Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی شعبان المعظم ۱۴۳۱ھ - اگست ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

4 - 10
اہل علم وضرورت صحبت اہل اللہ !
اہل علم وضرورت صحبت اہل اللہ

حضرات اہل علم کی خدمت میں اہل اللہ سے تعلق قائم کرنے کی ترغیب سے متعلق یہ ارشادات حضرت مولانا ابرار الحق صاحب ہردوئی رحمہ اللہ علیہ کے افادات سے منتخب کردہ ہیں۔ (ادارہ)

۱…ارشاد فرمایا کہ بعض وقت روشنی ہے علم ہے یقین ہے مگر عمل کی قوت نہیں ہوتی مثلاً کمرے میں روشنی ہے اور الماری میں سیب نظر آرہا ہے اور اس کے وجود اور نافع ہونے پر یقین بھی ہے۔ ڈاکٹروں نے اس کو کھانے کے لئے حکم بھی دیا ہوا ہے اور دل بھی چاہتا ہے مگرسیب تک اٹھ کرجانے کی قوت نہیں ہوتی، پھر ڈاکٹر طاقت کا انجکشن لإاتا ہے اور وٹامن کے کیپسول کھلاتا ہے جب طاقت آجاتی ہے تو خود اٹھ کر الماری تک جاکر سیب کھاتاہے یہی حال ان اہل علم کا ہے کہ علم کی روشنی بھی ہے یقین بھی ہے مگر عمل کی قوت نہیں ہے۔ اللہ والوں کی صحبت میں آنے جانے سے کچھ ہی دن میں قوت آنی شروع ہوجاتی ہے اور اعمال میں ترقی شروع ہو جاتی ہے ۔ (مجالس ابرار ج:۲،ص:۹۶)
۲…ارشاد فرمایا کہ علم روشنی ہے لیکن ضروری نہیں کہ اس روشنی پر عمل بھی مرتب ہو جیسے کار میں روشنی ہے مگر پٹرول نہیں تو راستہ نظر تو آئے گا مگر منزل تک رسائی نہیں ہوگی۔ اسی طرح علم کے ساتھ اگر اللہ تعالیٰ کی محبت اور خوف کا پٹرول دل میں نہیں تو عمل میں سخت غفلت اور کوتاہی ہوگی لہذا اہل اللہ کی صحبت سے اہل علم حضرات کو اللہ تعالیٰ کی محبت اور خوف کا پٹرول بھی حاصل کرنا چاہیئے۔ حضرت مفتی رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ کے واقعات میں ہے کہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ سے بیعت کی تو اس کی وجہ یہی بیان فرمائی تھی کہ ہم علم لینے حضرت حاجی صاحب کے پاس نہیں گئے، بلکہ علم پر عمل کے لئے ہمت کا پٹرول لینے گئے تھے، چنانچہ پہلے تہجد کی توفیق نہ تھی جب بیعت کی تو اس کے بعد کبھی تہجد قضا نہ ہوئی ۔ (آئینہ ارشادات ص:۷)
۳…اگر کسی عالم کے بچپن میں تکبر، جاہ یا مال کی محبت کی بیماری ہوگئی تو عالم ہونے سے یہ بیماری چلی جاوے گی ہرگز نہیں بلکہ علم اور شہرت کے بعد اور اضافہ ہوگا تاوقتیکہ کسی اللہ والے روحانی معالج سے اپنے نفس کی اصلاح نہ کرائے اس کی مثال ڈاکٹر کی ہے ایک ڈاکٹر کے بچپن میں فرض کر لو اس کے گردے میں پتھری ہے تو کیا ڈاکٹر کی ڈگری سے اور ایم بی بی ایس ہوجانے سے وہ پتھری نکل جاوے گی جب تک کسی ماہر کا علاج نہ کرائے گا یہ بھی ڈاکٹر ہونے کے باوجود بیمار رہے گا حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی عالم نہ تھے مگر علماء نے ان سے نفس کی اصلاح کرائی کیونکہ وہ اصلاح کے ماہر تھے جس طرح کوئی عالم قاری نہ ہو تو وہ اس قاری سے نورانی قاعدہ پڑھے گا جو عالم بھی نہ ہوگا۔ (مجالس ابرار ج:۲،ص:۱۴۷)
۴…ارشادفرمایا علاج سے نفع ہوتا ہے اگر علاج نہ کرے تو ڈاکٹر بھی بیمار ہی رہے گا اسی طرح ریا، غصہ، تکبر عالم بننے سے نہیں جاتا بلکہ اور بڑھ جاتا ہے خاندانی تکبر تو پہلے ہی سے تھا اور علم کا نشہ اور آگیا اور اگر عبادت کرنے لگے تو یہ مرض اور بھی بڑھ جائے گا پس معلوم ہوا کہ بیماری تو علاج ہی سے جاتی ہے علم اور عبادت سے نہیں جاتی۔ (مجالس ابرار ج:۲،ص:۵۰)
۵…ارشاد فرمایا کہ باطن کی اصلاح اور دل کی اصلاح بہت ضروری ہے جو لوگ اصلاح نہیں کراتے ان کا حال کیا ہوتا ہے ایک صاحب حافظ، قاری اور فارغ التحصیل تھے درس وتدریس کا کام کیا کرتے تھے ایک جگہ امامت بھی کرتے تھے آرام وعزت کی زندگی حاصل تھی ۔ امامت کا شرف بھی حاصل تھا مگر بدپرہیزی کی بنا پر مدرسہ چھوڑا امامت چھوڑی اب شہر میں رکشہ چلاتے ہیں کتنی رسوائی وذلت کا معاملہ ہوا اب سوال یہ ہے کہ عالم وحافظ ہونے کے باوجود پھر ایسا کیوں ہوا؟ پس وہی اندر کی خرابی ہے اس کی اصلاح نہیں کرائی یہ اس کا نتیجہ ہے۔ (ملفوظات ابرار ص:۳۵)
۶…ارشاد فرمایاکہپانی نرم اور ہلکا ہے لوہا سخت اور بھاری ہے مگر پانی کی صحبت لوہے کا مزاج بگاڑ دیتی ہے زنگ آلود کردیتی ہے صورت اور سیرت دونوں خراب کردیتی ہے اس لئے اپنے تقویٰ (اورعلم) پر ناز نہ کرے۔ (مجالس ابرار ج:۲، ص:۱۳۱)
۷…ارشاد فرمایا کہ جو آدمی خام ہوتا ہے وہی اہل دولت کے ہاتھ فروخت ہوجاتا ہے یا خوف مخلوق سے یا طمع مال سے اپنا دینی رنگ اور مذاق اور اصول شریعت کو توڑ دیتا ہے اس کی عجیب مثال اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی ہے صراحی خام میں پانی ڈالئے وہ مٹی گھل کر اپنا وجود بھی غائب پائے گی اور اگر آگ میں پکادی جاوے تو پختہ صراحی کا پانی صراحی کے وجود کو نہیں مٹا سکتا ، بلکہ صراحی اس کو اپنے فیض سے ٹھنڈا کرے گی یہی حال اس عالم ربانی کا ہے جو بزرگوں کی صحبت میں پختہ ہوجاتے ہیں پھر مخلوق سے اختلاط اشاعت دین کے لئے ان کو مضر نہیں ہوتا نہ جان نہ مال نہ شہرت۔ کوئی فتنہ ان کوخراب نہیں کرتا استقامت کی نعمت ان کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور ہر وقت صاحب نسبت ہونے کے سبب حق تعالیٰ پر نظر ہوتی ہے۔ (مجالس ابرار،ج:۲،ص:۹۲)
۸…ارشاد فرمایا کہ علماء کرام خوف سے متأثر نہیں ہوئے مگر طمع کے اثرات سے متأثر ہوئے، لیکن اہل اللہ کے صحبت یافتہ عالم کا اخلاص اور ایمان نہایت مضبوط ہوتا ہے جوفروخت نہیں ہوسکتا ہے۔ (آئینہ ارشادات ص:۱۸)
۹…ارشاد فرمایا کہ اگر کارپر ڈرائیور نہ ہو تو سیدھے راستہ پر چلے گی مگر جہاں چوراپہ آئے گا وہاں ٹکر کھائے گی اسی طرح جتنے گمراہ فرقے پیدا ہوئے ان کے بانی سب اہل علم ہیں ، لیکن سب کے سب بدون شیخ اور رہبر والے ہیں پس شروع شروع میں تو ٹھیک چلتے ہیں لیکن جب موڑ یا چورا پہ آتا ہے وہیں بٹھک جاتے ہیں اور عجب وکبر میں مبتلا ہوکر کسی کس سنتے بھی نہیں ہیں ۔ (مجالس ابرار ج:۱،ص:۴۷)
۱۰…ارشاد فرمایا کہ ہر فتنے کے بانی کو غور سے فکر کیجئے تو یہی معلوم ہوگا کہ یہ کسی بڑے کے زیر تربیت نہیں رہا ہے جب آدمی بے لگام ہوتا ہے اور کوئی اس کا مربی اور بڑا نہیں ہوتا تو بگاڑ شروع ہوجا تاہے جاہ اور مال کع فتنے میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ (مجالس ابرار ج:۲،ص:۲۵)
۱۱…ارشاد فرمایا کہ اگر علماء کرام کا پائجامہ سے ٹخنہ چھپا ہوتا ہے یا ڈاڑھی کٹی ہوتی ہے یا جماعت سے نماز کا اہتمام نہیں ہوتا یا مالیات میں بے اصولی کرتے ہیں تو قوم میں ان کی وقعت نہیں رہتی ان باتوں کا اہل علم حضرات کو بہت اہتمام کرنا چاہیئے اس قسم کی کمزور یاں ان اہل علم میں پائی جاتی ہیں جو اہل اللہ کی صحبت کا اہتمام نہیں کرتے۔ (آئینہ ارشادات ص:۱۰)
۱۲…ارشاد فرمایا کہ بزرگوں کی صحبت کی برکت سے عوام تو اوابین واشراق وتہجد اور نوافل کا اہتمام کرتے ہیں اور علماء کرام اور طلباء کرام اگر اہتمام نہ کریں تو عوام کا ان کے بارے میں کیا خیال ہوگا ان حضرات کا صرف فرائض وواجبات پر اکتفاء کیوں ہے معلوم ہوا کہ علم پر عمل کرنے کے لئے صحبت اہل اللہ ضروری ہے ورنہ علم کے باوجود عمل میں سستی رہتی ہے۔ (آئینہ ارشادات ص:۱۵)
۱۳…ارشاد فرمایا کہ ہمارے ایک دوست جو اہل علم ہیں مجھ سے کہنے لگے کہ ہم قدوری وکنز وشرح وقایہ اور ہدایہ میں جمعہ گاؤں میں پڑھنے کو ناجائز ہونے کا سبق پڑھتے رہے مگر عمل کی توفیق اور طاقت نہ تھی گاؤں والوں اور برادری کے خوف سے پڑھ لیا کرتے تھے بلکہ امامت بھی کراتے تھے ایک عرصہ ٴ دراز کے بعد ہم حضرت شاہ عبد القادر صاحب رائے پوری رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضری دینے لگے۔ اہل اللہ کی صحبت کیمیا تاثیر نے قلب میں طاقت بخشی میں نے گاؤں میں جمعہ پڑھانا چھوڑدیا اور آٹھ میل دور بڑے قصبے میں جاکر نماز جمعہ ادا کیا کرتا ۔ رمضان میں بھی روزے رکھے ہوئے آٹھ میل چلنے کی توفیق ہوجاتی ایک سال اس طرح گذر گیا جب اگلے سال عید کا دن آیا تو گاؤں والوں نے ہمارا گھیراؤ کیا اور کہا مولانا ! آپ کو عید اور جمعہ اسی گاؤں میں پڑھانی پڑے گی میں نے کہا ہرگز ایسا نہیں کروں گا کہنے لگے اب تک جمعہ اور عیدین یہاں کیوں پڑھاتے رہے کہا غلطی ہوئی اللہ تعالیٰ معاف فرمائیں اگرچہ تمام گاؤں اور برادری ناراض ہو مگر اس اب خدا تعالیٰ کو ناراض نہ کروں گا حضرت مجذوب رحمہ اللہ فرمائے ہیں:
سارا جہاں خلاف ہو پروانہ چایئے
مدّ نظر تو مرضئ جاناں چاہیئے
اب یہی ہمارے دوست شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب نور اللہ مرقدہ کے خلیفہ ہیں اور شیخ نے اپنا جبہ بھی عطا فرمایا۔ (مجالس ابرار ج:۲،ص:۱۱۶)
پس معلوم ہوا کہ علم صحیح کے بعد پھر طاقت کی ضرورت ہے طاقت روحانی کیا ہے اللہ تعالیٰ کی محبت اور خشیت انہی دو چیزوں سے اعمال صالحہ کی اور گناہوں سے بچنے کی طاقت آتی ہے جیسے جسمانی معالج کے چند منٹ آپریشن کے بعد آنکھوں میں نور لوٹ آتا ہے اسی طرح اہل اللہ کی صحبت سے خیر وشر کا فرق نظر آنے لگتا ہے اسی طرح اہل حق سے دور رہنے والوں کو جب ان اکابر کی صحبت ملتی ہے تو ان کی بھی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ (مجالس ابرار ج:۲، ص:۱۲۴)
اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے، آمین
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , شعبان المعظم:۱۴۳۱ھ - اگست: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 8

    پچھلا مضمون: وقت کی قدر کیجئے !
Flag Counter