Deobandi Books

عالم اسلام

ن مضامی

9 - 53
برما کے مظلوم مسلمانوں کی جدوجہد
گزشتہ روز برما کے علاقہ اراکان سے تعلق رکھنے والے ایک عالم دین گوجرانوالہ تشریف لائے اور ان سے اراکان کے ان مسلمانوں کے حالات کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کرنے کا موقع ملا جو ایک عرصہ سے ریاستی جبر و تشدد کا مسلسل نشانہ بنے ہوئے ہیں اور اب وہاں کے بہت سے نوجوانوں اور علماء نے اپنے دینی تشخص کے تحفظ اور آزادی کے حصول کے لیے ’’حرکۃ الجہاد الاسلامی‘‘ کے نام سے تحریک شروع کر رکھی ہے۔ ان صاحب نے حالات کا کچھ تذکرہ کیا اور اس کے ساتھ ایک کتابچہ دیا جس کا عنوان ہے ’’برمی جمہوریت اپنے مظالم کے آئینے میں‘‘۔ یہ کتابچہ اراکان سے تعلق رکھنے والے ایک عالم دین مولانا مفتی عبد الشکور کا تحریر کردہ ہے جو حرکۃ الجہاد الاسلامی اراکان برما کے ناظم اعلٰی ہیں اور ان دنوں بنگلہ دیش میں نہیلہ کے مقام پر جامعہ دارالسنتہ میں حدیث نبویؐ کے استاذ کی حیثیت سے فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ یہ کتابچہ اردو میں ہے اور پاکستان میں اسے غنی بک ڈپو برمی کالونی ۳۶ جی لانڈھی کراچی سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ کتابچہ میں جو معلومات فراہم کی گئی ہیں ان میں سے چند ایک کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
جنگ عظیم دوم کے بعد برما کو آزادی دینے کا فیصلہ ہوا اور آزادانہ الیکشن کرائے گئے تو جنرل اونگ سان کی راہ نمائی میں ملک کا دستور مرتب کیا گیا مگر اس دستور میں مسلمانوں کے حقوق کا کسی حوالہ سے بھی کوئی ذکر نہیں ہوا۔ حالانکہ مسلمان برما میں خاصی تعداد میں موجود ہیں، اراکان صوبہ میں ان کی اکثریت ہے اور انہوں نے تحریک آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ حتیٰ کہ اس الیکشن میں اراکان سے پارلیمنٹ کے دو مسلم ممبر جناب سلطان احمد بی اے اور مسٹر عبد الغفار بی اے منتخب ہوئے مگر انہیں مختلف حیلوں بہانوں سے اجلاس میں شریک ہی نہیں ہونے دیا گیا اور اس دوران مسلمانوں نے دستور سازی کے سلسلہ میں جو مطالبات پیش کیے تھے انہیں بالکل نظر انداز کر دیا گیا۔
آزادی کے بعد حکومت نے زمینیں سرکاری تحویل میں لینے کی آڑ میں سینکڑوں دینی مدارس اور مساجد کی وقف زمینیں ضبط کر لیں جن میں منگڈو جامع مسجد کی بہت بڑی زمین بھی شامل ہے۔ اس کے نتیجے میں اکثر مسجدیں ویران اور مدارس بند ہوگئے۔ جنوبی منگڈو میں جامعہ اشرف العلوم کے نام سے ایک بڑا دینی ادارہ تھا جس سے فارغ التحصیل ہونے والے ہزاروں حفاظ و علماء اور مبلغین دینی خدمات میں مصروف تھے، اسے نذر آتش کر دیا گیا اور جامعہ کی بلڈنگ کے ساتھ کروڑوں روپے کی مالیت کا عظیم الشان کتب خانہ بھی جل کر راکھ ہوگیا۔
شمالی منگڈو میں مسلمانوں کی ’تولاتولی‘‘ نامی بستی کے باشندوں کی تمام زمینیں چھین کر غیر مسلموں میں تقسیم کر دیں، بستی کا نام تبدیل کر دیا اور مسلمانوں کو دربدر کر دیا جس سے مسجدیں ویران ہوگئیں، مدارس اجڑ گئے اور لوگ ترک وطن پر مجبور ہوگئے، حتیٰ کہ وہ بستی ہی اب ویران ہوگئی ہے۔ مسلمانوں کی گنجان آبادیوں کے درمیان طے شدہ پروگرام کے تحت غیر مسلموں کو بسایا گیا اور مسلمانوں سے زمینیں چھین کر ان میں تقسیم کی گئیں جس سے بہت سے علاقوں کے مسلمان ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے اور اس طرح مسلمانوں کی اجتماعیت کو جان بوجھ کر بکھیر دیا گیا۔
مسلم اکثریت کا علاقہ اراکان چاول کی کاشت کا علاقہ تھا اور اس کا دارالحکومت ’اکیاب‘‘ ایک دور میں رائس ملوں کا شہر کہلاتا تھا مگر جنرل نیون کی حکومت نے بتدریج ایسی پالیسیاں اختیار کیں جن کی وجہ سے چاول کی بین الاقوامی شہرت رکھنے والی یہ منڈی سنسان ہوگئی۔
اراکان اور برما کے دیگر حصوں میں آباد روہنگیا مسلمانوں کے بارے میں یہ پراپیگنڈا شروع کیا گیا کہ یہ برما کے اصل باشندے نہیں ہیں اس لیے انہیں برما سے چلے جانا چاہیے۔ اور اس کے بعد مسلسل ایسی پالیسیاں اختیار کی جاتی رہیں جن کے باعث روہنگیا مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد وطن چھوڑنے پر مجبور ہوگئی اور مختلف مسلمان ملکوں میں پناہ گزین ہوئی۔
آبادی کے تناسب کے بارے میں اعداد و شمار کے حوالہ سے کتابچہ میں بتایا گیا ہے کہ ۱۹۳۱ء کی مردم شماری میں برما کی کل آبادی ایک کروڑ چھیالیس لاکھ ستاسٹھ ہزار کے لگ بھگ تھی اور اس میں مسلمانوں کی تعداد ۵ لاکھ پچاسی ہزار کے قریب بتائی گئی ہے۔ جبکہ ۱۹۹۱ء کی مردم شمار میں برما کے صوبے اراکان کی آبادی بائیس لاکھ چھپن ہزار اور اس میں مسلمانوں کی تعداد چھ لاکھ ترانوے ہزار ظاہر کی گئی ہے۔ مگر مختلف ذرائع پر ہونے والی مردم شماریوں کو سامنے رکھتے ہوئے مصنف نے مجموعی نتیجہ یہ بتایا ہے کہ اراکان کی آبادی پینتالیس لاکھ کے لگ بھگ تھی جس میں سے پندرہ لاکھ کے قریب مسلمان ہجرت کر گئے اور اب وہاں اتنے ہی مسلمان باقی رہ گئے ہیں۔ جبکہ باقی تعداد بدھ مت اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی ہے۔ برما کی مجموعی آبادی کے بارے میں مصنف کا کہنا ہے کہ اس وقت چار کروڑ تیس لاکھ سے اوپر ہے جس میں ۲۷ فیصد مسلمان ہیں۔
یہ ایک ہلکا سا نقشہ ہے جس میں برما میں گزشتہ نصف صدی کے دوران مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی ایک جھلک پیش کی گئی ہے اور یہ سلسلہ اب بھی نہ صرف جاری ہے بلکہ اس میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ اس پس منظر میں اراکان کے کچھ علماء اور غیور مسلمانوں نے ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ کے مصداق اگر ہتھیار اٹھا لیے ہیں تو اسے دہشت گردی کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ دینی تشخص، مذہبی حقوق اور شہری آزادیوں کا تحفظ دنیا کی ہر قوم کا حق ہے اور اگر کسی ملک میں ریاستی جبر اس حد تک آگے بڑھ جائے تو ہتھیار اٹھانا بھی قوموں کا جائز حق بن جاتا ہے۔ اس لیے دنیا بھر کے مسلمانوں کو اراکان کے مسلمانوں کی جدوجہد کی اسی طرح حمایت اور پشت پناہی کرنی چاہیے جس طرح اس کا حق بنتا ہے۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ اوصاف، اسلام آباد
تاریخ اشاعت: 
۱۷ جنوری ۱۹۹۹ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 افغان حریت پسندوں کا جہادِ آزادی 1 1
3 سانحۂ مکہ اور ایرانی راہنما کی دھمکی 2 1
4 ایران عراق جنگ اور اسلامی اتحاد کانفرنس 3 1
5 افغانستان کی تقسیم کے عالمی منصوبہ کا آغاز 4 1
6 افغانستان میں عالم اسلام کی آرزوؤں کا خون 5 1
7 مسلم ممالک میں ریاستی جبر کا شکار دینی تحریکات 6 1
8 امت مسلمہ کے مسائل اور امام مسجد نبویؐ کا خطبہ 7 1
9 اقوام متحدہ کا منشور اور اسلامی نظام ۔ تضادات پر ایک نظر 8 1
10 برما کے مظلوم مسلمانوں کی جدوجہد 9 1
11 طالبان اور شمالی اتحاد کے درمیان مذاکرات کی کامیابی 10 1
12 اقوام متحدہ، بی بی سی اور عالم اسلام 11 1
13 کیا اسامہ بن لادن صرف ایک بہانہ ہے؟ 12 1
14 اکیسویں صدی کا آغاز اور اس کے تقاضے 13 1
15 مسلم ممالک کا اقتصادی بلاک 14 1
16 حالات کی مجبوری اور مولانا فضل الرحمٰن کا انتخاب 15 1
17 دوبئی میں مقیم پاکستانیوں کے مسائل 16 1
18 کیا امریکہ عالمی قیادت کا اہل ہے؟ 17 1
19 دہشت گردی یا حریت پسندی؟ 18 1
20 مسلم ممالک کے نصاب تعلیم اور بل کلنٹن کی ہدایات 19 1
21 جمہوریت‘ مسلم ممالک اور امریکہ 20 1
23 مسلم دنیا میں جمہوریت اور امریکہ کا دوغلاپن 21 1
24 حج ۲۰۰۲ء سے مفتی اعظم سعودی عرب کا خطبہ 22 1
25 اسرائیل کے قیام کا مقصد اور ’’عرب منصوبہ‘‘ 23 1
26 کشمیر اور فلسطین ۔ عالمی طاقتوں کی ترجیحات 24 1
27 سعودی عرب کی مجوزہ سیاسی اصلاحات 25 1
28 امریکی استعمار، عالم اسلام اور بائیں بازو کی جدوجہد 26 1
29 اسامہ بن لادن اور امریکی تحریک آزادی کے جنگجو 27 1
30 پسپائی اور شکست ، مسلمانوں کا مقدر کیوں؟ 28 1
31 نوآبادیاتی نظام اور مظلوم عوام کا مستقبل 29 1
32 اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر اور ہمارے دینی مراکز کی ذمہ داری 30 1
33 عالمی استعمار اور مسلم حکومتوں کا موقف 31 1
34 سوشل گلوبلائزیشن کا ایجنڈا اور علماء کرام کی ذمہ داریاں 32 1
35 خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ 33 1
36 صدر باراک حسین اوباما اور امریکی پالیسیاں 34 1
37 انسانی حقوق، اقوام متحدہ اور عالم اسلام 35 1
38 مصر، آل سعود اور ائمہ حرمین 36 1
39 مسلم دنیا میں جمہوریت کا کھیل 37 1
40 لو وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ بے ننگ و نام ہے! 38 1
41 عالم اسلام کے لیے سیکولر قوتوں کا پیغام! 39 1
42 فلسطینی عوام، عالمی ضمیر اور مسلمان حکمران 40 1
43 مسئلہ فلسطین اور او آئی سی کا کردار 41 1
44 ’’دہشت گرد‘‘ کا موقف اس کی زبانی 42 1
45 عالم اسلام اور تکفیر و قتال کا فتنہ 43 1
46 اقوام متحدہ اور عالم اسلام 44 1
47 تکفیر کا فتنہ اور موجودہ عالمی مخمصہ 45 1
48 مسلم ممالک کا فوجی اتحاد 46 1
49 ’’لا الٰہ‘‘ کے ساتھ ’’الا اللہ‘‘ کی ضرورت 47 1
50 داعش کا خطرہ 48 1
51 عالمی معاہدات اور طیب اردگان کی صدائے احتجاج 49 1
52 تحفظ ناموس رسالتؐ اور مسلم ممالک کے سفراء کا عزم 50 1
54 انقلابِ ایران کی متنازعہ ترجیحات 51 1
55 مشرق وسطیٰ میں ’’ٹرمپائزیشن‘‘ کے دور کا آغاز` 52 1
56 (۱) خلافت اسلامیہ کی عدم موجودگی 28 30
57 (۲) عربوں کی بے بصیرتی 28 30
58 (۳) مسلم حکمرانوں کی مغرب پرست پالیسیاں 28 30
59 عورتوں کے امتیازی قوانین 30 32
60 غلامی کا مسئلہ 30 32
61 شرعی حدود کا مسئلہ 30 32
62 خاندانی قوانین 30 32
63 آزادی مذہب 30 32
64 مشرق وسطیٰ کے بارے میں امریکی منصوبہ بندی 53 1
65 خلیجی ریاستیں 53 64
66 دیگر ممالک 53 64
Flag Counter