Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الاول ۱۴۳۳ھ - فروری۲۰١۲ء

ہ رسالہ

2 - 9
شمسی وقمری تاریخ کی شرعی حیثیت اور ابتداء
شمسی وقمری تاریخ کی شرعی حیثیت اور ابتداء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مندرجہ ذیل سوالات کے بارہ میں کہ:
۱…اسلامی وانگریزی تاریخ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا قرآن وحدیث وغیرہ سے اس کا ثبوت واشارہ ملتا ہے؟
۲…اسلامی تاریخ واقعہٴ ہجرت سے شمار کی جاتی ہے، اس کی ابتداء کب سے ہوئی اور کس نے شروع کی؟
۳…اسلامی تاریخ کا حساب چاند سے کیا جاتا ہے، اختلاف مطالع کی وجہ سے تاریخ کی تعیین میں لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، جبکہ کچھ لوگ بالخصوص علماء اسلامی تاریخ کو انگریزی تاریخ پر ترجیح دیتے ہیں، وجوہِ ترجیح کیا ہیں؟
۴…عیسوی وشمسی تاریخ کی ابتداء کب سے ہے اور کن واقعات پر اس کی بنیاد رکھی گئی ہے؟
مستفتی:محمد عابد قریشی، جہانگیر روڈ، کراچی
الجواب حامداً ومصلیاً
واضح رہے کہ اللہ جل شانہ نے اس کائنات کے نظام میں سورج اور چاند دونوں کو تاریخ معلوم کرنے اور حساب رکھنے کا ذریعہ بنایاہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”ہُوَالَّذِیْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیآءً وَّالْقَمَرَ نُوْراً وَّقَدَّرَہ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِیْنَ وَالْحِسَابَ“ (یونس:۵)< /div> ترجمہ:۔”وہ اللہ ایسا ہے جس نے آفتاب کو چمکتا ہوا بنایا اور چاند کو (بھی) نورانی بنایا اور اس (کی چال) کے لئے منزلیں مقرر کیں (کہ ہر روز ایک منزل قطع کرتا ہے) تاکہ (ان اجرام کے ذریعے) تم برسوں کی گنتی اور حساب معلوم کرلیا کرو“۔(معارف القرآن)
البتہ چاند کے ذریعے مہینہ اور تاریخ کا حساب آسان ہے، جبکہ سورج کے حسابات کے لئے ریاضی کا علم ہونا ضروری ہے اور یہ عام آدمی کے لئے مشکل ہے۔
چنانچہ حدیث شریف میں ہے:
”عن ابن عمر قال: قال رسول الله ا : إنا أمة أمیة لانکتب ولانحسب ، الشہر ہکذا وہکذا وہکذا، وعقد الابہام فی الثالثة ، ثم قال: ألشہر ہکذا وہکذا وہکذا ، یعنی تمام الثلاثین ، یعنی مرةً تسعاً وعشرین ومرةً ثلٰثین ۔متفق علیہ“۔ (مشکوٰة المصابیح ص:۱۷۴)
ترجمہ:۔”نبی اکرم ا نے فرمایا: ہم (اہل عرب) امی قوم ہیں کہ حساب کتاب نہیں جانتے۔ مہینہ اتنا اور اتنا اور اتنا ہوتا ہے (لفظ ”اتنا“ تین مرتبہ کہتے ہوئے آپ ا نے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں دو مرتبہ بند کیں اور پھر کھول دیں) اور تیسری مرتبہ میں (ہاتھوں کی) انگلیاں بند کرکے پھر نو انگلیاں تو کھول دیں اور) انگوٹھا بند کئے رکھا اور پھر فرمایا: مہینہ اتنا اور اتنا اور اتنا یعنی پورے تیس دن کا ہوتا ہے، آپ ا کا مطلب یہ تھا کہ کبھی تو مہینہ انتیس دن کا ہوتا ہے اور کبھی تیس دن کا ہوتا ہے“۔ (مظاہر حق ج:۲، ص:۳۰۵)
اور دونوں کے حسابوں میں فرق بھی ہے، جیساکہ سورہٴ کہف میں ارشاد ربانی ہے:
”وَلَبِثُوْا فِیْ کَہْفِہِمْ ثَلٰثَ مِائَةٍ سِنِیْنَ وَازْدَادُوْا تِسْعاً، قُلِ اللهُ أَعْلَمُ بِمَا لَبِثُوْا“۔ (کہف:۳۵)
ترجمہ:۔”اور وہ لوگ اپنے غار میں (حالت خواب میں) تین سو برس تک رہے اور نو سال اوپر رہے، آپ کہہ دیجئے! کہ خدا تعالیٰ ان کے رہنے (کی مدت) کو زیادہ جانتا ہے“۔ (بیان القرآن)
قاضی ثناء اللہ پانی پتی فرماتے ہیں:
”وقال البغوی: روی عن علی أنہ قال: عند اہل ألکتاب أنہم لبثوا ثلاث مائة سنة شمسیة والله تعالیٰ ذکر ثلاث مائة قمریة ، والتفاوت بین الشمسیة والقمریة فی کل مائة سنة ثلاث سنین فیکون فی ثلاثمائة تسع سنین فلذلک قال:” وَازْدَادُوْا تِسْعاً“۔ (تفسیر مظہری ج:۶،ص:۲۸)
چنانچہ انگریزی تاریخ کا حساب رکھنا اور اپنے دنیاوی معاملات اس کے مطابق انجام دینا جائز ہے، بشرطیکہ فرض کفایہ کے درجے میں امت میں اسلامی قمری تاریخ رائج ہو اور رمضان، حج وغیرہ عبادات کا وقت معلوم ہوسکے، ایسا نہ ہو کہ آدمی کو جنوری ، فروری وغیرہ کے سوا کوئی مہینے ہی معلوم نہ ہوں۔ فقہاء کرام نے قمری حساب باقی رکھنے کو مسلمانوں کے ذمہ فرض کفایہ قرار دیا ہے اور یہ حساب سنتِ رسول ا ، سنتِ انبیاء علیہم السلام اور خلفاء راشدین کی سنت ہونے کی وجہ سے باعثِ خیر وبرکت ہے۔ (ملخص از معارف القرآن ج:۴،ص:۵۰۶)
سن ہجری کاباقاعدہ آغاز حضرت عمر  کے دور میں ۱۷ ہجری میں ہوا اور اس کا باعث یہ ہوا کہ یمن کے گورنر حضرت ابو موسیٰ اشعری نے امیر المؤمنین حضرت عمر  کو لکھا کہ آپ کے فرامین ہمارے پاس پہنچتے ہیں، لیکن ان پر تاریخ درج نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ہمیں پتہ نہیں چلتا کہ کون سا فرمان پہلے کا ہے اور کون سا بعد میں جاری ہوا تو اس موقع پر امیر المؤمنین حضرت عمر نے حضرات صحابہ کرام کے مشورہ سے اسلامی کیلنڈر کا باقاعدہ آغاز فرمایا:
بخاری شریف میں ہے:
”عن سہل بن سعد قال: ماعدوا من مبعث النبی ا ولامن وفاتہ، ماعدوا إلا من مقدمہ المدینة“۔ (صحیح البخاری ج:۱،باب التاریخ)
علامہ ابن حجر  فرماتے ہیں:
”وذکروا فی سبب عمل عمر التاریخ أشیاء، منہا ما أخرجہ أبو نعیم… من طریق الشعبی: أن أبا موسیٰ کتب إلی عمر: إنہ یأتینا منک کتب لیس لہا تاریخ، فجمع عمر الناس، فقال بعضہم: أرخ بالمبعث وبعضہم أرخ بالہجرة فقال عمر: الہجرة فرَّقت بین الحق والباطل ، فأرخوا بہا، وذلک سنة سبع عشرة، فلما اتفقوا قال بعضہم: ابدء وا برمضان ، فقال عمر: بل بالمحرَّم ، فإنہ منصرف الناس من حجہم ، فاتفقوا علیہ“۔ (فتح الباری شرح البخاری ج:۹، ص:۳۴۲، بیروت)
اسلامی قمری تاریخ مسلمانوں کا شعار ہے اور چونکہ اس کی بنیاد چاند پر ہے اور اس کا حساب کتاب نہایت آسان ہے اور عبادات مثلاً حج، رمضان اور عید وغیرہ کا حساب رکھنے میں بھی آسانی اور سہولت ہوتی ہے، نیز یہ کہ امیر المؤمنین حضرت عمر اور حضرات صحابہ کرام نے اس کو اختیار کیا ہے، اس لئے تمام مسلمانوں کے نزدیک اسلامی تاریخ دوسری تاریخوں سے راجح ہے۔
پہلی اقوام میں مصریوں نے شمسی حسابات پر اپنی تقویم کی بنیاد رکھی، اس میں قمری مہینوں کے بجائے نئے مہینوں کا تعین کیا جاتاہے اور یہ خیال رکھا جاتا ہے کہ مہینوں سے موسموں کی مکمل نشاندہی ہو، اس سے متأثر ہوکر رومی بادشاہ جولیس نے شمسی کیلنڈر کو اپنایا۔اس وقت رومی کیلنڈر کا برا حال تھا، کسی وقت میں یہ بالکل ایک قمری کیلنڈر تھا اور اس میں دس مہینے تھے اور اس کی ابتداء مارچ سے ہوتی تھی ، بعد ازاں اس میں دو مہینے اور شامل کئے گئے اور اس کی ابتداء مارچ کے بجائے جنوری سے کی گئی، نیز دن کی ابتداء مغرب کے بجائے رات کے نصف سے ہونے لگی، غالباًیہ پہلی باقاعدہ کوشش تھی کہ مہینوں میں موسموں کا خیال رکھا جائے۔ جولیس نے مصریوں سے متأثر ہوکر اس کیلنڈر کو بالکل ایک شمسی کیلنڈربناکر اس کا ناطہ چاند سے بالکل توڑ دیا، اس نے مہینوں کی تعداد بارہ رہنے دی اور ان میں دنوں کی تعداد ایسی رکھی کہ سب کا مجموعہ ۳۶۵ یا ۳۶۶ بنے، اس میں ایک دن کا فرق لیپ کے سال کے لئے ہے۔ جولیس نے ساتویں مہینے کو اپنے نام سے موسوم کرکے جولائی بنادیا، اس کے بعد آنے والے بادشاہ نے آٹھویں مہینے کو اپنے نام سے منسوب کرکے اگست بنادیا… عام لوگ اس کو عیسائی کیلنڈر سمجھتے ہیں، اگرچہ عیسائی بھی اس کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن اس کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، یہ رومی کیلنڈر تھا… نہ تو ا س کی ابتداء کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کوئی تعلق ہے اور نہ ہی اس کے مہینوں سے اس کا کچھ اظہار ہوتا ہے۔ (انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا، بحوالہ فہم الفلکیات)
الجواب صحیح الجواب صحیح کتبہ

محمد عبد المجید دین پوری محمد انعام الحق قیصر مشتاق

تخصص فقہ اسلامی
جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی
اشاعت ۲۰١۲ ماہنامہ بینات , ربیع الاول ۱۴۳۳ھ - فروری۲۰١۲ء, جلد 75, شمارہ 3

    پچھلا مضمون: اسلامی جمہوریہ پاکستان اور شراب کی برآمد
Flag Counter