Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی شعبان المعظم ۱۴۳۱ھ - اگست ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

3 - 10
وقت کی قدر کیجئے !
وقت کی قدر کیجئے!

شنید ہے کہ بھلے وقتوں میں کسی دانشور نے یاران نکتہ داں کیلئے یوں صلائے عام کی کہ بتاؤ! اس کائنات میں مہنگی ترین چیز کیا ہے؟ اس سوال کا جواب دینے والے مختلف ہوگئے، کسی نے سونے کو مہنگی چیز کہا، کسی نے ہیرے کو مہنگی شئ قرار دیا، کسی نے کچھ کہا اور کسی نے کچھ، الغرض جتنے منہ اتنی باتیں تھیں، دانشور صاحب کو کسی کا بھی جواب درست نہیں لگا تو خود ہی جواب ارشاد فرمایا کہ دنیا میں قیمتی ترین شئ ”وقت“ ہے۔
درست ارشاد فرمایا موصوف نے، واقعی دنیا میں وقت سے زیادہ قیمتی کوئی شئ نہیں، انسان دنیا میں کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ ہر طرح کی ترقی کی راہوں پر وقت کے بغیر گامزن نہیں ہوسکتا، اگر آدمی کے پاس وقت نہیں تو وہ ایک سوئی بھی حاصل نہیں کرسکتا، اور اگر وقت ہو اور آدمی اپنی کوشش بھی جاری رکھے تو سونے کی کان تک بھی رسائی حاصل کرسکتا ہے۔
چنانچہ جب انسان دنیا میں وقت کو غنیمت جان کر رضائے الٰہی کے حصول میں لگ جاتا ہے تو وہ جنت جیسی ابد الآباد نعمتوں کا مستحق قرار پاتاہے، یہی انسان جب وقت کو صرف عیش کوشی اور خرمستیوں میں ضائع وبرباد کردیتا ہے تو جہنم کا ایندھن بن کے رہ جاتا ہے۔ نبی کریم رحمت عالم ا نے فراغ (وقت فرصت) کو عظیم نعمت فرمایا اور اس سے فائدہ نہ اٹھانے والوں کو ”گھاٹے میں پڑنے والے“ فرمایا، چنانچہ مشہور صحابی رسول حضرت ابن عباس  آپ اسے نقل کرتے ہیں:
”عن ابن عباس قال: قال رسول اللہ ا نعمتان مغبون فیہما کثیر من الناس الصحة والفراغ“۔ (بخاری، ص:۹۴۹)
ترجمہ:…”حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ آپ انے ارشاد فرمایا: دو نعمتیں ایسی ہیں جن میں بہت سے لوگ غبن کرتے ہیں، ۱…صحت، ۲…فرصت کے لمحات“۔
اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے علامہ بدر الدین عینی المتوفی ۸۵۲ھ رقمطراز ہیں:
”فکأنہ قال: ہذان الامران اذا لم یستعملا فیما یبنغی فقد غبن صاحبہا ای باعہا یبخس لاتحمد عاقبتہ“۔ (عمدة القاری:۲۳/۳۱)
یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ دونوں چیزیں جب اپنے مصرف میں استعمال نہ کی جائیں تو گویا اس کے مالک نے غبن کیا، یعنی اس نے معمولی قیمت کے بدلہ میں اسے بیچا جس کے انجام کار تعریف نہیں کی جاسکتی۔
وقت کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ رب تعالیٰ نے قرآن کریم میں دن رات کے مختلف اوقات کی قسم کھائی ہے اور ایک جگہ زمانہ کی قسم کھائی فرمایا ”والعصر، ان الانسان لفی خسر“ آیات بالا کی تفسیر کرتے ہوئے مشہور مفسر علامہ فخر الدین الرازی المتوفی ۶۰۶ھ لکھتے ہیں:
”فکان الدہر والزمان من جملة اصول النعم فلذلک اقسم بہ ونبّہ علی ان اللیل والنہار فرصة یضیعہا المکلف“۔ (التفسیر الکبیر،ص:۶۷۴)
یعنی دہر اور زمانہ من جملہ نعمتوں میں سے ہے، اسی لئے اللہ نے اس کی قسم کھائی اور متنبہ کیا کہ رات اور دن فرصت کے لمحات ہیں جسے مکلف (انسان) ضائع کرتا ہے۔
بروز قیامت جب جہنمی مدد کو پکاریں گے تو ان کو وقت ضائع کرنے پر حسرت دلاکر ملامت کیا جائے گا اور ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوگی، اس حقیقت کو قرآن کریم نے یوں بیان کیا۔
”وہم یصطرخون فیہا ربنا اخرجنا نعمل صالحا غیر الذی کنا نعمل، اولم نعمرکم ما یتذکر فیہ من تذکر وجاء کم النذیر، فذوقوا فما للظالمین من نصیر“۔ (الفاطر:۳۷)
ترجمہ:…”اور وہ چلائیں اس میں اے ہمارے رب ہم کو نکال کہ ہم کچھ بھلا کام کرلیں وہ نہیں جو کرتے رہے، کیا ہم نے عمر نہ دی تھی تم کو اتنی کہ جس میں سوچ لے جس کو سوچنا ہو اور پہنچا تمہارے پاس ڈرانے والا اب چکھو کہ کوئی نہیں گناہ گاروں کا مددگار“۔
اسی مضمون کو آقائے نامدار انے اپنے مبارک ارشاد میں یوں بیان فرمایا:
”عن ابی ہریرة  قال: قال رسول اللہ ا اعذر اللہ امرئ اخر اللہ عمرہ حتی بلغہ ستین سنة“۔ (بخاری،ص:۹۵۰)
اندازہ فرمایئے کہ وقت ضائع کرنے کا نتیجہ کتنا بھیانک ہے، لیکن اس کے باوجود ہمارے اس دور میں اگر یوں سوال کیا جائے کہ دنیا میں سستی ترین چیز کیا ہے؟تو وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ ستر فیصد لوگ وقت کو سستی اشیاء کی فہرست میں شامل کریں گے۔
وقت کی رفتار معلوم ہو یہ مشکل ہے
یہ زمین گھومتی ہے پر ہلتی نہیں
ہماری نوجوان نسل جس بے دردی سے اپنے اوقات ضائع کرنے میں لگی ہوئی ہے، اس کو دیکھ کر بے حد افسوس ہوتا ہے کہ ہم منزل سے کیسے بہکے جارہے ہیں؟ شیخ سعدی متوفی ۶۹۱ھ نے ایسے ہی موقع کیلئے ارشاد فرمایا تھا:
ترسم نہ رسی بکعبہ اے اعرابی
کیں رہ کہ تومی روی بترکستان است
نوخیز بچے اور نوجوان لڑکے سب ہی کھیل کود اور خرمستیوں میں بدمست ہیں اور تعلیمی اداروں کی حالت زار بھی دگرگوں ہے، والدین بچوں کا مستقبل روشن دیکھنے کی خاطر انہیں جن تعلیمی اداروں میں بھیجتے ہیں وہاں دینی تربیت مفقود ہونے کے بسبب یہ شتر بے مہار بن جاتے ہیں ، جس کے نتیجہ میں نوجوان نسل میں بے راہ روی فروغ پاتی ہے، پھر یہی نوجوان جب تعلیمی اداروں سے نکلتے ہیں تو لٹیروں کا ایک اچھا خاصا گروپ تیار ہوتا ہے، جن کے ہاں گن پوائنٹ پر لوگوں کا مال چھیننا ، بے قصور لوگوں کی جانیں ضائع کرنا کسی چیونٹی پر پاؤں رکھنے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا، یہ تمام تر خرابیاں وقت ضائع کرنے کے نتیجہ میں وجود میں آئیں۔
اب تو وقت ضائع کرنا اور آسان ہوگیا کہ انٹرنیٹ کھول کر بیٹھ کر وقت ضائع کیا جاتا ہے، اگر گھر میں انٹرنیٹ نہیں ہے تو کیمرے والا موبائل تو ہر آدمی کے پاس موجود ہوتا ہے، جس میں بے حیائی کا اچھا خاصا سامان محفوظ کرنا اور اس سے لطف اندوز ہونا بالکل آسان اور سستا گناہ بنادیا گیا ہے۔
بڑے بڑے لوگ بچوں کی طرح موبائل لئے خود کھلونا بنے بیٹھے نظر آتے ہیں اور بہت کچھ اس سے آگے بھی ہے۔ الغرض وقت ضائع کرنے کے مواقع ہرانسان کے ہاتھ اور جیب میں موجود ہوچکے ہیں۔جس کو بھی دیکھو موبائل ہاتھ میں لئے مسیج لکھنے یا پڑھنے میں مصروف ہے، یہاں تک کہ کھانا سامنے رکھا ہواہو اور معزز لوگ بیٹھے ہوں تو بھی لاپروا ہوکر دھڑادھڑ میسجز کے تبادلوں میں مصروف رہتے ہیں اور اب تو بعض لوگوں نے اپنی تجارت بڑھانے اور محض پیسہ کی حرص وہوس میں الٹی سیدھی باتوں اور لطیفوں پر مشتمل رسائل سے بازار بھر دیئے، جس کی وجہ سے جو لوگ موبائل پر مسیج لکھنا نہیں جانتے تھے، وہ بھی اب آسانی سے اپنا وقت برباد کرتے ہیں۔لیکن رونا اس پر ہے کہ اس موذی مرض میں اچھا خاصا دیندار طبقہ بھی مبتلا ہے، ہم طلبہ کی اچھی خاصی تعداد اس کو معمولات کا حصہ جانتی ہے جبکہ اس میں وقت اور پیسہ کی بربادی کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہیں آتا، حالانکہ دیندار تو کم از کم جانتے ہیں کہ زندگی کا حساب دینا ہے، اسراف کسی بھی چیز میں ہو، وہ مذموم ہے اور اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے، ان جدید آلات میں ہمارے قیمتی وقت کے ضیاع کے ساتھ مال ودولت کا بے جا استعمال اور ضیاع بھی ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس مرض سے بچائے اور وقت کی قدر دانی نصیب فرمائے، آمین
غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی
گردوں نے گھڑی عمر کی ایک اور گھٹادی
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , شعبان المعظم:۱۴۳۱ھ - اگست: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 8

    پچھلا مضمون: چہرہ کے پردہ پر چند اشکالات کا جواب !
Flag Counter