Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی محرم الحرام ۱۴۳۰ھ - جنوری ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

9 - 11
حضرت مفتی محمود  کا طلبہ سے خطاب
حضرت مفتی محمود  کا طلبہ سے خطاب

یکم جون/۱۹۷۳ء بمقام جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی
میرے عزیز طالب علم بھائیو!
اتفاق سے آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع ملا ہے‘ اس کو غنیمت جان کر تھوڑے سے وقت میں آپ کی خدمت میں تین باتوں کے متعلق کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔۱:․․․ آج کیا حالات ہیں؟۲:․․․ ان حالات میں آپ کی کیا ذمہ داریاں ہیں ؟۳:․․․․ کون سے فرائض آپ کے متعلق ہیں۔؟
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ طالب علم ہیں اور ایک بڑا اہم فرض اس وقت آپ انجام دے رہے ہیں۔ ایک زمانہ تھا طالب علم سے کہا جاتا تھا کہ طالب علم اگر اچھی نیت سے ہے اورتعلیم سے مقصد اصلاح نفس اور اشاعت دین ہے‘ یعنی خود دین کو سمجھ کر دوسروں تک پہنچانا مقصود ہے اور خلوص قلب کے ساتھ یہ فریضہ انجام دیا جارہا ہے تو بڑا مبارک عمل ہے اور اگر نیت اچھی نہیں، تعلیم کا حصول دنیاوی اغراض کی تکمیل کے لئے ہے تو یہ مشقت اور محنت کچھ بھی نہیں۔پھر یہ ایک نا مبارک اور نا مسعود عمل ہے۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ:
” اگر ایک شخص ایسا علم حاصل کرے جو اللہ کی رضا کے لئے نہ ہو اور وہ علم حاصل کرتا ہے دنیاوی اغراض کی تکمیل کے لئے تو وہ جنت کی خوشبو تک نہیں پائے گا۔“
اس لئے اخلاص اور حسن نیت یہ طالب علم کے لئے اور اس کی محنت کو عبادت بنانے کے لئے شرط ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ آج کی دنیا میں ایک شخص کو یقین حاصل ہے کہ علم دین کے حصول کے بعد میرے لئے دنیا کے تمام کے تمام عہدے ختم ہیں اور مشاہرات بند ہیں اور یہ علم آج اس دنیا میں دنیا تک پہنچنے کا ذریعہ نہیں بن سکتا ہے‘ اس کے باوجود وہ علم دین کے حصول کے لئے اپنے آپ کو فارغ کرتا ہے تو یہ اس کے حسن نیت کی دلیل ہے۔
آپ بتائیں کہ اس علم کے حصول کے بعد دولت کا کونسا دروازہ کھل سکتا ہے؟ اگر اغراضِ دنیا مقصد ہو تو دوسرے دروازے بھی کھلے ہیں‘آپ کی کوشش بخیر اور مبارک ہے‘ آپ کے اساتذہ جن کے پاس آپ آئے ہیں‘ آپ کے لئے نبی علیہ السلام نے ان کو خیر کی وصیت کی ہے، آپ ا نے فرمایا:
”تمہارے پاس دو ر دراز سے سفر کرکے آئیں گے‘ بڑی محنت کا سفر کرکے اونٹوں پر سوار ہوکر آئیں گے‘ میں ان کے بارے میں خیر کی وصیت کرتا ہوں“۔
لیکن اس علم کے حصول کے بعد آپ کو کیا کرنا ہے؟ آپ عالم ہو جائیں گے‘ اس کے بعد آپ نے اپنی زندگی کو کس طرز کا بنانا ہے اور زندگی کا مقصد کیا متعین کرنا ہے؟ یہ مقصد سمجھانے سے حل ہوگا۔
آج کل لوگوں کے ذہن میں ایک بات کافی حد تک سرایت کرچکی ہے‘ آج لوگوں کاذہن یہ ہے کہ تقویٰ‘ طہارت اور تقدیس وپاک بازی کی علامت یہ ہے کہ :آدمی مسجد میں ۲۴/ گھنٹے خدا کے سامنے سجدہ کرے اور روئے اور اس کے ساتھ ساتھ در س وتدریس کا شغل رکھے‘ گویا کہ مسجد کا ہوجائے‘ بیرون مسجد سے کوئی تعلق نہ ہو‘ لیکن دنیا میں کفر والحاد پھیلے ، زنادقہ کی اشاعت ہو اور بدعات وشرک کے اندھیرے سے تمام فضا مسموم ہوجائے اور اس کو اپنی مسجد سے تعلق ہو اور کسی بیرونی الجھاؤ سے متأثر نہ ہو تو آج کل نیکی اس کا نام ہے اور یہ نیکی کی علامت سمجھی جاتی ہے۔
اگر ایک شخص باہر کی دنیا میں اصلاحات کرتا ہے اور اپنی طاقت کفر‘ بدعات اور الحاد کے سدباب کے لئے وقف کردیتا ہے اور ان سے مقابلہ کرتا ہے تو اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ سیاسی بن گیا ہے۔ سیاسی کا لفظ آنے سے اس کا تمام تقویٰ خاک میں مل گیا لیکن جہاں تک میں سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ جہاں نماز فرض ہے‘ وہاں اپنی طاقتوں کو اعلاء کلمة اللہ کے لئے استعمال کرنا بھی فرض ہے۔ درحقیقت دین یہ ہے کہ حضور ا کی سیرت‘ سنت‘ اقوال وافعال ‘اعمال ‘اطوار اور حدیث کے مطابق زندگی بنائی جائے۔
آپ یہ دیکھیں کہ یہ نماز جس میں تمہید‘ تسبیح‘ تقدیس بھی ہے‘ ابتداء نماز سے انتہاء نماز تک تمام بہترین جملے اللہ کی رضاء کے لئے ہیں‘ قیام با ادب‘ رکوع‘ وسجود اور ہیئت کذائیہ ہرایک اللہ کی رضا کا سبب ہے‘ لیکن طلوع شمس کے وقت یہ نماز پڑھنا گناہ ہے‘ تعجب کی بات ہے کہ ہیئت کذائیہ جو آدھا گھنٹہ قبل اللہ کی رضا کی علامت اور فرض تھی‘ اب گناہ ہے۔ بات کیا ہے؟ آخر ایک ہی چیز ہے‘ ایک وقت میں وہ عبادت ہے اور دوسرے وقت میں وہ گناہ ہے‘ کیا وجہ ہے؟اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ حضور ا نے اس فعل کو عبادت اور تھوڑی دیر بعد گناہ کہا تو اصل دین حضور ا کی اطاعت اور ان کے احکامات کی تعمیل اور اتباع سنت ہے‘ جہاں نبی علیہ السلام نے تہجد کی نماز پڑھی اور باقاعدگی سے تہجد پڑھتے تھے اور آپ ا اتنا کھڑا ہوا کرتے تھے کہ آپ کے قدم مبارک پر ورم آجاتا تھا‘ بلکہ ایک روایت میں ہے کہ آپ کے پیر پھٹ جاتے تھے ،لیکن اس کے ساتھ ساتھ آپ نے تمام غزوات میں اپنے ساتھیوں کی کفار کے مقابلے میں قیادت کی اور احد کی پہاڑی کے سامنے آپ ا نے ایک سپہ سالار کی حیثیت سے جگہ جگہ آدمی کھڑے کئے‘ غزوہ حنین میں دست بدست جنگ ہورہی تھی‘ آپ ا ڈٹے رہے‘ حالانکہ آپ اکے کچھ ساتھی بھاگ گئے‘ پھر آپ انے جہاد کیا۔
جہاد کے معنی ہیں: اپنی قوتوں کو جو خدانے دی ہیں اعلاء کلمة اللہ کے لئے استعمال کرنا۔ اس کے لئے حالات مختلف ہوتے ہیں‘ دشمن جس اسلحہ سے مسلح ہو آپ کو بھی اس ہی اسلحہ سے مسلح ہونا چاہئے ‘ آپ باطل کو شکست اور کفر کو مٹانے کے لئے وہی طریقہ استعمال کریں جس سے کفرکو شکست اور باطل کو مٹایا جاسکے‘ چاہے تلوار ہو ‘ نیزہ یا تیر۔ دشمن اگر تلوار سے مسلح ہو تو آپ کو بھی تلوار سے مسلح ہونا چاہئے‘ اگردشمن توپ‘ یا ٹینگ یا ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم سے مسلح ہو اور یہ چیزیں بناتا ہو تو آپ پربھی یہی چیزیں بنانا فرض ہیں کہ آپ کو ہر صورت میں دشمن کو شکست دینی ہے۔
اس زمانے میں دو قسم کا کفر ہے۔۱:․․․ خارجی ۲:․․․داخلی۔ خارجی کفر کہ اگر کافر بیرون ملک سے حملہ کردے تو اس کو آپ نے شکست دینی ہے‘ اس کے لئے مسلح افواج اور اسلحہ ہے۔
داخلی کفر کہ ملک کے اندر الحاد کی تاریکیاں چھائی ہوئی ہیں اور ملک کا قانون اور معاشرہ عجیب قسم کا ہے‘ اس کی اصلاح کے لئے بم اور ٹینگ استعمال نہیں کرسکتے بلکہ اس کے لئے ملک کے قانون ساز اداروں پر قبضہ کرنے کے بعد یہاں کے اجتماعی نظام کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ ان پر قبضہ کس طرح کیا جاسکتا ہے؟‘ میں یورپ کی جمہوریت اور انتخاب کا قائل نہیں ہوں اور جمہوری لحاظ سے بھی وہ انتخابات قابل قبول نہیں‘ لیکن مجبوراً انتخابات کے ذریعہ ہم اداروں پر قبضہ کریں‘ اس میں اپنے آپ کو لگانا اور اپنا پروگرام پیش کرنا بھی جہاد ہے ۔
محترم دوستوں! حقیقت یہ ہے کہ جہادتاقیامت فرض ہے، ملک کے اندر دفاعی جنگ کے لئے کوئی شرط نہیں‘ فقہاء کے یہاں جہاد جارحانہ کے لئے شرائط ہیں‘ اورملک کے اندر دفاعی جنگ کے لئے کوئی شرط نہیں۔
آج کفر نے ہمارے ملک پر حملہ کیا ہے تو دفاع فرض ہے۔ وہ شخص جو چوبیس گھنٹے مسجد میں سجدہ ریز ہو‘ لیکن اس موجودہ باطل نظام کو محسوس نہیں کرتا‘ اس کے لئے تیار نہیں ہوتا اور ملک کے اندر کے حالات میں دفاعی داعیہ موجود نہیں اور ماتھے پر شکن تک نہیں آئی‘ میں اس شخص کو نہ دیندار سمجھتا ہوں اور نہ پرہیزگار سمجھتا ہوں۔ یہ پیغمبر ﷺ کی زندگی نہیں‘ جس طرح ایک شخص اعلاء کلمة اللہ کے لئے صحیح نیت کے ساتھ کفر کے مقابلے میں ڈٹا ہوا ہے‘ لیکن نماز نہیں پڑھتا تو وہ فاسق اور فاجر ہے ،اسی طرح کوئی شخص نماز پڑھتا ہے اور جہاد نہیں کرتا تو وہ بھی فاسق اور فاجر ہے۔
میرے محترم دوستو! جہاد کے وقت نماز کا وقت آجاتا ہے تو کہتے ہیں کہ چلتے چلتے نماز پڑھو‘ اشارہ سے نماز پڑھو‘ گھوڑے پر نماز پڑھو، لیکن دست بدست لڑائی ہور ہی ہو اور نماز پڑھنے کی کوئی صورت نہیں تو مسئلہ یہ ہے کہ جہاد جاری رکھو اور نماز ترک کردو۔ حضور ا نے غزوہ ٴ خندق میں نمازیں چھوڑدیں تھیں تو اب معلوم ہوا کہ دونوں کے تعارض کے وقت جہاد مرجح اور مقدم ہوگا تو مقدم فریضہ کا تارک فاسق ہے۔ سجدہ جہاد کے مقابلہ میں کام نہیں کرے گا‘ اگر وہ کفر کے فتنے کو محسوس نہیں کرتا تو ایسے ساجد کواگر متقی کہا جائے تو بڑا ظلم ہوگا۔ ہاں اگر کوئی شخص دونوں فریضے (جہاد اور نمازدونوں) اداء کرے تو وہ بیشک متقی ہے۔
آپ اپنی زندگی ان حالات کے تحت ایسی بنائیں کہ آپ کے سامنے حضور ا کی زندگی نمونہ رہے ۔بہت سے علماء، مبلغ ہوتے ہوئے فرض نماز کو ترک کردیتے ہیں۔ اگر ایسا مبلغ فرض نماز چھوڑ دے تو باقی کیا رہا‘ جہاں ان فرائض کو تھامنا فرض ہے، وہاں وقت کے مطابق جہادبھی فرض ہے‘ اس کے لئے حالات خود رہنمائی کرتے ہیں۔ اس وقت میں سمجھتا ہوں کہ دینی مدارس دینی طاقت ہیں‘ آپ ہماری دینی طاقت ہیں‘ تمام ملک میں دینی طاقت صرف علماء یا علماء کا حلقہ اثر ہے اور یہی صرف دین کی طاقت ہے‘ اس طاقت کو دشمن بھی دیکھ رہا ہے‘ وہ آپ کو دیکھ رہا ہے‘ آپ اس کو دیکھیں۔ دونوں چالیں بنائیں۔ دشمن دیکھ رہا ہے کہ دینی طاقت کہاں سے نکل رہی ہے‘ دینی آواز کسی ملک میں اتنی مضبوط نہیں جتنی اس ملک پاکستان میں ہے۔
انگریز کے دور میں آپ کے اکابر نے دین کے ساتھ تعلق اتنا مضبوط کردیا تھا کہ اس قوم نے بھوک اور افلاس کی حالت میں علوم نبوت کو سینے سے لگایا‘ لوگوں کے گھروں سے بھیک مانگ کر دین کا علم بچوں کے سینوں میں پھونک دیا ۔ اگر فرنگی ظالم کا مقابلہ علماء نہ کرتے، دین کی اشاعت وحفاظت نہ کرتے اور مسلمانوں کے دلوں میں دینی روح نہ پھونکتے تو ڈیڑھ سو سال انگریزی حکومت کے بعد دین بالکل نہ رہتا۔ ایسا ہوا بھی ،مثلاً: اسپین جو آٹھ کروڑ مسلمانوں کا ملک تھا،اب وہاں ایک بھی مسلمان نہیں‘ اس لئے آپ اپنے اکابرین کے لئے دعاء کریں۔
معلوم ہونا چاہئے کہ پاکستان کے بانیوں نے پاکستان کا مطلب کیا ”لا الہ الا اللہ“ کیوں کہا‘ اگر وہ یہ نعرہ نہ لگاتے تو مسلمانوں کو جمع کرنا مشکل ہوتا‘ اس لئے یہ نعرہ لگایا۔ ایک قدیم مسلم لیگی کہتا ہے کہ ہم نے نعرہ ٹھیک لگایا تھا کہ پاکستان میں خدا کا نام ہوگا‘ خدا تو اب بھی ہے۔ ان پاکستانی بانیوں نے یہ نعرہ اس لئے لگایا‘ کیونکہ وہ نعرہ جاذب تھا‘ اب وہ جاذبیت نہ رہی، کیونکہ لوگوں کو معلوم ہوگیا کہ ہم کو اسلام کے نام سے دھوکا دیا گیا‘ اس نعرے کی کمزوری اسلام کی کمزوری ہے۔
ایک مداری آیا‘ اس نے نعرہ لگایا‘ روٹی‘ کپڑا اور مکان کہ جب اس کی حکومت آئی تو کچھ بھی نہ پایا۔ اب ہم عوام سے پوچھتے ہیں‘ روٹی کپڑا اورمکان ملا نہیں۔ کسی نے اس مداری سے پوچھا کہ یہ نعرہ کیوں لگایا؟ اس نے کہا کہ میں پاکستانی سیاست کھیلنا چاہتاہوں ۔مداری صاحب نے لاہور کے کرائے دار سے پوچھا ،کیا چاہتے ہو؟تو اس نے کہا کہ: میں چاہتاہوں مکان میرا ہوجائے تو میں نے کہا کہ یہ مکان تیرا اگرپیپلزپارٹی کا جھنڈا لگاؤ۔ میں نے پوچھا دوکاندار سے تم کیا چاہتے ہو؟ اس نے کہا :میں چاہتاہوں دوکان میری ہوجائے‘ میں نے کہا: جھنڈا لگاؤ‘ دکان تمہاری۔ میں نے لائل پور کے کاشتکار سے پوچھا کہ تم کیا چاہتے ہو؟ اس نے کہا کہ: زمین میری ہوجائے‘ میں نے کہا پی پی کو ووٹ دو زمین تمہاری۔ میں نے ایک مزدور سے پوچھا کہ تم کیا چاہتے ہو؟ اس نے کہا کہ: مجھ کو کارخانہ دیا جائے‘ میں نے کہا کہ پی پی پی کو ووٹ دو کارخانہ تمہارا۔ آپ خود سوچیں کہ لاڑکانہ کا ایک آدمی لاہور اور لائلپور کے لوگوں کو کسی چیز کا مالک کیسے بناتا ہے اور وہ شخص بھی اس کی باتوں میں آجاتا ہے‘ ایسے لوگوں کے ساتھ ایسی ہی سیاست ٹھیک ہے۔
ایک زمانہ مخلصین کا تھا تو اس وقت کہا جاتا تھا” انظر الی ما قال ولا تنظر الی من قال “ تو یہ اس زمانے کی بات تھی‘ اب میری باتیں یاد رکھیں (انظر الی من قال ولا تنظر الی ما قال) جھوٹوں کی دنیا میں یہی بات صحیح ہے‘ اگر کہنے والا ٹھیک تو بات بھی ٹھیک‘ اگر کہنے والا ایسا شخص ہے جس کے قول وفعل میں تضاد ہو تو مت مانو۔ انگریز اپنے زمانے میں دین کی مخالفت نہ کرسکتا تھا‘ ورنہ بدنام ہوتا تھا کہ غیر ملکی حکومت مقامی دین میں مخالفت ومداخلت کرتی ہے‘ لیکن پاکستانی لوگ جو دین کا احساس رکھتے ہیں‘ وہ سمجھ رہے ہیں کہ دینی طاقت دینی ادارے ہیں، تاہم ریڈیو‘ ٹیلی ویژن یکطرفہ طور پر پروپیگنڈہ کر رہے ہیں، یہ ان دینی اداروں کی رعایت نہیں کرتے بلکہ ان کی تباہی کے درپے ہیں‘ مثلاً چندہ کی اجازت پر پابندی لگادیں گے یا یہ سرکاری تحویل میں لے لیں گے اور جب سرکار ان اداروں کو چلائے گی تو اس وقت آپ کو معلوم ہے، ہوسکتا ہے کہ ایسا حادثہ پیش آجائے لیکن جب انگریز یہاں تھا تو اس وقت اس قسم کے ادارے نہ تھے‘ جب دار العلوم دیوبند کی بنیاد رکھی گئی تو اس وقت ایک استاد چند شاگردوں کو پڑھا تا تھا‘ آج ہی مولانا محمد ادریس صاحب نے کہا کہ: حکومت مدارس بند کرنے کے درپے ہے‘ میں نے کہا کہ بندکرتی ہے تو کرے، اگر ہماری نیت خالص ہوگی اور مدرسے بند کردئے گئے تو ہماری زبان تو بند نہیں کر سکتے‘ ہم مسجدوں میں بیٹھ کر پڑھائیں گے‘ ہم گھروں میں بیٹھ کر پڑھائیں گے‘ ہم گلیوں میں بیٹھ کر پڑھائیں گے‘ اگرچہ اس میں سہولتیں نہ ہوں گی ،حالات بدلتے رہتے ہیں‘ لاکھ پتی غریب بن جاتا ہے۔
آپ تیار رہیں‘ اگر ہم مدرسہ سے سہولتیں حاصل کرتے ہیں‘ تنخواہیں لیتے ہیں‘ وظیفہ اور طعام ملتا ہے‘ رہائش کی جگہ مہیا ہے‘ اگر یہ سہولتیں نہ ہوں گی تو کیا آپ نہ پڑھیں گے؟ اگر آپ نہ پڑھیں گے تو معلوم ہوگا کہ آپ دنیاوی اغراض کے لئے پڑھتے ہیں۔ ہم طے کرلیں کہ ہم تمام حالات میں پڑھیں گے‘ دین کی اشاعت نہ رکنے دیں گے‘ اگرچہ بھوکے رہیں گے‘ میں مطمئن ہوں‘ میں اس لئے مطمئن ہوں‘ کیونکہ اس علم میں نور ہوگا۔ ہم آج کل تنخواہ کے لئے پڑھاتے ہیں اور طلبہ اسی مدرسہ میں پڑھتے ہیں جہاں وظیفہ زیادہ ملتا ہو اور جہاں آرام ہو‘ اس وجہ سے سو میں سے بمشکل ایک کار آمد ہوتا ہے۔ اگر ہم نے بھوک اور افلاس کی حالت میں پڑھایا اور آپ نے پڑھا تو فارغ التحصیل ہونے والے تمام طلبہ کار آمد مولوی بنیں گے اور اس سے دین کو مددملے گی۔
ہم سیاسی لوگ امتحان میں ہیں‘ ہم دو طرفہ جنگ لڑ رہے ہیں‘ آگے سے حکومت سے برسر پیکار ہیں اور پیچھے سے بھی خیال رکھتے ہیں کہ کسی کو کسی نے چھرا تو نہیں گھونپ دیا اور کوئی بھاگ تو نہیں گیا‘ اب تو ایسا وقت آگیا ہے کہ ایک ممبر کی قیمت لاکھوں اور کروڑوں تک پہنچ گئی ہے‘ میری خود کی قیمت کروڑوں تک ہے ،ہم لوگ لاکھوں سے نکل آئے ہیں‘ آج آپ لوگوں نے ہماری عزت رکھنی ہے‘ اگر ہم نے علماء کے تقویٰ کی عزت نہ رکھی تو خدا ہمیں ایسے گناہ سے بچائے جس سے دین کو نقصان ہو‘ جیساکہ حضرت ابو ذر غفاری نے فرمایا:
”اگر تم تلوار میری گردن پر قتل کی غرض سے رکھو اور میں نے گمان کرلیا کہ تلوار کے پھرنے کے وقفے میں تم تک حضور ا کی بات پہنچا سکوں تو تم کو پہنچاؤں گا“۔ یہ جذبہ ہم نے بھی پیدا کرنا ہے‘ اگر یہ جذبہ پیدا ہوگیا تو کسی قسم کا خوف اور ڈر نہ ہوگا۔ ہمارے دلوں میں ان ظالموں کا کسی قسم کا خوف نہیں‘ خدانے ہم کو ان کے خوف سے عاری کردیا‘ اللہ کی مدد ہمارے ساتھ ہے‘ آپ یہ مت سمجھیں کہ موجودہ حکمرانوں کے ساتھ نصرت خدا ہے‘ بلکہ یہ ہمارا امتحان ہے‘ ان کی حیثیت میرے نزدیک تنکے کے برابربھی نہیں۔
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , محرم الحرام ۱۴۳۰ھ - جنوری ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 1

    پچھلا مضمون: اسلام کا معاشی نظام!
Flag Counter