Deobandi Books

عالم اسلام

ن مضامی

4 - 53
افغانستان کی تقسیم کے عالمی منصوبہ کا آغاز
افغان مجاہدین کی خون میں ڈوبی ہوئی چودہ سالہ طویل جدوجہد بالآخر رنگ لائی جس کے نتیجہ میں افغانستان کے عوام آزادی کی نعمت سے سرفراز ہوئے اور وہاں پر ایک آزاد اسلامی (عبوری) حکومت قائم ہوگئی۔ اس کے ساتھ ہی افغانستان میں اسلامی حکومت کے قیام کے خلاف امریکہ، روس اور دیگر مغربی ممالک کی سازشیں بھی اپنے عروج پر پہنچ گئیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ افغانستان کی جغرافیائی حیثیت کے پیش نظر دنیا بھر کی غیر مسلم استعماری طاقتیں خصوصاً امریکہ بہادر وہاں ایک آزاد اور خالص اسلامی حکومت کے قیام کو کسی صورت بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ چنانچہ امریکی سامراج نے اپنی روایتی عیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے افغانستان کو تقسیم کرنے کے عالمی منصوبے پر عملدرآمد کا آغاز کر دیا ہے۔
مغربی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی خبروں میں بھی اس بات کی تصدیق ہو رہی ہے کہ افغانستان کی تقسیم کے بین الاقوامی منصوبے جسے امریکہ کے علاوہ دیگر مغربی ممالک اور روس کی حمایت بھی حاصل ہے، کو اب عملی شکل دینے کی کوششوں کا آغاز ہو چکا ہے۔ منصوبہ کے مطابق اگر افغانستان میں ان کی پسند کی حکومت قائم نہ ہو سکے تو اس کی طاقت کو کمزور اور منتشر کرنے کے لیے اسے شمال اور جنوب کے علاقوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ چنانچہ سب سے پہلے تو امریکہ بہادر نے افغانستان کو اپنا دستِ نگر اور طفیلی ملک بنانے کے لیے ایک پانچ نکاتی امن منصوبہ پیش کیا اور عالمی ذرائع ابلاغ سے اس نام نہاد امن منصوبہ کا زبردست پراپیگنڈہ کیا اور میاں نواز شریف اور حکومت پاکستان کے ذریعہ اس منصوبہ پر عملدرآمد کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ پھر اس مقصد کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائند بینن سیون کو پاکستان بھیجا۔ بینن سیون نے افغانستان میں برسراقتدار نجیب انتظامیہ کے علاوہ پاکستان اور ایران کے حکمرانوں کے ذریعہ اپنے نام نہاد امن منصوبہ کے لیے جوڑ توڑ شروع کر دی لیکن جب بینن سیون کو اس مقصد میں خاطر خواہ کامیابی نہ ہوئی تو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بطروس غالی کو بھی ان کی مدد کے لیے پاکستان بھیج دیا۔
لیکن افغان مجاہدین نے باہمی اتفاق و اتحاد سے ان کی کوئی بھی سازش کامیاب نہ ہونے دی۔ اسی دوران نجیب نے استعفیٰ دے دیا۔ ادھر افغان مجاہدین کی تنظیموں نے اقوام متحدہ کے اس نام نہاد امن منصوبہ کو ٹھکرا کر باہمی مشاورت سے افغانستان میں ایک مشترکہ عبوری حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا۔ لیکن پاکستان میں جماعت اسلامی اور افغانستان میں جماعت کی ذیلی تنظیم حزب اسلامی نے مشترکہ عبوری حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اس موقع پر ہم حکمت یار سمیت تمام افغان تنظیموں کے سربراہوں سے گزارش کریں گے کہ وہ حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اپنے معمولی اختلافات کو پس پشت ڈال کر متحد ہو جائیں اور امریکی سازشوں کو ناکام بنا کر افغانستان میں ایک پائیدار اسلامی حکومت قائم کر کے ایک مضبوط اسلامی بلاک کی راہ ہموار کریں۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
ہفت روزہ ترجمان اسلام، لاہور
تاریخ اشاعت: 
مئی ۱۹۹۱ء (غالباً) - جلد ۳۴ شمارہ ۲۰
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 افغان حریت پسندوں کا جہادِ آزادی 1 1
3 سانحۂ مکہ اور ایرانی راہنما کی دھمکی 2 1
4 ایران عراق جنگ اور اسلامی اتحاد کانفرنس 3 1
5 افغانستان کی تقسیم کے عالمی منصوبہ کا آغاز 4 1
6 افغانستان میں عالم اسلام کی آرزوؤں کا خون 5 1
7 مسلم ممالک میں ریاستی جبر کا شکار دینی تحریکات 6 1
8 امت مسلمہ کے مسائل اور امام مسجد نبویؐ کا خطبہ 7 1
9 اقوام متحدہ کا منشور اور اسلامی نظام ۔ تضادات پر ایک نظر 8 1
10 برما کے مظلوم مسلمانوں کی جدوجہد 9 1
11 طالبان اور شمالی اتحاد کے درمیان مذاکرات کی کامیابی 10 1
12 اقوام متحدہ، بی بی سی اور عالم اسلام 11 1
13 کیا اسامہ بن لادن صرف ایک بہانہ ہے؟ 12 1
14 اکیسویں صدی کا آغاز اور اس کے تقاضے 13 1
15 مسلم ممالک کا اقتصادی بلاک 14 1
16 حالات کی مجبوری اور مولانا فضل الرحمٰن کا انتخاب 15 1
17 دوبئی میں مقیم پاکستانیوں کے مسائل 16 1
18 کیا امریکہ عالمی قیادت کا اہل ہے؟ 17 1
19 دہشت گردی یا حریت پسندی؟ 18 1
20 مسلم ممالک کے نصاب تعلیم اور بل کلنٹن کی ہدایات 19 1
21 جمہوریت‘ مسلم ممالک اور امریکہ 20 1
23 مسلم دنیا میں جمہوریت اور امریکہ کا دوغلاپن 21 1
24 حج ۲۰۰۲ء سے مفتی اعظم سعودی عرب کا خطبہ 22 1
25 اسرائیل کے قیام کا مقصد اور ’’عرب منصوبہ‘‘ 23 1
26 کشمیر اور فلسطین ۔ عالمی طاقتوں کی ترجیحات 24 1
27 سعودی عرب کی مجوزہ سیاسی اصلاحات 25 1
28 امریکی استعمار، عالم اسلام اور بائیں بازو کی جدوجہد 26 1
29 اسامہ بن لادن اور امریکی تحریک آزادی کے جنگجو 27 1
30 پسپائی اور شکست ، مسلمانوں کا مقدر کیوں؟ 28 1
31 نوآبادیاتی نظام اور مظلوم عوام کا مستقبل 29 1
32 اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر اور ہمارے دینی مراکز کی ذمہ داری 30 1
33 عالمی استعمار اور مسلم حکومتوں کا موقف 31 1
34 سوشل گلوبلائزیشن کا ایجنڈا اور علماء کرام کی ذمہ داریاں 32 1
35 خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ 33 1
36 صدر باراک حسین اوباما اور امریکی پالیسیاں 34 1
37 انسانی حقوق، اقوام متحدہ اور عالم اسلام 35 1
38 مصر، آل سعود اور ائمہ حرمین 36 1
39 مسلم دنیا میں جمہوریت کا کھیل 37 1
40 لو وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ بے ننگ و نام ہے! 38 1
41 عالم اسلام کے لیے سیکولر قوتوں کا پیغام! 39 1
42 فلسطینی عوام، عالمی ضمیر اور مسلمان حکمران 40 1
43 مسئلہ فلسطین اور او آئی سی کا کردار 41 1
44 ’’دہشت گرد‘‘ کا موقف اس کی زبانی 42 1
45 عالم اسلام اور تکفیر و قتال کا فتنہ 43 1
46 اقوام متحدہ اور عالم اسلام 44 1
47 تکفیر کا فتنہ اور موجودہ عالمی مخمصہ 45 1
48 مسلم ممالک کا فوجی اتحاد 46 1
49 ’’لا الٰہ‘‘ کے ساتھ ’’الا اللہ‘‘ کی ضرورت 47 1
50 داعش کا خطرہ 48 1
51 عالمی معاہدات اور طیب اردگان کی صدائے احتجاج 49 1
52 تحفظ ناموس رسالتؐ اور مسلم ممالک کے سفراء کا عزم 50 1
54 انقلابِ ایران کی متنازعہ ترجیحات 51 1
55 مشرق وسطیٰ میں ’’ٹرمپائزیشن‘‘ کے دور کا آغاز` 52 1
56 (۱) خلافت اسلامیہ کی عدم موجودگی 28 30
57 (۲) عربوں کی بے بصیرتی 28 30
58 (۳) مسلم حکمرانوں کی مغرب پرست پالیسیاں 28 30
59 عورتوں کے امتیازی قوانین 30 32
60 غلامی کا مسئلہ 30 32
61 شرعی حدود کا مسئلہ 30 32
62 خاندانی قوانین 30 32
63 آزادی مذہب 30 32
64 مشرق وسطیٰ کے بارے میں امریکی منصوبہ بندی 53 1
65 خلیجی ریاستیں 53 64
66 دیگر ممالک 53 64
Flag Counter