Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی صفر المظفر ۱۴۳۱ھ - فروری ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

3 - 11
تعلیم نسواں کے مقاصد․․․علامہ اقبال کی نظر میں !
تعلیم نسواں کے مقاصد․․․علامہ اقبال کی نظر میں!

فرضیت علم
ابن ماجہ حضرت انس سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ انے فرمایا:
”طلب العلم فریضة علی کل مسلم،،۔ (مشکوٰة،ص:۳۴)
ترجمہ:۔”علم حاصل کرنا ہرمسلمان پر فرض ہے،،۔
اس حدیث میں ”مسلم،، کا لفظ عام ہے ،جو عورت اور مرد دونوں کو برابر شامل ہے۔
لڑکیوں کی تعلیم وتربیت
امام ترمذی اور ابوداؤد روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ا نے فرمایا:
”من کان لہ ثلاث بنات او ثلاث اخوات او بنتان او اختان۔ فادبہن واحسن الیہن وزوجہن فلہ الجنة،،۔
ترجمہ:۔”جس کے تین لڑکیاں یا تین بہنیں ہوں یادو لڑکیاں یا دو بہنیں ہوں اور وہ انہیں ادب سکھائے اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور ان کی شادی کردے تو اس کے لئے جنت ہے،،۔
صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرة کی روایت میں ہے:
”ورجل کانت عندہ امة یطأہا فادبہا فاحسن تأدیبہا وعلمہا فاحسن تعلیمہا ثم اعتقہا فتزوجہا فلہ اجران،،۔ (صحیح بخاری،ص:۱۳۸)
ترجمہ:۔”جس شخص کے پاس لونڈی ہو اور وہ اسے تعلیم دے اور اچھی طرح سے پڑھائے اور ادب سکھائے اور خوب اچھی طرح سے ادب سکھائے پھر اسے آزاد کرکے شادی کرے تواس کو دو اجر ملیں گے،،۔
عورتوں کی تعلیم وتربیت واجب ہے
فتوح البلدان میں ہے کہ ام المؤمنین حضرت حفصہ بنت عمر فاروق زمانہ ٴ جاہلیت میں ”شفاعدویہ،، سے لکھنا سیکھتی تھیں، پھر جب نبی کریم ا نے ان سے شادی کرلی، آپ ا نے شفاء سے فرمایا کہ انہیں تحریر وخط کی باریکی اور صفائی اور نوک پلک بھی اسی طرح سکھادو جس طرح انہیں لکھنا سکھایا ہے۔
اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمان عورت کے لئے تعلیم وتربیت کے ساتھ ایک صاف ستھری تہذیب وثقافت بھی بہت ضروری ہے۔ (اسلام اور تربیت اولاد،ج:۱،ص:۲۸۵)
خواتین کی تعلیم کے لئے دن مقرر کرنا
بخاری میں حضرت ابوسعیدخدری کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت انے خواتین کی تعلیم وتربیت کے لئے ایک دن مقرر کیا ہوا تھا، چنانچہ حدیث کی روایت کے الفاظ یوں ہیں:
”قال النساء للنبی ا غلبنا علیک الرجال فاجعل لنا یوماِ من نفسک فوعدہن یوماِ لقیہن فیہ فوعظہن وامرہن،،۔ (بخاری، ص:۱۴۵)
ترجمہ:…”ایک مرتبہ عورتوں نے آپ ا سے عرض کیا مرد (استفادہ کے لحاظ سے)ہم سے آگے بڑھ گئے ہیں، ہمارے لئے کوئی خاص دن مقرر فرمادیں، آپ نے ان کے لئے ایک دن کا وعدہ کرلیا، آپ ا اس دن ان سے ملے، انہیں نصیحت فرمائی اور انہیں احکام شرع بتلائے،،۔
ازواج مطہرات کی زندگی کا مقصد
سورہ احزاب میں ارشاد خداوندی ہے:
”واذکرن ما یتلیٰ فی بیوتکن من آیات الله والحکمة،،۔(الاحزاب:۳۴)
ترجمہ:۔’اور یاد کرو جو پڑھی جاتی ہیں تمہارے گھروں میں اللہ کی باتیں اور عقل مندی کی،،۔
اس آیت میں نبی کریم اکی ازواج مطہرات کو ان کی زندگی کا اصل مقصد بتایا گیا ہے کہ اللہ نے ان کو اس لئے منتخب کیا ہے کہ قرآن وحکمت کی تعلیم جو ان کے گھروں میں دی جارہی ہے وہ اس کا چرچا کریں۔ یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ نبی کریم ا کی بعثت جس طرح مردوں کے لئے ہوتی ہے اسی طرح عورتوں کے لئے بھی ہوتی ہے، جس طرح آپ باہر لوگوں کو تعلیم دیتے رہتے تھے اسی طرح گھر کے اندر بھی تعلیم دیتے رہتے تھے۔معروف مفسر ومحدث مولانا شبیر احمد عثمانی تفسیر عثمانی میں لکھتے ہیں:
”یعنی قرآن وسنت جو اللہ کے احکام اور دانائی کی باتیں ہیں انہیں سیکھو، یاد کرو اور دوسروں کو سکھاؤ اور اللہ کے احسان عظیم کا شکر ادا کرو کہ تم کو ایسے گھر میں رکھا جو حکمت کا خزانہ اور ہدایت کا سرچشمہ ہے،،۔ (تفسیر عثمانی ص:۵۴۸) اس سے معلوم ہوا کہ اس آیت میں اگرچہ خطاب نبی کریم ا کی بیویوں سے ہے لیکن اس کا حکم عام ہے، تب ہی تو اس کی تبلیغ کا حکم صادر فرمایا ہے۔
عورتوں کی تعلیم سے اسلام کی غرض وغایت
۱۔عورت کی حقیقی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ گھر کی ذمہ داری پوری کرے اور اس کو سنبھالے ،مثلاً گھر کو ترتیب دینا، اس کو خوبصورت اور صاف ستھرا رکھنا، بچوں کی تربیت کرنا، معیشت کے وسائل میں میانہ روی اختیار کرنا اور ساتھ ساتھ خاندانی اور عائلی ذمہ داریوں کو بھی پورا کرنا۔حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ عورت مرد کی صرف شریک حیات ہی نہیں، بلکہ گھر اور بچوں کی نگرا ن بھی ہے، ان کی تعلیم اور کردار سازی میں اس کا اہم کردار ہے۔ اس لئے خود اس کی تعلیم کا ہونا بہت ضروری ہے۔
دبستان اول کی تربیت
عورت ایک قابل فخر حیثیت میں ماں ہے۔ معاشرتی اور سماجی زندگی میں ماں کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ ماں کی گود پہلا دبستان ہے جو انسان کو اخلاق اور شرافت کا سبق سکھاتا ہے۔ جس قوم کی مائیں بلند خیال، عالی ہمت، شائستہ ومہذب ہوں گی اس قوم کے بچے یقینا اچھا معاشرہ تعمیر کرنے کے قابل ہوسکیں گے۔ اب یہ فیصلہ آپ خود کرسکتے ہیں کہ ماں کی تکمیل اور جذبہ مادری کو زندہ رکھنے کے لئے کس قسم کی تعلیم کی ضرورت ہے۔ قرآن وسنت اور حکمت ودانائی کی تعلیم ؟یا مغربی طرز کی عریاں تعلیم؟
اسی حقیقت کو ڈاکٹر مختار حسین صدیقی نے یوں بیان کیا ہے:
مذہب کی حفاظت
معاشرت کا عمل بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی شروع ہوجاتا ہے اور ماں کی گود اس کا گہوارہ بنتی ہے، بچہ دین فطرت پر پیدا ہوتا ہے، اس کے ماں باپ اس کے مذہبی کردار کی صورت گری کرتے ہیں، اس اعتبار سے معاشرے میں مذہب کی سب سے بڑی امین اور محافظ ماں ہے، وہی قوم کی حقیقی معمار ہے ،اس لئے عورت کو صحیح مذہبی تعلیم دینا حیات طیبہ کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لئے از بس ضروری ہے۔ (اقبال بحیثیت مفکر،ص:۱۴)
عفت وعصمت کی حفاظت
مولانا ظفر الدین فرماتے ہیں:
”عفت وعصمت وہ گوہر گراں مایہ ہے جس سے انسانیت کے تاج کی زیب وزینت ہے، یہ وہ جوہر ہے جس کی قیمت پہچاننے اور قدر کرنے سے انسانیت کوچار چاند لگ جاتے ہیں اور اس کی بے قدری سے انسانیت پامال ہوجاتی ہے،،۔
سورہٴ احزاب میں ارشاد ہوتا ہے:
”اپنی عصمت کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں اور اللہ کو بکثرت یاد کرنے والے مرد اور عورتیں، اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے معافی اور بڑا ثواب رکھا ہے،،۔ (الاحزاب:۳۵)
فی زمانہ عورت کی عفت وعصمت کو سب سے زیادہ اندیشہ ان مخلوط اداروں سے ہے جن میں مرد وزن آزادانہ مل جل کر قوم کو ”ترقی،، کے اوج ثریا پر پہنچانے کی فکر میں چشم بد دور! گھلتے جارہے ہیں۔ (اسلام کا نظام عفت وعصمت، ص:۲۱)
اقبال اور تعلیم نسواں
آپ عورت کو تمدن کی جڑ قرار دیتے ہیں، اس لئے اس کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا چاہتے ہیں، لیکن مرد وعورت کی یکساں تعلیم کے حامی نہیں اور نہ ہی مغربی مفہوم کے مطابق دونوں کی مساوات کے قائل ہیں۔ (سادات مطلق)
آپ کے خیال میں دونوں کے فرائض جداجدا ہیں۔ عورت کو صرف اقتصادی آزادی کے حصول کے لئے تعلیم دینا اسلامی مقصود نہیں ہے ،کیونکہ اس سے خاندانی وحدت کا رشتہ جو بنی نوع انسان کی روحانی زندگی کا جزو عظیم ہے، ٹوٹ جاتا ہے۔ (اقبال اور مسئلہ تعلیم،ص:۴۶۲)
مغربی طرز تعلیم کے بارے میں آپ نے (اقبال اور مسئلہ تعلیم،ص:۴۶۳)پر فرمایا:
لڑکیاں پڑھ رہی ہیں، انگریزی
ڈھونڈی قوم نے فلاح کی راہ
رَوِش مغربی ہے مدنظر!
وضع مشرق کو جانتے ہیں گناہ
تعلیم نسواں کے مقاصد…اقبال کی نظر میں
علامہ اقبال نے عورتوں کے لئے مخصوص نصاب تعلیم کی سفارش کی تھی، اس نصاب سے علامہ موصوف جو مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے ،ان کی جھلک پیش خدمت ہے:
جناب اقبال عورت کو تمدن کی جڑ قرار دیتے ہیں اور جڑ کی پرورش ونگہداشت کے بغیر درخت، اس کا تنا، اس کی ڈالیاں اور اس کے پتوں، پھولوں اور پھلوں کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ تمدن کی جڑ یعنی ”عورت ،، کی نگہداشت اور دیکھ بھال اقبال کی نظر میں تعلیم کے ذریعہ ہی ہو سکتی ہے، اگر عورت کو تعلیم دی جائے گی تو تمدن کا درخت بار آور ہوگا وہ پھولے گا، پھلے گا، ورنہ نہیں۔
(اقبال اور مسئلہ تعلیم،ص:۴۵۳)
ایک خاندان کی تعلیم
علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ مرد کی تعلیم واحد کی تعلیم ہے اور عورت کی تعلیم درحقیقت تمام خاندان کی تعلیم ہے، بات واضح اور صاف ہے کہ مرد اگر تعلیم پائے گا تو اس کا فائدہ بالعموم صرف اس کی ذات کو ہی پہنچتا ہے ، اسی لئے آپ کا کہنا ہے کہ مرد کی تعلیم فرد واحد کی تعلیم ہے، اگر عورت کو تعلیم دی جائے گی تو اس کی افادیت صرف اس کی ذات تک محدود نہیں رہے گی، بلکہ وہ اپنی اولاد کو بھی اس تعلیم سے فائدہ پہنچائے گی ،اس کی بہتر نگہداشت اور تربیت کرے گی ،پس اقبال کے نزدیک ایک عورت کی تعلیم ایک خاندان کی تعلیم ہے۔ (اقبال اور تعلیم اسلام، ص:۴۶۲)
عظمت کا راز
جناب اقبال کی نظر میں عورت کی عظمت کا راز جذبہ امومت میں ہے، وہ عورت کی تعلیم کے ذریعہ اس جذبہ کو زندہ جاوید دیکھنا چاہتے ہیں ،کیونکہ آپ کا کہنا ہے کہ خاندانوں کی زندگی اسی جذبہ امومت سے وابستہ ہے، جس قوم کی مائیں فرائض امومت ادا کرنے سے کتراتی ہیں، اس کا معاشرتی نظام درہم برہم ہوجاتا ہے، اس کا عائلی نظام انتشار کا شکار ہوجاتا ہے۔ اقبال عورت کے لئے زوجیت اور امومت کا یہی فطری اور حقیقی منصب متعین کرتے ہیں اور ایک تعلیم یافتہ دین دار عورت ہی اپنی انہی دو حیثیتوں یعنی بیوی اور ماں بن کر فطرت کے دو عظیم الشان مقاصد تسلسل نسل انسانی اور تشکیل وتعمیر معاشرہ وملت کی تعمیل وتکمیل کر سکتی ہے۔ (مطالعہ اقبال، ص:۱۹۴، پروفیسر نقوی)
عورت کے بنیادی فرائض کی تکمیل:
شاعر مشرق کی نظر میں عورت کے اصل اور بنیادی فرائض: بیوی اور ماں کی حیثیت میں پوشیدہ ہیں، چنانچہ فرماتے ہیں: اگر عورت ماں ہے، بیوی ہے تو زن ہے اور ایسی عورت شمع انجمن نہیں، چراغ خانہ ہے۔رونق محفل نہیں، گھر گر ہستی ہے۔ گھر اس کی تمام مصروفیات کا محور ہے، شوہر اس کی تمام دلچسپیوں کا مرجع اور اولاد اس کی تمام شفقتوں کا مرکز ہے، اور یہ سب کچھ بغیر تعلیم وتربیت کے ممکن نہیں ہے۔ اقبال چاہتے ہیں کہ عورت تعلیم حاصل کرے اور اپنے گھر کو احسن طریقے سے اور اپنے حسن تدبیر سے جنت کی نظیر بنادے۔ (اقبال اور مسئلہ تعلیم، ص:۴۵۶)
اقبال کا نظریہ تعلیم نسواں
آپ نے دیکھا کہ جناب اقبال کی نظر میں تعلیم نسواں کے مقاصد، تمدن کی نمو، عورت کے جذبہ زوجیت اور امومت کی تعمیر وتر قی، اس کی عفت وعصمت کی حفاظت ،اور اس کو اپنے بنیادی فرائض بطریق احسن ادا کرنے کے قابل بنانا ہے۔ آیئے! اب ہم دیکھتے ہیں کہ وہ کیسی تعلیم ہے جس کے ذریعہ مذکورہ مقاصد حاصل کئے جاسکتے ہیں اور جس نظام تعلیم کو اقبال نے طبقہ نسواں کے لئے باعث فخروافتخار قرار دیا ہے۔
علم دین کے ماتحت
پروفیسر نقوی مطالعہ اقبال میں علامہ اقبال کا قول نقل کرتے ہیں کہ: علم دینی مفید ہے جو دین کے تابع رہے، فرماتے ہیں ”علم سے مراد وہ علم ہے جس کا دار ومدار حواس پر ہے، عام طور پر میں نے علم کا لفظ انہیں معنوں میں استعمال کیا ہے، اس علم سے ایک طبعی قوت حیات آتی ہے جس کو دین کے ماتحت رہنا چاہئے ،اگر دین کے ماتحت نہ رہے تو محض شیطانیت ہے۔ (مطالعہ اقبال، ص:۱۶۵)
مذہبی تعلیم
جناب محمد احمد خان اپنی معروف کتاب ”اقبال اور مسئلہ تعلیم،، میں جناب اقبال کی رائے تحریر فرماتے ہیں:
”مسلمان عورتوں کو ابتداء میں ٹھیٹھ مذہبی تعلیم دی جائے اور اس کے بعد اسلامی تاریخ، علم تدبیر، خانہ داری اور اصول حفظ صحت وغیرہ جیسے مضامین پڑھائے جائیں، جن سے وہ اپنے فطری فرائض زوجیت وامومت خوش اسلوبی سے انجام دے سکیں،،۔ (اقبال اور مسئلہ تعلیم، ص:۴۸۳)
سیکولر تعلیم کی نفی
عورت کے متعلق شاعر مشرق کی فکر کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ وہی قوم ومعاشرہ کی بنیاد رکھتی ہے اور اس کے تسلسل وبقا کی ذمہ دار ہے، آپ کے نزدیک عورت کی تعلیم ایک خاندان اور ایک پوری نسل کی تعلیم ہے۔ اس لحاظ سے عورت کو سیکولر تعلیم دینے کے معانی یہ ہیں کہ ایک پورے خاندان کو بلکہ ایک پوری نسل کو بے گانہ دین ومذہب بنا ڈالا جائے ،پھر خاندانوں کے ارتباط سے ہی معاشرہ وجود میں آتا ہے، قوم بنتی ہے تو عورت کے دین ومذہب سے، بیگانگی کالازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ پورا معاشرہ اور ساری قوم ابتداء میں دین سے بے تعلق اور بالا ٓخر دین سے منحرف ہوجائے گی۔چنانچہ (ضرب کلیم)فرماتے ہیں:
تہذیب فرنگی ہے، اگر مرگ امومت
ہے حضرت انسان کے لئے اس کا ثمر موت
بے گانہ رہے دین سے اگر مدرسہ زن
ہے عشق ومحبت کے لئے علم وہنر موت
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے ”نازن،،
مفکر پاکستان عالم نسواں کے لئے ایسے علم کی مخالفت کرتے ہیں جو( زن) کو( نازن) بناکراس کے بنیادی فرائض سے غافل کردے، لیکن یہ (زن) اور (نازن) کیا ہے؟
اقبال کی زن اور نازن
علامہ اقبال کے حضور ”زن،، گھر والی ہے، شوہر والی ہے، اولاد والی ہے اور ”نازن،، خانہ براندازچمن ہے، بے شوہر وبے اولاد۔ ”زن،، گھر کو اپنی جنت ، شوہر کو اپنے سرکا تاج اور اولاد کو اپنے دل کا قرار اور روح کا گداز سمجھتی ہے اور ”نازن،، گھر کو قید خانہ، شوہر کو پاؤں کی بیڑی، گلے کا طوق اور اولاد کو جان کا جنجال اور روح کا وبال قرار دیتی ہے۔ (اقبال اور مسئلہ تعلیم،ص:۴۷۴)
اسی لئے فرماتے ہیں:
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اس علم کو ارباب نظر موت
اس شعر میں ”علم،، سے مراد مغربی اور لادینی تعلیم ہے اور ”نازن،، سے مراد مغرب زدہ عورت ہے۔
مخلوط تعلیم اور اقبال
تعلیم نسواں سے متعلق مخلوط تعلیم کا مسئلہ ہمیشہ سے متنازع فیہ آرہا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ بعض لوگوں نے جان بوجھ کر اس مسئلہ کو الجھا رکھا ہے، وگرنہ بات بالکل صاف ہے۔
جناب محمد احمد خان نے روزگار فقیر جلد اول کے حوالہ سے ایک اقتباس نقل کیا ہے ،جس سے مخلوط تعلیم کے بارے میں علامہ موصوف کا عندیہ ظاہر ہوتا ہے:
”سفر افغانستان سے واپسی پر آپ سے دریافت کیا گیا کہ قرآن کریم تمام انسانوں کو علم وآگہی حاصل کرنے کی ہدایت کرتا ہے تو پھر لڑکوں اور لڑکیوں کی جدید تعلیمی سہولتوں پر کیوں قدغن لگائی جاتی ہے۔ آپ نے فرمایا: بے شک قرآن کریم میں حصول تعلیم پر بڑا زور دیا گیا ہے، لیکن اس میں یہ کہاں کہا گیا ہے کہ لڑکے اور لڑکیاں ایک مکتب میں تعلیم حاصل کریں،،۔
(اقبال اور مسئلہ تعلیم بحوالہ روزگار فقیر جلد اول، ص:۱۶۶،۱۶۵)
عملی ثبوت
پردہ اور مخلوط تعلیم کے بارے میں ڈاکٹر صاحب کے خیالات بڑے واضح تھے اور وہ اپنے موقف سے بال بھر بھی ہٹنا نہیں چاہتے تھے، انہوں نے خود اپنی زندگی میں اس کا عملی ثبوت دیا کہ اپنی بچی منیرہ کی تعلیم وتربیت کے لئے بڑی کوشش اور جد وجہد کے بعد علی گڑھ سے ایک معلمہ بلوائی، جس نے گھر میں رہ کر ڈاکٹر صاحب کی بچی کو تعلیم دی۔ (حوالہ مذکورہ بالا)
فکر اقبال گواہ ہے
تعلیم نسواں کے بارے میں ان کی مجموعی فکر اور عمومی تصورات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ وہ عورتوں کو ایسی تعلیم دلانا چاہتے تھے جو انہیں ”اسلامیت،، کا پابند اور فرائض ”زوجیت وامومت،، بحسن وخوبی ادا کرنے کا اہل بنائے۔ تعلیم کی ہر سطح پر وہ ان دو اصولوں کو پیش نظر رکھنا چاہتے تھے، بلکہ تعلیم نسواں کا پورا ڈھانچہ وہ ان دو اصولوں پر کھڑا کرنا چاہتے تھے، اس لئے وہ علیحدہ خصوصی نصاب تعلیم کی تجویز پیش کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں یہ کس طرح ممکن ہے کہ لڑکے اور لڑکیوں کو مخلوط تعلیم دی جائے۔ (اقبال اور مسئلہ تعلیم، ص:۴۹۱)
خواتین کے لئے آزاد یونیورسٹی کا تصور
مخلوط تعلیم کے عدم ثبوت میں ایک دلیل یہ بھی دی جاسکتی ہے کہ جب آپ کے ذہن میں عورتوں کی ایک علیحدہ آزاد یونیورسٹی کا منصوبہ تھا تو پھر مخلوط کالجوں، یونیورسٹی اور سکولوں کا تصور ان کے دماغ میں کہاں بار پاسکتا ہے؟
چنانچہ آپ نے آخری بار انجمن حیات اسلام لاہور کے جلسہ کی صدارت کرتے ہوئے جہاں یہ تجویز پیش کی کہ انجمن حمایت اسلام لڑکیوں کے لئے ایک علیحدہ نصاب مرتب کرے اور اس میں امتحان لے ،وہاں مشورہ بھی دیا کہ انجمن پہلے ایک امتحان لینے والے ادارے کے طور پر کام کرے اور پھر اس دائرہ کو خواتین کی آزاد یونیورسٹی میں تبدیل کردے۔ (اقبال اور مسئلہ تعلیم، ص:۴۸۴)
عصمتیں علم پر مقدم ہیں
علم عصمتوں کی حفاظت کرتا ہے، لیکن جب تعلیم غیر اسلامی اور لادینی ہو تو اقبال ایسی تعلیم سے باز رہنے کی تلقین کررہے ہیں، کیونکہ اس نظام تعلیم سے وہ مقاصد پورے نہیں ہوتے جن کی نشان دہی مذہب اسلام اور علامہ اقبال نے کی ہے۔ آپ کے نزدیک عورت کی عفت وعصمت وہ گوہر نایاب ہے جس سے انسانیت کے تاج کی زیب وزینت ہے، یہ وہ جوہر ہے جس کی قیمت پہچاننے اور قدر کرنے سے انسانیت کو چار چاند لگ جاتے ہیں اور اس کی بے قدری کرنے سے انسانیت پامال ہوجاتی ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:عصمتیں علم پر مقدم ہیں
آج بہتر ہے بیٹیاں نہ پڑھیں
تعلیم نسواں کا خصوصی نصاب
اقبال تعلیم نسواں کے لئے ایسے نصاب کی سفارش کرتے ہیں جو عورت کو اس کے فرائض اور اس کی صلاحیتوں سے آگاہ کرے ۔ شاعر مشرق کی فکر سے ماخوذ نصاب تعلیم نسواں کی چیدہ چیدہ خصوصیات ذیل میں پیش کی جاتی ہیں: #…ابتدائی اور بنیادی تعلیم ایسی ہو کہ عورت دین کے بنیادی تصور سے واقف ہوجائے۔
#…اس کے بعد دین کے بنیادی عقائد اور ان کے تقاضوں کو اس کے ذہن میں اتارا جائے۔
#…بعد ازاں عورت کو وہ ضروری معلومات فراہم کی جائیں جو ان تقاضوں کو روبہ عمل لانے کے لئے ضروری ہیں۔
#…عورت کا نصاب تعلیم ایسا ہونا چاہئے کہ دین کی روح اس کی روح میں اترجائے۔
#…جدید عمرانی (مغربی) فلسفہ جس میں عورت کو مساوات مطلق اور آزادی کے مسئلہ کی تعلیم دی گئی ہو ،وہ نہ پڑھایاجائے۔
#…وہ تمام معاشرتی علوم پڑھائے جائیں جو عورت کی نسوانی صلاحیتوں کو ابھارنے میں مدد گار ہوں اور جو اس کو اپنے فطری فرائض یعنی ”زوجیت اور امومت،، کی ادائیگی کے لئے تیار کرتے ہوں۔
#…عورتوں کے مخصوص امراض، مسائل اور فرائض کے پیش نظر ہوم اکنامکس، خانہ داری اور میڈیکل (نرسنگ) کی تعلیم بھی بہت ضروری ہے۔
علاوہ ازیں ازواج مطہرات، حضرت فاطمہ اور صحابیات کی سیرت سے کچھ اسباق بطور نمونہ عورتوں کے نصاب کا حصہ ہونے چاہئیں۔
فکر اقبال کی اساس
ہمارے یہاں کوئی سیاسی تقریب ہویا مذہبی ،علامہ اقبال کے اشعار سے عوام الناس کو محظوظ کیا جاتا ہے۔ فکر اقبال کی آڑ میں وہ لوگ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں جن کو افکار اقبال سے کچھ واسطہ نہیں رہا۔ پھر یہ حیرت اس وقت دو چند ہوجاتی ہے جب ایک مغرب زدہ عورت اپنی تمام رعنائیوں سے مسلح ہوکر فکر اقبال سے ہم آغوش ہونے کی کوشش کرتی ہے، حالانکہ یار لوگ جانتے ہیں کہ علامہ موصوف اپنی تمام تربشری کمزوری کے باوجود اسلامی اصولوں کے علم بردار ہیں۔ خصوصاً عالم نسواں (آزادی وتعلیم نسواں) کے بارے میں آپ کے خیالات عین اسلام کے پاکیزہ اصولوں کی ترجمانی کرتے ہیں، اس لئے مناسب یہی ہوگا کہ خاندان مغرب ،فکر اقبال پر اترانے کی بجائے تہذیب مغرب اور تعلیم نسواں کے بارے میں آپ کے افکار عالیہ کا مطالعہ کرنے کی زحمت فرمائیں، شاید انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوجائے۔
حاصل بحث
تعلیم نسواں کے بارے میں شاعر مشرق علامہ اقبال کے افکار کا جائزہ لینے کے بعد ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ آپ کے عقائد قرآن وحدیث کے نظریہ تعلیم سے ماخوذ ہیں، اسلام نے عورتوں کی تعلیم کے جو مقاصد متعین کئے ہیں، جناب اقبال بھی تعلیم نسواں سے ان ہی نتائج کی آرزو کرتے ہیں، بہتر یہی ہے کہ ہم اس حقیقت کو تسلیم کرلیں کہ اقبال عورت کو ایسی چراغ خانہ رہنے کی ترغیب دے اور شمع محفل بننے سے محفوظ کردے اور عورت کا یہ مقام ومرتبہ بھی اسلام اور فطرت کے عین مطابق ہے، اس بحث ناتمام کو سمیٹتے ہوئے میں ایک بار پھر عرض کروں گا کہ:
اقبال مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم کے حامی تو ضرور ہیں، لیکن سیکولر تعلیم کے طرفدار بالکل نہیں، اسی طرح آپ نے عورت کی عفت وعصمت کا پاس کرتے ہوئے مخلوط نظام تعلیم پر سخت تنقید کی ہے اور اس مقصد کے لئے صنف نازک کے لئے علیحدہ اداروں کے قیام کی سفارش کی ہے۔
اب یہ ان صاحب اقتدار لوگوں پر علامہ کا قرض ہے جو فکر اقبال کی روشنی میں سیاست وجمہوریت کے تنگ وتاریک گوشوں کو روشن کرنے چلے ہیں ۔شاعر ملت کے خیالات کی ترجمانی عوامی شاعر جناب اکبر الٰہ آبادی نے یوں کی ہے:
تعلیم عورتوں کی ضروری تو ہے مگر
خاتون خانہ ہوں وہ سبھا کی پری نہ ہوں
(اکبر الٰہ آبادی)
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , صفر المظفر:۱۴۳۱ھ - فروری: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 2

    پچھلا مضمون: اتصال صفوف اور ان کا حکم !
Flag Counter