Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الاول ۱۴۳۳ھ - فروری۲۰١۲ء

ہ رسالہ

5 - 9
والدین کی نافرمانی آخر کیوں؟
والدین کی نافرمانی آخر کیوں؟

مولانا رومی نے اپنی شہرہٴ آفاق کتاب مثنوی میں نقل کیا ہے کہ:
” دنیا میں ایک انسان کے لئے مال ودولت اتنا ہی ضروری ہے جتنا کشتی کے لئے پانی، جس طرح کشتی پانی کے بغیر نہیں چل سکتی، اسی طرح انسانی زندگی مال ودولت کے بغیر نہیں گزرسکتی“۔
آگے لکھتے ہیں:
”کشتی پانی پر اس وقت تک ہی چل سکتی ہے جب پانی کشتی کے نیچے اور کشتی پانی کے اوپر ہو، لیکن اگر پانی کشتی کے اندر آجائے تو ڈبو دیتا ہے، بالکل اسی طرح جب دنیا کی محبت قلبِ انسانی کے اندر آجاتی ہے تو اسے لے ڈوبتی ہے“۔
وہ دنیا کی محبت میں اندھا ہوکر حدودِ آدمیت سے تجاوز کر جاتا ہے، جرائم کا ارتکاب اس کی طبیعتِ ثانیہ بن جاتا ہے، وہ مال کے حصول کے لئے رشوت ، کرپشن جیسے قبیح افعال کو معیوب تصور نہیں کرتا، اقدار کی پائمالی، یتیموں اور بے سہارا افراد کے جذبات سے کھیلنا اس کا معمول بن جاتا ہے، اس میں اخوت وبھائی چارگی کے سارے جذبات ماند پڑ جاتے ہیں۔
. مال ودولت کے حصول کے لئے بعض اوقات والدین سے نفرت کی موجیں ٹھاٹھیں مارنے لگتی ہیں، ان کے حکم کی بجا آوری کی جگہ ان کی توہین معمول بن جاتی ہے، حتی کہ دولت کا یہ پجاری ایک نا ایک دن والدین کی زندگی کے چراغ کو اپنے ہاتھوں گل کرنے پرتل جاتا ہے،پھر ایک دن آتا ہے کہ وہ اپنے ہاتھ ان مقدس ہستیوں کے خون سے رنگین کر بیٹھتا ہے، اس طرح اس کی زندگی کے لہلہاتے گلستان کی بہاریں اپنے ہاتھوں اجڑنے لگتی ہیں اور وہ بے رحم مالی کی طرح اپنی خوشیوں کا اپنے ہاتھوں خون کر بیٹھتا ہے او رتاریخ کے دھارے پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اہل دنیا کے سامنے ذلت ورسوائی کے انجام سے دو چار ہوجاتا ہے۔
ہمارے پیغمبرا نے ارشاد فرمایا:
” دنیا کی محبت ہربرائی کی جڑ ہے“
اس کی وجہ سے آدمی ہرطرح کے جرم کا ارتکاب کرتا ہے۔ دنیا طلبی میں رشوت، کرپشن، ڈاکہ زنی، لوٹ کھسوٹ، قتل وغارت گری، ظلم وستم، جبر وتشدد، ستم گری اور چیرہ دستی جیسے قبیح افعال منظر عام پر آتے ہیں، اسی کی وجہ سے بھائی بھائی کے خون کا پیاسا ہوجا تا ہے، اولاد والدین کی دشمن بن کر اس کی جان لے لیتی ہے۔
ملک پاکستان میں بھی ایسے بے شماربد نصیب والدین ہیں جو اپنی اولاد کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہارجاتے ہیں اور اولاد دنیا کی محبت میں آکر انہیں اگرچہ راہ سے ہٹاکر اپنے مقاصد حاصل تو کر لیتی ہے، مگر حقیقت میں وہ اپنے لئے جہنم کا ٹکٹ خرید بیٹھتی ہے۔
اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ والدین کا حکم ماننا، ان کی خدمت کرنا، ان کی جائز ضروریات کو پورا کرنا جنت میں داخلے کا سبب، جبکہ ان کی نافرمانی، حکم عدولی، ان سے بے رخی جہنم میں ڈالے جانے کا سبب ہے۔
اسی طرح کا مضمون متعدد روایات میں وارد ہے، جن میں آپ ا نے والدین کو جنت یا جہنم قرار دیا، بلکہ شارع علیہ السلام نے حضرت ابن عباس کے سوال کے جواب میں والدین کی خدمت کو وقت پر نماز پڑھنے کے بعد دوسرا بڑا افضل عمل قرار دیا اور آپ ا نے تو بروایتِ ابی ہریرہ جہاد میں جانے کا شوق رکھنے والے صحابی کے لئے والدین کی خدمت کرنے ہی کو جہاد قراردیا۔
والدین کی نافرمانی بڑے گناہوں میں سے ایک اور ان کی اطاعت وفرمانبرداری بڑی نیکیوں میں سے ایک نیکی ہے۔
قرآن وحدیث میں جابجا اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کریں۔ پیغمبر اسلام ا نے ایک مرتبہ صحابہ کرام سے فرمایا:
” تم میں سے جو شخص یہ لمبی زندگی چاہتا ہے، اسے چاہئے کہ وہ اپنے والدین کی خدمت کرے“۔
آدمی پر سب سے زیادہ حق اس کے والدین کا ہے، اور ان میں بھی زیادہ حق ماں کا ہے، جس نے اس کے لئے ہرطرح کی مشقت برداشت کی، اس کی راحت کے لئے اپنی نیند کو قربان کیا، والدین اپنی اولاد کے لئے ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار رہتے ہیں۔
لیکن قیامت کی طرف بڑھنے والی یہ نسل آج والدین کے ادب واحترام کے لئے تیار نہیں، ان کے دست وبازو بننے کو تیار نہیں، ان کے سایہٴ عاطفت میں زندگی کے ایام کاٹنے کو تیار نہیں، ان کی معیت میں زندگی کا کوئی لمحہ گزرانے کو تیار نہیں، آخر کیوں؟ بحیثیت مسلمان ہم جس طرح اور مختلف جرائم کا سہرا کافرانہ نظام کے سر مڑھ کر اپنی جان بچا لیتے ہیں، اس طرح یہاں بھی یوں کہا جاسکتا ہے کہ ایسے لوگ جو والدین کے ساتھ حسنِ سلوک نہیں کرتے، وہ کسی لادین نظام کے علمبردار ہیں، اسلام کے دشمنوں کی نقالی کرتے ہیں، اسلامی نظام سے انحراف کررہے ہیں۔
لیکن یہ جواب ناکافی اس لئے ہے کہ میری معلومات کے مطابق دنیا کا کوئی مذہب والدین کی نفرت، قطع تعلقی اور بدسلوکی کا درس نہیں دیتا، ان کو یہ سبق کسی مذہب ومسلک نے نہیں سکھا رکھا کہ وہ والدین کے خون سے ہاتھ رنگین کرتے ہوئے اپنے آپ کو جہنم کا ایندھن بناڈالیں۔ دنیا کی کوئی متعصب، ہٹ دھرم جماعت بھی ایسے اقدامات کا حکم نہیں دے سکتی۔
تاہم بعض کافرانہ شخصی آزادی کے اصول و ضوابط ان جرائم کا سبب قرار دیئے جاسکتے ہیں جن کے تحت والدین کو وہ حیثیت نہیں دی جاتی جو گرل فرینڈ کو دی جاتی ہے، تاہم ان اصول ضوابط میں بھی والدین کے قتل جیسے گھناؤنے جرم کی ترغیب کہیں بھی نظر نہیں آتی۔
ہاں! اس کا صحیح جواب یہ ہے کہ یہ علاماتِ قیامت میں سے ایک علامت ہے، جسے میرے نبی ا نے یوں بیان کیا کہ:
” ایک زمانہ آئے گا اس میں لوگ اپنی بیویوں کے فرمانبردار ہوں گے اور والدین کے نافرمان ہوں گے“۔
ہمارا معاشرہ چونکہ قیامت کی جانب سرک رہا ہے، اس لئے ایسے واقعات آئے روز کیمرے کی آنکھ میں آرہے ہیں۔ بہرحال مسلم معاشرے کی بقاء والدین کی اطاعت میں ہے، مسلم اولاد پر لازم ہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا مظاہرہ کریں اور دنیا کی رنگینی سے مرعوب ہوکر اپنے لہلہاتے چمن کو اپنے ہاتھوں سے نہ اکھاڑیں۔
اشاعت ۲۰١۲ ماہنامہ بینات , ربیع الاول ۱۴۳۳ھ - فروری۲۰١۲ء, جلد 75, شمارہ 3

    پچھلا مضمون: مقیم ِ مکہ کے لئے منیٰ میں قصر نماز
Flag Counter