پڑے گی، اسی طرح خرچ دیدیا گیااور پھر دے کر لکھنا بھول گئے تو حساب میں گڑبڑی رہے گی۔
آج کا کام کل پر نہ ٹال
اسی طرح حضرت کو Pendingکا لفظ بالکل پسند نہیں تھا، ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے کوئی کام ملتوی کرنا پسند نہیں، ہر کام اس کے وقت پر کرلیا کرو، چاہے وہ روزانہ کا حساب ہو، یا لڈجر کا، ہر دن اس دن کا کام مکمل کرلیا کرو۔
خود حضرت کا اپنا عمل بھی یہی تھا کہ آپ اپنے ذمہ کوئی کام باقی نہ رکھتے تھے ، آپ کے وفات سے چند دنوں پہلے جب آپ آخری مرتبہ دفتر اہتمام تشریف لائے تو اس دن بھی آپ نے اپنے متعلق پورے کام اختتام کو پہنچائے ،آپ نے بخاری شریف کا درس پڑھایا ، فتاویٰ کا کام مکمل کیا، مجھے بلا کر حساب لانے کا حکم دیا ، حساب کا حسب معمول پوری طرح اندراج فرمایا، اور پھر یہ بھی کہ مدرسے کی ہنڈی جس کو عموماً کئی کئی ماہ میں ایک بار کھولا جاتا ہے ، اور گذشتہ دو ماہ پہلے ہی کھلواچکے تھے ، اسے پھر کھولنے کا حکم دیا اور اس میں موجودہ رقم کا بھی اندراج فرمایا۔ یہ ۳۱ اگست ۲۰۱۷ ء کا دن تھا ، اساتذہ کو بلانے کا حکم دیا، اساتذہ تشریف لائے تو آپ نے تنخواہ عطا فرمائی ، پھر پورے کاموں کی تکمیل کے بعد مجھ سے پوچھا’’ سب ہوگیا کیا بابا؟‘‘ میں نے کہا ، جی حضرت، تو فرمایا ’’ سب ٹھیک ہے ‘‘۔ پھر آپ دفتر اہتمام سے گھر تشریف لے گئے ، یہی ہم سب اساتذہ کی حضرت سے آخری ملاقات ثابت ہوئی۔ الغرض آپ نے اپنے ذمہ کا تمام کام وقتِ موعود آنے سے پہلے نمٹالیا تھا۔
نقل حساب میں احتیاط
میں ایک مرتبہ دفتر میں داخل ہوا تو فرمانے لگے کہ کسی مدرسے میں اس طرح دو دو جگہ حساب نہیں لکھا جاتا، عزیزم الحمد للہ ہمارے مدرسے کا یہ نظام ہے ۔ قارئین کے علم میں یہ بات ضرور ہوگی ، اگر نہیں ہے تو یہ ضرور جاننا چاہئے کہ مادرِ علمی دارالعلوم سبیل الرشادمیں منشی کے پاس تو حساب کا دفتر ہوتا ہی ہے ، جس میں مکمل آمد وخرچ لکھا جاتا ہے ، اس کے ساتھ ساتھ حضرت مہتمم صاحب بھی ہر آمد اور ہر خرچ اپنی خود کی ڈائری میں بھی لکھتے تھے، اور اس کا حساب اپنے پاس رکھتے تھے، ہر دن منشی کا حساب اور اپنے حساب کا موازنہ بھی ضرور کرتے تھے کہ دونوں برابرہیں یا نہیں۔ حساب کا موازنہ ہر دن ہوتا تھا ، اگر حضرت کے اسفار کے سبب یا کسی اور وجہ سے کسی دن حساب نہ ہوپاتا تو سفر سے آتے ہی یا پھر کام سے فارغ ہوتے ہی حساب لانے کا حکم فرمادیتے تھے۔ جب تک حساب نہیں ہوجاتا ، اور اس کا موازنہ نہیں ہوجاتا ، حضرت نور اللہ مرقدہ کو اطمینان نہیں ہوتا تھا۔
ویسٹ انڈیز سے چند مہمان حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ حضرت اس دور