Deobandi Books

عالم اسلام

ن مضامی

15 - 53
حالات کی مجبوری اور مولانا فضل الرحمٰن کا انتخاب
مجھے یہ اطلاع تو دوبئی روانہ ہونے سے قبل مل گئی تھی کہ مولانا فضل الرحمٰن بھی انہی دنوں متحدہ عرب امارات کے دورے پر جا رہے ہیں مگر یہ معلوم نہیں تھا کہ ان کی فلائٹ بھی وہی ہے جس پر میں نے سیٹ بک کرا رکھی ہے۔ یہ پی آئی اے کی فلائٹ تھی جو دوبئی کے لیے پشاور سے براستہ لاہور تھی۔ مولانا پشاور سے سوار ہوگئے جبکہ میں لاہور سے جہاز پر بیٹھا مگر دوبئی پہنچنے تک ہمیں ایک دوسرے کے بارے میں پتہ نہ چل سکا اور وہاں ایئرپورٹ پر امیگریشن لاؤنج میں ہماری ملاقات ہوئی۔
دوبئی ایئرپورٹ پر مولانا فضل الرحمٰن کے استقبال کے لیے جمعیۃ علمائے اسلام کے کارکن اور علماء بڑی تعداد میں جمع تھے جبکہ میرے میزبان جمعیۃ طلبائے اسلام کے سابق رہنما محمد فاروق شیخ اور جمعیۃ اہل سنت متحدہ عرب امارات کے سیکرٹری اطلاعات حافظ بشیر احمد چیمہ تھے جو مولانا مفتی عبد الرحمٰن اور چودھری رشید احمد چیمہ کے ہمراہ ایئرپورٹ پر آئے ہوئے تھے۔ مشترکہ خیرمقدم کے ساتھ ان دوستوں نے مشترکہ اجتماعات کا بھی پروگرام بنا لیا اور مسجد العزیز، مسجد الرفاعہ، مسجد بلال بن رباح میں جمعیۃ علمائے اسلام کے زیر اہتمام جلسوں سے مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ راقم الحروف نے بھی خطاب کیا۔ دوبئی اور متحدہ عرب امارات کی دیگر ریاستوں میں عام اجتماعات کا نظم یہ ہے کہ محکمہ اوقاف سے اس کی باقاعدہ اجازت لینا پڑتی ہے اور اجازت لینے والے صاحب کو تحریری طور پر اس بات کی ضمانت دینا پڑتی ہے کہ مہمان مقرر اہل السنۃ والجماعۃ کے مسلمہ عقائد سے ہٹ کر کوئی بات نہیں کہیں گے، کسی مذہبی فرقہ کے خلاف کچھ نہیں کہیں گے، اور کسی قسم کی سیاسی گفتگو نہیں کریں گے۔ یہ آخری فقرہ ہم دونوں کی قوت ہاضمہ کے لیے امتحان کی حیثیت رکھتا تھا اس لیے جب مولانا فضل الرحمٰن کو خطاب سے قبل اجازت نامہ دکھایا گیا تو وہ مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگے کہ اب بتاؤ کہ ہم یہاں کیا کہیں گے؟
خیر جلسہ تو جیسا کیسا گزر گیا، دوسرے روز حافظ بشیر احمد چیمہ صاحب نے ہمارے اعزاز میں عصرانہ کا اہتمام کر رکھا تھا جس میں علمائے کرام اور دینی کارکنوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ تقریب سے فارغ ہوئے تو مغرب کی نماز کا وقت ہوگیا، مولانا فضل الرحمٰن کو مغرب کی نماز کی امامت کے لیے کہا گیا اور ان کی امامت میں ہم سب نے نماز پڑھی۔ نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے مولانا موصوف سے کہا کہ جو بات آپ جلسہ کے دوران تقریر میں نہیں کہہ پا رہے تھے وہ آپ نے نماز کے دوران قرآن کریم کی زبان میں ان لوگوں کو سنا دی ہے۔ اس پر مولانا فضل الرحمٰن نے ہلکا سا قہقہہ لگایا اور کوئی جواب دیے بغیر رخصت ہوگئے۔
میرا اشارہ قرآن کریم کی ان آیات کی طرف سے تھا جو مولانا فضل الرحمٰن نے نماز کی پہلی رکعت میں پڑھی تھیں اور جن کے بارے میں میرا تاثر یہ تھا کہ وہ کم و بیش اسی قسم کی صورتحال اور اہل ایمان کے انہی جذبات کی عکاسی کر رہی ہیں جو اس وقت عالم اسلام کے دیندار مسلمانوں کو درپیش ہے۔ یہ سورۃ الاعراف کی آیت 27 تا 29 ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کی کشمکش کے ایک مرحلہ کا تذکرہ کیا ہے کہ جب حضرت موسٰیؑ نے اپنے معجزات کے ذریعہ فرعون کے جادوگروں کو کھلے میدان میں شکست دے دی اور مقابلہ کرنے والے جادوگر سب کے سب یہ حقیقت جان گئے کہ حضرت موسٰیؑ کے پاس جادو نہیں ہے بلکہ انہوں نے جس طاقت کا مظاہرہ کیا ہے وہ حقیقت اور خدائی طاقت ہے تو ان جادوگروں نے وہیں مقابلہ کے میدان میں حضرت موسٰیؑ پر ایمان لانے کا اعلان کر دیا۔ اس پر فرعون نے سخت غم و غصہ کا اظہار کیا اور حضرت موسٰیؑ پر ایمان لانے والے ان جادوگروں کو دھمکی دی کہ
’’تم مجھ سے پوچھے بغیر موسٰیؑ پر ایمان لائے ہو، یہ تمہاری سازش ہے جو تم نے پہلے سے تیار کر رکھی تھی، میں تمہیں قتل کر دوں گا، تمہارے ہاتھ پاؤں کاٹ دوں گا، تمہیں کھجور کے تنوں کے ساتھ سولی پر لٹکا دوں گا اور تمہیں پتہ چل جائے گا کہ ہم میں سے کون زیادہ سخت سزا دینے والا ہے۔‘‘
ان جادوگروں کے دل میں ایمان راسخ ہو چکا تھا اور وہ حقیقت کا ادراک کر چکے تھے اس لیے یہ دھمکی ان پر کارگر نہ ہوئی اور انہوں نے دوٹوک جواب دیا کہ
’’ہم پر حق واضح ہو چکا ہے اور ہم نے اسے قبول کر لیا ہے اس لیے تمہارے کہنے سے ہم اسے نہیں چھوڑ سکتے۔‘‘
اس مکالمہ کے بعد فرعون کے دربار کے کچھ لوگوں نے فرعون سے کہا کہ حضرت موسٰیؑ پر ایمان لانے والوں کو تو تم دھمکیاں دے رہے ہو مگر خود حضرت موسٰیؑ اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں خاموشی اختیار کر رکھی ہے، اس طرح تو ان کے حوصلے بڑھ جائیں گے، یہ زمین میں فساد پیدا کریں گے اور تمہیں اور تمہارے خداؤں کو ایک طرف چھوڑ دیں گے۔ اس پر فرعون نے یہ حکم صادر کیا کہ بنی اسرائیل یعنی حضرت موسٰیؑ پر ایمان لانے والوں کے بیٹوں کو قتل کر دیا جائے اور ان کی بیٹیوں کو زندہ چھوڑ دیا جائے، اس کے ساتھ ہی فرعون نے یہ بھی کہا کہ ہمیں ان پر قوت اور غلبہ حاصل ہے اس لیے ہم جو چاہیں کر سکتے ہیں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کا یہ حکم سن کر بنی اسرائیل کو صبر کی تلقین کی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ سے مدد کے طلبگار ہو وہ مدد کرے گا اور یاد رکھو کہ زمین کا اصل مالک اللہ تعالیٰ ہے وہ جسے چاہتا ہے اسے اس کا وارث بنا دیتا ہے اور یہ بھی یاد رکھو کہ اچھا انجام اہل ایمان اور اہل تقویٰ کو ہی نصیب ہوتا ہے۔
بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ آپ کی تشریف آوری سے قبل بھی ہمیں اذیت اٹھانا پڑی تھی جب فرعون کو کسی ستم ظریف نے اس کےخواب کی تعبیر میں یہ بتا دیا تھا کہ بنی اسرائیل میں ایک بچہ پیدا ہونے والا ہے جو تمہاری سلطنت کے خاتمہ کا باعث بنے گا اس پر فرعون نے بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کرنا شروع کر دیا تھا جس کے نتیجے میں ہزاروں نومولود لڑکے بے پناہ قتل کر دیے گئے تھے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اس بچے یعنی حضرت موسٰیؑ کو زندہ رکھ کر اور خود فرعون کے گھر میں اس کی پرورش کا اہتمام کر کے اپنی قدرت اور بے نیازی کا مظاہرہ فرمایا تھا۔ بنی اسرائیل نے اسی واقعہ کی طرف اشارہ کیا اور حضرت موسٰیؑ سے عرض کیا کہ اس وقت بھی آپ کی ولادت سے قبل ہمارے ہزاروں بچے ذبح کر دیے گئے تھے اور اب پھر آپ کے آنے کے بعد فرعون نے وہی حکم دوبارہ نافذ کر دیا ہے جس کے تحت بچوں کو قتل کرنے کا سلسلہ ازسرنو شروع ہو جائے گا اور ہم پر مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑے گا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دوبارہ صبر کی تلقین کرتے ہوئے بنی اسرائیل سے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ رکھو اور امید رکھو کہ کہ اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کو اس ظلم کے بدلے ہلاک کر کے اس کی جگہ تمہیں زمین کی خلافت عطا فرمادیں اور پھر تمہیں دیکھیں کہ تم اس زمین پر حکمران بن کر کیا کرتے ہو۔
یہ ان آیات کا پس منظر اور مختصر مفہوم ہے جو مولانا فضل الرحمٰن نے اس روز نماز مغرب کی پہلی رکعت میں تلاوت کیں۔ وہ یہ آیات پڑھ رہے تھے اور میرا ذہن آج کے فرعون اور اس کے حواریوں کی طرف گھوم رہا تھا جس نے عراق میں معصوم بچوں کے قتل عام کے بعد اب افغانستان میں معصوم بچوں کے قتل عام کا پروگرام بنا لیا ہے اور جس نے عورتوں کو ابھار کر، بنا سنوار کر، مرد و عورت کی مساوات کے نام پر باہر نکال کر انہیں خاندانی نظام سے باغی بنانے کا فتنہ کھڑا کر رکھا ہے۔
آج بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اور ایمان کا پرچم بلند کرنے والوں سے کہا جا رہا ہے کہ ہم پر تمہاری وجہ سے مصائب نازل ہو رہے ہیں اور اہل ایمان آج بھی فرعون کی قوت قاہرہ کے سامنے بے بس ہو کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں صبر و استقامت کا دامن پھیلائے ہوئے ہیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ ان شاء اللہ تعالیٰ موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کی طرح اس کشمکش میں بھی رسوائی اور ناکامی آخر فرعون ہی کے حصے میں آئے گی۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ اوصاف، اسلام آباد
تاریخ اشاعت: 
۲۸ جنوری ۲۰۰۱ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 افغان حریت پسندوں کا جہادِ آزادی 1 1
3 سانحۂ مکہ اور ایرانی راہنما کی دھمکی 2 1
4 ایران عراق جنگ اور اسلامی اتحاد کانفرنس 3 1
5 افغانستان کی تقسیم کے عالمی منصوبہ کا آغاز 4 1
6 افغانستان میں عالم اسلام کی آرزوؤں کا خون 5 1
7 مسلم ممالک میں ریاستی جبر کا شکار دینی تحریکات 6 1
8 امت مسلمہ کے مسائل اور امام مسجد نبویؐ کا خطبہ 7 1
9 اقوام متحدہ کا منشور اور اسلامی نظام ۔ تضادات پر ایک نظر 8 1
10 برما کے مظلوم مسلمانوں کی جدوجہد 9 1
11 طالبان اور شمالی اتحاد کے درمیان مذاکرات کی کامیابی 10 1
12 اقوام متحدہ، بی بی سی اور عالم اسلام 11 1
13 کیا اسامہ بن لادن صرف ایک بہانہ ہے؟ 12 1
14 اکیسویں صدی کا آغاز اور اس کے تقاضے 13 1
15 مسلم ممالک کا اقتصادی بلاک 14 1
16 حالات کی مجبوری اور مولانا فضل الرحمٰن کا انتخاب 15 1
17 دوبئی میں مقیم پاکستانیوں کے مسائل 16 1
18 کیا امریکہ عالمی قیادت کا اہل ہے؟ 17 1
19 دہشت گردی یا حریت پسندی؟ 18 1
20 مسلم ممالک کے نصاب تعلیم اور بل کلنٹن کی ہدایات 19 1
21 جمہوریت‘ مسلم ممالک اور امریکہ 20 1
23 مسلم دنیا میں جمہوریت اور امریکہ کا دوغلاپن 21 1
24 حج ۲۰۰۲ء سے مفتی اعظم سعودی عرب کا خطبہ 22 1
25 اسرائیل کے قیام کا مقصد اور ’’عرب منصوبہ‘‘ 23 1
26 کشمیر اور فلسطین ۔ عالمی طاقتوں کی ترجیحات 24 1
27 سعودی عرب کی مجوزہ سیاسی اصلاحات 25 1
28 امریکی استعمار، عالم اسلام اور بائیں بازو کی جدوجہد 26 1
29 اسامہ بن لادن اور امریکی تحریک آزادی کے جنگجو 27 1
30 پسپائی اور شکست ، مسلمانوں کا مقدر کیوں؟ 28 1
31 نوآبادیاتی نظام اور مظلوم عوام کا مستقبل 29 1
32 اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر اور ہمارے دینی مراکز کی ذمہ داری 30 1
33 عالمی استعمار اور مسلم حکومتوں کا موقف 31 1
34 سوشل گلوبلائزیشن کا ایجنڈا اور علماء کرام کی ذمہ داریاں 32 1
35 خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ 33 1
36 صدر باراک حسین اوباما اور امریکی پالیسیاں 34 1
37 انسانی حقوق، اقوام متحدہ اور عالم اسلام 35 1
38 مصر، آل سعود اور ائمہ حرمین 36 1
39 مسلم دنیا میں جمہوریت کا کھیل 37 1
40 لو وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ بے ننگ و نام ہے! 38 1
41 عالم اسلام کے لیے سیکولر قوتوں کا پیغام! 39 1
42 فلسطینی عوام، عالمی ضمیر اور مسلمان حکمران 40 1
43 مسئلہ فلسطین اور او آئی سی کا کردار 41 1
44 ’’دہشت گرد‘‘ کا موقف اس کی زبانی 42 1
45 عالم اسلام اور تکفیر و قتال کا فتنہ 43 1
46 اقوام متحدہ اور عالم اسلام 44 1
47 تکفیر کا فتنہ اور موجودہ عالمی مخمصہ 45 1
48 مسلم ممالک کا فوجی اتحاد 46 1
49 ’’لا الٰہ‘‘ کے ساتھ ’’الا اللہ‘‘ کی ضرورت 47 1
50 داعش کا خطرہ 48 1
51 عالمی معاہدات اور طیب اردگان کی صدائے احتجاج 49 1
52 تحفظ ناموس رسالتؐ اور مسلم ممالک کے سفراء کا عزم 50 1
54 انقلابِ ایران کی متنازعہ ترجیحات 51 1
55 مشرق وسطیٰ میں ’’ٹرمپائزیشن‘‘ کے دور کا آغاز` 52 1
56 (۱) خلافت اسلامیہ کی عدم موجودگی 28 30
57 (۲) عربوں کی بے بصیرتی 28 30
58 (۳) مسلم حکمرانوں کی مغرب پرست پالیسیاں 28 30
59 عورتوں کے امتیازی قوانین 30 32
60 غلامی کا مسئلہ 30 32
61 شرعی حدود کا مسئلہ 30 32
62 خاندانی قوانین 30 32
63 آزادی مذہب 30 32
64 مشرق وسطیٰ کے بارے میں امریکی منصوبہ بندی 53 1
65 خلیجی ریاستیں 53 64
66 دیگر ممالک 53 64
Flag Counter