Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی صفر المظفر ۱۴۳۱ھ - فروری ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

9 - 11
مجمع البحوث الاسلامیہ مصرکاتعارف !
مجمع البحوث الاسلامیہ مصرکاتعارف

روحانی رشتے، اسلامی وحدت اور علمی ودینی مشکلات کو باہمی تبادلہ خیالات کے ذریعہ متفقہ صورت میں حل کرنے کی غرض سے پچھلے مہینے جناب شیخ ازہر قاہرہ کی دعوت پر بارفاقت حضرت مولانا مفتی محمود صاحب ۳۰/ستمبر۱۹۶۶ء کو قاہرہ جانا ہوا۔ یہ دعوت محض علمی اور دینی نقطہٴ نگاہ سے مجمع البحوث الاسلامیہ کی تیسری سالانہ کانفرنس کی شرکت کے لئے دی گئی تھی۔جامع ازہر کے تین اہم شعبے ہیں:
۱:۔ پہلا شعبہ ادارة الازہر ہے ،جس کے ماتحت معاہد ازہریہ اور کلیات ازہر (ازہر کے اسکول اور کالج) ہیں اور مختلف قدیم وجدید علوم وفنون میں تخصص (پی، ایچ، ڈی) کاایک وسیع نظام ہے، اسی شعبہ کے ماتحت مدینة البعوث الاسلامیہ (بیرونی اسلامی ممالک کے طلبہ کا شہر) ہے، جس میں ساٹھ ممالک اسلامیہ کے پانچ ہزار طلبہ مختلف مراحل (تعلیمی درجوں) میں زیر تعلیم ہیں، گویا یہ انہی طلبہ کی تعلیمی اور اقامتی بستی ہے۔
۲:۔ دوسرا شعبہ ”المجلس الاعلٰی للشئون الاسلامیة،، ہے، جس کا سالانہ بجٹ ۵۲ لاکھ پونڈ ہے، اس شعبہ کا کام تمام مسلم اور غیر مسلم ممالک کے لئے عصری تقاضوں کے مطابق اسلامی لٹریچر تیار کرنا اور پہنچانا ہے، اس شعبہ کا قابل ذکر اور لائق فخر بے نظیر کارنامہ المصحف المرتل ہے، یہ ۴۴ ریکارڈوں میں بھرا ہوا پورا قرآن عظیم ہے جو مذکورہ ذیل عالمی شہرت کے مالک اساتذہٴ فن قرأت وتجوید نے پڑھا ہے، اور ریکارڈ کیا گیا ہے: ۱…الشیخ محمود حصری، ۲…القاری عبد الباسط عبد الصمد، ۳…الشیخ محمد صدیق المنشاوی، ۴…القاری مصطفے کامل جو روزانہ قاہرہ کے مختلف اور متعدد ریڈیو اسٹیشنوں سے مستقل طور پر پڑھا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں جہاں بھی ضرورت ہوتی ہے اس کے مکمل اسطوانات (ریکارڈ) بھیج دئے جاتے ہیں۔ اسی طرح روزہ، نماز، حج، زکوٰة وغیرہ اسلامی احکام کے ریکارڈ بھی جید علماء سے بھروائے گئے ہیں جو مصر اور مختلف ممالک میں بھی حسب ضرورت بھیجے جاتے ہیں۔
اس وقت اس شعبہ کے سربراہ (ڈائرکٹر) الاستاذ محمد توفیق عویضہ نہایت پر جوش، فعال، اور بااخلاق نوجوان ہیں۔
۳… تیسرا شعبہ مجمع البحوث الاسلامیہ (ادارہ تحقیقات اسلامی) ہے۔ اس شعبہ کا کام یہ ہے کہ عصر حاضر میں جدید تمدن سے پیدا شدہ پیچیدہ اور دشوار مسائل کتاب وسنت اور فقہ اسلامی کی روشنی میں حل کئے جائیں اور اسلام اور اس کی تعلیمات واحکام پر ملحدین خصوصاً یہودی اور عیسائی مستشرقین نے جو اعتراضات کئے اور شکوک وشبہات پیدا کئے ہیں ان کے محکم اور مسکت جوابات دیئے جائیں۔ نیز جدید نسل کی تربیت اور جدید معاشرہ کی تشکیل کے لئے اسلام کے جن پہلوؤں کو واضح کرنے کی ضرورت اور اس مادیت کے دور میں اسلام کو جس اسلوب میں پیش کرنے کی حاجت ہے ،اس کے مطابق پیش کیا جائے، اور ثابت کیا جائے کہ اس تاریک دور میں صرف اسلام کی روشنی میں ہی انسانی معاشرہ کی تطہیر واصلاح ممکن ہے۔ اس ادارہ کے مستقل اراکین جامع ازہر کے جدید وقدیم علوم کے ماہر چیدہ وبرگزیدہ علماء ومشائخ کے علاوہ اور دیگر اسلامی ممالک عربیہ کے چند سرفہرست علماء ومشائخ بھی شامل ہیں (جن میں سے معروف ومتعارف حضرات کے اسماء گرامی گذشتہ ماہ کے بینات میں ذکر کئے گئے ہیں)
ان حضرات کے ذمہ مذکورہ بالا مقاصد کے تحت تجویز شدہ عنوانات ومسائل پر مبسوط مقالات ومضامین تیار کرنا اور مجمع البحوث الاسلامیہ کی سالانہ کانفرنس میں پڑھنا ہوتا ہے۔
اس کانفرنس میں مختلف اسلامی ممالک اور ان ملکوں کے جہاں مسلمان معتدبہ مقدار میں آباد ہیں ،مستند اور معروف علماء کو ہرسال ازہر کے خرچ پر اس کانفرنس میں شرکت کی اور تیار شدہ مقالات ومضامین پر تبادلہ خیالات اور جرح وتنقید کرنے کی عام دعوت دی جاتی ہے، تاکہ مجمع البحوث کے اراکین کے تیار کردہ مقالات ومضامین اور پیچیدہ ودشوار مسائل کے حل متفقہ فیصلہ کے بعد عالم اسلام میں پیش کئے جائیں اور تمام علماء امت کے لئے قابل قبول ہوں۔
چنانچہ اس ادارہ کی یہ تیسری کانفرنس تھی، سابقہ دو کانفرنسوں کی مکمل کارروائی مبسوط مقالات اور مضامین نہایت شاندار طریق پر تقریباً ۵۰۰ صفحات کی ضخیم کتاب کی شکل میں طبع کراکے تمام شرکاء کانفرنس میں تقسیم کئے گئے۔
بہرحال کانفرنس کے مندوبین کا کام یہ ہوتا ہے کہ طے شدہ عنوانات ومسائل پر جو مقالات دورانِ سال اراکین نے تیار کئے ہیں ،جن کی ٹائپ شدہ کاپیاں تمام مندوبین کو اجلاس سے اتنے وقت پہلے تقسیم کردی جاتی ہیں کہ وہ پڑھ کر بحث وتنقیح کے لئے تیار ہوسکیں۔ ہر مقالہ نگار اپنے مقالہ کو خود پڑھتا ہے اور مندوبین کی بحث وتنقیح یا جرح وتنقید کا یا جواب دیتا ہے یا تسلیم کرکے اپنے مقالا میں ترمیم کرتا ہے، ایسا بھی ہوا ہے کہ اگر کوئی مقالا اسلامی روحِ تشریع کے منافی پڑھا گیا ہے تو مندوبین کے احتجاج پر اس کو مجمع البحوث کی کارروائی سے بالکل خارج کر دیا گیا ہے۔
الغرض ایک خالص علمی اور دینی کانفرنس ہوتی ہے، نہ سیاسی مسائل زیر بحث آتے ہیں نہ سیاسی تجاویز پاس کی جاتی ہیں۔ البتہ مندوبین کے اعزاز واحترام اور پاس جذبات کی خاطران کو موقع دیا جاتا ہے کہ اگر کوئی مندوب (ڈیلی گیٹ) اپنے ملکی یا ملی مسائل پر کوئی تقریر کرنا چاہے یا مقالا پڑھنا چاہے تو اس کو موقع دیا جاتا ہے اور کلمة الوفود (مندوبین کے بیان ) کے عنوان سے مقامی پریس والے اس ٹائپ شدہ تقریر یا مضمون کو بطور خود اخبارات میں شائع کردیتے ہیں۔ مجمع البحوث کی طرف سے بعینہ وہ بیان یا اس کا خلاصہ الگ چھپتا ہے اور اگلے روز تمام مندوبین میں تقسیم کردیا جاتا ہے۔
بہرحال یہ موتمر کوئی عام سیاسی طرز کی کانفرنس نہیں ہوتی، جیساکہ پاکستان کے پریس والے اور اخبارات کے قارئین نے ناواقفیت کی بنا پر سمجھا ہے اور غلط فہمی میں مبتلا ہوئے ہیں۔
اس کے برعکس سعودی حکومت کے تحت الرابطة الاسلامیة کے نام سے جو ادارہ قائم ہے، اس کی نوعیت بالکل سیاسی ہے، اس کی بھی سالانہ کانفرنس ہرسال ہوتی ہے اور عام اسلامی سیاست سے متعلق تجاویز اس کانفرنس میں پاس ہوکر شائع ہوتی ہیں۔شاید یہی اشتباہ غلط فہمی کا منشاء ہو کہ مجمع البحوث الاسلامیہ کو بھی الرابطة الاسلامیة کی قسم کا سیاسی ادارہ سمجھ کر اس سے بھی اسی قسم کی تجاویز کی توقع قائم کرلی گئی ہو ،جیسی الرابطة الاسلامیة میں پاس ہوتی ہیں۔
بہرحال مجمع البحوث الاسلامیہ کی حیثیت مصر میں وہی ہے جو پاکستان میں مرکزی ادارہ ٴ تحقیقات اسلامی کی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ مجمع البحوث کا پورا نظام جید اور مستند علماء امت کے ہاتھ میں ہے اور تمام امت کے علماء کے اتفاق رائے سے فیصلے کئے جاتے ہیں اور پاکستان کے ادارہٴ تحقیقات اسلامی کے سیاہ وسفید کا مالک اور مطلق العنان سربراہ (ڈائرکٹر) ایک میکگل یونیورسٹی کا تعلیم وتربیت یافتہ، مستشرقانہ نظریات کا داعی، آزاد خیال نیم عالم ہے، اسی کے ہم خیال وہمنوا اس ادارہ کے تمام محققین اور لکھنے والے ہیں۔
اس فرق کے نتیجہ میں ہر دو اداروں کی متضاد تحقیقات کے مندرجہ ذیل مظاہر اور آثار وشواہد ہیں:
۱:۔پاکستان کے ادارہ تحقیقات اسلامی کا فیصلہ ہے کہ زکوٰة اسلامی حکومت کا ایک ٹیکس ہے، اس میں کمی بیشی ، تغیر وتبدل اور تصرف کا کلی اختیار حکومتِ وقت کو حاصل ہے۔
مصر کی مجمع البحوث الاسلامیہ کا فیصلہ ہے کہ زکوٰة ایک مالی عبادت ہے، اس کی شرح میں کمی بیشی، اموال زکوٰة میں تغیر وتبدل وغیرہ کا اختیار امت کے کسی بھی فرد یا جماعت کو حاصل نہیں ہے۔
۲:۔پاکستانی ادارہٴ تحقیقات اسلامی کا فیصلہ ہے کہ شاہی فرمان (آرڈی نینس) کے ذریعہ ملک میں جاری کردہ عائلی قوانین کے تحت اگر طلاق بصورت تحریر نہ ہو تو واقع نہ ہوگی اور دوسری شادی زوجہٴ اول کی رضامندی اور عدالت کی اجازت کے بغیر قانوناً جائز نہ ہوگی۔
مصر کی مجمع البحوث الاسلامی کا فیصلہ ہے کہ شوہر کے زبانی طلاق دیتے ہی نافذ ہوجائے گی، اگرچہ بصورت تحریر طلاق نہ بھی دی جائے۔نیز دوسری شادی کے لئے نہ زوجہٴ اول کی رضامندی کی ضرورت ہے اور نہ عدالت کی اجازت کی حاجت، شرعی طریق پر گواہان کی موجودگی میں زوجین کے ایجاب وقبول کے بعد نکاح ثانی درست ہے۔
۳:۔اس پاکستان کے ادارہٴ تحقیقات اسلامی کے نزدیک غذائی پیداوار اور معاشی وسائل کے اندیشہ کی بناء پر ضبط تولید اور تحدید نسل جائز اور درست ہے۔
مصر کی مجمع البحوث کے نزدیک قومی سطح پر تحدید نسل اور ضبط تولید دینی، اقتصادی، فوجی اور سیاسی، غرض ہر اعتبار سے سخت مضر اور شرعاً ناجائز ہے۔
۴:۔پاکستانی ادارہٴ تحقیقات اسلامی کے نزدیک بینک کا سود قطعاً جائز ہے۔
مصر کی مجمع البحوث کے نزدیک ہرقسم اور ہرطرح کا سود قطعاً ناجائز اور حرام ہے۔
ظاہر ہے کہ جہاں بھی اسلامی تحقیقاتی ادارہ کا نظام ایسے عالم نما جاہلوں اور بے لگام لکھنے والوں کے ہاتھ میں ہوگا، جو ڈنکے کی چوٹ نیا اسلام (ماڈرن اسلام) تیار کرنے کا اعلان کر رہے ہیں، وہاں دینی مسائل اور اسلامی شرائع واحکام کا یہی حشر ہوگا اور جہاں اسلامی تحقیقات کا نظام مستند اہل علم کے ہاتھوں میں ہوگا ،وہاں کبھی اس قسم کے الحاد وتحریف اور خاتم انبیاء ا کے لائے ہوئے دین میں قطع برید اور مسخ وتشویہ (صورت بگاڑنے) کا وسوسہ بھی پاس نہیں پھٹک سکتا، خیال تو بڑی بات ہے۔
انتہائی افسوس اور شرم کا مقام ہے کہ ہمارا اتنا بڑا ملک جس کے بسنے والے نہ صرف علماء دینی اور علمی رفعت کے اعتبار سے ، بلکہ عوام بھی دینداری اور مذہبی روایات کی عملی پابندی کے اعتبار سے آج بھی مصر وشام وحجاز وغیرہ ممالکِ اسلامیہ سے گوئے سبقت لے گئے ہیں اور جو اسلامی معاشرہ کے اعتبار سے بھی مغربی تہذیب ومعاشرت کے زہریلے جراثیم سے نسبتاً محفوظ ہے اور عوام تو دینی تمسک اور تصلب اور پختگی میں ان ممالک سے کہیں آگے ہیں، وہاں تو دین اور اس کے احکام میں یہ علانیہ قطع برید اور مسخ وتحریف ہورہی ہو، اور ایک آزاد اور یورپی تہذیب ومعاشرت میں سرتا پا غرق ملک میں دین اور اسلامی احکام وشرائع کی، ہرقسم کے الحاد وتحریف سے اس طرح حفاظت ہورہی ہو۔
ہم بلاخوفِ تردید کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کی عملی زندگی اور عوام کی دینی حالت ان تمام تر خرابیوں کے باوجود جن کو ہم بغرض اصلاح وقتاً فوقتاً گناتے رہتے ہیں۔ آج تمام عالم اسلامی سے بہتر ہے، پھر ایسی قوم پر گوناگوں حیلوں اور فریب کاریوں سے زبردستی غیر اسلامی معاشرہ مسلط کرنا، شریعت کے صریح خلاف اور منافی احکام آرڈی ننس کے زور سے نافذ کرنا اور جان بوجھ کر الحاد وتحریف کے دروازے کھولنا کتنا بڑا ظلم وعدوان ہے۔
لمثل ہذا یذوب القلب عن کمد
ان کان فی القلب اسلام وایمان
ترجمہ: … ”اسی جیسی صورت حال پر دل غم کے مارے پگھلتے ہیں ، بشرطیکہ ان دلوں میں اسلام اور ایمان موجود ہو،،۔
مصر حکومت میں ہم نے جس چیز کا خطرہ سب سے زیادہ محسوس کیا وہ دو ہیں:
۱:۔مصری حکومت نے اشتراکی نظام ۔سوشلزم۔ کو پوری طرح اپنالیا ہے، بڑی بڑی جاگیرداریاں ختم کردی ہیں، بڑی بڑی صنعتیں حکومت نے اپنی ملکیت میں لے لی ہیں اور اس اشتراکیت کے حق میں اتنی شدت کے ساتھ پرو پیگنڈہ کیا جارہا ہے کہ اس اشتراکیت نے عقیدہ کی صورت اختیار کرلی ہے، اس لئے شدید خطرہ ہے کہ یہ اشتراکیت ۔سوشلزم۔ شیوعیت۔ کمیونزم۔ کی سیڑھی نہ بن جائے، چنانچہ متحدہ جمہوریہ مصر کے مخالفین نے تو ابھی سے اشتراکیت کو شیوعت کا درجہ دے کر مخالفانہ پروپیگنڈے کا بازار گرم رکھا ہے۔
۲:۔دوسرا خطرہ یہ ہے کہ علماء ومشائخ آسودہ حالی اور ترفہ وتنعم (رئیسانہ زندگی) اور خوشحالی سے محروم ہوجانے کا ذرا بھی اندیشہ ہو تو وہ حق بات کہنے کی جرأت نہیں کرتے، اس لئے ان سے آنے والے تباہ کن خطرہ کے سامنے سینہ سپر ہونے کی توقع اٹھتی جارہی ہے۔
یہ مصر ہی کی خصوصیت نہیں بلکہ مغربی تہذیب ومعاشرت کا جو تباہ کن سیلاب آرہا ہے، تمام ممالک اسلامیہ خصوصاً عرب ممالک تو اس کی خاص زد میں آئے ہوئے ہیں اور سب سے زیادہ اس سیلاب کی طوفان خیز موجوں میں بہہ رہے ہیں، بلکہ ڈوب رہے ہیں، دوسری طرف عرب قومیت کا بھوت سب کے سروں پر بری طرح سوار ہے، اسلام کا نعرہ بھی برائے نام رہ گیا ہے، اس پر مستزادیہ کہ مال ودولت کی فراوانی وطغیانی کے جو زہریلے اثرات ہوا کرتے ،وہ بری طرح پیدا ہورہے ہیں۔ ان حالات کو دیکھ کر شدید مایوسی ہوتی ہے، جب تک کوئی لطیفہ ٴ غیبیہ ربانیہ فوق العادہ طریق پر ظاہر نہ ہو، کوئی اصلاح کی توقع نہیں، بجز اس کے کہ دین اور اسلام کا درد رکھنے والے مسلمان رب العالمین کی بارگاہ میں ب سرسجود اور دست بدعا ہوں کہ:
ربنا لاتجعلنا فتنةً للقوم الظالمین، ونجنا برحمتک من القوم الکافرین ربنا لاتجعلنا فتنةً للذین کفروا واغفرلنا ربنا انک انت العزیز الحکیم، وصلی الله علی صفوة البریة خاتم النبیین وحبیب رب العالمین، سیدنا محمد وآلہ واصحابہ وعلماء امتہ وصالحی عبادہ وبارک وسلم۔
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , صفر المظفر:۱۴۳۱ھ - فروری: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 2

    پچھلا مضمون: محبت رسولﷺ ایمان میں سے ہے !
Flag Counter