Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی شوال المکرم ۱۴۳۱ھ - اکتوبر ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

3 - 9
تحدید نسل کامعروضی وفقہی پس منظر
تحدید نسل کامعروضی وفقہی پس منظر
(۲)

ایک مسلمان کے لئے تفصیل میں جائے بغیر جس قدر شواہد کی ضرورت ہے، وہ ملاحظہ ہوں۔
۱:․․․ افرادی قوت اور عددی کثرت ، اللہ تعالیٰ کے ان احسانات میں سے ہے جو اللہ تعالیٰ نے بطور خاص جتلائے ہیں، سورہٴ اعراف میں ارشادہے:
”واذکروا اذ کنتم قلیلافکثر کم… الآیة۔ (الاعراف:۸۶)
ترجمہ:․․․”اوریادکروجب تم تھوڑے تھے،پھر تمہیں بڑھادیا“
۲:․․․ ذخیرہٴ احادیث میں ایسی لا تعداد نصوص موجود ہیں ، جن میں واضح طور پر یہ مضمون موجود ہے کہ افرادی قوت میں اضافہ ، مردم شماری میں کثرت ،زیادہ اولاد کی پیدائش اورخواہش ،اسلام کا بنیادی تقاضا ہے ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تقاضے کو کبھی ترغیب کی صورت میں، کبھی دعاء کی صورت میں اور کبھی صریح تاکید کی صورت میں بیان فرمایا ہے ، اس موضوع پر چندا حادیث ملاحظہ ہوں۔ ۱:۔” عن ام سلیم انہا قالت: یارسول الله! خادمک انس ادع الله لہ، فقال: اللّٰھم اکثر مالہ وولدہ وبارک لہ فیما اعطیتہ، قال انس : فو الله مالی لکثیر، وان ولدی وولد ولدی یتعادون علی نحو المائة الیوم۔“ ( مسلم:۲/۲۹۸)
ترجمہ:…”حضرت ام سلیم سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! آپ اپنے خادم حضرت انس کے لئے دعا فرمادیں، آپ انے فرمایا: اللہ اس کے مال واولاد کو زیادہ کرے اور برکت دے اس میں جو ا س کو دیا ہے۔ حضرت انس فرماتے ہیں :اللہ کی قسم میرا مال بھی بہت ہے اور میری اولاد اور اولاد کی اولاد آج سو سے بڑھ کر ہیں“۔
۲:۔”۔ تزوجوا الودود الولود فانی مکاثر بکم الامم…“( ابو داوٴد، : ۱/۵)
ترجمہ:…” محبت کرنے والی ،زیادہ بچے جننے والی عورت سے شادی کرو،میں دوسری امتوں کے مقابلے میں تمہاری کثرت پر فخر کروں گا “۔
۳:۔”وعن عیاض بن غنم قال: قال لی رسول الله صلی الله علیہ وسلم ذات یوم : یاعیاض! لا تزوجن عجوزا ولا عاقرا فانی مکاثر بکم ۔“
( مستدرک حاکم: ۴/۳۳۹ ،ط: دار المعرفة)
ترجمہ:۔”حضرت عیاض بن غنم سے روایت ہے کہ ایک دن رسول کریم ا نے مجھ سے فرمایا: اے عیاض! عمر رسیدہ اور بانجھ عورت سے ہرگز نکاح نہ کرنا، کیونکہ میں تمہاری کثرت پر فخر کروں گا“۔ ۴:۔” إنی فرطکم علی الحوض، وإنی مکاثر بکم الامم فلا تقتلن بعدی ۔“
(سنن ابن ماجہ: ص: ۲۸۳ )
ترجمہ:…”حوض پر میں تمہارا پیش رو ہوں گا اور میں تمہارے ذریعہ دیگر امتوں پر فخر کروں گا ،پس میرے بعد قتل وقتال ہرگز نہ کرنا“۔
۵:”۔وإنی مکاثر بکم الامم اوالناس فلا تسودوا وجہی۔“ ( شرح مشکل الاثار: ۱/۳۳)
ترجمہ:…”میں دوسری امتوں کے مقابلے میں تمہاری کثرت پر فخر کروں گا ،تم ہرگز مجھے رسوا نہ کرنا“۔
۶:۔”وإنی مکاثر بکم الامم، لا تسودن وجہی۔“ (الآحاد المثانی: ۵/۳۵۱)
ترجمہ:…”میں دوسری امتوں کے مقابلے میں تمہاری کثرت پر فخر کروں گا، تم ہرگز مجھے رسوا نہ کرنا“۔
۷:۔” عن محمد بن سیرین قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم : دعوا الحسناء العاقر وتزوجو السوداء الولود، فانی اکاثر بکم الامم یوم القیٰمة، حتیٰ السقط یظل محبنطیا أی متغضبا ، فیقال لہ: ادخل الجنة، فیقول: حتیٰ یدخل أبوای ، فیقال: ادخل انت وابواک۔“ (مصنف عبد الرزاق:۶/۱۶۰)
ترجمہ:۔”محمد بن سیرین سے روایت ہے کہ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا :خوبصورت بانجھ عورت کو چھوڑدو اور کالی زیادہ بچے جننے والی عورت سے نکاح کرو، میں تمہاری کثرت کے ذریعہ قیامت کے دن اور امتوں پر فخر کروں گا، یہانتک کہ … اس سے کہا جائے گا کہ جنت میں داخل ہوجا ،وہ کہے گا: میں اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہوں گا جب تک میرے والدین کو بھی جنت میں داخل نہ کیا جائے، پس کہا جائے گا تم اپنے والدین کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤ “۔
۸:۔”ان رجلا أتی النبی صلی الله علیہ وسلم فقال: ابنة عم لی ذات میسم ومال، وھی عاقر أفاتزوجھا؟ فنہاہ عنہا، مرتین أو ثلاثا، ثم قال: لإمراة سوداء ولود أحب الیّ منہا، أما علمت أنی مکاثر بکم الامم ۔“ ( مصنف عبد الرزاق: ۶/۱۶۱)
ترجمہ:۔”ایک آدمی حضور ا کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: میرے چچا کی بیٹی مالدار عورت ہے اور وہ بانجھ ہے، کیا میں اس سے نکاح کرلوں؟ آپ ا نے اس شخص کو اس نکاح سے منع کیا ،دو یا تین بار فرمایا: کالی زیادہ بچے جننے والی عورت مجھے اس سے زیادہ پسند ہے، کیا تم نہیں جانتے کہ میں تمہاری کثرت پر دیگر امتوں کے مقابلے میں فخر کروں گا“۔
۹:۔”قال النبی صلی الله علیہ وسلم: أن تنکح سوداء ولودا خیر من أن تنکحہا حسناء جملاء لا تلد ( مصنف ابن ابی شیبہ : ۶/۱۶۱)
ترجمہ::۔”حضور ا نے ارشاد فرمایا: کہ تم کالے رنگ والی زیادہ بچے جننے والی عورت سے نکاح کرو ،یہ بہتر ہے اس سے کہ تم خوبصورت حسین وجمیل بانجھ عورت سے نکاح کرو“۔
۱۰:۔” سوداء ولود خیر من حسناء لا تلد ، إنی مکاثربکم الامم حتیٰ بالسقط۔“ (المعجم الکبیر، معاویة بن حکم السلمی:۱۹/۴۱۶)
ترجمہ:۔”کالے رنگ کی زیادہ بچے جننے والی عورت بہتر ہے خوبصورت بانجھ عورت سے، میں تمہاری کثرت کے ذریعہ دیگر امتوں کے مقابلے میں فخر کروں گا، یہانتک کہ گرا ہوا لوتھڑا بھی کثرت میں شمار ہوگا“۔
اس مضمون کی بے شمار حدیثیں کتب حدیث میں موجود ہیں، بطور نمونہ یہ چند احادیث ان اہل اسلام کے لئے نقل کی جارہی ہیں جو حدیث کو حجت مانتے ہیں اور صریح حدیثوں کے مقابلے میں کٹ حجیتوں کو دین و ایمان کے منافی خیال کرتے ہوں، ورنہ ایک نظریہ قائم کرکے اس کے تحت دلائل جمع کرنے اور اس کے معارض دلائل کو رد کردینے والوں کا تا قیامت کوئی علاج نہیں، کیونکہ ایسے لوگوں کے لئے تا قیامت امہال و انظار کا فیصلہٴ خدا وندی صادر ہوچکا ہے۔
ایک مسلمان کی حیثیت سے اگر کوئی شخص ” خاندانی منصوبہ بندی“ کے حوالے سے شریعت کا واضح موقف جاننا چاہے اور مزاجِ نبوت اپنانا چاہے تو اس کے لئے درج بالا صریح روایات کافی ہیں ، ایک بادی النظر شخص بھی ان روایتوں سے مندرجہ ذیل فوائد اخذ کر سکتاہے:
۱… مسلم آبادی کی کثرت اور بڑھوتری ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آرزو اور تمنا تھی۔
۲… حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اولاد کی کثرت اور بہتات کے لیے خصوصی ترغیبات دی ہیں۔
۳… افرد امت اور کثرت اولاد کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصی دعائیں ارشاد فرمائی ہیں۔
۴… امت کی کثرت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باعثِ فخر اور قلت ( محدود ہونے )کو باعثِ شرمندگی ٹھہرایا ہے۔
۵… کثرت میں ناتمام لوتھڑا( گراہوا حمل) بھی شمار ہوگا۔
۶… حسن و جمال اور مال و متاع جیسے کمالات کی بجائے حضور صلی الله علیہ وسلم نے کثرت ولادت اور تولیدی صلاحیت کو باعثِ کمال اور لائقِ نکاح قرار دیا ۔
اب سوال یہ ہے کہ جو اہل علم” عزل“ کی رخصتوں کے سہارے مروجہ خاندانی منصوبہ بندی / ضبطِ ولادت کا جواز بتانے کے لیے مختلف دلائل پیش کرتے ہیں، کیا وہ مسلمانوں کو یہ بتا سکتے ہیں کہ:
۱… کیا مروجہ خاندانی منصوبہ بندی کے جواز کے لیے اس درجہ کی کوئی ایک روایت بھی موجود ہے، جس میں یہ صراحت ہو کہ آبادی کم رکھنا اور بچوں کی تعداد ہر گز نہ بڑھانا؟
۲… خاندانی منصوبہ بندی کی نفی کرنے والی روایات جس قدر صریح اور واضح ہیں ،کیاا س کو ثابت کرنے والی روایات بھی اس قدر صریح اور واضح ہیں؟
۳… کیا پورے ذخیرہٴ حدیث میں کوئی ایک ایسی روایت پائی جاتی ہے جس میں حضور صلی الله علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا ہو کہ زیادہ بچے پیدا کروگے تو فقر وفاقہ اور تنگدستی کا شکار ہو جاوٴگے؟
۴… کیا کوئی ایک ایسی ( ضعیف ہی سہی) روایت مجوزین بتا سکتے ہیں جس میں ارشاد ہو کہ اپنی آبادی کو کم رکھنا ،ورنہ قیامت میں مجھے شرمساری کا سامنا ہو سکتا ہے؟
۵… مجوزین حضرات کوئی ایک ضعیف یا موضوع روایت بھی دکھا سکتے ہیں جس میں یہ فرمایا گیا ہو کہ شادی کے لیے ایسی عورتوں کا انتخاب کرنا جن میں بچے جننے کی صلاحیت نہ ہو یا ہو تو بالکل کم ہو؟ اگر خاندانی منصوبہ بندی کو جواز فراہم کرنے والے ان سوالوں کا جواب نفی میں دیں اور یقینا جواب نفی میں ہی ہوگا تو ان سے خیر خواہانہ گزارش ہے کہ ان کا طرز عمل شریعت اسلامیہ سے متصادم جارہا ہے، ان کی کاوشیں مزاج نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے معارضہ کررہی ہیں،لہذا اگر مجوزین خاندانی منصوبہ بندی کے موضوع کو دین کا مسئلہ سمجھ کر اس کا جواز ثابت کرنے کے لیے کو شاں ہیں اور اپنی نیتوں میں مخلص ہیں تو انہیں اپنے موٴقف پر ضرور نظر ثانی کرنی چاہیے، ہاں! اگر کوئی مسلم دانشور مالتھس کے نظریے کی فقہی تخریج کو اسلامی خدمت کہنے پر مصر ہو تو اس کا معاملہ الگ ہے،۔یہ نظریہ کسی غلط فہمی پر مبنی نہیں ہے، جو دلائل اور براہین سے تبدیل ہو سکے ،بلکہ یہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت قائم ہوا ہے، جو کسی دلیل اور حجت کے سامنے سرنگوں ہونے کی بجائے اس کی تاویل و تردیدکو اپنی ذ مہ داری سمجھ کر بجالانے کے لیے کمر بستہ ہے ۔ یہ سلسلہ گذشتہ نصف صدی سے اسلامی دنیا میں قائم ہے،اس اکھاڑے میں پہلے صرف تجدد پسند طبقہ شریک تھا، اب مختلف عناوین کے تحت متدین علماء کرام کو بھی شریکِ موضوع بنایا جارہا ہے۔علماء کرام نیک مقاصد کے تحت ایسی مجالس میں شریک ہو ئے ہیں اور اہل مجالس ان کی شرکت کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
ضبط ولادت اور اسلامی نقطہٴ نظر
”تحدید نسل“ کا شریعت اسلامیہ کی روشنی میں جائزہ لینے کے بعد اب ضبط ولادت سے متعلق اسلامی نقطہ ٴ نظر جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
ضبطِ ولادت یا منعِ حمل کا موضوع اس معنی کر فقہی موضوع کہلاتا ہے کہ اس کے لیے جو بنیاد بتائی جاتی ہیں، اس بنیاد پر فقہاء کرام نے حسبِ موقع کلام کیا ہے، وہ ”بنیاد“ ”عزل“ ہے ( بیوی یا باندی سے اس طور پر شہوت پوری کرنا کہ مادہ منویہ کا اخراج محل میں نہ ہو) اس مسئلے پر حدیث وفقہ کی ہر کتاب میں تقریباً بحث موجود ہے، کہیں گنجائش کا بیان ہے اور کہیں ممانعت و نکیر کو وضاحت و صراحت کے ساتھ اجاگر کیا گیا ہے ،اس موضوع پر مفصل بحث ابن قیم رحمہ اللہ کی زاد المعاد اور امام غزالی رحمہ اللہ کی احیاء العلوم میں آداب المعاشرہ کے تحت مذکور ہے، مفصل بحث کے چند مندرجات کو خاندانی منصوبہ بندی کا حامی طبقہ اپنی حمایت میں زور و شور سے پیش کرتا ہے۔
حالانکہ ان پر لازم تھا کہ وہ دونوں پہلووٴں کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہاں بھی مزاجِ نبوی کا ادب بجالاتے اور امام غزالی رحمة اللہ کے فلسفی نقطہٴ نگاہ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ۔اہل علم جانتے ہیں کہ احکام شریعت کی عقلی حکمتوں و مصلحتوں سے بحث کرنا، احکام شریعت کے دینی و روحانی ثمرات کے ساتھ مادی فوائد سمجھانے کے لئے امام غزالی رحمة اللہ کا خاص طریقہ کار ہے، ایک ادنیٰ درجہ کا طالب علم بھی اگر امام غزالی رحمة اللہ یا دیگر اسلامی فلاسفروں کی اس موضوع پر گفتگو کا جائزہ لے تو واضح طور پر معلوم ہوگا کہ یہ بزرگ یہ سمجھا نا چاہتے ہیں کہ” عزل“ کی ناپسندیدگی کے باوجود گنجائش کے بیان میں کیا حکمت ہے؟ اسباب ووجوہ کیا ہیں؟ دوسرے یہ کہ گنجائش اور رخصت کے لیے کیا کیا شرائط ہونی چاہئیں؟۔
غور فرمائیے کہ ” عزل“ کے جواز کے لئے حکمت کا بیان اور شرائط کا التزام خود اس بات کی دلیل ہے کہ” عزل“ کا مسئلہ اتنا عام الوقوع یا مطلق الجواز نہیں ہے، جتنا اسے سمجھا اور باورکرایا جارہا ہے، مگر جن لوگوں نے اسے ہر حال میں جائز ثابت کرنا ہے اور اس پر عمل کو کارِ ثوب باور کرانا ہے، انہیں کسی عبارت میں عزل کے ساتھ بس لفظِ ”جائز“ کے علاوہ کچھ دیکھنا ،سوچنا اور پڑھنا ہی نہیں ہے، یہ نفسیاتی مسئلہ ہے فقہی نہیں۔
عزل اوراحادیثِ نبویہ علیہ السلام

خاندانی منصوبہ بندی کے علم برداروں کے شرعی مشیر ”نس بندی“ کو منصوبہ بندی باور کرانے کے لیے عام طور پر ان احادیث مبارکہ کو پیش کرتے ہیں جن سے بظاہر ”عزل“ کا جواز ثابت ہو تا ہے، حالانکہ صحیح دینی رائے قائم کرنے کے لیے ان روایتوں کو پیش نظر رکھنا بھی ضروری ہے جن میں عزل کی ناپسندیدگی کا تذکرہ ہے، نیز یہ بات بھی انتہائی غور طلب تھی کہ آیا عزل کا مسئلہ شریعت کے تعبدی امور میں سے ہے یا میاں بیوی کے مخصوص تعلق کے ضمن میں محض انفرادی اور خانگی مسئلہ ہے؟
اس لیے ذیل میں اس مضمون کی دونوں طرح کی چند روایتیں نقل کرنے کے بعد اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہیں، چنانچہ عزل کے جواز پر پیش کی جانی والی مشہور روایت یہ ہے:
۱:۔” قال عمر : واخبرنی عطاء انہ سمع جابرا رضی الله عنہ یقول: کنا نعزل والقرآن ینزل۔“
۲:۔ ”وفی روایة: کنا نعزل علی عہد رسول الله صلی الله علیہ وسلم، فبلغ ذلک النبی صلی الله علیہ وسلم فلم ینہنا۔“
۳:۔ ”وفی روایة: عن عمر بن الخطاب رضی الله عنہ أنہ قال: نہی رسول الله صلی الله علیہ وسلم أن یعزل عن الحرة إلا باذنہا۔“
۴:۔ دوسری طرف حضرت ابو سعید خدری رضی الله عنہ کی روایت ہے، جو غزوہٴ بنی مصطلق کے موقع پر واردہوئی تھی کہ انہوں نے حضور صلی الله علیہ وسلم سے عزل کے بارے میں پوچھا تو آپ نے یوں ارشاد فرمایا:”ما علیکم ان لا تفعلوا ، ما من نسمة کائنة الی یوم القیٰمة الا وھی کائنة۔“
یعنی اگر تم ایسا نہ کرو تو تمہارا کوئی نقصان نہیں، کیونکہ جو جان قیامت تک پیداہونی والی ہے ،وہ ضرور ہو کر رہے گی۔
۵… ایک اور روایت حضرت جذامة بنت وہب کی ہے کہ صحابہ کرام نے حضور صلی الله علیہ وسلم سے عزل کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا:”
ذلک الوأد الخفی، وھی اذا الموٴودة سئلت۔
یعنی ” عزل “ خفیہ طریقے سے اولاد کو زندہ درگور کرنے کے مترادف ہے ،جو آیت قرآنی ”إذاالموٴودة سئلت“ کے زمرے میں آتا ہے۔
۶… حضرت ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے یوں بھی روایت ہے:
”اصبنا سبیا فکنا نعزل فسألنا رسول الله صلی الله علیہ وسلم فقال: أوإنکم تفعلون؟ قالہا ثلاثا ، ما من نسمة کائنة الی یوم القیٰمة الا ھی کائنة۔“
یعنی جب حضور صلی الله علیہ وسلم سے صحابہ نے عزل کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے اظہار تعجب کرتے ہوئے فرمایا کہ: کیا تم لوگ ایسا کرتے ہو؟یا جس نفس کو بھی تا روز قیامت پیدا ہونا ہے ،وہ بہرحال پیدا ہوکر رہے گی۔
۷… حضرت اسماء بنت یزید رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول خدا صلی الله علیہ وسلم کویہ کہتے ہوئے سنا ہی:
”لا تقتلوا أولادکم سراً، فان الخیل یدرک الفارس۔فیدعثرہ عن فرسہ “ (أبو داؤد)
۸…حضرت سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضور صلی الله علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا:
”إنی أعزل عن امرأتی فقال لہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم: لم تفعل ذلک ؟ فقال الرجل: أشفق علی ولدہا ، فقال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: لو کان ذلک ضاراً اضر فارس والروم ۔“ ( مشکوٰة المصابیح، ص: ۲۷۶، )
۹:۔” عن أسامة بن زید قال : جاء رجل إلی رسول الله صلی الله علیہ وسلم فقال: إنی أعزل عن امرأتی شفقة علی ولدہا، فقال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: لا، ان کان ذلک فلا ، ما ضر ذلک فارس ولا الروم (مسلم)
۱۰:۔” عن عمر بن الخطاب رضی الله عنہ ، أنہ قال: نہی رسول الله صلی الله علیہ وسلم أن یعزل عن الحرة إلا باذنہا (مسند احمد) وکذا عن ابن عباس قال: نہی عن عزل الحرة إلا بإذنہا ( عبد الرزاق والبیہقی)
مندرجہ بالا احادیث مبارکہ میں واضح طور پر یہ بیان موجود ہے کہ”عزل“ کے جواز کے ساتھ ساتھ ممانعت اور قباحت و شناعت کا بیان بھی مذکور ہے، البتہ یہ فرق صاف عیاں ہے کہ اجازت کا بیان مخصوص، مشروط ومقید ہے، اور کراہت و ناپسندیدگی کا بیان عموم و اطلاق سے با وصف ہے۔
ممانعت کی روایتوں میں یہ بھی صراحت پائی جارہی ہے کہ اگر عزل کے پیچھے متوقع خدشات و توہمات کارفرما ہوں تو پھر درست نہیں ہے
تیسرا یہ کہ خود ”جواز“والی روایتوں سے واضح طور پر ثابت ہو تا ہے کہ ”عزل“ میاں بیوی کا انفرادی ، ذاتی اور صوابدیدی معاملہ ہے، اسے ادارتی و ریاستی مداخلت سے محفوظ اور دور رکھنا چاہیے، جیسا کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کے ارشادات سے آپ کی ناگواری اور ناپسندیدگی عیاں ہے، مگر کلی طور پر ممانعت نہیں فرمائی، بلکہ کبھی یوں فرمایا کہ: اگر ایسا نہ کرو تو تمہیں کیا نقصان ہوگا۔ کبھی یوں فرمایا کہ: آزاد عورت کی رضامندی سے ایسا کرسکتے ہو اور خود سب سے بڑا مستدل” کنا نعزل والقرآن ینزل“ اس بات کا بیان ہے ” عزل “ قانونی و دستوری مداخلت سے آزاد رہا ہے۔
اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہاے کہ ” عزل“ کے جواز پر جن روایتوں سے استدلال کیا جاتا ہے ،ان روایتوں سے جہاں” عزل“ کی گنجائش معلوم ہو تی ہے، اس سے زیادہ یہ ثابت ہو تا ہے کہ میاں بیوی کے اس انفرادی صوابدیدی عمل میں ریاستی ، قانونی یا ادارتی دخل اندازی کا کوئی جواز نہیں، یعنی اس مسئلے کو تنظیم ، ادارہ یا ریاست کی سطح پر اٹھانا بالکل درست نہیں ہے۔
چوتھا یہ کہ جواز بتانے کے لئے جو الفاظ و تعبیرات استعمال ہوئے، وہ ناپسندیدگی سے خالی نہیں ۔ اس کے مقابلے میں ممانعت والی روایتوں میں بیان حکم کے لیے زیادہ سخت الفاظ استعمال کے لیے گئے ہیں مثلا ” وادخفی“ ( خفیہ طور پر زندہ درگوری)، یہ ڈانٹ کہ نہ کریں۔ اور” قتل بالسر“(یعنی خفیہ طورپر قتل کرنا)، تو ہم پرستی کا حصہ قرار دیتے ہوئے اس کے ازالے کے لیے” عار“ دلانے کے لیے کافروں کی مثالیں دینا وغیرہ وغیرہ۔
اس حقیقت حال کی روشنی میں ”عزل“ کے مجوزین کے مطلق استدلال ، طرز استدلال اور یکطرفہ روش تو بہت بڑا سوالیہ نشان ہے؟ البتہ اس مسئلے سے متعلق جہاں تک ابحاث کے علمی پہلو کا تعلق ہے، وہ نہ تو زیادہ طویل ہے، نہ اتنا پیچیدہ اور گنجلک ہے ،جسے سمجھنے اور سمجھانے کے لئے ڈھیروں خزانے خرچ ہوں اور ضخیم ،ضخیم مقالے لکھے جائیں۔ دوسری طرف جب ان ( منع والی ) احادیث کو رخصت و اجازت والی حدیثوں کے ساتھ جمع و تطبیق کی کوشش کرتے ہیں تو یہی رائے سامنے آتی ہے کہ ممانعت کراہت تنزیہی پر محمول اور اجازت کا محور و محمل یہ ہے کہ عزل بس حرام نہیں ہے، اجازت کا یہ معنی نہیں ہے کہ کراہت ہی ختم ہوگئی، ( نووی علی مسلم :۱/۴۶۴)
بنا بریں صحیح نقطہٴ نظر یہی معلوم ہو تا ہے کہ ” عزل “ نہ تو بالکل حرام ہے اورنہ بلا کراہت جائز ہے ، جہاں جن صورتوں میں کراہت کے ساتھ جائز ہے وہ شریعت کا لازمی تعبدی حکم ہر گز نہیں،جسے بلا روک ٹوک بے حجابانہ اختیار کیا جائے، اسے پیشہ اور مشن بنایا جائے اور سرکاری یا غیر سرکاری اداروں کی مستقل مصروفیت میں دیا جائے، بلکہ یہ میاں بیوی کا باہمی انفرادی، نجی اور بند کمرے کا صوابدیدی معاملہ ہے، وہ ان کے ذاتی حالات کے تناظر میں زیادہ سے زیادہ مباح عمل ہے۔
اور مباحات کا ضابطہ امام شاطبی رحمة اللہ نے یہ ذکر کیا ہے کہ ” ھوتابع للأغراض “ اگرمباح اعمال کا محرک صحیح غرض ہو تو صحیح ہے اور اگر مباح اعمال میں غرض فاسد کی تحریک شامل ہو یا عام معمول کے مطابق مباح عمل کسی ممنوع کام کے لیے وسیلہ بنتا ہے تو ایسے مباح کو ممنوع کا م کا وسیلہ ہونے کی بنا پر اختیار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ (الموافقات:۱/۱۷۶)
لہٰذا یہ کہنے کی مطلق گنجائش ہے کہ اگر عزل کی رخصتوں کی بنیاد پر منع حمل کی احتیاطی تدابیر میاں بیوی ذاتی عوارض کے تحت کریں تو مباح ہے اور اگر خاندانی منصوبہ بندی کے مغربی مشن کی تکمیل کے لیے کریں تو غرض فاسد کی وجہ سے ناجائز ہے۔واللہ اعلم
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , شوال المکرم:۱۴۳۱ھ - اکتوبر: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 10

    پچھلا مضمون: علامہ سید محمد انور شاہ کشمیری اکابر کی نظر میں
Flag Counter