Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی شعبان المعظم ۱۴۳۱ھ - اگست ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

6 - 10
فکرِ آخرت سے تغافل ایک عظیم خسارہ !
فکرِ آخرت سے تغافل ایک عظیم خسارہ

مادہ پرستی اور نفس پرستی کے سنہرے جال میں پھانس کر ازلی دشمن ابلیس بعض لوگوں کو اس فانی دنیا کے کر وفر، رعنائیوں اور جلد فنا ہونے والی رنگینیوں پر فریفتہ کردیتا ہے اور یہ باور کراتا ہے کہ زندگی تو بس یہی ہے، کھاؤ، پیو، گلچھرے اڑاؤ۔ عیش ونشاط میں وقت گذارو، جو جی میں آئے کرگذرو، کوئی بازپرس نہیں:
بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
ایک ذی ہوش اور سلیم الفطرت شخص اس نظریے اور رَوِش کا کبھی قائل نہ ہوگا، کیونکہ روزمرہ کے مشاہدے سے وہ جانتاہے کہ اس عالم آب وگل میں بھی یہ دستور ہے کہ جو آدمی محنت کرتا ہے اور اس کی محنت کا رخ صحیح سمت میں ہوتا ہے، وہ اپنی محنت کا بہترین صلہ پاتا ہے اور جو محنت سے کنی کتراتا ہے یا محنت تو کرتا ہے مگر اس کی محنت کا رخ صحیح سمت میں نہیں ہوتا، اسے کچھ ہاتھ نہیں آتا، الٹا ناکام ہوکر انجام کار وقت کے ضیاع پر کف افسوس ملتا ہے، ممکن نہیں کہ صحیح محنت میں جان کھپانے والا محروم رہے اور غلط محنت میں لگنے والا انعام پائے۔
دنیاوی قاعدے قوانین سقم سے خالی نہیں ہوتے، کیونکہ وہ انسانوں کے وضع کردہ ہوتے ہیں، یہ تو فقط ایک آسمانی قانون ہے جو ہرقسم کے سقم سے پاک ہے، اس میں کسی قسم کی ترمیم وتحریف کی گنجائش نہیں، بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ دنیاوی قوانین کے اسقام کی آڑ لے کر جرم کا ارتکاب کرنے والا شخص اپنی چالاکی سے چھوٹ جا تاہے اور ان کی زد میں آکر ایک بے گناہ کو سزا ہوجاتی ہے، لہذا ضروری ہوا کہ ایک دن ایسا ہو جس میں انصاف کے تقاضے بکمال پورے ہوں، مجرم کو ارتکاب جرم پر جرم کی نوعیت کی مناسبت سے سزا ملے اور بے گناہ کو ناکردہ گناہ کی پاداش میں جو سزا ملی ہو اور جو نقصان پہنچا ہو اس کی تلافی ہو، اس دن کا نام ”یوم الحساب“ ہے، جس میں عمل کے ذرے ذرے کا اور عمر عزیز کے پل پل کا حساب ہوگا:
کوئی عظیم نتیجہ ضرور ہے ملحوظ
نظام جسم بشر میں بڑا تکلف ہے
خدا کا خوف نہ ہو آخرت کا فکر نہ ہو
اسی کا نام ہے دنیا تو لائق تف ہے
بلاشبہ زندگی اللہ تعالیٰ کا ایک عطیہ ہے، ایک انعام ہے، ایک بے بہا اثاثہ ہے، اس اثاثے کے استعمال پر ہی آخرت کی اصل زندگی کے بننے یا بگڑنے کا انحصار ہے، بندہ کو چاہئے کہ دیکھے وہ اپنے اوقات، قیمتی جان ومال کس چیز میں کھپا رہا ہے؟ آیا اس کے اثاثے کی یہ سرمایہ کاری موت کے بعد والی ابد الآباد کی زندگی میں اس کے کام آسکتی ہے، اگر مطمئن ہے کہ ہاں میں صحیح رخ پر گامزن ہوں تو پھر چلتا رہے، بھروسہ اللہ تعالیٰ کی ذات عالی پر کرے کہ وہ کسی کے اعمال حسنہ کو رائیگاں جانے نہیں دیتا، بلکہ ان کا بدلہ اعلیٰ پیمانے پر دینے کا وعدہ ہے جسے ”اجر غیر ممنون“ اور اجر عظیم کہا گیا ہے، زندگی کا یہ بے بہا عطیہ تو ہے ہی حیاتِ جاوداں کی تعمیر کے لئے، نہ کہ اس کی تخریب کے لئے۔
مکافاتِ عمل سے بے غرض ہوکر بہائم کی سی زندگی گذارنا اور عاقبت سے بے فکر ہوکر من چاہی پر چلنا عظیم خسارے کی بنیاد بنتاہے۔ آنکھیں بند ہوتے ہی اس عظیم خسارے کا منظر سامنے ہوگا اور غلط راہ اختیار کرنے والا زبان حال سے پکارے گا: جو سحر ہوئی تو خبر ہوئی میرا راستہ کوئی اور تھا
یہ انتباہ اللہ کریم نے اپنی کتاب قرآن عظیم الشان میں ایک بار نہیں، کئی بار کیا ہوا ہے اور مخبر صادق ا کی زبان مبارک سے بالتفصیل آگاہی کروائی ہے، چاہئے کہ بندہ بندہ بن کر رہے:زندگی تو ہے ہی بندگی کے لئے
زندگی آمد برائے بندگی
زندگی بے بندگی شرمندگی
اللہ پاک کے نزدیک فنا ہونے والی دنیاوی آسائشوں ، بلکہ پوری دنیا کی قیمت مچھر کے ایک پر کے برابربھی نہیں، اس لئے وہ ان پر گرنے والے ناعاقبت اندیشوں پر نعمتوں کے دروازے کھول دیتا ہے کہ دیکھے کہ یہ کہاں کا رخ کرتے ہیں، نعمتیں عطا کرنے والے کی طرف چلتے ہیں یا الٹی چال چلتے ہیں، ہرچمکدار چیز سونا نہیں ہوتی ،صحراء میں سراب کو پانی سمجھ کر اس کی طرف لپکنے والا پیاسا ہی رہتا ہے، فنا ہونے والے ساز وسامان سے دل لگانے والا اپنے آپ کو دھوکے میں ڈالتا ہے، ایسا شخص انجام کے اعتبار سے سراسر خسارے میں رہتا ہے، اس خسارے سے بچنے کی صورت یہ ہے کہ اپنے خالق ومالک سے لو لگائے، فکر فردا سے ہر آن، ہرگھڑی محوِ غم دوش رہے، موت کے بعد والی اصل زندگی کو خوشگوار بنانے کے لئے اس منعم حقیقی نے جو موقع دیا ہے اسے گنوا کر اپنے ہاتھوں اپنی بربادی کا سامان کرنے سے باز رہے، بلکہ اعمال صالحہ کا ذخیرہ اپنے جانے سے پہلے بھیج کر وہاں کی ذلت وخواری سے اپنے آپ کو محفوظ ومامون کرلے، اس کا موقع اللہ عز وجل نے ہر انسان کو دیا ہواہے اور یہ موقع ہرشخص کو زندگی میں صرف ایک بار ملا ہے، کیونکہ یہاں سے کوچ کرلینے کے بعد لوٹ کے آنا تو ہے نہیں، حدود اللہ کے اندر رہتے ہوئے اپنے خالق مالک کی رضا کو اپنی نفسانی خواہشات پر مقدم کرنے والا یقینا کامیاب وبامراد ہے اور جو نفس کا غلام بن کراس کے تقاضوں سے مغلوب ہوکر حیاتِ مستعار کی یہ چند گھڑیاں نفس ہی کی خوشنودی میں گذارتا ہے وہ بڑے گھاٹے میں ہے۔ اللہ شفیق ومہربان کی ذات عالی تو چاہتی ہے کہ میرا بندہ میرے پاس آئے تو کامیاب وکامران آئے، ناکام اور نادم وشرمسار نہ آئے۔ بندہ بھی اپنے بھلے کی سوچے، تہی دست نہ جائے، سفر طویل ہے اور اختتام سفر کے بعد وہاں کا قیام لامحدود مدت کا ہے، اس لئے زاد راہ اسی مناسبت سے ہونا چاہئے اور اس لامحدود قیام کے بارے میں متفکر ہونا لابدی ہے۔
دراصل انسان کو اپنی اصل حیثیت اور غرض تخلیق کا صحیح ادراک نہیں ہے ،مٹی سے بناہے اور مٹی ہی کی طرف اس کا میلان ہے، ہرچیز اپنے اصل کی طرف لوٹتی ہے، یہ بھی فطرت سے مجبور ہوکر مٹی سے بنی ہوئی اور مٹی سے نکلی ہوئی چیزوں پر ریجھتا ہے:
اپنی ہستی کا بھی انسان کو عرفان نہ ہوا
خاک پھر خاک تھی اور خاک سے آگے نہ بڑھی
مگر یہ بھول جاتا ہے کہ اس مشتِ خاک کو اللہ پاک نے کتنی رفعت عطا فرمائی ہے، کتنی اس کی عزت وتکریم کی ہے کہ اسے مسجود ملائک بنایا، پورے روئے زمین کا اسے حکمران بنایا، کائنات کے پورے نقشے کو اسی ہی کے لئے وجود بخشنا ہے، کائنات کی ہرہر شے کو اس کی خدمت میں لگایا ہوا ہے
: ابروبادومہ خورشید فلک درکار اند
تاتونانے بہ کف آری وبہ غفلت نہ خوری
ہمہ از بہر تو سرگشتہ وفرمانبر دار
شرط انصاف نہ باشد کہ تو فرمان نہ بری
انسان کے لئے لازم ہے کہ اس بات پر غور وتدبر کرے کہ یہ سب کچھ میرے لئے ہے، میں اس کائناتی نقشے سے بھر پور انداز میں استفادہ کررہا ہوں تو میں کس لئے ہوں؟ تو فرمایا یہ سب کچھ تیرے لئے ہے اور تو میرے لئے ہے، صحیح معنوں میں میرا بن جا ،جیساکہ بننے کا حق ہے۔
محسن انسانیت حضرت محمد ا ایک زندگی لے کر عالم میں تشریف لائے، ایک ایسی زندگی جس کی نظیر آج تک کوئی پیش نہ کرسکا اور نہ ہی تاقیامت پیش کرسکے گا، کیونکہ اسے اللہ عز وجل نے اسوہٴ حسنہ قرار دیا ہے، ایک مسلمان کے لئے حضور پاک ا کی یہ زندگی مشعل راہ ہے، بس اسے دیکھے اور اپنی زندگی کی ترتیب اس کے مطابق کردے۔ مادہ پرستی کی دلدل سے نکل کر اللہ رب العزت کی رضامندی والا راستہ اختیار کرے ”اطیعوا اللّٰہ واطیعوا الرسول“ والا یہ راستہ اس عالم فانی میں چین، سکون، راحت، آسودگی، شادمانی اور کامرانی دلانے والاہے اور عالم جاودانی میں نجات اور سرخروئی کی ضمانت دیتا ہے:
بہ مصطفی برساں خویش راہ کہ دین ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی است
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , شعبان المعظم:۱۴۳۱ھ - اگست: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 8

    پچھلا مضمون: سوز دروں مغربی دانشور کے مضمون پر چند تحفظات !
Flag Counter