Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی شوال المکرم ۱۴۳۱ھ - اکتوبر ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

2 - 9
علامہ سید محمد انور شاہ کشمیری اکابر کی نظر میں
علامہ سید محمد انور شاہ کشمیری اکابر کی نظر میں

آج کا انسان ظاہری اور مادی لحاظ سے بہت آگے جاچکا ہے، کبھی وہ غاروں اور جھونپڑوں میں زندگی بسر کرتا تھا، آج فلک بوس محلات میں رہتا ہے، کبھی درختوں کے پتوں سے اپنا پیٹ بھرتا تھا، آج انواع و اقسام کے لذیذ کھانوں سے لطف اندوز ہو رہا ہے، ایک وقت تھا کہ اسے تن ڈھانپنے کے لئے ٹاٹ تک میسر نہ تھا اور آج نہایت بیش بہا، آنکھوں کو خیرہ کردینے والے لباس سے آراستہ ہے، کبھی وہ ٹانگوں پر چل کر اور پہیہ کے وجود میں آجانے کے بعد بیل گاڑی پر بیٹھ کر سفر کی منزلیں طے کرتا تھا، آج سمندر کی لہروں اور ہوا کے کندھوں پر سوار ہے، ایک طرف مادی ترقی کی یہ برق رفتاری اور دوسری طرف روحانی سفر کے سلسلہ میں اس قدر سست روی، بلکہ درماندگی اور شکستگی! کہ تن کی دنیا آباد ہو رہی ہے، مگر من کی دنیا اُجڑ رہی ہے، ایک شور برپا ہے کہ انسان ترقی کی منازل طے کر رہا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ راہیٴ پشت بمنزل کی طرح، اس کا ہر اُٹھنے والا قدم اُسے دور سے دور تر لے جارہا ہے، خدا فراموش انسان نہ آگے کو دیکھتا ہے، حالانکہ: ”ارتَحَلَتِ الدُّنیا مدبرةً والاٰخرة مُقْبِلَةً۔“ نہ پیچھے نگاہ دوڑاتا ہے، بلکہ مڑکر دیکھتا بھی نہیں کہ زندگی کتنی اور کیونکر گزر گئی ہے، حالانکہ: ”الیومَ عَمَلٌ ولا حسابَ وغداً حسابٌ ولا عَمَلَ۔“ آج کی مادہ پرست (Materialist) دنیا کسی مُلَّا مولوی کی بات نہیں سننا پسند کرتی تو اکبر الٰہ آبادی مرحوم کے ہی دو لفظ سن لے، اسے طنزِ لطیف کہہ کر اڑا نہ دے، ذرا سوچے کیا پتے کی بات کہہ گئے ہیں:
بھولتا جاتا ہے، یورپ، آسمانی باپ کو
بس خدا سمجھا ہے وہ، برق کو اور بھاپ کو
اور ہاں دکھ بھرا فرمان، حکیم مشرق کا بھی سن لے، یہ کسی عربی مدرسے کے فارغ التحصیل کا قول نہیں ہے، میونخ (جرمنی) سے پی․ ایچ․ ڈی․ کی ڈگری پانے والا کہہ رہا ہے:
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے، لب پہ آسکتا نہیں
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی
میں اپنے مدعا سے دور نکل گیا، لیکن کیا کروں:
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت
درد سے بھر نہ آئے کیوں؟
کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دل کا درد، الفاظ کا لبادہ اوڑھ لیتا ہے، بات اس لئے طویل ہوگئی کہ آج کے نوجوانوں کے سامنے اگر روحانی دنیا (Spiritualism) کے وڈیروں کا تذکرہ ہم گنہگاروں کی زبان و قلم پر آجائے تو دنیائے دوں کا فریب خوردہ انسان یوں نہ گزر جائے: ”کَاَنْ لَّمْ یَسْمَعْھَا کَاَنَّ فِیْ اُذُنَیْہِ وَقْرًا۔“ چند لمحات رُک کر ہماری بھی سن لے۔نبی صادق المصدوق صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
”مَثَلُ اُمَّتِیْ کَمَثَلِ الْمَطَرِ لَا یُدْرٰی اَوَّلُہ خَیْرٌ اَمْ اٰخِرُہ۔“(مشکوٰة شریف ص:۵۸۳)
ترجمہ:…”میری امت کی مثال بارش کی مانند ہے کہ کچھ معلوم نہیں، اس کا پہلا حصہ بہتر ہے یا آخری۔“
اس فرمان گرامی کے مطابق ہر دور میں علمائے حق اور بزرگانِ دین پیدا ہوتے رہے اور ہوتے رہیں گے۔
چودھویں صدی ہجری میں یہ اعزاز برصغیر پاک و ہند کو حاصل ہوا کہ ولی اللّٰہی خاندان کے فیوض و برکات کے نتیجہ ․․․اور ․․․ سید الطائفہ حضرت الحاج امداد اللہ مہاجر مکی، قاسم العلوم والخیرات حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی اور ان کے جلیل القدر رفقا ٴو اعوان کی دعواتِ سحرگاہی اور مساعیٴ جمیلہ کے صلہ میں دارالعلوم دیوبند، مظاہر العلوم سہارنپور اور اس قسم کے دوسرے تعلیمی اداروں سے وہ بلند پایہ علما ٴنکلے، جو نہ صرف برصغیر پاک و ہند کے لئے فخر و مباہات کا سامان تھے، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ دیگر بلادِ اسلامیہ، سرزمین پاک و ہند کی خوش نصیبی پر رشک کرتے تھے، چنانچہ علامہ زاہد الکوثری، علامہ طنطاوی اور مصر و شام، حجاز و عراق کے اکابر علما ٴان حضرات کے حق میں رطب اللسان نظر آتے ہیں۔
علامہ طنطاوی، آج کی لکھی پڑھی دنیا میں بہت متعارف ہیں، انہوں نے قرآن کریم کی ایک تفسیر لکھی ہے جس میں سائنس بھردی گئی ہے، امام العصر کے تلمیذ رشید حضرت مولانا محمد یوسف بنوری نے ان سے ملاقات کی تو وہ دنگ رہ گئے، جبکہ حضرت بنوری ابھی جواں عمر تھے اور وہ کہن سال بزرگ۔
برصغیر کے ان فحول علما ٴمیں ایک نہایت دراز قامت شخصیت، امام العصر حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیری نور اللہ مرقدہ کی ہے، جو بلاریب علومِ عالیہ میں لاثانی اور فنونِ آلیہ میں یکتائے دہر تھے۔ پھر جہاں علم میں بے مثال تھے، وہاں تقدس و تقویٰ میں بھی یگانہٴ روزگار اور ”السنة من الرأس الی القدم“ تھے۔
یہ جملہ حسب روایت حضرت شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی، حضرت شیخ الاکبر نے شیخ شہاب الدین سہروردی کے بارہ میں فرمایا تھا، حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ممدوح حضرت شاہ صاحب بھی بدرجہٴ اتم و اکمل اس جملہ کا مصداق ہیں، چنانچہ اکابر علما ٴاس بارے میں حضرت کے بارے میں شہداء الله فی الارض ہیں، انشا ٴاللہ چندے اس کا ذکر آئندہ اوراق میں آئے گا۔
آئیے آج کی صحبت میں آنجناب کے ذکرِ خیر سے اپنے ایمان کو تازہ کریں، ہمارے پیش نظر حضرت کا سوانحی خاکہ مرتب کرنا نہیں ہے، بلکہ چند اکابر کی آرأ نقل کرکے حضرت والا کے علم و عمل کی چند جھلکیاں پیش کرنا ہے۔
آگے بڑھنے سے پیشتر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد گرامی اور بھی سن لیجئے:
صحیح مسلم میں سیدنا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ترجمہ:…”اللہ جب کسی بندے کو محبوب رکھتے ہیں، تو جبریل علیہ السلام کو بلاتے ہیں اور ان سے فرماتے ہیں کہ میں فلاں بندے سے محبت رکھتا ہوں، تم بھی اُن سے محبت رکھو، چنانچہ جبریل اس سے محبت کرنے لگتے ہیں، پھر جبریل آسمان میں اعلان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت رکھتے ہیں، تم بھی اُن سے محبت رکھو، چنانچہ آسمان والے اُن سے محبت کرنے لگتے ہیں اور پھر زمین میں اُن کے لئے قبولیتِ عامہ پھیلادی جاتی ہے ․․․․․ (آگے اس شخص کا ذکر ہے جس کے لئے نفرت اور عداوت پھیلادی جاتی ہے)۔“
یہ ارشاد گرامی ایک طرح سے معیار اور کسوٹی ہے، جس پر ایک انسان کو پرکھا جاسکتا ہے، آئندہ صفحات میں ہر طبقہ، اکابر، اماثل اور اصاغر (جو امام العصر کے مقابلہ میں اصاغر تھے، ورنہ تو ہمارے لئے وہ بھی اکابر ہیں) کی آرأ پڑھیں گے، جن سے حضرت کے قبول فی الارض اور قبول فی السماء اور ساتھ ہی حضرت امام العصر کے محبوب و مقبول عنداللہ ہونے کا پتہ چلتا ہے، اب اگر گنہگار راقم السطور بھی حضرت نور اللہ مرقدہ سے عقیدت اور محبت رکھتا ہے تو راقم یہ کہنے میں حق بجانب ہوگا کہ:
اک میں ہی سودائی تھا، دنیا بھر تو سودائی نہ تھی
نزہة الخواطر میں لکھا ہے کہ: مولانا نظام الدین فرنگی محلی (جن کے نام پر درسِ نظامی مشہور ہے، یہ بزرگ حضرت شاہ ولی اللہ کے معاصر تھے، بارہویں صدی ہجری میں گزرے ہیں) کی خبر وفات سن کر سید ظریف عظیم آبادی کی روتے روتے آنکھیں جاتی رہیں اور سید کمال الدین عظیم آبادی اس صدمہ کی تاب نہ لاکر انتقال کرگئے۔
مولانا غلام علی آزاد بلگرامی اپنی کتاب مآثر الکرام میں فرماتے ہیں کہ: مُلَّا محمود جونپوری - آج کس کو بتایا جائے کہ یہ جونپور وہ شہر ہے جس کو مغل فرماں روا شاہجہاں، شیرازِ ہند کا نام دیتا تھا، مُلَّا محمود مشہور درسی کتاب شمس بازغہ کے مصنف ہیں - کی خبر مرگ سن کر ان کے استاذ مولانا محمد افضل جونپوری کا یہ حال ہوا کہ: ”تا چہل روز استاذ را کسے متبسم ندیدہ و بعد چہل روز استاذ ملحق بشاگرد شد۔“ تلنبہ، ملتان کے مولانا عبداللہ اور مولانا عزیز اللہ دو بھائی تھے، دراصل یہ دونوں بھائی تلنبہ سے چلے گئے تھے، مولانا عبداللہ نے دہلی میں سکونت اختیار کرلی تھی، یہ سلطان سکندر لودھی کا زمانہ تھا، اس کا دور حکومت سولہویں صدی عیسوی کا آغاز ہے۔ سلطان سکندر لودھی مولانا عبداللہ کے درس میں شریک ہوتا اور بعد اختتامِ درس کفش برداری کی سعادت حاصل کرتا۔یہ تمام واقعات حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی کتاب ”ہندستانی مسلمان“ سے لئے گئے ہیں۔
یہ اس دور کے واقعات ہیں، جب برصغیر میں علومِ دینیہ کی بہار کے دن تھے، امام العصر نے تو خزاں کے ایام میں بہار پیدا کر دکھائی تھی اور اب پھر یہ حال ہے کہ:
خزاں رسید و گلستاں بآں جمال نہ ماند
امام العصر، حکیم الامت کی نظر میں
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نور اللہ مرقدہ کون اور کیا تھے؟ علم و فضل میں یگانہٴ روزگار، تقویٰ و طہارت میں امت کے لئے مشعل راہ، اکابر امت کے پیشوا اور بزرگانِ ملت کے مقتدا و رہنما، کثرتِ تصانیف میں علامہ سیوطی جیسے بزرگوں سے سبقت لے گئے، اصلاح و ارشاد میں جنیدِ زمانہ اور خوش بیانی میں وقت کے ابن الجوزی تھے۔
حضرت کے علم و عرفان کے بارے میں تو ایک ادنیٰ سا طالب علم کیا کہہ سکتا ہے، البتہ ایک بات یہاں لکھ دینا مناسب ہوگا کہ رسمی طالب علمی کے دوران جب احقر، حضرت کے مواعظ کا مطالعہ کرتا تھا تو یہ احساس گزرتا تھا کہ جو علوم اور معارف حضرت کے مواعظ میں ملتے ہیں، وہ آپ کی تصنیفات میں نظر نہیں آتے، حضرت والا کے خلیفہ مجاز حضرت مولانا واحد بخش صاحب احمدپوری کی خدمت میں حاضر تھا کہ آپ نے فرمایا:
”حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری فرماتے تھے کہ مولانا تھانوی کی تصنیفات پر تو کوئی آدمی انگلی رکھ سکتا ہے، مگر آپ کے مواعظ پر کوئی جرح قدح کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی کہ وہ فقط الہامی ہوتے ہیں، فللّٰہ الحمد!“
اب کہاں وہ علما ٴاور کہاں وہ مشائخ؟
جہاں اگرچہ زموسیٰ و چوب خالی نیست
یکے کلیم نہ گردد، یکے عصا نہ شود
”زبانِ خلق نقارہٴ خدا“ تو عوامی محاورہ ہے ہی، فرمانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم: ”انتم شھداء الله فی الارض۔“ کے بمصداق آپ حکیم الامت اور مجدد الملت تھے، اب سنئے کہ امام العصر کے بارے میں وہ کیا فرماتے ہیں؟ ”حیات انور“ کی ورق گردانی کیجئے، ایک جگہ نہیں، متعدد مقامات پر آپ کو یہ جملہ نظر آئے گا:
”مولانا انور شاہ صاحب کا وجود، اسلام کی حقانیت کی دلیل ہے۔“
حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی نے حکیم الامت کے اس فرمان کو ذرا بسط سے نقل فرمایا ہے، لیجئے آپ بھی اس سے لطف اندوز ہولیجئے:
”حضرت حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نے اپنی ایک مجلس میں ایک واقعہ امام غزالی کا بیان فرمایا کہ ایک عیسائی فیلسوف نے لکھا ہے کہ اسلام کی حقانیت کی ایک دلیل یہ ہے کہ غزالی جیسا محقق اور مدقق اسلام کو حق سمجھتا ہے۔ یہ بیان کرکے حکیم الامت نے فرمایا کہ میں کہتا ہوں کہ میرے زمانہ میں مولانا انور شاہ صاحب کا وجود اسلام کی حقانیت کی دلیل ہے کہ ایسا محقق اور مدقق عالم، اسلام کو حق سمجھتا ہے اور اس پر ایمان رکھتا ہے۔“ (حیاتِ انور ص:۱۱۹)
ایک مرتبہ حضرت حکیم الامت دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے، حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب مہتمم دارالعلوم، حضرت والا کو حضرت شاہ صاحب کے درسِ بخاری میں لے گئے، اس وقت درس بند ہوچکا تھا، مہتمم صاحب نے فرمایا:
”حضرت تو آپ کا درس سننے آئے تھے، چنانچہ درس دوبارہ شروع ہوگیا، جب حضرت حکیم الامت درس سے اُٹھ کر چلے تو فرمایا: شاہ صاحب کا علم کسبی نہیں، وہبی ہے۔“
رائے گرامی شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی
شیخ الاسلام حضرت علامہ عثمانی خود بھی نہایت بلند پایہ عالم اور لاثانی خطیب تھے، حضرت مولانا مدنی کے الفاظ میں آپ بے مثل تقریر اور بے مثل تحریر کے مالک تھے، سلطان عبدالعزیز بن سعود مرحوم نے حجاز پر تسلط کے بعد عالمِ اسلام کے علما ٴکی ایک کانفرنس بلائی تھی، اس میں تمام بلادِ اسلامیہ سے آنے والے علما ٴنے آپ کی علمی برتری اور عظمت کا لوہا مانا، حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی تحریر فرماتے ہیں کہ جو نسبت محدثین میں سے حضرت امام بخاری اور حضرت امام مسلم میں ہے، وہی نسبت اکابرِ دیوبند میں سے حضرت مولانا سید محمد انور شاہ اور مولانا شبیر احمد عثمانی میں تھی، مولانا کاندھلوی نے ایک بات اس سے بھی عجیب تر لکھی ہے، شوق مند طلبہ حیات انور ص:۱۱۵ کا مطالعہ فرمائیں۔
علامہ عثمانی کی تصنیف فتح الملہم شرح مسلم، دنیائے اسلام کے علما ٴسے خراج تحسین حاصل کرچکی ہے، علامہ زاہد الکوثری، جو خود بھی ایک بے بدل عالم تھے، نے فتح الملہم کو دیکھا تو دل کھول کر اس کی تحسین و ستائش فرمائی۔ آئیے! آپ بھی چند جملے پڑھ لیجئے:
”وقد اغتبطنا جد الاغتباط بھذا الشرح الضخم الفخم صورةً ومعنیً حیث وجدناہ قد شفیٰ وکفیٰ من کل ناحیةٍ۔“ (مقالات کوثری ص:۸۳)
ترجمہ:…”یہ شرح جو ظاہری اور معنوی دونوں لحاظ سے نہایت عمدہ اور ذی شان ہے، خود ہمارے لئے رشک کا باعث ہے کہ یہ ہر لحاظ سے کافی شافی۔“
اور ہاں! آگے بڑھنے سے پہلے ذرا یہ بھی پڑھ لیجئے کہ حضرت علامہ نے یہ شرح لکھی تو کس شان سے؟ حکیم الاسلام حضرت قاری محمد طیب صاحب تحریر فرماتے ہیں:
”حضرت علامہ نے صحیح مسلم پر اپنی شہرہٴ آفاق ”فتح الملہم“ تالیف فرمائی تو اس کا مسودہ حرمین شریفین لے کر گئے تھے، وہاں روضہٴ اقدس کے سامنے بیٹھ کر مسجد نبوی میں اس کی ورق گردانی کی اور پھر روضہٴ اقدس پر بھی اور حرم مکہ میں ملتزم پر بھی مسودہ سر پر رکھ کر حضرت علامہ نے دعا کی تھی کہ یہ مسودہ احقر نے بے سروسامانی کے عالم میں مرتب کیا ہے، یا اللہ! اس کو قبول فرمالیجئے اور اس کی اشاعت کا انتظام فرمادیجئے۔ اس کے بعد جب حرمین شریفین سے واپس آئے تو نظام حیدرآباد دکن کی طرف سے پیشکش کی گئی کہ ہم اس کتاب کو اپنے اہتمام سے شائع کرائیں گے، چنانچہ وہ نظام حیدرآباد کے مصارف پر بڑی آب و تاب کے ساتھ شائع ہوئی اور اس عظیم الشان تالیف نے پوری علمی دنیا سے اپنا لوہا منوالیا۔“ (دارالعلوم دیوبند کی پچاس مثالی شخصیات ص:۱۴۸، ۱۴۹)
بات لمبی ہوگئی، لیکن کیا کیا جائی:
لذیذ بود حکایت، دراز تر گفتم
اب سنئے کہ یہ علامہٴ بے بدل، حضرت امام العصر کے بارے میں کیا فرماتے ہیں، حالانکہ دونوں بزرگوں میں معاصرت کا تعلق تھا اور طلبہٴ علم نے سن رکھا ہوگا: المعاصرة اصل المنافرة۔ اب آپ حضرت علامہ کے الفاظ پڑھئے اور سر دُھنئے، فرماتے ہیں:
”الشیخ العلامة، التقی النقی، الذی لم تر العیون مثلہ، ولم یر ھو مثل نفسہ، ولو کان فی سالف الزمان لکان لہ شان فی طبقة اھل العلم عظیم وھو سیدنا ومولانا انور شاہ الکشمیری ثم الدیوبندی اطال الله بقائہ۔“ (فتح الملہم ج:۱ ص:۳۳۵)
حضرت بنوری نے نفحة العنبر میں امتِ مسلمہ کے ایسے کئی ایک اکابر کا ذکر فرمایا ہے، جن کے بارے میں لم تر العیون مثلہ کہا گیا ہے، ان اکابر میں ان حضرات کے نام گنوائے ہیں: ۱: شیخ عثمان بن سعید دارمی۔ ۲:امام ابو القاسم قشیری۔ ۳:حجة الاسلام امام غزالی۔ ۴:امام ابن قدامہ حنبلی (صاحب مغنی)۔ ۵:علامہ تقی الدین ابن دقیق العید۔ ۶:شیخ الاسلام ابن تیمیہ۔ ۷:حافظ مزی شامی۔ ۸:علامہ ابن حجر عسقلانی۔ (نفحة العنبر ص:۲۲۷ تا ۲۲۹)
جس وقت حضرت علامہ نے امام العصر کے بارے میں یہ الفاظ فرمائے تھے، امام العصر حیات تھے، آپ کا انتقال دیوبند میں ۱۹۳۳ء میں ہوا، جبکہ حضرت علامہ ان دنوں جامعہ اسلامیہ ڈابھیل میں تھے، وہاں پر تعزیتی جلسہ ہوا تو اس میں حضرت علامہ نے بڑے ہی غم و اندوہ میں نہایت افسردہ ہوکر امام العصر کے بارے میں جو ریمارکس دئیے تھے، ان کے چند جملے درج ذیل ہیں:
”اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ کیا تم نے حافظ ابن حجر عسقلانی کو دیکھا ہے؟ کیا تم علامہ ابن دقیق العید سے ملے ہو؟ کیا تم نے سلطان العلما ٴشیخ عزالدین بن عبدالسلام کو دیکھا ہے؟ تو میں بطور استعارہ کہوں گا: ہاں! کیونکہ میں نے علامہ سید محمد انور شاہ کو دیکھا ہے، اور وہ تمام ان کمالات سے متصف تھے جن کی وجہ سے یہ حضرات امتِ مسلمہ میں امتیازی مقام رکھتے تھے، میں محسوس کر رہا ہوں کہ یہ تمام اکابر آج ہی دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔“ (یہ جملے روایت بالمعنی کے طور پر حیات انور میں کئی اکابر کے مضامین میں درج ہیں دیکھئے: ص:۱۱۹ بالخصوص حضرت بنوری، جو ڈابھیل کے جلسہ میں موجود تھے، انہوں نے نفحة العنبر میں اس عبارت کو عربی میں ترجمہ کرکے لکھا ہے۔ (دیکھئے: ص:۳۴)
روایت حضرت مولانا شمس الحق افغانی 
حضرت مولانا افغانی خود بھی جلیل القدر عالم تھے، آپ بیک وقت مفسر، محدث، فقیہ، متکلّم اور ماہر عقلیات تھے۔ آپ دس سال تک بہاول پور میں بطور شیخ التفسیر رہے، ہفتے میں دو دن جمعہ اور اتوار کو عوام کے لئے درسِ قرآن مجید دیا کرتے تھے، دور دور سے لوگ استفادہ کے لئے حاضر ہوتے، ہائی کورٹ کے جج صاحبان بھی حاضری دیتے تھے، اس سے پہلے برسوں آپ ریاست قلات میں وزیر معارف شرعیہ کے منصب پر رہ چکے تھے، ایک مقدمہ میں خود نواب صاحب (خان آف قلات) کے خلاف فیصلہ صادر فرمادیا تھا، قلات جانے سے پہلے آپ دارالعلوم دیوبند میں شیخ التفسیر رہ چکے تھے، کئی سلاسل میں مجازِ بیعت تھے۔
بہاول پور میں تشریف آوری (۱۹۲۳ء) سے قبل آپ ایک مرتبہ احمدپور شرقیہ میں تشریف لائے تھے، راقم السطور کو میزبانی کا شرف حاصل ہوا، ایک محفل میں آپ نے اپنے استاذِ مکرم، حضرت امام العصر کے بارے میں درج ذیل واقعہ سنایا، جو روایت بالمعنی کے طور پر قارئین کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے، فرمایا:
”کندیاں - خانقاہ سراجیہ - کے جناب اول حضرت مولانا احمد خان صاحب دیوبند تشریف لائے، حضرت شاہ صاحب قدس سرہ دارالعلوم کے شیخ الحدیث تھے، حضرت شاہ صاحب نے جناب موصوف کے سامنے ایک عقدہ پیش کیا، وہ یہ تھا کہ حضرت! اس دارالحدیث میں مجھے پہلے تو انوار محسوس ہوتے تھے، مگر اب کچھ روز سے میں ظلمت سی محسوس کرتا ہوں، کیا وجہ ہوگی؟ حضرت مولانا احمد خان صاحب نے فرمایا: حضرت! شاید کل کچھ عرض کرسکوں۔دونوں بزرگوں میں سے ایک علومِ شریعت کے ماہر تھے، دوسرے معرفت اور طریقت کے رموز آشنا، چنانچہ اگلے روز حضرت مولانا احمد خان صاحب رحمہ اللہ نے فرمایا: حضرت! مجھے تو کچھ ایسا نظر آتا ہے کہ آج کل چونکہ تعلیمی سال قریب الاختتام ہے، صحیح بخاری کا ایک درس تہجد کے بعد نمازِ فجر سے قبل ہوتا ہے، طلبہ رات کو دیر تک پڑھتے رہتے ہیں، صبح کو اٹھے، کسی کو نہانے کی ضرورت پیش آگئی، اب وہ سبق کے ناغہ سے بچنا چاہتا ہے تو غسل کئے بغیر یہ سوچ کر شریکِ درس ہوگیا کہ چلئے کتاب کو ہاتھ نہیں لگاوٴں گا، سبق میں تو شامل ہوجاوٴں، اس طرح کے ایک دو طلبہ کی شرکت کی وجہ سے دارالحدیث کی فضا دھواں دار نظر آتی ہے۔
اب سبق کا وقت آیا تو حضرت شاہ صاحب قدس سرہ نے طلبہ سے مخاطب ہوکر ارشاد فرمایا کہ: میں چند روز سے یہ کیفیت محسوس کر رہا تھا، پنجاب سے ایک بزرگ یہاں تشریف لائے ہوئے ہیں، میرے نزدیک وہ بزرگ صاحبِ کشفِ صحیح ہیں، میں نے ان سے دریافت کیا تو انہوں نے یہ جواب دیا ہے۔ ابھی حضرت کی بات ختم ہوئی ہی تھی کہ ایک طرف سے ایک طالب علم کھڑا ہوا، دوسری طرف سے دوسرا طالب علم، دو یا تین طلبہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے اپنے بارے میں اس بات کا اعتراف کیا، پھر حضرت والا نے انہیں مزید سمجھادیا۔“
راقم الحروف نے کہیں پڑھا تھا کہ شمس الائمہ سرخسی ایک رات پیٹ کی تکلیف میں مبتلا تھے، نہ تو کتابوں کا مطالعہ چھوڑنا گوارا تھا، نہ بلاوضو کتاب کو ہاتھ لگانا، رات کو سترہ مرتبہ وضو فرمایا۔ امام العصر کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے کہ ہوش سنبھالنے کے بعد کبھی کسی دینی کتاب کا مطالعہ بے وضو نہیں کیا تھا۔
(دیکھئے حیاتِ انور ص:۲۳۳ مضمون حکیم الاسلام حضرت قاری محمد طیب صاحب)
قارئین کو یہاں پر اتنا بتاتا چلوں کہ خانقاہ سراجیہ، کندیاں ضلع میانوالی کے جنابِ اول حضرت مولانا احمد خان صاحب قدس سرہ کا مقام امام العصر کی نگاہ میں کیا تھا؟ لیجئے سنئے! حضرت مولانا محمد منظور نعمانی لکھتے ہیں:
”ہم عصر مشائخ میں سے دو اور بزرگوں کے بارہ میں بھی حضرت استاذ کے بہت بلند کلمات اس عاجز کو یاد ہیں، ایک حضرت مولانا حسین علی صاحب مجددی نقشبندی اور دوسرے حضرت مولانا احمد خان صاحب مجددی نقشبندی، ان دونوں کے متعلق حضرت فرماتے تھے کہ اس عصر میں یہ نقشبندی سلوک کے امام ہیں۔“ (حیاتِ انور ص:۱۵۷، ۱۵۸)
قارئین محترم! حضرت افغانی کی نقل فرمودہ حکایت تو آپ نے پڑھ لی، مگر راقم السطور کا مقصد زیبِ داستاں کے طور پر اس کا بیان کرنا نہیں ہے اور نہ کوئی صاحب سمع و بصر کی عیاشی کے طور پر اس کو پڑھ کر گزر جائیں، ذرا سوچئے! اکابرِ دیوبند میں محدثین گزرے ہیں تو کیسے؟ اور پیرانِ طریقت گزرے ہیں تو کس قسم کے؟ وہ کیا چیز ہے جو ان حضرات میں تھی اور اب عنقا ہوچکی ہے؟ جگر مراد آبادی مرحوم کہتے ہیں:
بے کیف مئے ناب ہے، معلوم نہیں کیوں؟
پھیکی شبِ مہتاب ہے، معلوم نہیں کیوں؟
کل تک یہی دنیا سَبَدِ گل تھی، مگر آج
بے رنگ ہے، بے آب ہے، معلوم نہیں کیوں؟
اس ”کیوں“ کا جواب اپنے دل سے پوچھئے۔
اہل علم میں سے بہت کم احباب کو معلوم ہوگا کہ حضرت مولانا کو امام ربانی حضرت گنگوہی سے شرفِ تلمذ حاصل تھا، ہمارے علاقہ کے دو نامور بزرگوں حضرت مولانا حبیب اللہ گمانوی اور حافظ الحدیث حضرت مولانا محمد عبداللہ درخواستی کو بھی حضرت مولانا حسین علی صاحب سے استفادہ کی بدولت سندِ عالی حاصل تھی، طلبہ علم سے ایک اور روایت بھی بیان کردی جائے تو انشاء اللہ خالی از فائدہ نہ رہے گا۔یہ روایت حضرت الاستاذ مولانا محمد صادق صاحب کی بیان فرمودہ ہے، فرمایا کہ:
”مولانا حسین علی صاحب زمیندارہ کرتے تھے، طلبہ سے کام لینے کے سخت خلاف تھے، تدریس کا کام بھی سرانجام دیتے تھے اور زمیندارہ بھی کرتے تھے۔ ایک رات کھیت کو سیراب کر رہے تھے کہ نیند کا غلبہ ہوا، آپ کسّی ایک طرف رکھ کر لیٹ گئے، آنکھ لگ گئی، اتنے میں ایک طالب علم آگیا، اس نے دیکھا ایک کیاری بھرچکی ہے اور پانی ضائع ہو رہا ہے، اس نے کسّی اُٹھائی اور پانی کو دوسری کیاری میں پھیر دیا، تھوڑی دیر کے بعد مولانا کی آنکھ کھلی تو دیکھا کہ طالب علم کسّی ہاتھ میں لئے ہوئے کام کر رہا ہے، اُسے تنبیہ فرمادی، اُس کیاری کو نشان لگادیا اور بعد میں اس کی آمدنی اس طالب علم کے حوالہ کردی۔“
آج کی غفلت شعار دنیا کیا جانے کہ علمائے حق نے کیونکر اللہ کے قرآن کو سینوں سے لگایا اور کیونکر اس امانت کو آگے منتقل کیا، آج تو لوٹ کھسوٹ کا زمانہ ہے، نہ ”من این اکتسبہ“ کا کچھ خیال اور نہ ”فی ما انفقہ“ کا کچھ لحاظ! ایک شاعر، جو بظاہر دین سے دور تھا، مگر کیا پتے کی بات کہہ گیا ہے:
نہ وہ رنگ فصلِ بہار کا، نہ روِش وہ ابرِ بہار کی
جس ادا سے یار تھا آشنا، وہ مزاجِ بادِ صبا گئی
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , شوال المکرم:۱۴۳۱ھ - اکتوبر: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 10

    پچھلا مضمون: مسلمانوں کے تفرق، اختلاف وانتشار کے ظاہری و باطنی اسباب
Flag Counter