Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی شوال المکرم ۱۴۳۱ھ - اکتوبر ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

5 - 9
۱۸۵۷ء کا انقلاب حریت اور علماء اسلام
۱۸۵۷ء کا انقلاب حریت اور علماء اسلام

قسط(۱)
”خلقت خدا کی‘ ملک بادشاہ کا‘ حکم سرکار کمپنی بہادر کا“
یہ سیاسی تبدیلیاں ہندوستانیوں کے لئے یقینا خلاف توقع تھیں‘ جس ملک پر اب تک انہوں نے تقریباً تین سوسال سے خاندان تیمور کو حکومت کرتے دیکھا تھا‘ اور پورے ہندوستان میں اس خاندان کے زندہ وتابندہ نقوش پھیلے ہوئے تھے‘ اور ملک کی تعمیر وترقی میں اس خاندان نے اہم رول ادا کیا تھا‘ ہر شخص اس کا ممنون کرم اور دل سے ان کی خدمت کا قدرداں تھا‘ آج اس ملک پر ایک بدیسی قوم حکومت کررہی تھی‘ جس کے پاس نہ کوئی ضابطہ ٴ اخلاق تھا اور نہ کوئی تہذیبی نظام‘ اس کے پاس دماغ تو تھا مگر دل کی طاقت اور روح کی بالیدگی سے محروم تھی‘ جو رنگ ونسل اور زبان کسی لحاظ سے ہندوستانی اقوام سے میل نہیں کھاتی تھی۔
دوسری طرف انگریزوں کی آمد سے ملک جس افراتفری کا شکار ہوگیا تھا‘ اس کی کوئی مثال ہندوستان کی پچھلی تاریخ میں نہیں ملتی۔ ملی‘ تہذیبی‘ تمدنی‘ اقتصادی اور اخلاقی تمام قدریں متزلزل ہوکر رہ گئیں‘ ۱۸۵۷ء کا عہد اس زوال پذیر دور کا نقطہ ٴ عروج تھا۔
معاشی بدحالی
اس دور کے حالات کے ذاتی مشاہد‘ انگریزوں کے وفادار‘ مگرملک وملت کے غمگسار سرسید احمد مرحوم کی شہادت شاید اس سلسلے میں سب سے زیادہ معتبر مانی جائے‘ وہ اپنی مشہور کتاب ”اسبابِ بغاوت ہند“میں اقتصادی تبدیلیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”میں نہیں بیان کرسکتا کہ ہندوستانیوں کو کس قدر ناراضگی اور دلی رنج اور ہماری گورنمنٹ کی بدخواہی اور نیز کتنی مصیبت اور تنگیٴ معاش اس سبب سے ان کو تھی کہ بہت سی معافیات صدہا سال سے چلی آتی تھیں‘ جو ادنیٰ ادنیٰ حیلہ پر ضبط ہوگئیں‘ ہندوستانی خیال کرتے تھے کہ سرکار نے خود تو ہماری پرورش نہیں کی‘ بلکہ جو جاگیر ہم کو اور ہمارے بزرگوں کو ان کے بادشاہوں نے دی تھی وہ بھی گورنمنٹ نے چھین لی‘ پھر ہم کو اور کیا توقع گورنمنٹ سے ہے“۔ (اسباب بغاوت ہند:۲۶) ”ابتداء عملداری سے آج تک شاید کوئی گاؤں ایسا ہوگا جس میں تھوڑا بہت انتقال (رد وبدل) نہ ہوا‘ ابتداء میں ان نیلاموں نے ایسی بے ترتیبی سے کثرت پکڑی کہ تمام ملک الٹ پلٹ ہوگیا“۔ (حوالہ بالا:۲۸)
”اہل حرفہ کا روزگار بسبب جاری اور رائج ہونے ایشاء تجارت ولایت کے بالکل جاتا رہا‘ یہاں تک کہ ہندوستان میں کوئی سوئی بنانے والا اور دیاسلائی بنانے والے کو بھی نہیں پوچھتا تھا‘ پارچہ بافوں کا تارتو بالکل ٹوٹ گیا تھا“۔ (حوالہ بالا:۳۶)
حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب دیوبندی اپنی مشہور کتاب ”علماء ہند کا شاندار ماضی“ میں رقم طراز ہیں:
”پس یہ حقیقت ہے کہ ۱۸۵۷ء کا یہ خونیں حادثہ ․․․ مٹی ہوئی جاگیر شاہی کی انگڑائی نہیں بلکہ ایک قوم کی بڑھتی ہوئی جاگیر شاہی کے مقابلے میں دوسری قوم کی حرکت مذبوحا نہ تھی“۔
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
یہ بحث طویل ہے‘ اس کا ہرایک گوشہ ایک داستان رکھتا ہے‘ تنخواہوں کا تفاوت‘ مال گزاری کا اضافہ‘ وصولی مال گزاری کے لئے جائدادوں کا نیلام‘ نیلام کے دل آزار توہین آمیز طریقے‘ سود اور سود در سود کا رواج وغیرہ‘ غرض ہرایک باب داستانِ الم ہے“۔ (علماء ہند شاندار ماضی:۴/۲۷)
سرسید مرحوم نہایت جوش سے لکھتے ہیں:
”غرض کہ ملک ہر طرح سے مفلس ہوگیا تھا‘ ان کے خاندان جن کو ہزاروں کا مقصدور تھا‘ معاش سے بھی تنگ آگئے تھے“۔ (اسباب بغاوت ہند:۳۶)
شیخ محمد اکرام نے ڈاکٹر ہنٹر کی کتاب ”آور انڈین مسلمانز“ کے حوالے سے لکھا ہے:
”اگر کوئی سیاست داں دارالعلوم میں سنسنی پیدا کرنا چاہے تو اس کے لئے کافی ہے کہ وہ بنگال کے مسلمان خاندانوں کے سچے سچے حالات بیان کردے‘ یہی لوگ کسی زمانے میں محلوں میں رہتے تھے‘ گھوڑے گاڑیاں نوکر چاکر موجود تھے‘ اب یہ حالت ہے کہ ان کے گھروں میں جوان بیٹے‘ پوتے اور پوتیاں اور بھتیجے اور بھتیجیاں بھرے پڑے ہیں اور ان بھوکوں کے لئے ان میں سے کسی ایک کو زندگی میں کچھ کرنے کا موقع نہیں‘ وہ منہدم اور حرمت شدہ مکانوں اور خستہ برآمدوں میں قابل رحم زندگی کے دن کاٹ رہے ہیں اور روز بروز قرض کی دلدل میں زیادہ دھنستے جاتے ہیں حتی کہ کوئی ہمسایہ ہند وقرض خواہ ان پر نالش کرتا ہے اور مکان اور زمینیں جو باقی تھیں ان کے قبضے سے نکل جاتی ہیں اور یہ قدیمی مسلمان خاندان ہمیشہ کے لئے ختم ہوجاتا ہے“۔ (موج کوثر:۷۵)
عدل اور انصاف کی صورت حال
عدل وانصاف کی صورت حال کے بارے میں سرسید لکھتے ہیں:
”اور پھر اس پر اضافہ یہ ہوا کہ باوجود ہندوستانیوں کی مفلسی کے عدالت کی چارہ جوئی پر اسٹامپ لگادیا گیا جو ناقابل برداشت تھا“۔ (موج کوثر:۷۵)
تعصبات ‘ تنگ نظری اور ناانصافی کے احوال ڈاکٹر ہنٹر کی زبانی سنئے:
”مسلمانوں کی بدقسمتی کا صحیح نقشہ ان محکموں میں دیکھا جاسکتا ہے‘ جن میں ملازمتوں کی تقسیم پر لوگوں کی اتنی نظر نہیں ہوتی‘ ۱۸۶۹ء میں ان محکموں کا یہ حا ل تھا کہ اسٹنٹ انجینئروں کے تین درجنوں میں چودہ ہندو اور مسلمان صفر‘ امیدواروں میں چار ہندو دوانگریز اور مسلمان صفر‘ سب انجینئروں اور سپروائزروں میں چوبیس ہندو اور ایک مسلمان‘ اوورسیروں میں تریسٹھ ہندو اور دو مسلمان‘ اکاؤنٹس ڈپارٹمنٹ میں پچاس ہندو اور مسلمان معدوم وغیرہ“۔ سرکاری ملازمتوں کے علاوہ ہائی کورٹ کے وکیلوں کی فہرست بڑی عبرت آموز تھی‘ ایک زمانہ تھا کہ یہ پیشہ بالکل مسلمانوں کے ہاتھ میں تھا‘ اس کے بعد بھی ۱۸۵۱ء تک مسلمانوں کی حالت اچھی رہی اور مسلمان وکلاء کی تعداد ہندوؤں اور انگریزوں کی مجموعی تعداد سے کم نہ تھی‘ لیکن ۱۸۵۱ء سے تبدیلی شروع ہوئی‘ اب نئی طرز کے آدمی آنے شروع ہوئے اور امتحانات کا طریقہ بھی بدل دیا گیا‘ ۱۸۵۲ء سے ۱۸۶۸ء تک جن ہندوستانیوں کو وکالت کے لائسنس ملے ان میں ۲۳۹ ہندو تھے اور ایک مسلمان۔
انہوں نے کلکتہ کے ایک اخبار کی شکایت نقل کی کہ: اب یہ حالت ہے کہ حکومت سرکاری گزٹ میں مسلمانوں کو سرکاری ملازمتوں سے علیحدہ رکھنے کا کھلم کھلا اعلان کرتی ہے‘ چند دن ہوئے کمشنر صاحب نے تصریح کردی کہ یہ ملازمتیں ہندوؤں کے سوا کسی کو نہ ملیں گی“۔ (موج کوثر:۷۶)
سماجی حیثیت کی پامالی
مسلمانوں کی عزت وشرافت کا حال کتنا ابتر تھا‘ اس کے بارے میں سرسید لکھتے ہیں:
”کیا ہماری گورنمنٹ کو نہیں معلوم ہے کہ بڑے سے بڑا ذی عزت ہندوستانی حکام سے لرزاں اور بے عزتی کے خوف سے ترساں نہ تھا اور کیا یہ بات چھپی ہوئی ہے کہ ایک اشراف اہل کار صاحب کے سامنے مثل پڑھ رہا ہے اور ہاتھ جوڑ جوڑ کر باتیں کررہا ہے اور صاحب کی بدمزاجی اور سخت کلامی بلکہ دشنام دہی سے دل میں روتا ہے اور کہتا ہے کہ ہائے افسوس روٹی اور کہیں نہیں ملتی‘ اس نوکری سے تو گھانس کھودنی بہتر ہے۔
بلاشبہ تمام رعایا ہندوستان کی اس بات کی شاکی ہے کہ ہماری گورنمنٹ نے ان کو نہایت بے قدر اور بے وقار کردیا ہے‘ ہندوستان کے اشراف آدمی کی ایک چھوٹے سے یورپین کے سامنے ایسی بھی قدر نہیں ہے‘ جیسی ایک چھوٹے یورپین کی“۔ (اسباب بغاوت ہند:۴۲)
مذہبی وتہذیبی اقدار کو خطرہ
سب سے بڑا خطرہ مذہبی اور ملی تشخصات اور تہذیبی اقدار اور روایات کو تھا‘ سرسید اس وقت کے عام احساسات کے بارے میں رقم طراز ہیں:
”کچھ شبہ نہیں کہ تمام لوگ جاہل وقابل‘ اعلیٰ اور ادنیٰ یقین جانتے تھے کہ ہماری گورنمنٹ کا دلی ارادہ ہے کہ مذہب اور رسم ورواج میں مداخلت کرے اور سب کو: کیا ہندو کیا مسلمان‘ عیسائی مذہب اور اپنے ملک کے رسم ورواج پر لا ڈالے․․․ سب کو یقین تھا کہ ہماری گورنمنٹ اعلانیہ جبر مذہب بدلنے پر نہیں کرے گی‘ بلکہ خفیہ تدبیریں کرکے مثل نابود کردینے علم عربی وسنسکرت کے اور مفلس ومحتاج کردینے ملک کے اور لوگوں کو جوان کا مذہب ہے‘ اس کے مسائل سے ناواقف کرکے اور اپنے دین ومذہب کی کتابیں اور مسائل اور وعظ کو پھیلا کرنوکریوں کا لالچ دے‘ لوگوں کو بے دین کردیں گے․․ ہندوستان میں وعظ اور کتھا کا دستور یہ ہے کہ اپنے اپنے معبد یا مکان پر بیٹھ کر کہتے ہیں‘ جس کادل چاہے اور جس کو رغبت ہو وہاں جاکر سنے‘ پادری صاحبوں کا طریقہ اس کے برخلاف تھا‘ وہ خود غیر مذہب کے مجمع یا تیرتھ اور میلہ میں جاکر وعظ کہتے تھے اور کوئی شخص حکام وغیرہ کے ڈر سے مانع نہ ہوتا تھا‘ بعض ضلعوں میں یہ رواج نکلا کہ پادری صاحب کے ساتھ تھا نہ کا چپراسی جانے لگا‘ پادری صاحب وعظ میں صرف انجیل مقدس ہی کے بیان پر اکتفاء نہیں کرتے تھے‘ بلکہ غیر مذہب کے مقدس لوگوں کو اور مقدس مقاموں کو بہت برائی اور ہتک سے یاد کرتے تھے‘ جس سے سننے والوں کو نہایت رنج او ردلی تکلیف پہنچتی تھی․․․ دیہاتی مکتبوں کے مقرر ہونے سے سب یقین سمجھتے تھے کہ صرف عیسائی بنانے کو یہ مکتب جاری ہوئے ہیں․․․ جس گاؤں میں پرگنہ وزیر یا ڈپٹی انسپکٹر پہنچا اور گنواروں میں چرچا ہوا کہ ”کالاپادری“ آیا‘ عوام الناس یوں خیال کرتے تھے کہ یہ عیسائی مکتب ہیں اور کرسٹان بنانے کو بٹھاتے ہیں۔
یہ سب خرابیاں لوگوں کے دلوں میں پیدا ہورہی تھیں کہ دفعتاً ۱۸۵۵ء میں پادری اے ایڈمنڈ نے دار الامارت کلکتہ سے عموماً اور خصوصاً سرکاری معزز نوکروں کے پاس چٹھیاں بھیجیں‘ جن کا مطلب یہ تھا کہ:
اب تمام ہندوستان میں ایک عملداری ہوگئی‘ تاربرقی سے سب جگہ کی خبر ایک ہوگئی‘ ریلوے سڑک سے سب جگہ کی آمد ورفت ایک ہوگئی‘ مذہب بھی ایک چاہئے‘ اس لئے مناسب ہے کہ تم لوگ بھی عیسائی ایک مذہب ہوجاؤ۔
میں سچ کہتا ہوں کہ ان چٹھیات کے آنے کے بعد خوف کے مارے سب کی آنکھوں میں اندھیرا آگیا‘ پاؤں تلے کی مٹی نکل گئی‘ سب کو یقین ہوگیا کہ ہندوستانی جس وقت کے منتظر تھے وہ وقت اب آگیا اب جتنے سرکاری نوکر ہیں اول ان کو کرسٹان ہونا پڑے گا اور پھر تمام رعیت کو‘ سب لوگ بیشک سمجھتے تھے کہ یہ چٹھیاں گورنمنٹ کے حکم سے آئی ہیں۔ (اسباب بغاوت ہند:۱۷-۲۳)
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , شوال المکرم:۱۴۳۱ھ - اکتوبر: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 10

    پچھلا مضمون: اسلام سے انحراف کا اختیار؟
Flag Counter