بچنے کا اہتمام ، جو حقوق (والدین ، بیوی ،بچوں، رشتہ دار واقارب ، محلے داروں اور اجنبیوں جس جس کے بھی) اپنے ذمہ واجب ہیں ، ان کی ادائیگی ، معاملات میں دیانت وصداقت ، معاشرت میں سادگی اور پاکیزگی اور مزاج میں نرمی وخوش اخلاقی ضروری ہے ، بدعات ورسوم سے سختی کے ساتھ بچے ۔ شادی وغمی کے موقع پرہرقسم کی رسومات سے اپنے آپ کو بچائیں ۔ ان چیزوں کے اہتمام کے بغیر سلوک وتصوف اور اصلاح نفس کامقصد ہی حاصل نہیں ہوتا ، بلکہ حقیقی مقصد سے محرومی ہی رہتی ہے ، اس لئے اذکارووظائف اور اوراد ہی کو سب کچھ سمجھ کر فارغ نہ ہونا چاہئے ، بلکہ اپنی زندگی کامسلسل جائز لیتے رہنا چاہئے ، اصلاح نفس کی فکرکی فکر مرتے دم تک نہ چھوڑنی چاہئے ۔
۳:․․․آنکھ ، کان ، زبان کی سختی کے ساتھ احتیاط رکھئے ، یہی تین اعضا ساری عبادات اور گناہوں کے آلہٴ کار اور تمام باطنی اچھے وبرے اعمال واخلاق کے محرک ہیں ، اس لئے ان تینوں اعضا کی نگہداشت یعنی ان کے جائز وناجائز استعمال کاخیال نہایت اہم اور ضروری ہے ، جب بھی ان اعضاء سے کوئی غلطی ہوجائے فوراً توبہ کرنی چاہئے :
چشم بند وگوش بند و لب بہ بند
گر نہ بینی نور حق برمن بخند
یعنی گناہوں اور برائیوں سے اپنی آنکھ ، کان ، زبان تینوں چیزوں کو بند کرلیجئے ، اس کے بعد اگر آپ کو نورِحق نظر نہ آئے تو مجھ پر ہنسئے ۔
۴:․․․اگر نماز ، روزہ ، زکاة وغیرہ ذمہ میں باقی ہو تو اس کی ادائیگی کا اہتمام کیا جائے ، اسی طرح کسی کا مالی حق اپنے ذمہ ہو تو اسے ادا کیا جائے یا معاف کرایا جائے ۔
۵:․․․اپنے آپ کو دوسروں سے کم تر سمجھیں ، دوسروں کو اپنے مقابلہ میں حقیر نہ سمجھیں۔
۶:․․․باطنی اعمال میں جو اچھے اخلاق ہیں ، ان کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کیجئے اور جو برے اخلاق ہیں ، ان سے اپنے آپ کو بچا کر رکھئے ۔
۷:․․․ اللہ والوں نے چاراعمال ایسے بتلائے ہیں کہ جن پر عمل کرنے سے بہت سے برے اخلاق سے نجات مل جاتی ہے اور بہت سے اچھے اخلاق کی توفیق حاصل ہوتی ہے ، وہ چار اعمال یہ ہیں :
(۱)شکر(۲)صبر(۳) استغفار(۴) استعاذہ۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی نعمتوں پر شکر کیا کیجئے ، اور کوئی ناگوار واقعہ پیش آجائے تو اس پر صبر کیا کیجئے اور چلتے پھرتے استغفار کرتے رہا کیجئے اور اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتے رہا کیجئے ۔
۸:․․․ہر ہرکام میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع کرنی چاہئے ، کیونکہ سنت پر عمل کرنے کی برکت سے اللہ تعالیٰ کاقرب حاصل ہوتا ہے ، لہٰذا تمام عبادات وطاعات اور معاملات ومعاشرت اور رہن سہن ، اٹھنے بیٹھنے ، سونے جاگنے ، چلنے پھرنے ، کھانے پینے ، لباس وپوشاک ، وضع وقطع ہرچیز میں مؤکدہ وغیرمؤکدہ سنتوں کالحاظ کرناچاہئے ، خصوصاًان سنتوں کاجن کا تعلق عبادات سے ہو ، عادات سے نہ ہو اور سنن عادیہ کابھی ہوسکے تو حدود میں رہتے ہوئے اور کھانے پینے کا، سونے جاگنے ، بیت الخلاء آنے جانے ، گھریامسجدسے نکلنے اور داخل ہونے اور اسی طرح دوسرے کاموں کے متعلق جو مسنون دعائیں ہیں، ان کو زبانی یادکرلیناچاہئے اور ان کو اپنے اپنے موقع پر پڑھنے کی عادت ڈال لینی چاہئے ۔
۹:․․․حتی الامکان مرد حضرات کو نماز باجماعت کا اور خواتین کو بروقت نماز کی ادائیگی کااہتمام کرنا چاہئے ، شرعی عذر کے بغیر مرد حضرات کو مسجد کی جماعت کو نہیں چھوڑنا چاہئے اور مسجد کے آداب کا خیال رکھنا چاہئے ۔
۰۱:․․․جن نمازوں سے پہلے یا بعد میں سنتیں ہیں ، ان کو بھی ادا کرنا چاہئے ، مؤکدہ سنتوں کی ادائیگی تو اپنی جگہ ہے ، غیر مؤکدہ سنتوں کو بھی ہوسکے تو ادا کرنا چاہئے ، مثلاً عصر سے پہلے چار سنتیں ، عشاء سے پہلے چار سنتیں ، اس کے علاوہ اشراق ، چاشت اور بعد مغرب اوابین کا بھی اہتمام کرنا چاہئے ، نیز تہجد کی نفل نماز کم ازکم چاررکعت اور عام حالات میں بارہ رکعات کا معمول بنانا چاہئے اور ہوسکے تو تہجد رات کے آخری حصہ میں صبح صادق سے پہلے پہلے ادا کرنا چاہئے ، ورنہ عشاء کے بعد ہی وتر سے پہلے کچھ رکعتیں تہجد کی نیت سے پڑھ لیا کریں اور ارادہ وحوصلہ یہی رکھا کریں کہ رات کے آخر حصہ میں بھی پڑھنے کی کوشش کروں گا، رمضان المبارک میں تراویح کی نماز کا بھی اہتمام کرنا چاہئے ۔
۱۱:․․․ روزانہ فجر کی نماز کے بعد یا جب بھی سہولت ہو ایک وقت مقرر کرکے قرآن مجید کی تلاوت کا معمول بنانا چاہئے ، روزانہ ایک پارہ ، اگر یہ مشکل ہو تو آدھا پارہ اور اگر یہ بھی مشکل ہو تو ایک پاؤ پارہ ممکنہ حد تک تجوید سے اور دوسرے آداب کی رعایت کرتے ہوئے تلاوت کرنا چاہئے ، اگر کسی روز اتفاق سے یا کسی عذر کی وجہ سے تلاوت نہ ہوسکے تو دوسرے دن اس کی تلافی کی کوشش کرنی چاہئے ۔
۱۲:․․․ تلاوت کے علاوہ روزانہ حضرت حکیم الامت تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ کی ”مناجات مقبول“ سے ہر دن کے مطابق عربی میں ایک منزل ورنہ آدھی منزل پڑھنی چاہئے ، دعاؤں کے ساتھ ترجمہ پر بھی ساتھ ساتھ نظر رکھی جائے تو بہت اچھا ہے اور روزانہ نا سہی تو کبھی کبھی اردو میں منظوم مناجات مقبول کی منزل بھی پڑھ لینی چاہئے اور اگر ہوسکے تو مناجات مقبول میں ہی درج شدہ ”حزب البحر“پڑھنے کا بھی روزانہ معمول بنانا چاہئے ۔
۱۳:․․․فجرکے بعد سورہ یٰس ، ظہر کے بعد سورہٴ فتح ، عصر کے بعد سورہٴ نبأ، مغرب کے بعد سورہٴ واقعہ ، اور عشاء کے بعد سورہٴ ملک کی تلاوت کااہتمام کرنا چاہئے ۔
۱۴:․․․روزانہ ایک تسبیح ”سبحان اللّٰہ وبحمدہ سبحان اللّٰہ العظیم“۔
۱۵:․․․روزانہ ایک تسبیح استغفار کی ”أستغفراللّٰہ ربی من کل ذنب وأتوب إلیہ“۔
(۱۶)روزانہ ایک تسبیح ”سبحان اللّٰہ والحمدللّٰہ ولاإلٰہ إلااللّٰہ واللّٰہ أکبرولاحول ولاقوّة إلا باللّٰہ “۔
۱۷:․․․روزانہ ایک تسبیح درودشریف کی ، درودابراہیمی یا پھر یہ درود ”اللّٰہم صل علی سیدناو مولانامحمدن النبی الأمی وعلی اٰلہ وأصحابہ وسلم“۔
۱۸:․․․روزانہ دو سو مرتبہ” لاإلٰہ إلا اللّٰہ“ چارسو مرتبہ ”لاإلٰہ إلااللّٰہ“چھ سو مرتبہ ”أللّٰہ أللّٰہ“ سومرتبہ”أللّٰہ“نمبر۱۶ میں درج یہ کل ۱۳ تسبیحات ہیں ، لیکن دوازدہ تسبیحات یعنی ۱۲تسبیحات کے نام سے مشہور ہیں ، ان کا اصل وقت تو تہجد کی نماز کے بعد اور فجر کی نماز سے پہلے ہے ، اگر کسی کو اس وقت مشکل ہو تو فجر کے بعد ، ورنہ عشاء کے بعد۔
تنبیہ:
بعض محقق بزرگان دین نے کثرت نوافل اور تلاوت قرآن کو زیادہ اہمیت دی ہے ، جس میں کثرت ذکر بھی آجاتا ہے ،اس لئے کثرت نوافل اورتلاوت قرآن کو دیگر اذکار پرفوقیت حاصل ہے ، نیز اذکار و اوراد کے معمولات میں فرصت وہمت اور صحت کے لحاظ سے نیز اپنے مرشد کی ہدایت کی روشنی میں کمی بیشی کی جاسکتی ہے ، اگر کسی کی اتناذکر کرنے سے صحت متاثر ہوتی ہو یا دماغ پر بوجھ پڑتا ہو تو کمی کرنی چاہئے ، بعض اوقات ایک جگہ بیٹھ کر ذکر کرنے سے دماغ پر زیادہ زور اور دباؤ پڑتا ہے ، اگر ایسی صورت حال ہو تو بعض اذکار چلتے پھرتے پورے کرلئے جائیں ، معمولات نافلہ کے بارہ میں ایک بات یہ ہے کہ ان کا معمول شروع کرنے کے بعد ناغہ سے بے برکتی ہوتی ہے ، اس کا حل بعض بزرگوں نے یہ بیان فرمایا ہے ، اگر کبھی کسی وجہ سے معمول پورانہ ہوسکے تو کسی دوسرے وقت اختصاراًہی سہی اس کی تلافی کرلی جائے ، اس کی وجہ سے بے برکتی سے حفاظت رہتی ہے ، لیکن یہ بات ذہن نشین کرلینا رضا ہونی چاہئے ، جس قدر نیت صحیح اور قوی ہوگی ، اسی کے مطابق برکات وثمرات حاصل ہوں گے ، دینی مدارس کے طلباء زیادہ اذکار واوراد کرنے کے بجائے اپنے اسباق اور مطالعہ میں مشغولیت رکھیں اور تقویٰ و طہارت کااہتمام رکھیں ۔
۱۹:․․․وقت ضائع کرنے سے بچنے کابہت زیادہ خیال رکھیں ، فضول گفتگو سے پرہیز کریں ۔
۲۰:․․․ دینی کتابوں کو زیرمطالعہ رکھیں ، خواہ تھوڑا بہت کیوں نہ ہو ، روزانہ مطالعہ کا معمول بنانا چاہئے ، چند اہم اور مفید کتابیں یہ ہیں :بہشتی زیور ، اصلاحی نصاب ، حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے مواعظ وملفوظات ، شریعت وتصوف ، فضائل اعمال․․․ ( روزنامہ اسلام ،کراچی ، ۱۸/صفر۱۴۳۳ھ ، مطابق ۱۳/جنوری ۲۰۱۲ء )
حضرت مفتی محمدصاحب اپنے مضمون میں لکھتے ہیں :
” بالآخر ۴ اور ۵ صفر ۱۴۳۳ھ ، ۳۱دسمبر ویکم جنوری جمعہ وہفتہ کی درمیانی شب ساڑھے بارہ بجے عمر کے چھیانویں سال یہ ولی کامل اس دارِفانی سے رخصت ہوکر اپنے انعام واکرام والے رب کے پاس پہنچ گئے ،إنّ للّٰہ ماأخذ ولہ ماأعطیٰ وکل شیء عندہ بأجل مسمیٰ“ دوسرے دن ۱۲بجے کے قریب حضرت کی میت گھر کے برآمدے میں رکھی گئی ، جنازہ نمازِ ظہر کے متصل بعد دارالعلوم کراچی میں ہونا تھا ، حاضرین باری باری زیارت کرنے لگے ، بندہ بھی حاضر ہوا ، چہرے پر بلا کی معصومیت تھی ، عجیب نورانیت تھی ، سکون تھا ، چہرہ کھلا ہوا تھا ، بندہ ایک طرف ہوکر کھڑا ہوگیا ، حضرت کے صاحبزادے جناب شاہ رخ صاحب ، پوتے ، داماد غم سے نڈھال کھڑے تھے ، کچھ علماء وخدام بھی تھے ۔ مفتی اعظم پاکستان ، صدردارالعلوم کراچی حضرت مفتی محمدرفیع عثمانی صاحب دامت برکاتہم تشریف لائے ، فرمایا : دنیا کی مشقتوں سے نکل کر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں میں پہنچ گئے ، واقعی ایسا لگ رہا تھا کہ ۹۶ سال کا مسافر طویل سفر کے بعد بڑے اطمینان وسکون سے محو آرام ہے ۔نمازِظہر کے بعد دارالعلوم کراچی میں علماء ، طلبہ اور صلحاء کے جم غفیر نے نماز جنازہ اداء کی اور ہمارے حضرت والارحمہ اللہ اپنی آخری آرام گاہ پہنچ گئے ، جہاں سے کسی فرد بشر کو مفر نہیں اور جو ہر انسان کی آخری منزل ہے “۔
نواب صاحب  نے پس ماندگان میں اہلیہ محترمہ ، ایک صاحبزادہ اور ایک صاحبزادی چھوڑے ہیں ۔ادارہ بینات آپ کے پسماندگان سے دلی تعزیت کا اظہارکرتاہے اوردعاگو ہے کہ اللہ تعالی نواب صاحب کی بال بال مغفرت فرمائے اور آپ  کی حسنات کو قبول فرماکرآپ کو جنت الفردوس کا خلدنشین بنائے۔
اشاعت ۲۰١۲ ماہنامہ بینات , ربیع الاول ۱۴۳۳ھ - فروری۲۰١۲ء, جلد 75, شمارہ 3

    پچھلا مضمون: بارگاہِ نبوت سے بدعتی کی تذلیل
Flag Counter