Deobandi Books

عالم اسلام

ن مضامی

48 - 53
داعش کا خطرہ
گزشتہ دنوں سعودی عرب کی قیادت میں 34 مسلمان ملکوں کا عسکری اتحاد قائم کرنے کا اعلان ہوا ہے جن میں پاکستان کا نام بھی شامل ہے جبکہ عراق، ایران اور شام اس کا حصہ نہیں ہیں، سعودی عرب کا دارالحکومت ریاض اس فوجی اتحاد کا ہیڈ کوارٹر ہوگا اور ا س کا مقصد دہشت گردی کے خلاف جنگ کرنا اور داعش کے خطرے سے نمٹنا بیان کیا گیا ہے، پاکستان کی وزارت خارجہ نے اپنے پہلے رد عمل میں اس سلسلہ میں بے خبری کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ تفصیلات معلوم ہونے کے بعد ہی اس کے بارے میں کوئی حتمی بات کہی جا سکے گی جبکہ رفتہ رفتہ پاکستان کی طرف سے اس اتحاد کا خیر مقدم اور اس میں شمولیت کے اعلانات سامنے آرہے ہیں مگر اس کے ساتھ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ شمولیت رضاکارانہ ہے اور اس میں اپنے کرادار کا تعین پاکستان خود کرے گا، امریکی حکومت کی طرف سے مسلمان ملکوں کے اس عسکری اتحاد پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اسے امریکی حکمت عملی کے عین مطابق قرار دیا گیا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ داعش کے خطرہ سے نمٹنے کیلئے یہ اتحاد ضروری ہے ، اس سے ایک ہفتہ قبل امریکی کانگریس کے ارکان میں ہونے والی یہ بحث بھی عالمی پریس کے ریکارڈ میں آچکی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں داعش کا راستہ روکنے کیلئے سابقہ حکمت عملی کامیاب نہیں ہو سکی اور تمام تر کاروائیوں کے باوجود داعش ( الدولة الاسلامیة فی العراق والشام ) عراق وشام کے کم و بیش ساٹھ فیصد حصے پر بدستور قابض ہے اور ایک باقاعدہ نظم کے تحت حکومت کر رہی ہے جسے ناکام بنانے کیلئے اب کم و بیش ایک لاکھ سنی رضا کاروں کی فوج تیار کرنا ضروری ہے جو داعش کے خلاف جنگ کا حصہ بن سکے۔
داعش کیا ہے؟ اس کے بارے میں اب تک کی صورت حال یہ ہے کہ شام میں صدر بشار الاسد اور ان کے والد حافظ الاسد کے دور میں جو کم و بیش نصف صدی تک پھیلا ہوا ہے اہل سنت کو مسلسل ریاستی جبر کا سامنا رہا ہے، حافظ الاسد کے دور حکومت میں اہل سنت کے مذہبی مرکز ”حماہ” کومکمل طور پر بلڈوز کر دیا گیا تھا اور اسی ریاستی جبر میں مبینہ طور پر دس ہزار کے لگ بھگ سنی کارکنوں اور راہ نمائوں نے جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا، ہمارے استاد محترم اور عرب دنیا کے نامور حنفی محدث و فقیہ الاستاذ عبد الفتاح ابو غدة رحمہ اللہ تعالیٰ اس وقت اخوان المسلمون شام کے سربراہ تھے اور اسی ریاستی جبر کے باعث وہ جلا وطن ہو کر سعودی عرب میں قیام کرنے پر مجبور ہو گئے تھے، شام کی علوی حکومت کا اہل سنت کے ساتھ یہ طرز عمل حافظ الاسد کے بعد ان کے بیٹے بشار الاسد کے دور میں بھی مسلسل جاری ہے جس کے خلاف اہل سنت کے نوجوانوں نے ہتھیار اٹھا رکھے ہیں اور ان کے متعدد گروہ بشار الاسد کی حکومت کے خلاف عسکری کاروائیوں میں مصروف چلے آرہے ہیں ۔
دوسری طرف عراق میں صدام حکومت کے خاتمہ کے بعد مغربی اتحاد کی سرپرستی میں نوری مالکی کی حکومت قائم ہوئی تو وہاں کے اہل سنت کے خلاف ان کی حکومت کی پالیسی بھی یہی تھی، سابق امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن کے بقول نوری مالکی نے اہل سنت کے خلاف معاندانہ رویہ اختیار کیا اور فوج اور بیوروکریسی سے سنی جرنیلوں اور افسروں کو ایک ایک کر کے نکال دیا جس کے رد عمل میں وہاں عسکری مزاحمت نے سر اٹھایا اور متعدد عسکری گروہوں نے ہتھیار بند ہو کر کاروائیاں شروع کر دیں جن میں صدام حکومت کے دور کے وہ فوجی اور سول افسران بھی شامل ہو گئے جنہیں حکومت سے نکال دیا گیا تھا اور اس طرح وہ ایک منظم عسکری قوت کی شکل اختیار کر گئے ، شام اور عراق کے یہ مزاحمتی عسکری گروہ اپنے اپنے ملک میں کچھ عرصہ برسرپیکار رہنے کے بعد چند سال قبل آپس میں متحد ہوئے ”الدولة الاسلامیة فی العراق والشام”کا عنوان اختیارکر کے عراق و شام کے درمیان سرحد کو ختم کر دیا اور ایک بڑے علاقہ پر قبضہ کے بعد اسلامی ریاست کے قیام کا اعلان کر دیا، جسے دنیا کے مختلف حصوں میں اسلامی ریاست کے قیام اور خلافت اسلامیہ کے احیاء کے لئے جدوجہد کرنے والے عسکری گروہوں کی حمایت اور ہمدردی حاصل ہوتی گئی اور انہوں نے اپنی اسلامی ریاست کو عالمی خلافت اسلامیہ کی صورت میں پیش کرنا شروع کر دیا چنانچہ دنیا بھر میں ایک نئی صورت حال پیدا ہو گئی ہے کہ دنیا کے کسی بھی حصے میں ایسے عسکری گروہوں کو جو اسلام کے نام پر اور اسلامی ریاست کے قیام کے دعوے پر اپنی اپنی ریاستوں کے خلاف جد و جہد کر رہے ہیں منطقی طور پر داعش کا حصہ سمجھے جانے لگا ہے اور اس طرح داعش نے ایک عالمی خطرے کی صورت حال اختیار کر لی ہے۔
اس خطرے کے تین الگ الگ پہلو ہیں ، ایک پہلو مبینہ دہشت گردی کا ہے جس کا دائرہ پھیلتا جا رہا ہے اور امریکہ اور یورپ بھی اس کی زد میں دکھائی دے رہے ہیں جس کی ایک مثال پیرس اور کیلی فورنیا میں گزشتہ دنوں سامنے آنے والی دہشت گردی کی کاروائیاں ہیں ، عالمی قوتیں اور ادارے اس خطرے کے پھیلائو کو روکنے کیلئے فکر منداور سرگرم ہیں اور عالمی اتحاد قائم کر کے اسے ہر صورت میں کچل دنیا چاہتے ہیں جبکہ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ”خالص اسلامی ریاست” کے تصور نے خود مسلم ممالک میں ان کے موجودہ حکومتی نظاموں کیلئے خطرے کھڑے کر دئیے ہیں جن کی واقفیت دن بدن بڑھتی جا رہی ہے اور مسلمان حکمران اپنے اپنے حکومتی نظاموں اور ریاستی ڈھانچوں کو اس خطرہ سے محفوظ رکھنے کیلئے نہ صرف آپس میں متحد ہونے کی ضرور ت محسوس کر رہے ہیں بلکہ دہشت گردی اور داعش کے خلاف مغربی ملکوں کے عالمی اتحاد کا ساتھ دینا اور اس کا حصہ بننا بھی ان کی مجبوری بن کر رہ گیا ہے جبکہ اس مسئلہ کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ عالم اسلام میں اسلام کے معاشرتی اور عدالتی کردار کی بحالی کی وہ تحریکات جو دہشت گردی اور تشدد پسندی سے مکمل گریز کرتے ہوئے پُر امن طور پر سیاسی و جمہوری عمل کے ذریعہ نظام شریعت کے قیام و نفاذ کی جد و جہد میں ایک عرصہ سے مصروف ہیں وہ ان دونوں بلکہ تینوں کے درمیان سینڈویچ بن کر رہ گئی ہیں ، وہ نہ تو اس مقصد کیلئے جد و جہد اور مسلم حکومتوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کو جائز سمجھتی ہیں، نہ مسلم حکومتوں کی موجودہ پالیسیوں اور انتظامی ڈھانچوں سے مطمئن ہیں اور نہ ہی ان کے لئے مغربی قوتوں کا یہ ایجنڈا کسی بھی صورت میں قابل قبول ہے کہ اسلام کے معاشی، سیاسی اور عدالتی کردار کی مکمل نفی کرتے ہوئے دنیا کے کسی بھی حصہ کوئی اسلامی ریاست کسی صورت میں قائم نہ ہونے دی جائے جبکہ مغربی ملکوں اور ان کے ہمنوائوں نے قطعی طور پر طے کر رکھا ہے اور اس کیلئے وہ اپنے تمام تر وسائل کے ساتھ پوری طرح سرگرم عمل ہیں کہ اسلامی احکام و قوانین کے کسی بھی معاشرے میں نفاذ کا راستہ ہر قیمت پر روکا جائے خواہ وہ سیاسی اور جمہوری عمل کے ذریعہ پیش رفت کر رہا ہو یا اس کے لئے عسکری جدو جہد کا راستہ اختیار کیا گیا ہو گویا مغرب کا اصل ہدف اسلامی خلافت کو روکنا ہے دہشت گردی یا جمہوری عمل اس کے نزدیک ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔
خود ہم اس تیسرے طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے کہ جہاں داعش اور اس جیسی دیگر دہشت گرد تنظیموں کے شدت پسندانہ کردار سے نفرت و برأت کا اظہار ہم ضروری سمجھتے ہیں وہاں اسلامی شریعت کے نفاذ کی نفی اور اس کا راستہ ہر قیمت پر روکنے کی پالیسی اور طرز عمل کو قبول کرنا یا اس پر خاموشی اختیار کر لینا بھی ہمارے لئے ممکن نہیں ہے، یہ طبقہ عالم اسلام کی رائے عامہ کی غالب اکثریت کی نمائندگی کرتا ہے لیکن باہمی رابطہ ،مشاورت اور تعاون کے فقدان کی وجہ سے کمزور بلکہ بے اثر دکھائی دیتا ہے جس کی وجہ سے شدت پسندی کے رجحان کو فروغ حاصل ہو رہا ہے، ہمارے علمی، دینی اور فکری مراکز اگر ”سٹیٹس کو” کے جمود سے نجات حاصل کر کے معروضی صورت حال کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیتے ہوئے کوئی کردار ادا کر سکیں تو یہ موجودہ وقت میں ملت اسلامیہ اور خاص طور پر اہل سنت کی بہت بڑی خدمت ہوگی۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ اسلام، لاہور
تاریخ اشاعت: 
۸ جنوری ۲۰۱۶ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 افغان حریت پسندوں کا جہادِ آزادی 1 1
3 سانحۂ مکہ اور ایرانی راہنما کی دھمکی 2 1
4 ایران عراق جنگ اور اسلامی اتحاد کانفرنس 3 1
5 افغانستان کی تقسیم کے عالمی منصوبہ کا آغاز 4 1
6 افغانستان میں عالم اسلام کی آرزوؤں کا خون 5 1
7 مسلم ممالک میں ریاستی جبر کا شکار دینی تحریکات 6 1
8 امت مسلمہ کے مسائل اور امام مسجد نبویؐ کا خطبہ 7 1
9 اقوام متحدہ کا منشور اور اسلامی نظام ۔ تضادات پر ایک نظر 8 1
10 برما کے مظلوم مسلمانوں کی جدوجہد 9 1
11 طالبان اور شمالی اتحاد کے درمیان مذاکرات کی کامیابی 10 1
12 اقوام متحدہ، بی بی سی اور عالم اسلام 11 1
13 کیا اسامہ بن لادن صرف ایک بہانہ ہے؟ 12 1
14 اکیسویں صدی کا آغاز اور اس کے تقاضے 13 1
15 مسلم ممالک کا اقتصادی بلاک 14 1
16 حالات کی مجبوری اور مولانا فضل الرحمٰن کا انتخاب 15 1
17 دوبئی میں مقیم پاکستانیوں کے مسائل 16 1
18 کیا امریکہ عالمی قیادت کا اہل ہے؟ 17 1
19 دہشت گردی یا حریت پسندی؟ 18 1
20 مسلم ممالک کے نصاب تعلیم اور بل کلنٹن کی ہدایات 19 1
21 جمہوریت‘ مسلم ممالک اور امریکہ 20 1
23 مسلم دنیا میں جمہوریت اور امریکہ کا دوغلاپن 21 1
24 حج ۲۰۰۲ء سے مفتی اعظم سعودی عرب کا خطبہ 22 1
25 اسرائیل کے قیام کا مقصد اور ’’عرب منصوبہ‘‘ 23 1
26 کشمیر اور فلسطین ۔ عالمی طاقتوں کی ترجیحات 24 1
27 سعودی عرب کی مجوزہ سیاسی اصلاحات 25 1
28 امریکی استعمار، عالم اسلام اور بائیں بازو کی جدوجہد 26 1
29 اسامہ بن لادن اور امریکی تحریک آزادی کے جنگجو 27 1
30 پسپائی اور شکست ، مسلمانوں کا مقدر کیوں؟ 28 1
31 نوآبادیاتی نظام اور مظلوم عوام کا مستقبل 29 1
32 اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر اور ہمارے دینی مراکز کی ذمہ داری 30 1
33 عالمی استعمار اور مسلم حکومتوں کا موقف 31 1
34 سوشل گلوبلائزیشن کا ایجنڈا اور علماء کرام کی ذمہ داریاں 32 1
35 خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ 33 1
36 صدر باراک حسین اوباما اور امریکی پالیسیاں 34 1
37 انسانی حقوق، اقوام متحدہ اور عالم اسلام 35 1
38 مصر، آل سعود اور ائمہ حرمین 36 1
39 مسلم دنیا میں جمہوریت کا کھیل 37 1
40 لو وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ بے ننگ و نام ہے! 38 1
41 عالم اسلام کے لیے سیکولر قوتوں کا پیغام! 39 1
42 فلسطینی عوام، عالمی ضمیر اور مسلمان حکمران 40 1
43 مسئلہ فلسطین اور او آئی سی کا کردار 41 1
44 ’’دہشت گرد‘‘ کا موقف اس کی زبانی 42 1
45 عالم اسلام اور تکفیر و قتال کا فتنہ 43 1
46 اقوام متحدہ اور عالم اسلام 44 1
47 تکفیر کا فتنہ اور موجودہ عالمی مخمصہ 45 1
48 مسلم ممالک کا فوجی اتحاد 46 1
49 ’’لا الٰہ‘‘ کے ساتھ ’’الا اللہ‘‘ کی ضرورت 47 1
50 داعش کا خطرہ 48 1
51 عالمی معاہدات اور طیب اردگان کی صدائے احتجاج 49 1
52 تحفظ ناموس رسالتؐ اور مسلم ممالک کے سفراء کا عزم 50 1
54 انقلابِ ایران کی متنازعہ ترجیحات 51 1
55 مشرق وسطیٰ میں ’’ٹرمپائزیشن‘‘ کے دور کا آغاز` 52 1
56 (۱) خلافت اسلامیہ کی عدم موجودگی 28 30
57 (۲) عربوں کی بے بصیرتی 28 30
58 (۳) مسلم حکمرانوں کی مغرب پرست پالیسیاں 28 30
59 عورتوں کے امتیازی قوانین 30 32
60 غلامی کا مسئلہ 30 32
61 شرعی حدود کا مسئلہ 30 32
62 خاندانی قوانین 30 32
63 آزادی مذہب 30 32
64 مشرق وسطیٰ کے بارے میں امریکی منصوبہ بندی 53 1
65 خلیجی ریاستیں 53 64
66 دیگر ممالک 53 64
Flag Counter