Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی شعبان المعظم ۱۴۳۱ھ - اگست ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

7 - 10
ابو الاعلی مودودی اور سریہ عبد اللہ بن جحش !
ابو الاعلی مودودی اور سریہ عبد اللہ بن جحش 
(آخری قسط)
سریہ ابن جحش کی کہانی
آیئے مذکورہ حالات کے پس منظر میں اب ہم اس فوجی کارروائی کا مطالعہ کریں جو عبد اللہ بن جحش کے فوجی دستے کے ہاتھوں عمل میں آئی، ویسے تو تفسیر وتاریخ کے تقریباً تمام مصنفین نے یہ واقعہ الفاظ کی معمولی کمی بیشی کے ساتھ اپنی کتابوں میں تفصیلاً نقل فرمایا ہے، لیکن ہم یہاں تفسیر کبیر سے واقعہ مذکور کا ترجمہ درج کرتے ہیں، امام فخر الدین رازی  نے حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت سے واقعہ کی تفصیل لکھی ہے:
”حضرت عبد اللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ نبی ا نے مدینے میں تشریف لانے کے سترہ ماہ بعد اپنے پھوپھی زاد بھائی حضرت عبد اللہ بن جحش کو غزوہٴ بدر سے دوماہ پہلے آٹھ افراد کے ایک گروپ میں بھیجا اور حکمنامہ لکھ کر ان کے حوالے کیا اور حکم دیا کہ دو منزل سفر کرنے کے بعد اسے کھولنا اور اپنے ساتھیوں کو پڑھ کر سنانا اور اس میں جو لکھا ہے اس پر عمل کرنا ،حسب ارشاد جب حکمنامہ کھولا تو اس میں لکھا تھا:
”اما بعد فسر علی برکة اللّٰہ بمن اتبعک حتی تنزل بطن نخلہ فترصد بہا عیر قریش لعلک ان تأتینا منہ بخیر،،۔
ترجمہ:․․․” ساتھیوں میں سے جو تیرے ساتھ چلے اسے ساتھ لے کر اللہ کی برکت پر چلتے رہو حتی کہ بطن نخل میں فروکش ہوجاؤ، وہاں قریش کے قافلہ کی گھات میں رہو، ہم امید کرتے ہیں کہ تو ہمارے پاس اس قافلے سے کوئی بھلائی لے کر آئے گا۔“
حضرت عبد اللہ بن جحش نے حکمنامہ پڑھ کر کہا :آپ اکا فرمان سر آنکھوں پر! پھر اپنے ساتھیوں سے کہا:
”من احب منکم الشہادة فلینطلق معی فانی ماض لامرہ ومن احب التخلف فلیتخلف،،۔
ترجمہ:․․․”تم میں سے جسے شہادت محبوب ہو وہ میرے ساتھ چلے، کیونکہ مجھے تو بہرحال حکم بجا لانا ہے اور جو پیچھے رہنا پسند کرے وہ بڑی خوشی سے پیچھے رہے ،،۔
وہ چلتے رہے حتی کہ طائف اور مکہ کے درمیان مقام نخلہ میں پہنچے، وہاں ان کے پاس سے عمرو بن حضرمی اپنے ساتھیوں کے ساتھ گذرا، جب ان لوگوں نے رسول اللہ ا کے صحابہ کرام کو دیکھا تو صحابہ کرام نے انہیں یہ مغالطہ دینے کے لئے کہ قافلے والے انہیں عمرہ کرنے والے سمجھیں، اپنے میں سے ایک ساتھی کا سرمونڈدیا پھر حضرت عبد اللہ بن جحش کے ایک ساتھی حضرت واقد بن عبد اللہ الحنظلی نے عمرو بن حضرمی کو تیر کا نشانہ بناکر قتل کردیا اور اس کے دو ساتھیوں کو قید کرلیا اور قافلہ کو سازوسامان سمیت لے کر نبی ا کی خدمت میں حاضر ہوگئے، ادھر قریش نے آسمان سر پہ اٹھا لیا، کہنے لگے: محمد ا نے ماہ حرام کو حلال قرار دے دیا، وہ مہینہ جس میں خوف زدہ امان پاتا تھا، اب اس میں خون بہائے جائیں گے ، اور مسلمانوں کو بھی یہ بات ناگوار گذری، چنانچہ رسول اللہ ا نے فرمایا: میں نے تمہیں ماہ حرام میں جنگ کرنے کا حکم نہیں دیا تھا، حضرت عبد اللہ بن جحش کہنے لگے: یا رسول اللہ! ہم نے ابن حضرمی کو قتل کرنے کے بعد اگلی شام رجب کا چاند دیکھا، یہ ہم نہیں جانتے کہ ہم نے جمادی الاخریٰ کی آخری تاریخ کو حضرمی کو قتل کیا یا رجب کی پہلی تاریخ کو، قیدی اور قافلہ کا سازوسامان رسول اللہ ا نے ابھی وصول نہیں کیا، بلکہ ان کے پاس ہی رہنے دیا، پھر یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ ا نے مال غنیمت وصول کیا،،۔ (تفسیر کبیر ج:۶،ص:۳۰)
حدیث کی کتابوں میں واقعہ کی تفصیل ذکر نہیں ہے، صرف سریہ حضرت اللہ بن جحش کے بھیجے جانے کا ذکر ہے۔ اکثر مصنفین نے یہ واقعہ رجب ۲ھ کی پہلی تاریخ کے بجائے آخری تاریخ کا نقل کیا ہے، اور یہی صحیح ہے۔
روح المعانی میں ہے کہ آپ انے حضرت عبد اللہ بن جحش کو خط لکھ کردیا اور ابھی یہ نہیں بتایا تھا کہ اسے جانا کہاں ہے، پھر فرمایا کہ تو اور تیرے ساتھی جاؤ اور دو دن چلنے کے بعد اپنا یہ خط کھول کر دیکھنا پھر اس میں جو میں نے آپ کو حکم دیا ہے، اسے سرانجام دینا۔ (روح المعانی، ج:۱، جزء: ۲،ص:۱۰۷)
امام قرطبی فرماتے ہیں کہ: حضرت عبد اللہ بن جحش نے اپنے ساتھیوں کو نامہ مبارک سناکر جب ان سے کہا کہ جسے شہادت محبوب ہو وہ اٹھے اور جسے موت ناگوار ہو وہ واپس چلا جائے تو سب نے یک زبان ہوکر کہا:
”کلنا نرغب فیما ترغب، وما منا احد الا وہو سامع ومطیع لرسول اللہا،،۔ (قرطبی،ج:۳،ص:۴۱)
ترجمہ:․․․””ہم سبھی کو وہی محبوب ہے جو آپ کو محبوب ہے اور ہم میں سے کوئی ایسا نہیں جو رسول اللہ ا کے فرمان کو بسر وچشم قبول نہ کرے،،
چنانچہ امام قرطبی فرماتے ہیں:
”ونفذ عبد اللّٰہ بن جحش مع سائرہم لوجہ حتی نزل بنخلة،،۔
ترجمہ:․․․”حضرت عبد اللہ بن جحش سب ساتھیوں کو لے کر چلتے رہے حتی کہ مقام نخلہ میں اترے،،
اور جب یہ فوجی دستہ مقام نخلہ میں پہنچا تو ابھی قریش کا قافلہ وہاں نہیں پہنچ پایا تھا، لہذا ابن قیم فرماتے ہیں:
”فوصلوا الی بطن نخلة یرصدون عیر قریش،،۔ (زاد المعاد،ج:۳،ص:۱۶۷)
پھر یہ لوگ بطن نخلہ پہنچ کر قریش کے قافلہ کا انتظار کرنے لگے، امام قرطبی فرماتے ہیں:
”فمرت بہم عیر قریش” فتشاور المسلمون وقالوا نحن فی آخر یوم من رجب الشہر الحرام فان قاتلناہم ہتکنا حرمة الشہر الحرام وان ترکناہم اللیلة دخلوا الحرم ثم اتفقوا علی لقائہم،،۔ (احکام القرآن قرطبی ج:۳،ص:۴۱)
ترجمہ:…”پھر قریش کا قافلہ ان کے پاس سے گذراتو مسلمانوں نے باہم مشورہ کیا کہ ہم ماہ رجب کے آخری دن میں ہیں، اگر ہم ان سے جنگ کرتے ہیں تو ماہ حرام کی حرمت مجروح ہوتی ہے اور اگر آج کی رات انہیں مہلت دیں تو کل یہ حرم میں داخل ہوجائیں گے پھر وہ ان سے مقابلہ پر متفق ہوگئے،،۔
اور تمام مصنفین اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن جحش نے مال غنیمت کی تقسیم سے پانچواں حصہ (خمس) نبی ا کے لئے نکالا اور باقی مال آٹھ ساتھیوں میں تقسیم کیا، یہ اس وقت ہے جب ابھی خمس کا حکم قرآن میں نازل نہیں ہوا تھا اور بعد میں جب قرآن میں غنیمت کی تقسیم کا حکم نازل ہوا تو حضرت عبد اللہ بن جحش کی تقسیم کے مطابق نازل ہوا، بجا فرمایا امام قرطبی نے کہ اللہ اور اس کے رسول نے تقسیم غنیمت میں حضرت عبد اللہ بن جحش کے فعل کو درست قرار دیا اور اسی کو پسند فرمایا اور قیامت تک کے لئے اس طریقے کو امت کے لئے شرعی قانون بنادیا۔ اور یہ پہلا مال غنیمت ہے جو مسلمانوں کو حاصل ہوا، حضرت عبد اللہ بن جحش پہلے امیر ہیں جو امت میں مقرر کئے گئے اور عمرو بن حضرمی پہلا کافر ہے جو مسلمانوں کے ہاتھوں جہنم رسید ہوا۔ (احکام القرآن قرطبی ج:۳،ص:۴۲)
جب یہ لوگ قافلہ کو لے کر نبی ا کی خدمت میں آئے تو آپ ا نے فرمایا:
”ما امرتکم بقتال فی الشہر الحرام فاوقف رسول اللّٰہ االاسیرین والعیر فلم یأخذ منہا شیئاً،،۔ (روح المعانی:ایضاً)
ترجمہ:…”میں نے تمہیں ماہ حرام میں قتال کا حکم نہیں دیا تھا پھر آپ ا نے قیدی اور مال غنیمت انہی کے پاس رہنے دیا اور اس میں سے کوئی چیز وصول نہیں کی،،۔
جب آپ نے یہ فرمایا تو وہ لوگ پچھتائے اور سمجھے کہ مارے گئے اور دوست احباب نے بھی انہیں سخت سست کہا۔
ادھر قریش نے پروپیگنڈے کا طوفان کھڑا کردیا، یہود اور منافقین نے بھی ان کی لے میں لے ملائی، امام رازی فرماتے ہیں: ”ضجت قریش،، قریش نے ہنگامہ کھڑا کردیا ۔ ابن قیم فرماتے ہیں:
”اشتد تعنت قریش وانکارہم ذلک وزعموا انہم وجدوا مقالاً،،۔ (زاد المعاد ج:۳،ص:۱۶۷)
ترجمہ:․․․”قریش کی بدتمیزی انتہائی حد تک بڑھ گئی اور انہوں نے اسے بہت برا جانا اور وہ سمجھے کہ انہیں اعتراض کرنے کے لئے ایک بات مل گئی ہے،،۔
طبری اور البدایة میں ہے کہ:
”فلما اکثر الناس فی ذلک انزل الله فی ذلک علی رسولہ،،۔
ترجمہ:…”جب لوگوں نے بہت باتیں بنائیں تو اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر آیات نازل فرمائیں،،۔
ان آیات میں مشرکین مکہ کے پروپیگنڈے کا جو جواب دیا گیا ہے یہی جواب اس بارے میں قرآن نازل ہونے سے پہلے صحابہ کرام کی طرف سے دیا جارہا تھا، چنانچہ ابن اسحاق نے حضرت ابوبکر صدیق  کے چند اشعار نقل کئے ہیں اور ابن ہشام نے ان اشعار کو فوجی دستے کے امیر حضرت عبد اللہ بن جحش کی طرف منسوب کیا ہے، ان اشعار سے معلوم ہوتا ہے کہ کبار صحابہ کرام مشرکین کے پروپیگنڈے سے متأثر نہیں ہوئے تھے، وہ حضرت عبد اللہ بن جحش کے اقدام کو صحیح اور برحق سمجھتے تھے اور رسول اللہ ا کے ہدیہ غنیمت وصول نہ کرنے کو ناراضگی کے بجائے وحی کا انتظار سمجھتے تھے اور حقیقت بھی یہی تھی۔ وہ اشعار حسب ذیل ہیں:
تعدون قتلاًفی الحرام عظیمة
واعظم منہ لو یریٰ الرشد راشد
صدودکم عما یقول محمد
وکفر بہ والله راء وشاہد
واخراجکم من مسجد اللّٰہ اہلہ
لئلا یریٰ لله فی البیت ساجد
وانا وان عیر تمونا بقتلہ
وارجف بالاسلام باغ وحاسد
سقینا من ابن الحضرمی رماحنا
بنخلة لما اوقد الحرب واقد
دماً وابن عبد الله عثمان بیننا
ینازعہ غل بالقید عاند
(تفسیر ابن کثیر،ج:۱،ص:۲۵۵)
ترجمہ:…”تم حرام کے مہینے میں قتل کو بڑا گناہ قرار دیتے ہو لیکن اگر کوئی صحیح سمجھ رکھنے والا ایمانداری سے دیکھے تو اس سے کہیں بڑا گناہ لوگوں کو محمد ا کی بات سننے سے تمہارا روکنا ہے اور ان کو نہ ماننا ہے۔ اور اللہ کی مسجد سے اہل مسجد کو نکالنا ہے تاکہ بیت اللہ میں کوئی سجدہ کرنے والا دکھائی نہ دے۔ اور اللہ دیکھ رہا ہے اور گواہ ہے اور تم اگرچہ ابن حضرمی کے قتل کی آڑ میں ہم پر عیب لگاتے ہو اور ظلم کمانے والے اور حسد کی آگ میں جلنے والے اسلام کے خلاف پروپیگنڈا کررہے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہم نے اپنے نیزوں کو ابن حضرمی کے خون سے سیراب کیا ہے اور عثمان بن عبد اللہ ہمارے پاس ہے جس سے قید وبند کی سرکش بیڑیاں جھگڑ رہی ہیں،،۔
درحقیقت عمرو بن حضرمی کا قتل قریش کے لئے ایک ایسا کاری زخم تھا کہ جسے وہ برداشت نہ کرسکے۔ طبری میں ہے:
”کان الذی ہاج وقعة بدر وسائر الحروب التی کانت بین رسول اللّٰہ ا وبین مشرکین قریش فیما قال عروة ابن الزبیر ماکان قتل واقد بن عبد الله التمیمی ابن الحضرمی،،۔ (ابن جریر طبری ج:۲، ص:۱۳۱)
ترجمہ:…”جنگ بدر اور تمام وہ جنگیں جو رسول اللہ ااور مشرکین قریش کے درمیان پیش آئیں، عروہ بن زبیر کا کہنا ہے کہ واقد بن عبد اللہ تمیمی کے ہاتھوں عمرو بن حضرمی کا قتل ہی ان جنگوں کو بھڑکانے کا سبب بنا،،۔
اس سے معلوم ہوا کہ عمرو بن حضرمی کا قتل قریش کے ہاں ایک انتہائی غیر معمولی واقعہ تھا، پھر بھلا پرو پیگنڈے میں وہ اپنا پورا زور کیوں نہ لگاتے، اور پروپیگنڈے کی نفسیات یہ ہوتی ہیں کہ جتنے منہ اتنی باتیں، لہذا نہایت بے سروپاباتیں بسا اوقات کانوں سے اتنی کثرت سے ٹکراتی ہیں کہ وہ حقیقت بن جاتی ہیں اور بے سرو پا ہوتے ہوئے بھی وہ معتبر اور مستند روایات قرار پاجاتی ہیں، چنانچہ سریہ بن جحش کو تمام سرایا میں یہ خصوصیت حاصل ہے کہ یہ سریہ قریش کے دل میں چبھنے والا وہ زہریلا کانٹا بن گیا جس نے صرف مشرکین ہی کو نہیں تڑپا یا بلکہ چودہ صدی بعد بھی اس کی چبھن ارباب کفر ونفاق کو تڑپا رہی ہے، پھر کیسے ممکن تھا کہ اس کی سچائی کو بے سروپا حکایتوں کی بھول بھلیوں میں گم کرنے کی کوشش نہ کی جاتی۔
تنقیح وتجزیہ
حضرت عبد اللہ بن جحش کی جنگی کارروائی میں حسب ذیل باتیں واضح ہیں:
۱:…آپ ا نے حضرت عبد اللہ بن جحش کو تحریر شدہ حکمنامہ دیا، زبانی صرف یہ بتایا کہ دو دن چلنے کے بعد خط کھولنا اور اس میں جو حکم دیا گیا ہے اسے بجالانا،اس کے علاوہ زبانی آپ ا نے کچھ نہیں فرمایا۔
۲:… گویا حکمنامے کی تحریر نہایت واضح اور غیر مبہم ہے، اسی لئے زبانی کچھ فرمانے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔
۳:…حکمنامے کی تحریر کا مطلب تمام صحابہ کرام نے ایک ہی سمجھا، کیونکہ مفہوم ومعنی میں کسی طرح کاکوئی ابہام یا اشکال ہوتا تو حکمنامے کا مطلب سمجھنے میں کئی رائے ہوجاتیں۔
۴:…حکمنامے میں درج تھا کہ مقام نخلہ پہنچ کر قریش کے قافلے کی گھات میں بیٹھنا، جس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عبد اللہ بن جحش مقام نخلہ میں قافلے سے پہلے پہنچیں گے، قافلہ اس کے بعد آئے گا اور ہوا بھی اسی طرح۔
۵:…حضرت عبد اللہ بن جحش نے نامہ مبارک پڑھ کر انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا اور اپنے عزم شہادت کا اعلان کیا اور ساتھیوں کو طلب شہادت کی دعوت دی، سب نے بصد خوشی فرمان نبوی کو قبول کیا۔
۶:…حضرت عبد اللہ بن جحش کا فعل اللہ اور اس کے رسول ا کو پسند ہے اور اتنا پسند ہے کہ اسی کو آئندہ کے لئے امت کا قانون بنادیا گیا۔
۷:…نامہ مبارک میں رسول اللہ ا کی دعا درج ہے کہ: ”اللہ کی برکت پر چلتے رہو،، یعنی اللہ کی برکت ہر وقت اس دستے کے شامل حال ہے اور اس حال میں ممکن نہیں کہ ان سے کوئی ناجائز حرکت سرزد ہو۔
۸:…مشرکین، منافقین اور یہود نے زبردست پروپیگنڈا مہم چلائی ہے اور صحابہ کرام کی طرف سے مشرکین کے پرو پیگنڈے کا جواب بھی دیا گیا اور جب قرآن نازل ہوا تو صحابہ کرام کے اس جواب کے مطابق نازل ہوا۔
۹:…واقعہ رجب کی پہلی نہیں آخری تاریخ کا ہے یا شعبان کی پہلی تاریخ کا۔
۱۰:…نقل روایت میں متقدمین کے ہاں تحقیق کرنا نہیں ،بلکہ سند نقل کرنا معمول تھا۔
۱۱:…آپ ا نے قیدی اور ہدیہ غنیمت وصول کرنے میں انکار نہیں بلکہ توقف فرمایا، یعنی ابھی وحی سے اس بارے میں کوئی ہدایت نہیں ملی تھی۔
۱۲:…آیت نازل ہونے پر آپ انے غنیمت کا ہدیہ وصول فرمایا، جس کا مطلب یہ ہے کہ آیت ان کی تائید وحمایت میں نازل ہوئی، ورنہ آپ ا غنیمت کی کوئی چیز بھی قبول نہ فرماتے۔
۱۳:…قبول غنیمت میں توقف فرمانے کے موقع پر زبردست پروپیگنڈے کی فضا سے یہ تاثر ابھرا کہ شاید رسول اللہ ا ان کے اس اقدام پر خوش نہیں ہیں، حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں تھی۔
۱۴:…اس تأثر نے اس خیال کو جنم دیا کہ آپ ا نے انہیں اس اقدام کا حکم نہیں دیا تھا، حالانکہ یہ خیال حکمنامہ کی تحریر کے مخالف ہے۔
۱۵:… اس خیال کو راوی نے ”ما امرتکم بالقتال فی الشہر الحرام،، سے تعبیر کیا،یعنی یہ جملہ راوی کا تصرف ہے، رسول اللہ اکا کلام نہیں، کیونکہ آپ انے جو کچھ فرمایا وہ حکمنامہ میں ہے۔
۱۶:…اگر اس جملے کی یہ تاویل نہ کی جائے تو یہ جملہ اپنے سیاق میں محض بے معنی اور مہمل جملہ ہے۔
۱۷:…قافلے سے ٹکراؤ راستے میں اتفاقاً نہیں ہوا، بلکہ یہ فوجی دستہ اسی قافلے کے لئے بھیجا گیا تھا، قافلے کو مقام نخلہ سے گزرنا تھا اور اس فوجی دستے کو قافلہ سے پہلے مقام نخلہ میں پہنچ کر اس قافلے کا انتظار کرنا تھا۔
۱۸:… حملے سے پہلے باقاعدہ مشورہ ہوا کہ حملہ آج کیا جائے یا کل پھر سب کی رائے یہ ٹھہری کہ حملہ آج ہی کیا جائے۔
۱۹:…حملہ کب کیا جائے اس بارے میں تو مشورہ ہوا لیکن حملہ کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں کوئی بات نہیں چلی، کیونکہ حملہ کرنے کی خاطر ہی تو انہیں بھیجا گیا تھا۔
۲۰:…اگر حملہ کرنے میں رسول اللہ اکے حکم کے بجائے اپنی رائے پر عمل کیا گیا ہوتا تو آیت حمایت کے بجائے سخت وعیدمیں اترتی اور آپ ا غنیمت کبھی وصول نہ فرماتے۔
مودودی صاحب کے تفسیری نکات کی تشریح اور جائزہ
آیئے اب ہم ان نکات پر غور کریں جو مودودی صاحب کی تفسیری عبارت سے ہم نے ترتیب دیئے ہیں :
۱:…مودودی صاحب کا فرمانا یہ ہے کہ: حضرت عبد اللہ بن جحش کے دستے کا مقصد ایک پُرامن مہم تھا اور رسول اللہ ا کی طرف سے انہیں یہ ہدایت تھی کہ وہ بس قریش کی نقل وحرکت اور ان کے آئندہ ارادوں کے متعلق معلومات حاصل کرے۔
ہم نے تاریخ وتفسیر کی کتابوں سے جو روایات نقل کی ہیں ان میں یہ بات واضح ہے کہ اس دستے کو تحریری مکتوبات کے سوا زبانی اور کوئی ہدایت نہیں دی گئی اور مکتوبات مبارک میں جو حکم دیا گیا ہے حضرت ابن عباس کی روایت میں اس کے الفاظ یہ ہیں:
”اما بعد فسر علی برکة الله بمن اتبعک حتی تنزل بطن نخلة فترصد بہا عیر قریش لعلک ان تأتینا فیہ بخیر،،۔
اس فرمان میں آپ انے اپنی دعاء مستجاب کے ساتھ تین باتوں کا حکم دیا ہے۔
۱:… بطن نخلہ میں اترنا۔
۲:… وہاں قریش کے قافلہ کی گھات میں رہنا۔
۳:… اس قافلے سے کوئی بھلائی لے کر واپس آنا، البدایة میں تیسری بات یعنی ”ان تأتینا منہ بخیر،، اس قافلے سے کوئی بھلائی لے کر ہمارے پاس واپس آنا، اس کی جگہ ابن اسحاق کی روایت میں حسب ذیل الفاظ ہیں: ”وتعلم لنا من اخبارہم،، ہمارے لئے ان کی کوئی خبر بھی معلوم کرنا۔ دونوں روایتوں میں اختلاف واضح ہے لیکن دونوں روایتوں میں تطبیق کی صورت موجود ہے، وہ یہ کہ ابن اسحاق کی روایت کے آخری جملے کو ابن عباس کی روایت میں شامل کرلیا جائے تو مکتوب نبوی کی پوری عبارت اس طرح ہوگی:
”اما بعد فسر علی برکة الله بمن اتبعک حتی تنزل بطن نخلة فترصد بہا عیر قریش وتعلم لنا من اخبارہم لعلک ان تأتینا منہ بخیر،،۔
ترجمہ:…”جو آپ کے ساتھ چلے اسے لے کے اللہ کی برکت پر چلتے رہو حتی کہ بطن نخلہ میں اترجانا پھر وہاں قریش کے قافلے کی گھات میں رہنا، اور ہمارے لئے ان کی کوئی خبر بھی معلوم کرنا، تاکہ آپ اس قافلے سے ہمارے پاس کوئی بھلائی لے کر واپس آئیں،،۔
گویا فرمان مبارک میں تین نہیں ،چار باتوں کا حکم دیا گیا ہے، لیکن روایت بالمعنی کی وجہ سے کسی راوی سے تیسری بات چھوٹ گئی اور کسی راوی سے چوتھی بات رہ گئی، تطبیق کی اور صورتیں بھی ممکن ہیں لیکن یہ صورت قریب ترین صورت ہے اور یہ کہ اس میں دونوں روایتیں جمع ہوجاتی ہیں۔ اکثر مصنفین نے فرمان مبارک کی چار باتوں میں سے پہلی تین کا ذکر کیا ہے۔ان تین باتوں میں تیسری بات یعنی ”وتعلم لنا من اخبارہم،، اور ہمارے لئے ان کی کوئی خبر بھی معلوم کرنا۔ یہ بات بظاہر مودودی صاحب کے مسلک کی اس حد تک تائید کرتی ہے کہ یہ دستہ قریش کی نقل وحرکت معلوم کرنے گیا تھا، حالانکہ ایسا نہیں ہے ،کیونکہ:
۱:… بطن نخلہ مکہ مکرمہ سے دو دن کی مسافت پر ہے، لہذا اگر قریش کی نقل وحرکت معلوم کرنا ہوتی تو اس دستے کو سیدھا مکہ کی طرف بھیجنا چاہئے تھا، اس لئے کہ بطن نخلہ کی طرف قریش کی نقل وحرکت طائف یا یمن جانے کے لئے ہوگی، کیونکہ مدینہ ، مکے سے شمال میں ہے اور جنوب مشرق میں ہے۔
۲:…اور یہ کہ تیسری بات فرمان نبوی میں ضمناً ذکر ہوئی ہے، کیونکہ اس فوجی دستے کا اصل مقصد بطن نخلہ پہنچ کر قریش کے قافلہ کی گھات میں بیٹھنا ہے اور اس قافلے سے بھلائی لے کر واپس آنا ہے، ادھر چونکہ ماہ رجب کی آخری تاریخیں ہیں، ان تاریخوں میں عرب عمرہ کرکے واپس لوٹتے ہیں، لہذا واپس لوٹنے والے اس راستے سے گذریں تو ان سے قریش مکہ کے بارے میں معلومات بھی ہوسکتی ہیں، لہذا اس ذریعہ سے فائدہ اٹھانے کی ہدایت بھی کردی گئی۔
۳:…فرمان نبوی میں ہے ”حتی تنزل بطن نخلة،، بطن نخلہ میں اترنے تک چلتے رہو یعنی منزل مقصود کا تعین کردیا، اس کے بعد فرمایا: ”فترصد بہا عیر قریش،، اس فقرے میں ”فاء،، تعقیب کے لئے ہے جو منزل پر پہنچنے کے مقصد اور غرض وغایت کو بیان کرتی ہے اور وہ مقصد ہے وہاں قریش کے قافلہ کی گھات میں بیٹھنا۔ باقی رہا یہ سوال کہ قریشی قافلہ کی گھات میں بیٹھنے کا کیا مطلب ہے؟ عرض یہ ہے کہ گھات میں بیٹھنے کے دو ہی مطلب ہوسکتے ہیں: پہلا مطلب جسے حالات کی معروضی صورت یعنی رفتار وکیفیت متعین کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ ”قافلہ بچ کے نہ جائے،، اور یہی صحابہ کرام نے سمجھا، کیونکہ جن حالات سے وہ گذررہے تھے اور قریش کی جس جارحیت کا انہیں سامنا تھا، اس کی روسے یہ معنی خود بخود متعین ہورہے تھے۔ دوسرا مطلب حالات کی رفتار وکیفیت سے آنکھیں بندکر کے صرف الفاظ کے لغوی معنی کو سامنے رکھتے ہوئے یہ معنی بھی ممکن ہیں کہ: ”قریش قافلہ کی گھات میں بیٹھنا،، تاکہ جب قافلہ واپس گذرے تو اس قافلے میں شامل افراد اور اونٹ پوری احتیاط سے گن سکو اور واپس آکر تم ٹھیک ٹھیک بتا سکو کہ طائف سے واپس آنے والے قریشی قافلے میں کل کتنے آدمی تھے اور کتنے اونٹ تھے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ اگر ہم فرض بھی کرلیں کہ حالات کا کوئی ایسا تقاضا تھا ہی نہیں جو کلام نبوی ”فترصد بہا عیر قریش،، کے مطلب کی تعیین کرتا، لہذا دوسرا مطلب مراد لینا بھی جائز ہے۔ بجاو درست! لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ چار افراد کے قافلے کو گننے کے لئے دس افراد کو بھیجنے کی کیا ضرورت تھی، کیا ایک ایک شخص کو کئی کئی صحابی گنیں گے؟ اور اس معمولی سی بات کے لئے تحریری فرمان کی کیا ضرورت تھی؟ اور پھر اس اہتمام کی کیا ضرورت تھی کہ دو دن جانے کے بعد خط کھولنا؟پھر یہ کہ دستہ اس شان سے بھیجا جارہا ہے کہ اسلام میں پہلا امیر اسی دستے پر مقرر کیا گیا ہے۔
۴:…اور اگر قریش کے قافلے کی گھات میں بیٹھنے کی غرض قریش کی نقل وحرکت معلوم کرنا ہی ہوتا تو اس کے لئے ”وتعلم من اخبارہم،، کے بجائے ”فتعلم من اخبارہم،، ہوتا، یعنی واؤ کے بجائے شروع میں فاء ہوتی۔
۵:…حضرت عبد اللہ بن جحش نے جب نامہ مبارک کھولا۔
”فلما قرء الکتاب استرجع ثم قال سمعاً وطاعةً لامر الله ورسولہ،،۔
پھر جب نامہ مبارک پڑھا تو کہا ”انا لله وانا الیہ راجعون،، اور پھر کہا اللہ اور اس کے رسول کا حکم سر آنکھوں پر، پھر اپنے ساتھیوں کو خط پڑھ کر سنایا اور کہا کہ: تم میں سے جس کو شہادت محبوب ہے وہ میرے ساتھ چلے اور جسے موت ناگوار ہو وہ واپس چلا جائے۔ یہ سن کر تمام ساتھی بیک زبان بولے: ہم سب کو وہی محبوب ہے جو تمہیں محبوب ہے اور ہم سب رسول اللہ ا کے حکم کو بسر وچشم قبول کرتے ہیں، یعنی فرمان نبوی پڑھ ،سن کر سبھی کا اسے بسر وچشم قبول کرنا اور بصد شوق جذبہٴ شہادت سے سرشار ہونا اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ یہ نامہ مبارک فرمان جنگ تھا اور تمام ساتھیوں نے اس فرمان کو فرمان جنگ ہی قرار دیا اور وہ قافلے کو لوٹنے کے لئے نہیں ،بلکہ اپنی جان قربان کرنے کا عزم لے کر شوق شہادت میں آگے بڑھ رہے ہیں، اب اگر شہادت کی آرز وپوری ہونے کے بجائے انہیں قافلے پر فتح حاصل ہوئی تو یہ اللہ تعالیٰ کا فضل وانعام ہے ،اسے لوٹ قرار دینا نگاہ کی نامسلمانی کی دلیل ہے۔
۶:… اگر نامہ ٴ مبارک کی عبارت میں تیسری بات شامل نہ ہو جیسے کہ تفسیر کبیر میں ابن عباس کی روایت میں شامل نہیں ہے تو فرمان نبوی کے مفہوم میں اور اس کی جامعیت میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ بلکہ فرمان نبوی کی عبارت اور صحابہ کرام کے فہم وعمل میں پورا ربط باقی رہتا ہے اور تقاضائے صحابیت کو پورا کرتی ہوئی سلیقہ مندی کا کمال جھلکتا ہے اور اگر دوسری بات یعنی ”فترصد بہا عیر قریش،، وہاں پہنچ کر قریش کے قافلہ کی گھات میں بیٹھنا،نامہ مبارک سے خارج کردی جائے، حالانکہ وہ تمام روایات میں موجود ہے تو فرمان نبوی کی ساری معنویت ختم ہو کے رہ جاتی ہے اور ایسی صورت میں اس فرمان پر صحابہ کرام کا فہم وعمل احمقوں کی ایک احمقانہ حرکت معلوم ہوتا ہے۔
۷:…اور اگر یہ دوسری بات فرمان نبوی میں شامل ہو جیسے کہ تمام روایات میں ہے تو پھر فرمان نبوی کا یہ مفہوم لینا کہ:
”آٹھ آدمیوں کا ایک دستہ نخلہ کی طرف بھیجا تھا اور اس کو ہدایت فرمائی تھی کہ قریش کی نقل وحرکت اور اس کے آئندہ ارادوں کے متعلق معلومات حاصل کرے، جنگ کی کوئی اجازت آپ ا نے ان کو نہیں دی تھی،،۔ (تفہیم القرآن ج:۱، ص:۱۶۵)
یہ فرمان نبوی کا مفہوم نہیں بلکہ کھلی تحریف ہے اور فرمان نبوی کا حلیہ بگاڑنا ہے، بلکہ ایک پرائیویٹ خیال کو فرمان نبوی قرار دینا ہے۔ (العیاذ باللہ)لہذا معلوم ہوا کہ مودودی صاحب کا سریہ حضرت عبد اللہ بن جحش کی غرض وغایت یہ بتانا کہ وہ قریش کی نقل وحرکت اور ان کے آئندہ ارادوں کے متعلق معلومات حاصل کرے اور بس۔ یہ غلط اور خلاف حقیقت ہے۔
۲:…مودودی صاحب کا یہ فرمانا کہ: ”جنگ کی کوئی اجازت آپ ا نے ان کو نہیں دی تھی،،۔
۳:…آپ ا نے اسی وقت فرمادیا تھا کہ میں نے تم کو لڑنے کی اجازت تو نہیں دی تھی،،۔
۴:…جو کچھ ہوا نبی اکی اجازت کے بغیر ہوا،، یہ سب کھلا جھوٹ ہے جو رسول اللہ ا کی طرف منسوب کیا گیا ہے، کاش! مودودی صاحب حوالہ نقل فرمادیتے تو معلوم ہوجاتا کہ نبی ا کی طرف یہ جھوٹ منسوب کرنے کا مجرم کون ہے، تاریخ وتفسیر کی کتابوں میں اس سلسلہ کی جو روایات ہیں ان میں سے کسی روایت میں کہیں کوئی اشارہ تک ایسا نہیں ملتا جس سے یہ مفہوم نکلتا ہو کہ آپ کی طرف سے جنگ کی اجازت نہیں تھی، آپ ا نے زبانی کچھ فرمایا ہی نہیں اور جو کچھ فرمانا تھا وہ خط کی صورت میں تھا اور خط کے بارے میں یہ فرمایا تھا کہ دو دن چلنے کے بعد خط کھولنا اور اس میں تمہیں جو حکم دیا گیا ہے اس پر عمل کرنا، لہذا جو حکم بھی تھا وہ اس خط میں تھا، اس سے باہر اور کوئی چیز نہیں تھی۔البتہ ابن اسحاق کے حوالے سے نبی ا کی طرف منسوب ایک فقرہ تاریخی روایات میں مذکور ہے جو یہ ہے:
”فلما قدموا علی رسول اللّٰہ ا قال ما امرتکم بقتال فی الشہر الحرام،،
ترجمہ:․․․”جب وہ لوگ رسول اللہ ا کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ا نے فرمایا: میں نے تمہیں ماہ حرام میں جنگ کرنے کا حکم نہیں دیا تھا۔
ممکن ہے، مودودی صاحب نے حکم نہ دینے کو اجازت نہ دینے سے تعبیر کیا ہو، حالانکہ حکم نہ دینا اور اجازت نہ دینا دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ حکم نہ دینے کا مطلب ہے ہاں یا ناں کچھ بھی نہ کہنا۔ اور اجازت نہ دینے کا مطلب ہے کسی کام سے روک دینا، میں نے تمہیں اجازت نہیں دی تھی۔ اس کے لئے عبارت یہ ہوتی ”ما اٰذنتکم قتال فی الشہر الحرام،، لیکن سب روایتوں میں ”ما امرتکم،، ہے کسی روایت میں بھی ”مااذنتکم،، نہیں ہے اور یہ بات ممکن بھی نہیں کہ مودودی صاحب جیسا بحر ادب کا شناور اور پھر وہ حکم اور اجازت کا فرق نہ جانتا ہو اور جہاں تک ابن اسحاق کی روایت میں ”ما امرتکم بقتال فی الشہر الحرام،، کا تعلق ہے، اس کی نسبت بھی رسول اللہ اکی طرف صحیح نہیں ہے، جس کے دلائل حسب ذیل ہیں:
۱:… ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن جحش کے فوجی دستے سے پہلے اسی ماہ رجب میں بنوکنانہ کے ایک قبیلہ پر حملہ کے لئے صحابہ کرام کی ایک بڑی جماعت کو آپ نے بھیجا ہے، حضرت سعد ابن ابی وقاص فرماتے ہیں:
”فبعثنا رسول اللّٰہ ا فی رجب ولا نکون مائة وامرنا ان نغیر علی حی من بنی کنانة الی جنب جہینة فاغرنا علیہم،،۔
اس میں حضرت سعد بن ابی وقاص  واضح طور پر فرمارہے ہیں کہ آپ ا نے ہمیں جہینہ کے پڑوس میں آباد بنوکنانہ کے ایک قبیلہ پر حملے کا حکم دیا، چنانچہ ہم نے ان پر حملہ کیا۔ یعنی حرام کے مہینے رجب میں آپ ا تقریباً ایک سو افراد کی جماعت کو حملے کے لئے بھیجتے ہیں، اسی جنگ میں یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ: ”لم تقاتلون فی الشہر الحرام،، تم لوگ حرام کے مہینے میں جنگ کیوں کرتے ہو؟
اس اعتراض سے متأثر ہوکر اس جماعت میں سے صحابہ کرام کا ایک گروہ یہ مسئلہ پوچھنے کے لئے واپس آپ ا کی خدمت میں آتا ہے جس پر آپ ا سخت ناراض ہوتے ہیں، کیونکہ جب نبی ا بذات خود انہیں جنگ کے لئے حرام کے مہینے میں روانہ فرمارہے ہیں تو کیا آپ احرام کے مہینے میں جنگ کا مسئلہ نہیں جانتے تھے؟ العیاذ باللہ۔ لہذاکسی کے اعتراض اٹھانے پر دل میں خلجان پیدا ہونے کے کیا معنی؟ اور آپ ا نے ناراض ہوتے ہوئے فرمایا کہ: اب میں تم پر ایک شخص کو امیر بنا کر بھیجوں گا، یعنی تاکہ دوبارہ کسی کا اعتراض سن کر اختلاف میں نہ پڑجاؤ ،جس کے بعد حضرت عبد اللہ بن جحش کو اسی جماعت کے دس افراد پر امیر بناکر اسی رجب کے مہینے میں بھیجا اور فرمان جنگ لکھ کر دیا اور یہ فوجی دستہ تعمیل حکم کرتے ہوئے آپ اکے فرمان کے مطابق جنگ کرکے واپس لوٹا ہے تو کیسے ممکن ہے کہ آپ ا انہیں یہ فرمائیں کہ: میں نے تمہیں حرام کے مہینے میں جنگ کا حکم تو نہیں دیا تھا۔ العیاذ باللہ! آپ ا کوئی سیاسی لیڈر نہیں تھے جو پروپیگنڈے کے دباؤ میں آکر اپنے موقف سے ہٹ جائیں گے اور اپنے جاری کردہ حکم سے مکر جائیں گے، آپ ا اللہ کے رسول تھے جن کی ہر بات وحی کے تابع تھی۔
۲:… اور اگر ہم اس روایت کو قبول کر لیں تو ہمیں دوباتوں میں سے ایک بات تسلیم کرنی ہوگی: ۱:…یہ کہ اللہ کے رسول ا اپنے فوجی دستے کو ایسا خط بھی لکھ کر نہ دے سکے جسے اور نہیں تو کم از کم ان کے اعلیٰ ترین تربیت یافتہ سا تھی ہی سمجھ سکتے۔ دوسری بات یہ کہ خط تو اپنی جگہ صحیح واضح آسان اور غیر مبہم تھا لیکن ان اعلیٰ تربیت یافتہ ساتھیوں ہی میں اتنی لیاقت نہیں تھی کہ وہ اس آسان سے خط کو سمجھ سکتے، مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ا کو خط لکھنا نہیں آیا۔ العیاذ باللہ! یا یہ کہ صحابہ کرام کو رسول اللہ ا کا خط سمجھنا نہیں آیا ،العیاذ باللہ! پہلی بات صریحاً کفر ہے، دوسری بات تقریباً کفر ہے۔ رہا یہ سوال کہ یہ اتنا غلط جملہ تاریخی روایت میں کیسے شامل ہوگیا؟تو عرض یہ ہے کہ: تاریخی روایات میں معقولیت سے زیادہ دلچسپی کو اہمیت ہوتی ہے، روایت کو دلچسپ اور سنسی خیز ہونا چاہئے خواہ وہ کتنی ہی نامعقول ہو اور اس پر راویوں کی لڑی برائے وزن بیت ہوتی ہے، اسی لئے ہم تنقیح وتجزیہ کے عنوان میں پہلے یہ ذکر کرآئے ہیں کہ یہ جملہ راوی کے تصرفات میں سے ہے اور وہیں اس کی مناسب تاویل بھی ذکر کردی گئی ہے۔
۵:… مودودی صاحب کا فرمانا یہ ہے کہ: ابھی منزل پر پہنچے بھی نہ تھے کہ لوٹ مار شروع کردی۔
۶:…مودودی صاحب فرماتے ہیں: ”ان لوگوں کو راستے میں قریش کا ایک چھوٹا سا قافلہ ملا اور اس پر انہوں نے حملہ کرکے ایک آدمی کو قتل کردیا…،، جس کا مطلب یہ ہے کہ بقول مودودی صاحب اس فوجی دستے نے فرمان نبوی کو بجالانے کے بجائے اس کی دھجیاں اڑا ئیں!! آیئے ہم بھی دیکھیں کہ فرمان نبوی کیا تھا اور فوجی دستے نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ رسول اللہ ا نے جو فرمان املا کرایا ،وہ ان الفاظ پر مشتمل ہے:
”فسر علی برکة الله حتی تنزل الی بطن نخلة فترصد بہا عیر قریش،،۔
اللہ کی برکت پر چلتے رہو حتی کہ بطن نخلہ میں اتر جاؤ پھر وہاں قریش کے قافلہ کی گھات میں رہو۔ یہ فرمان مبارک حسب ذیل باتوں پر مشتمل ہے:
۱:…اللہ کی برکت اس دستے کے شامل ہے۔
۲:…بطن نخلہ ان کی منزل ہے۔
۳:…قریشی قافلہ ان کا ہدف ہے۔
۴:…اس دستے کو قریشی قافلے سے پہلے بطن نخلہ پہنچنا ہے۔
۵:…قریشی قافلہ بطن نخلہ ہی سے گذرے گا۔
۶:…اس دستے کو بطن نخلہ پہنچ کر اس قافلہ کے انتظار میں بیٹھنا ہے۔
اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ فرمان نبوی کی ان باتوں میں سے اس فوجی دستے کے حوالے سے کونسی بات پوری ہوئی اور کونسی بات پوری نہ ہو سکی جس پر اس دستے کو مورد الزام ٹھہرایا جا سکے۔
۱:…بیشک اللہ کی برکت اول سے آخر تک اس فوجی دستے کے شامل حال رہی، کیونکہ اپنے ہدف میں وہ لوگ سو فیصد کامیاب رہے، کفر کو ایسا کاری زخم لگایا جو آخر تک مندمل نہ ہو سکا، جس پر کافروں کے واویلانے فضا میں ہیجان برپاکر دیا، اللہ تعالیٰ نے حمایت فرماکر اپنی پسندیدگی کا اظہار فرمایا اور ان کی کارروائی کو آئندہ کے لئے امت کا قانون بنادیا۔
۲:…بطن نخلہ ان کی منزل تھی جہاں یہ بحفاظت پہنچے، منزل پر پہنچنے سے پہلے منزل کی طرف چلتے رہنے کے سوا راستے میں کوئی کارروائی انہوں نے نہیں کی۔
۳:…قریشی قافلہ ان کا ہدف تھا جو ان سے بچ کے نہیں جاسکا۔
۴:…بطن نخلہ میں قریشی قافلے سے پہلے پہنچے۔
۵:… قریشی قافلہ بطن نخلہ ہی سے گذرا۔
”فمرت بہم عیر قریش،، قریش کا قافلہ ان کے پاس سے گذرا۔
۶:… ابن قیم فرماتے ہیں: ”فوصلوا الی بطن نخلہ یرصدون عیر قریش،،۔ پھر وہ بطن نخلہ پہنچ گئے وہاں پہنچ کر قریشی قافلے کا انتظار کرنے لگے۔ (جاری ہے)
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , شعبان المعظم:۱۴۳۱ھ - اگست: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 8

    پچھلا مضمون: فکرِ آخرت سے تغافل ایک عظیم خسارہ !
Flag Counter