Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی شوال المکرم ۱۴۳۱ھ - اکتوبر ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

4 - 9
اسلام سے انحراف کا اختیار؟
اسلام سے انحراف کا اختیار؟

سپریم کورٹ میں آئین کی اٹھارہویں ترمیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت دو مہینے سے جاری ہے، اس دوران فاضل جج ترمیم کی بعض شقوں کے مضمرات کے متعلق دونوں جانب کے وکلا کو وضاحت کی دعوت دیتے رہے ہیں۔ ۱۶/اگست کو حکومت کے وکیل افتخار احمد میاں نے اٹھارہویں ترمیم کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ لامحدود اختیارات کی حامل ہے اور عوام نے پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم کرنے کا اختیار بھی دیا ہے۔ فاضل ججوں نے اس پر کئی سوالات اٹھائے، ان سوالات کا لب لباب پیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے اس ریمارک میں موجود ہے کہ پارلیمنٹ کی حاکمیت کا یہ مطلب نہیں کہ اس کو آئین میں کوئی بھی ترمیم کرنے کا بے قید اختیار حاصل ہے۔ ”اگر کل کلاں پارلیمنٹ یہ اعلان کردے کہ ریاست کی پالیسی اسلام نہیں، بلکہ سیکولرازم ہے تو کیا ہم اس کو قبول کرلیں گے“؟ مسٹر جسٹس طارق پرویز نے یہی بات ان الفاظ میں کہی: ”اگر پارلیمنٹ آئین کے آرٹیکل ۲ میں ترمیم کردے، جس میں کہا گیا ہے کہ اسلام ریاست کا مذہب ہے تو کیا یہ اختیارات کا جائز استعمال ہوگا؟“۔
سپریم کورٹ کے فاضل ججوں کی یہ باتیں روزنامہ ڈان کو بہت شاق گزری ہیں۔ دو دن بعد اداریئے میں ججوں کے مؤقف کو پریشان کن قرار دیتے ہوئے سوال کیا، آیا سپریم کورٹ نے از خود یہ فیصلہ کرنے کا ذمہ لے لیا ہے کہ پاکستانی عوام کس سسٹم کے تحت رہنا چاہتے ہیں؟ سپریم کورٹ آئین کی نگہبان ہے یا پاکستانی ریاست کا بنیادی ڈھانچہ متعین کرنے کا اختیار بھی رکھتی ہے؟
اداریہ نویس نے آگے چل کر اشارے اشارے میں سپریم کورٹ کے ارکان کو ہدف بنانے سے بھی گریز نہیں کیا۔ لکھتا ہے:The original meaning, and perhaps for reasonable people the only appllcable meaning, of the term 'secularism' has been lost here in pakistan.یعنی یہاں پاکستان میں سیکولرازم کا اصل مفہوم جو معقول لوگوں کے نزدیک شاید واحد قابل عمل مفہوم ہے، گم ہوکر رہ گیا ہے۔ موصوف اپنے آپ کو ان ”معقول لوگوں“ کی صف میں رکھتے ہوئے لکھتے ہیں، سیکولرازم کا مطلب لادینیت یا مذہب دشمنی نہیں ہے، لیکن قدامت پسند لوگ ساٹھ برس سے اس جھوٹ کی تکرار کرتے آرہے ہیں کہ سیکولرازم لادینیت ہے۔ سیاسی پارٹیوں تک تو یہ جھوٹ چل گیا، لیکن ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ نے بھی اسی مفہوم کو اپنا لیا ہے! یہاں ڈان کے اداریہ نویس نے قدامت پسندوں اور اعلیٰ ترین عدلیہ کے علم میں اضافہ کرنے کی غرض سے لیکچر دیا ہے کہ سیکولرازم تو مذہب کے معاملے میں غیر جانبداری کا نام ہے، یعنی ریاست کی مذہب سے جدائی کا محدود قصور!
کسی اخبار کا اداریہ اس کے مدیر کی رائے کا اظہار ہوتا ہے۔ معلوم ہوا کہ مدیر محترم سیکولرازم کی وکالت کرتے کرتے دین اور مذہب کے فرق سے اپنی بے خبری کا راز فاش کرگئے۔ کسی عقیدے اور اس پر مبنی چند عبادات ورسوم کو مذہب کہتے ہیں۔ انگریزی زبان میں اظہار خیال کے عادی مدیر صاحب کو یقینا معلوم ہوگا کہ آکسفورڈڈکشنری نے بھی ریلیچن کے یہی معنی بیان کئے ہیں، لیکن مثال میں اسلام کو بھی عیسائیت اور بدھ مت جیسے مذاہب کے زمرے میں شامل کردیا، حالانکہ اسلام ایک دین ہے، مذہب نہیں ہے۔دین ایک خالص قرآنی اصطلاح ہے، ا،غریزی زبان میں اس کا متبادل کوئی لفظ نہیں، اس لئے انگریزی داں حضرات دین کو بھی ریلیچن کا ہم معنی بیتے ہیں۔
علمائے اسلام اس فرق کو خوب سمجھتے ہیں، جب عبادات اور ان کے لوازمات کے بارے میں مختلف فقہاء کی تحقیق کا تقابلی جائزہ لیتے ہیں تو کہتے ہیں یہ امام ابوحنیفہ کا مذہب ہے اور یہ امام شافعی یا امام مالک یا اسی پائے کے دوسرے فقہاء کا مذہب ہے۔ یہ تمام مذاہب دین اسلام کے دائرے ہی میں بیان کئے جاتے ہیں د مذہب عربی زبان ہی کا لفظ ہے، لیکن قرآن مجید میں یہ لفظ کہیں استعمال نہیں کیا گیا ہے۔ اسلام کو دین ہی کہا گیا ہے،کیونکہ یہ محض چند رسوم وعبادات کا نام نہیں، بلکہ ضابطہ ٴ حیات کا نام ہے جو انسان کی انفرادی زندگی کے علاوہ اجتماعی زندگی کی راہیں متعین کرتا ہے۔ وہ راہیں جو اللہ نے اپنی کتاب میں اور اللہ کے رسول انے اپنے قول وفعل میں کھول کھول کربیان کردی ہیں۔
ڈان کے زیر نظر اداریئے میں سیکولرازم کی یہ بالکل صحیح تعریف بیان کی گئی ہے کہ یہ نظام ریاست کی مذہب سے جدائی کے تصور پر مبنی ہے۔ اگر یہاں مذہب سے مراد وہ دین ہے جو انسانی معاشرے کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے تو علامہ اقبال نے اسی کے بارے میں فرمایا: جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی۔ سیکولرازم کے مبلغوں کا کہنا ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح پاکستان کی ریاست کو اسی دین پر چلانا چاہتے تھے۔ ثبوت کے لئے قائد اعظم کی اس تقریر کا ایک جملہ پکڑ رکھا ہے جو انہوں نے ۱۴/ اگست ۱۹۴۷ء کو دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں کی تھی۔ اداریہ نویس کے بقول جملہ یہ ہے: ”ریاست کو مذہب سے کوئی سروکار نہیں“۔(religion is not the of statebusiness the) اسلام سے پاکستان کا رشتہ توڑنے کے خواہاں دانشمند گزشتہ چالیس برس سے اسی ایک جملے کی گردان کرتے چلے آرہے ہیں۔ وہ یہ جملہ نہ صرف اس کے سیاق وسباق سے الگ کرکے بلکہ اس میں تحریف کرکے بیان کرتے ہیں۔ اس حقیقت کو فراموش کرتے ہیں کہ قائد اعظم جس اسمبلی سے خطاب کررہے تھے، اس کے ۷۹ ارکان میں ۱۶ کانگریسی ہندو شامل تھے، جو مشرقی پاکستان کی صوبائی اسمبلی کے ہندو ارکان میں سے منتخب کئے گئے تھے۔ تحریک پاکستان دور میں قائد اعظم سمیت مسلم لیگ کے رہنما تسلسل کے ساتھ پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کے عزم کا اظہار کرتے رہے تھے۔ پاکستان ببنے کے بعد غیر مسلم اقلیتوں کو یہ اطمینان دلانا ضروری تھا کہ اسلامی ریاست میں ان کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا۔ قائد اعظم کی تقریباً نصف تقریر اسی یقین دہانی پر مشتمل تھی۔ فرمایا :'You may belong to any religion or cast or creed-that has nothing to do with the business of the state'(آپ کا تعلق کسی بھی مذہب ، ذات یا رنگ ونسل سے ہوسکتا ہے، اس بات کا امور سلطنت سے کوئی تعلق نہیں) یہ گویا امور مملکت یعنی قانون کی نظر میں تمام شہریوں کے مساوی حقوق کا اعلان تھا، لیکن ڈان کے اداریہ نویس کا اصرار ہے کہ نہیں، یہ پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانے کی clarion call(صدائے نفیر) تھی۔ اس کے نزدیک یہ ایک مسخ شدہ جملہ قرآن کو پاکستان کا آئین قرار دینے اور قائد اعظم کے اسی مفہوم کے سابقہ بیانات کو منسوخ کرتا ہے۔ برسوں پہلے سردار شوکت حیات اور ممتاز محمد خان دولتانہ کے بیانات نظر سے گزرے تھے کہ ”پاکستان کا مطلب کیا؟ لاالٰہ الا اللہ“ کا نعرہ تو لوگوں کو تحریک میں شامل ہونے پر آمادہ کرنے کے لئے لگایاجاتا تھا ! لیکن پاکستان بن جانے کے بعد قائد اعظم نے اس قسم کی تقریریں کیں کہ ”ہماری نجات اس اسوہ ٴحسنہ پر چلنے میں ہے جو ہمیں قانون عطا کرنے والے پیغمبر اسلام ا نے ہمارے لئے بنایاہے ہمیں چاہئے کہ اپنی جمہوریت کی بنیادیں صحیح معنوں میں اسلامی تصورات اور اصولوں پر رکھیں۔“تو کیا یہ باتیں بھی انہوں نے عوام کو ورغلانے کے لئے کی تھیں؟ ڈان کہتا ہے اصل مقصد تو سیکولر ریاست کا قیام ہی تھا۔
خدا کی شان ہے، جس اخبار نے ستر برس قبل قائد اعظم کی سرپرستی میں اشاعت کا آغاز کیا تھا، وہ بھی آج اپنے مربی کو جھوٹا، فریبی اور مکار ثابت کرنے والوں کی صف میں کھڑا ہے ! زیر نظر اداریئے کا لب لباب یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے فاضل ججوں کی رائے کے برعکس پارلیمنٹ کو آئین کے اسلامی مزاج میں ترمیم کرکے نظام مملکت کو سیکولرازم کی بنیادوں پر استوار کرنے کا اختیار حاصل ہے، کوئی فرد اگر اسلام سے منحرف ہوجائے تو اسے کیا کہتے ہیں؟
میر کے دین ومذہب کو کیا پوچھو ہو ان نے تو
قشقہ کھینچا، دیر میں بیٹھا، کب کا ترک اسلام کیا
(مأخوذ:ازروزنامہ امت ،کراچی،۲۷اگست۱۰۲۰)
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , شوال المکرم:۱۴۳۱ھ - اکتوبر: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 10

    پچھلا مضمون: تحدید نسل کامعروضی وفقہی پس منظر
Flag Counter