Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی محرم الحرام ۱۴۳۰ھ - جنوری ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

3 - 11
جدید الیکٹرانک مناظرکے بارے میں پرانی بحث
جدید الیکٹرانک مناظر
کے بارے میں پرانی بحث

مروجہ اسلامی بینکاری اور ٹی ، وی کے اسلامی چینلز سے متعلق ملک کے جمہور اہل فتویٰ کا متفقہ موٴقف سامنے آنے کے بعد بعض افراد کی طرف سے اپنے شایانِ شان رد عمل کا سلسلہ وقفے وقفے سے پڑھنے اور سننے میں آرہا ہے ۔ بعض حضرات نے اس فتویٰ کو اپنے حق میں”ذات زد “اور ” نفس کش“سمجھتے ہوئے اپنے تاثرات کا اظہار فرمایا ۔اگرواقعتاََ اس فتویٰ سے ان کی ذات اور نفس پر کوئی اثر پڑا ہے تو انہیں اپنے دفاع اوراس فتوی کی تردید کا مکمل حق حاصل ہے،کیونکہ وہ اس سلسلے میں معذور ہیں۔
اوراگر اس م فتوی کا ان کی ذات یا نفس سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ دین وشریعت کا مسئلہ ہے، جسے اہل علم نے اپنے علم و فہم کے مطابق فرض منصبی کے طور پر بیان کیا ہے تو پھر فضاء میں تیرتے ہوئے اس تیر کا از خود نشانہ نہیں بننا چاہئے تھا، کیونکہ جن جن صاحبان نے اس حوالے سے کسی قسم کی مدافعانہ کو شش کی ہے وہ ذاتی حیثیت میں فتویٰ دینے والوں کے مخاطب ہرگز نہیں ہیں۔ اگر وہ اپنی ذات کی حد تک خود کو اس مقام پر خیال فرماتے ہیں تو وہ ہمارے لئے قابل احترام ہیں،ہم دل و جان سے ان کا احترام کرتے ہیں۔ جہاں تک شرعی مسئلے کے بیان کا تعلق ہے توان کی ناراضگی و ناگواری کی پرواہ کرنا شرعاً واخلاقاً ضروری نہیں سمجھتے ۔ حال ہی (ذو الحجہ ۱۴۲۹ھ) میں کراچی سے شائع ہو نے والے ایک موٴقر ماہنامہ میں بھی مذکورہ فتویٰ کے رد عمل کے طور پر ایک آدھ مضمون نظر سے گزرا، جس میں سے ایک مضمون کا قضیہ اگر ان کے روحانی و نسبی آباء کی روایات کے آئینے میں دیکھا جائے تو اس کے جواب کی قطعاً ضرورت محسوس نہیں ہو تی، جبکہ دوسرے مضمون ( جدید الیکٹرانک مناظر کے بارے میں نئی بحث ) کے بارے میں بھی علمی و تحقیقی جواب کی ضرورت نہیں، کیونکہ مضمون نگار نے خود ہی وضاحت فرمائی ہے کہ وہ کسی قسم کی علمی تحقیقی بحث ،اپنا نقطہٴ نظر یا بڑے بڑے علماء و فقہاء کے درمیان محاکمہ نہیں کررہے ۔ بلکہ موصوف نے اپنے محض جذباتی رد عمل کا مظاہرہ فرمایا ہے جسے وہ عمومی واصولی باتوں سے تعبیر فرمارہے ہیں۔
موصوف کے مضمون کی ہمارے نزدیک نمایاں اہمیت یہ ہے کہ اسے ملک کے ایک مشہور و معروف اور معتبر ماہنامہ میں جگہ ملی ہے ،یہ مضمون اس سے پہلے بھی مختلف رسائل میں طبع ہو چکا ہے۔ مذکورہ ماہنامہ میں اس مضمون کی سہ کرر طباعت ،ماہنامہ کے نزدیک اس کی اہمیت کی دلیل ہے، ورنہ کسی کا پس خوردہ نوش کرنا آداب غضنفری کے منافی شمار ہو تا ہے۔
بہر کیف موصوف نے ” اصول و عموم کے تحت جن جذبات کا اظہار فرمایا ہے ، ان کے جذبات کی قدر اور ان کے مقام کا احترام کرتے ہوئے چیدہ چیدہ چند باتیں خدمت گزار ہیں:

#…موصوف کا پہلا ارشاد یہ ہے کہ ” متفقہ فتویٰ “ کے مندرجات فروعی اور مختلف فیہ مسائل ہیں، ان کو ذرائع ابلاغ کے ذریعہ زیر بحث نہیں لا نا چاہئے تھا۔
ج:۔ مذکورہ مسائل کے میڈیا پر آنے کی ذمہ داری قبول کئے بغیر ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ قرآن و سنت کے معارف و محاسن چھاپنے والے مطابع سے بینکنگ اور ٹی ، وی کی حمایت میں کثیر تعداد میں کتابیں، رسائل ،جرائد ،پمفلٹس اور کتابچے چھاپنا اگر دین سے جدانہیں سمجھا جاتا تو چند سطروں کے ایک فتویٰ کے ایک دو مرتبہ چھپنے کو اتنا بڑا جرم اور دین سے جدا کیوں سمجھا جارہا ہے؟ اگر فتویٰ میں کسی کی حق تلفی اور کسی کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے تو ہم مضمون نگارکے زہد و ورع سے انصاف کی توقع رکھتے ہیں۔نیز سود کی حرمت و حلت اور تصویر کے جواز و عدم جواز کے نظریاتی و فکری اختلاف کو فروعی اور مختلف فیہ مسائل ارشاد فرماکر ہلکا دکھانے سے قبل خلاف اور اختلاف کا فرق بھی ملحوظ رہنا چا ہئے ۔کیونکہ” اختلاف “ باعث رحمت ہو تا ہے۔ اور خلاف تفرد و شذوذ کہلا تا ہے، تفردد شذوذ محمود نہیں ہو ا کرتا ۔ اگر موصوف، مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع صاحب نور اللہ مرقدہ کا رسالہ ”مسئلہٴ سود“ اور” تصویر کے شرعی احکام“ کا قندِ مکرر کے طور پر مطالعہ فرمالیں تو ہمیں یقین ہے کہ زیر بحث مسئلہ کو اختلافی اور فروعی کہنے کے بجائے اپنی رائے کو تفرد و شذوذ آلود محسوس فرمائیں گے۔ اور انہیں دوسروں کو الزام دینے کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔

#…موصوف کا دوسرا چیدہ ارشاد یہ ہے کہ: ” بعض جگہوں میں دونوں مسئلوں پر حدود اعتدال سے تجاوز ہو رہا ہے ۔اس لئے دونوں مسئلوں پر اپنی رائے عرض کرنے کا تواب ارادہ نہیں ہے اور نہ ہی ہماری یہ حیثیت ہے کہ بڑے بڑے علماء اور فقہاء کے درمیان محاکمہ کریں۔“
ج:۔ اگرآنحضور اپنی رائے نہ رکھتے ہوں اور طرفین کے درمیان” محاکمہ “ سے ادباً یابصیرةً گریزاں ہوں تو انہیں یہ ملکہ اور حق کہاں سے حاصل ہوا کہ وہ دونوں مسئلوں پر حدود اعتدال سے تجاوز کا فیصلہ صادر فرمائیں۔

#…حضرت کا تیسرا اور بنیادی گلہ یہ ہے کہ: ”کچھ لوگ اسے ( متفقہ فتویٰ کو) ایک متفقہ اور فیصلہ کن فتویٰ کی حیثیت سے پیش کررہے ہیں۔ موصوف کے بقول یہ ان لوگوں کی بہت بڑی غلطی ہے۔ یہ فتویٰ شرکاءِ اجلاس کا متفقہ تو ہو سکتا ہے ،کل پاکستان کا متفقہ نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ کل پاکستان سے صرف ۳۱ علماء کے دستخط ہیں، جب کہ پنجاب کے ۳۵ اضلاع میں سے صرف ۴کی نمائندگی موجود تھی اور ۳۱ علماء میں سے ایک درجن کے قریب صرف دو اداروں سے تھے۔“
ج:۔ موصوف کے فرمودات سے صحیح طور پر یہ اندازہ نہیں ہو سکا کہ کسی مسئلہ میں اہل علم کے اتفاق کا معیار کیا ہے؟ اور کس قسم کے اور کتنے حضرات کے شامل ہونے سے ان کی رائے پایہٴ اتفاق کو پہنچ سکے گی؟ البتہ یہ اندازہ ضرور ہو رہا ہے کہ زیر بحث مسئلہ میں جن حضرات نے اتفاق رائے کا اظہار کیا ہے وہ ملک کی نمائندگی کا حق نہیں رکھتے اور ان کا تعلق ملک کے چار وں صوبوں سے ہونے کے باوجود وہ ملک کے علماء کے نمائندہ نہیں ہیں۔
ہمارے خیال میں موصوف کے یہ فرمودات جذبات میں صادر ہوئے ہیں، ورنہ وہ ان حضرات علمأکرام کے بارہ میں اس قسم کا اظہار نہ فرماتے ۔ کیونکہ اگر انہی حضرات میں سے کوئی ایک، موصوف کے مزاج کی رعایت کا روادار بن جائے تو موصوف اسے یقینا حجت قرار دیں گے،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ موصو ف ملک کی نمائندگی کا حق صرف ان حضرات کے لئے خاص سمجھتے ہیں جو موصوف کے مزاج پر پورے اترتے ہوں۔ اللہ کرے ایسا نہ ہو ۔
البتہ اگر موصوف سنجیدگی کے ساتھ مذکورہ فتویٰ کو متفقہ قرار دینے کی غلطی کی بنیاد معلوم کرنا چاہتے ہوں تو ان کی خدمت میں عرض ہے کہ جس رائے کی پیروکاری، مقام زہد سے کار زارِ مجادلہ تک لائی ہے، اس پہلی رائے کے مقابلہ میں ہم مذکورہ فتویٰ کو متفقہ رائے قرار دے رہے ہیں ،کیونکہ اس پہلی رائے کی بنیاد جس قرار داد پررکھی جارہی ہے اس میں ملک کے صرف دو صوبوں سے محض ۵ اداروں کی نمائندگی موجود تھی، ان میں دو نہیں، بلکہ صرف ایک ادارے سے تعلق رکھنے والے حضرات کی تعداد ایک درجن سے متجاوز تھی، ہمارے حسن ظن کے مطابق موصوف اپنے مزاج سے ہم آہنگ قراردادو الی مجلس کے ساتھ ” متفقہ فتویٰ“ والی مجلس کا اگر نمائندگی کے اعتبار سے موازنہ کریں تو امید ہے کہ ان کی ناراضگی اور برہمی ختم ہو جائے گی۔باقی جہاں تک پنجاب کے ۳۵ میں سے صرف ۴ اضلاع کی نمائندگی کا اشکال ہے! اگر یہ اشکال ادارہٴ شماریات کے قانونِ مردم شماری کی روسے وارد فرمایا گیا ہو تو بالکل بجاہے! لیکن اگر ملک کے مشہور ومعروف اہل ِ فتویٰ کی نمائندگی کی بنیاد پر فرمایا گیا ہے تو قابل تامل ہے ، کیونکہ ہمارے خیال کے مطابق مروجہ اسلامی بینکوں سے وابستہ چند حضرات کے علاوہ تقریباً ملک کے جن جن اداروں کو فتویٰ کے اعتبار سے شہرت حاصل ہے، وہ اس اجتماع میں شریک تھے۔ اگر موصوف کے علم کے مطابق جن ضلعوں کی نمائندگی موجود تھی دوسرے اضلاع میں بھی ان کے ہم پلہ کوئی دار الافتاء ہو ں تو اس کی نشاندہی ضرور فرمائی جائے۔
آپ کو بھی معلوم ہوگا کہ دار الافتاء کا سلسلہ قرونِ اولیٰ سے محدود اشخاص اور محدود مقامات کے ساتھ ہی خاص رہا ہے، ہمارے ہاں بھی ہر فرد اور ہر ادارہ میں افتاء کی مناسبت و ممارست اور بندوبست نہیں ہوتا۔

#…محترم مضمون نگار کا چوتھا اعتراض یہ ہے کہ مطبوعہ فتویٰ میں” طویل غور و خوص کے بعد“ کے الفاظ ہیں، بقول ان کے یہ وضاحت نہیں ہے ،کہ اس’ ’طویل غور و خوض“ میں دستخط کرنے والے سب حضرات شامل ہیں یا چند حضرات نے فرمایا اور باقیوں نے تصدیق کردی“۔
ج:۔جس معاشرے میں ہر ” سوال کا ایک ہی جواب“ اور ” ہر مرض کی ایک ہی دوا“ کا رواج عام ہو ، جہاں توسل بالذوات کے ذریعہ فقہی مسائل سمجھانے کا مزاج حجت شرعی سمجھا جاتا ہو تو وہاں اس قسم کے سوالات کی نوبت نہیں آنی چاہئے ، تا ہم اگر چند حضرات کے نتیجہٴ غور وخوض پر باقیوں نے دیکھ سمجھ کر تائیدی و تصویبی دستخط ثبت فرمادیئے ہوں تو اصولی باتیں کرنے والے بااصول لوگوں کو اس پر اشکال نہیں ہو نا چاہئے اور ان کے دستخطوں سے اتفاق و تصویب کا حق سلب نہیں فرمانا چاہئے ،کیونکہ سلف صالحین کا طریقہ یہ ہی رہا ہے کہ تحقیق ایک یا چند افراد کرتے ہیں اور تصدیق و تصویب سب کردیتے ہیں،اگر یہ طرز عمل جدید اصولوں کے منافی قرار پا یا تو پھر ” المہند علی المفند “ اور ” حیلہ ناجزہ“ جیسے مستند مأخذ ہمارے خود کار اصولوں کا نشانہ بن جائیں گے۔ بلکہ ہر دار الافتاء کا طریق تصویب و تصحیح بھی غلط قرار پائے گا۔

#…موصوف کا پانچواں ارشادیہ ہے کہ” ساری گزارش اس لئے کرنی پڑی کہ ہمارے ہاں بہت سطحی انداز سے کسی رائے کو ” متفقہ فیصلہ“ قرار دینے کی مثالیں پہلے سے موجود ہیں،کہیں یہ فتویٰ بھی شرکاء اجلاس کی بجائے تمام علماء کا ” متفقہ قرار نہ پائے“ بلفظہ۔
ج:۔ قابل قدر مضمون نگار نے لفظ ” سطحی“ استعمال فرماکر ایک”ظریفے کی گنجائش دی ہے ،ملاحظہ ہو: کسی صاحب نے سوال کیا کہ ”اتفاق“ اچھی چیز ہے یا بری چیز ؟ سب نے کہا اچھی اور بابرکت چیز ہے، اتفاق سے الرجک ایک صاحب نے زور دار استدلال کرتے ہوئے سب کی تغلیط کردی اور کہا کہ جناب دو گاڑیاں خراماں خراماں سڑک پر رواں دواں تھیں” اتفاق“ سے دونوں ٹکراگئیں اور گاڑیوں کو اور سواریوں کو شدید نقصان پہنچا۔ دیکھئے اتفاق میں کتنا نقصان ہے! آپ لوگ غلط کہہ رہے ہو۔اس زیر ک انسان کے بقول بقیہ لوگوں کا سطحی انداز سے اتفاق کو اچھی بات کہنا غلط تھا) بلکہ بقول اس کے: اتفاق بہت بُری چیز ہے، کیونکہ اس سے ” کار“ اور ”صاحبِ کار “ دونوں کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔
بہر کیف ہمارے قابل احترام مضمون نگار نے خود بھی کسی وجہ سے وضاحت نہیں فرمائی اور راقم بھی ان کے ارشاد سے مستفید نہیں ہو سکا کہ وہ موجودہ ” متفقہ فتویٰ “ کو کس بنیاد پر متفقہ لکھنے ،کہنے اور بولنے کا حق نہیں دے رہے اور ماضی کی غلطیاں کیا تھیں ؟ اس لئے اس پر تبصرہ نہیں کرسکتے۔

#…موصوف محترم کا چھٹا ارشاد یہ ہے کہ ” فقہی مسائل میں فتاویٰ اور آراء کا اختلاف کوئی نئی بات نہیں ہے ، یہ ہر دور میں ہوتارہاہے………
ج:۔ اگر یہی نظریہ ہو تو پھر اسلامی بینک اور اسلامی ٹی وی سے اعراض کرنے والوں پر اس درجہ کی برہمی کی کیا ضرورت ہے؟ دوسری اصولی بات یہ ہے کہ فقہی آراء کے جس اختلاف کے گرد موصوف اپنے ارشاد گرامی کو گُھمارہے ہیں اس میں اس تنقیح کی واضح گنجائش ہے کہ اس کا مصداق اربابِ اجتہاداہل فتویٰ ہیں یا عصر حاضر کے ناقلین بھی اس میں شامل ہیں؟ اگر ہیں توبر چہ گنہ ؟ ورنہ یہ تو ایسا ہی ہو گا کہ کسی مسلمان کو ذاتی حیثیت میں بُرا بھلا کہا جائے اور وہ یہ کہنا شروع کردے کہ بُرا بھلا کہنے والے نے ” اسلام “ کو بُرا بھلا کہا ۔ ہمارا اپنے بعض دوستوں سے گلہ یہی ہے کہ ہمارے اعمال میں اگر کمزوری اور انحطاط آرہا ہے تو اس کو اسلام کالبادہ اوڑھانے کی سعی نامشکور نہ کریں۔ اسلامی احکام اپنی جگہ اور اپنی ذاتی کمزوریاں، انفرادی اذواق اور قلبی رجحانات کو بالکل الگ رکھیں۔

#…موصوف کا ساتواں چیدہ پیچیدہ ارشاد یہ ہے کہ مروجہ اسلامی بینکاری کو اگر ناجائز اور حرام کہنے والوں نے ناجائز کہاہے تو دوسری طرف صرف پاکستان نہیں بلکہ عالم اسلام کے کثیر تعداد علماء ( باوصافہم والقابہم )ہیں۔جن کے قابل اعتماد علم ،تدین اور تجربہ کی بناء پر ان کی رائے اور فتویٰ کو بالکل نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
ج:۔ہر کسی کا اپنا اپنا زاویہٴ فکر ہے ۔عدم جواز والے حضرات کے نتیجہ غور وخوض میں ادلہ شرعیہ کے ساتھ ساتھ اپنے اکابر اسلاف کے طرز فکر و عمل کی رعایت بھی ملحوظ ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے اکابر اپنے تدیّن اور تصلّب فی الدین میں امتیازی شان کے حامل تھے، یہی وجہ ہے کہ بہت سارے امور میں ہمارے اسلاف اکابر دیوبند کا نظریہ و فکر اور طرز عمل دنیا کے مختلف خطوں کے علماء سے مختلف رہا ہے، اسی فکر سلیم اور طرز سدید کی برکت ہے کہ بہت سے کمزوریوں کے باوجود ہمارے علماء دین اپنی ظاہری وضع اور انداز فکر میں ماثور و منقول آداب کے پابند ہیں۔ عالم اسلام سے مراسم و روابط اور میل ملاپ کے باوجود ” فوائد البنوک“ کو علی الاطلاق جائز نہیں کہاجاسکتا ،نکاح مسیار ، بیع عینہ ،تورق ،لحیہ مسنونہ اور وضع قطع میں عالم اسلام کے کثیر تعداد علماء کے طرز فکر و عمل کو حجت بنالینے کی بجائے اپنے اسلاف کے طرز فکر و عمل پر کاربند ہیں۔ مذکورہ مثالوں کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ عالم اسلام کے جو علماء ان میں مبتلا ہیں ان کے پاس دلائل کا ذخیرہ نہیں ہے یا ان کی رائے پر عمل کرنے والے لوگ موجود نہیں ہیں، بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ ہماری روایت پسندی اور تصلب فی الدین کی رو سے ان کا طرزِ فکر و عمل ،ہمارے لئے حجت اور سند کی حیثیت نہیں رکھتا۔
موصوف مضمون نگار جانتے ہوں گے کہ جاندار کی تصویر بعض عرب علماء کرام کے نزدیک مطلقا جائز تھی، اب بھی ان کا ایک بہت بڑا طبقہ جائز کہہ رہا ہے ۔اس میں ان کے ہاں دوسری رائے تقریباً معدوم ہو چکی ہے۔ گذشتہ سالوں میں مصر کے علماء کرام کی ایک جماعت نے روایتی بینکوں کے منافع کو شرکت و مضاربت کے زمرے میں ڈالتے ہوئے مطلقا جائز قرار دیا ہے اور انہوں نے اپنے زور علم سے اپنی رائے کا قابلِ عمل اور موافق شرع ہو نا بھی بتایا ہے۔ کیا موصوف پاکستان کے علماء کو ان حضرات اہل علم کے دلائل و براہین کا تابعدار ہو نے کا مشورہ دیں گے؟ بظاہر فی الحال ایسی فضاء نہیں ہے ۔اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ عالم اسلام کے سارے علماء ہمارے سروں کے تاج ہیں، ہم اپنا زاویہٴ فکر اپنے ان آباء واسلاف کے زاویہٴ فکر و عمل کے تابع رکھنے کو ضروری خیال کرتے ہیں جن کے واسطوں سے ہمیں دینِ اسلام پہنچا ہے، جن کی بدولت ہمیں مسجدیں اور مدرسے میسر ہیں، ورنہ عالم اسلام کے دیگر خطوں کی ہم نوائی میں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہم اپنی مسجدیں سرکار کے سپرد کردیں اور اپنے مدرسوں کو عصری یونیورسٹیوں میں تبدیل کرکے عصر حاضر کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے عالمی دوڑ میں شریک ہوجائیں ،کیونکہ عالمِ اسلام کے دیگر علماء اسی نہج پر دین کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔

#…موصوف ِمکرم کا آٹھواں اور دلچسپ ارشاد یہ ہے کہ: تصویر کا مسئلہ قرونِ اولیٰ ہی سے مختلف فیہ چلا آرہا ہے ،مذکورہ فتویٰ میں اگرچہ یہ موٴ قف اختیار کیا گیا ہے کہ جاندار کی تصویر کی ہر شکل ناجائز ہے لیکن اس عموم کے ساتھ حرمت کے بہت کم فقہاء قائل ہوں گیلبتہ فقہاء حنفیہ سمیت کئی فقہا نے اس نقطہٴ نظر سے اتفاق نہیں کیا، کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ اختلاف عہد صحابہ و تابعین سے موجود ہے…بلفظہ۔
ج:۔ حضور محترم جن علماء کو” بہت کم علماء“ کہہ رہے ہیں انہیں کو ہم جمہور کہتے ہیں اور یہی فقہاء حنفیہ کا مسلک ہے جس کا اعتراف خود موصوف کے الفاظ میں موجود ہے، ہمار ا کہنا یہ ہے کہ امت مسلمہ کو شریعت کا صحیح مسئلہ بتایا جائے، ہمارے بعض احباب کی عجیب عادت یہ ہے کہ وہ امت کے سامنے کوئی مسئلہ بیان کرتے ہوئے تفردات و شذوذ پر مبنی متعدد اقوال کا انبار لگادیتے ہیں اور سہولت پسندی کے تقاضے سامنے رکھ کر بحث و مباحثہ میں اصل مسئلہ کو گھمانے کی کوشش کرتے ہیں، ہم اس طرز عمل کو دینی نقصان ہونے کی بناء پر نامناسب سمجھتے ہیں۔ موصوف کی ذمہ داری یہ ہے، کہ وہ امت کو صحیح مسئلہ بتائیں۔ اس بات کی ضرورت نہیں تھی کہ اس میں فلاں فلاں قسم کے اقوال پائے جاتے ہیں ہم بھی تسلیم کرتے ہیں، کہ اس سلسلے میں متعدد اقوال ہوں گے، مگر بات وہی ہے کہ شریعت کا اصل مسئلہ کیا ہے؟ ہمار ے اکابر نے کیا سمجھا ہے ؟اور امت کو کیا بتایا جائے؟ لہٰذا ہم موصوف کے تمام مندرجات کے جواب اور اپنی راہنمائی و اصلاح کے لئے اپنے اکابر کی تحریرات میں سے چند اقتباسات نقل کرتے ہیں، جن کی روشنی میں قارئین کرام باآسانی یہ سمجھ سکیں گے کہ موصوف کے ارشادات کس حد تک شریعت کے احکام اور اسلاف کے طرزِفکر وعمل سے ہم آہنگ ہیں!
” جس جرم پر شارع کی جانب سے لعنت یا عذاب کی وعید کی گئی ہو وہ شریعت کی زبان میں” گناہ کبیرہ“ کہلاتا ہے اور قطعی دلیل کے بغیر اس میں استثناء کی گنجائش نہیں ہو سکتی“،قانون اضطرار،شریعت کا مستقل قانون ہے جو محرمات کی حرمت پر اثر انداز نہیں ہو تا، مثلا حالتِ اضطراری میں مردار تک کی اجازت ہے مگر یہ کہنا صحیح نہیں ہوگا کہ اسلام میں میتہ حلال ہے ۔(حرمت تصویر کی علت ،از حضرت بنوری نور اللہ مرقدہ، بینات ذوی الحجہ۱۳۸۸ھ)
”لیکن اصل مسئلہ تصویر کی حرمت سب کے نزدیک متفق علیہ ہے، یہ کسی نے نہیں کہا کہ ان سے احادیث حرمت کو منسوخ قرار دے کر اصل تصویر ہی کو جائز کر ڈالا ہو، یا جائز تصویر میں کوئی ایسی علت نکالی ہو جس کی وسعت میں عام تصویریں بھی حلال ہوجائیں“۔
”مگر آج کل جدیدمصنفین نے ان احادیث رخصت کو عام تصاویر کی حلت کا حیلہ بنالیا ہے، اور نیا حیلہ تو ایسا ایجاد کیا گیا ہے جس کی وجہ سے یہ تصاویر کی ساری بحث ختم ہو جاتی ہے۔ وہ یہ کہ آج کل جس طرح تمام مصنوعات جو پہلے زمانے میں دستی بنائی جاتی تھیں اب مشینوں اور آلات کے ذریعہ بنتی ہیں،اسی طرح تصاویر سازی کے فن کو اس مشینی دور نے ترقی دے کر فوٹوگرافی اور عکاسی کی صورت دیدی ہے، بعض علماء مصر نے پھر بعض علماء ہند نے بھی اس کے متعلق یہ فرمادیا کہ فوٹو کے ذریعہ جو تصویر لی جاتی ہے وہ تصویر کے حکم میں داخل ہی نہیں“۔ (التصویر لاحکام التصویر۔ از حضر ت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ) ” حدیث نبوی میں تصویر سازی پر جو وعید شدیدی آئی ہے وہ ہر جاندار کی تصویر میں جاری ہے ،اور تمام امت جاندار اشیاء کی تصاویر کی حرمت پر متفق ہے ،لیکن خدا غارت کرے اس مغربی تجدد کو ! کہ اس نے ایک متفقہ حرام کو حلال ثابت کرنا شروع کردیا، اس فتنہٴ اباحیت کا سب سے پہلا اورسب سے بڑا مرکز مصر اور قاہرہ تھا، چنانچہ آج سے نصف صدی پہلے قاہرہ کے مشہور شیخ محمد بخیت مطیعی نے جو شیخ الازہر بھی تھے” اباحة الصور الفو تو غرافیہ “ کے نام سے ایک رسالہ تالیف کیا تھا……اس وقت علماء مصر نے ان کے فتویٰ کی مخالفت کی تھی، حتیٰ کے ان کے ایک شاگرد رشید شیخ مصطفی حمامی نے اپنی کتاب
” النہضة الاصلاحیة للاسرة الاسلامیہ “
میں اس پر شدید تنقید کی“
( بصائر و عبر از حضرت بنوری نور اللہ مرقدہ شعبان۱۳۸۸ھ۔)
”الغرض نہ صرف ہما رے اکابر بلکہ تمام فقہاء امت کا اس پر اتفاق ہے کہ فوٹو حرام ہے“ ( حوالہ بالا)
یہ صرف علماء کی مداہنت کا نتیجہ ہے کہ عوام کی اکثریت تصویر جیسے متفقہ حرام اور گناہ کبیرہ بلکہ بناء شرک کو گناہ ہی نہیں سمجھتے اور کسی کو اس گناہ کے ہونے کا علم ہے تو وہ بھی علماء کی مداہنت کی وجہ سے اسے بہت ہلکا سمجھتا ہے ۔ ع
چوں کفر از کعبہ برخیزد
کجا ماند مسلمانی
آخر میں علماء کی مداہنت کے وبال سے متعلق صرف ایک حدیث پیش کرنے پر اکتفاء کرتا ہوں۔
عن ابن مسعود رضی اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : لما وقعت بنوا اسرائیل فی المعاصی نہتہم علمائھم فلم ینتہوا فجالسوہم فی مجالسہم واکلو ھم و شاربوہم ،فضرب اللّٰہ قلوب بعضہم ببعض فلعنہم علی لسان داوٴد وعیسیٰ ابن مریم، ذلک بما عصوا وکانوا یعتدون، قال فجلس رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ،وکان متکئاً۔ فقال: لا والذی نفسی بیدہ حتیٰ تاطروہم اطراً۔ رواہ الترمذی۔۔۔۔۔۔۔۔
نصیحت حاصل کرنے والوں کے لئے یہی ایک حدیث کافی ہے اور اگر ارادہ ہی نہ ہو تو دفتر بھی بیکار ہیں،
فما تغنی الاٰیات والنذر عن قوم لا یوٴمنون۔ “
(مفتی ) رشید احمد( صاحب) اشرف المدارس ناظم آباد کراچی۔
حضرت مفتی صاحب رحمة اللہ کی اس تحریر پر تبصرہ کرتے ہوئے حضرت بنوری رحمہ اللہ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمة اللہ کےحوالے سے ارشاد فرماتے ہیں کہ شاہ صاحب نے تحریف دین کا پہلا سبب اسی” مداہنت“ اور” تہاون“ کو قرار دیا ہے“۔ ( افسوس ناک مداہنت ،بینات ذو الحجہ ۱۳۸۸ھ،)

#…قابل احترام مضمون نگار کا نواں ارشاد یہ ہے کہ: تصویر کو جائز کہنے والے حضرات کے پیش نظر یہ بھی تھا کہ” فوٹو“ اپنی ماہیت کے اعتبار سے تصویر شرعی میں داخل ہے یا نہیں، نیز تصویر سازی کی حرمت کی علت بھی فقہاء کی استنباط کردہ نہیں ہے، بلکہ منصوص علت اس میں پائی جاتی ہے یا نہیں؟
ج:۔ فوٹو کی ماہیت اور حرمت کی علت کا پیچید ہ فلسفہ ہمارے اکابر سمجھنے سے قاصر تھے، اس لئے انہوں نے مذکورہ بالا حوالوں میں اسے رد فرمایا ہے۔ہم دین کے معاملے میں حضرت مفتی محمد شفیع صاحب، حضرت علامہ بنوری اور حضرت مفتی رشید احمد صاحب رحمہم اللہ کو جدید مصنفین اور مضمون نگاروں سے زیادہ وزنی حجت سمجھتے ہیں، اس لئے ہم ان کی پیروی کو راہِ حق کی پیروری سمجھتے ہیں اوربس! #
زا جتہاد عالمان کم نظر
اقتداء بر رفتگاں محفوظ تر

#…واجب الاحترام مضمون نگار کا دسواں ارشاد یوں سمیٹا جاسکتا ہے کہ: تصویر کے عدم جواز والوں نے مجوزین کی رائے کو ”جدیدیت کی رو میں بہہ جانے“ اور ” جدیدیت و اباحیت کی ناجائز پیروی“ سے تعبیر کیا ہے جو انتہائی بے جا بدگمانی ہے، بقول ان کے اس کی زد میں حضر ت مفتی جمیل احمد تھانوی صاحب رحمة اللہ علیہ بھی آسکتے ہیں جو ٹی ،وی کے بارے میں تشقیقی رائے رکھتے تھے ،اسی طرح حضرت مفتی محمود رحمة اللہ بھی آسکتے ہیں جو ۱۹۷۰ء کے انتخابات میں ٹی وی پر خطاب فرما چکے ہیں۔ ج:۔زیر بحث مسئلے میں جدیدیت و اباحیت کے دونوں لفظ مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع اور حضرت بنوری رحمہمااللہ کی تحریروں میں موجود ہیں، حضرت مفتی اعظم رحمہ اللہ کا یہ چبھتا ہوا عنوان بطور خاص روایت پسندی کا غماز ہے :” احادیث ِ رخصت جدید مصنفین کی نظر میں“ حضرت بنوری اس فکر کو فتنہٴ اباحیت سے تعبیر فرما چکے ہیں، جبکہ مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اللہ نے تصویر کو جائز کہنے والے علماء کے طرز عمل کو مداہنت سے تعبیر فرمایا ہے جو کہ تحریفِ دین کا پہلا زینہ ہے ۔بنا بریں ہم اپنے بھائیوں کا یہ طعنہ برداشت کرتے ہیں کہ ہم نے اپنی تحریر میں پرانے الفاظ استعمال کئے ہیں، اگر ہمارے کسی بھائی کے مزاج عالی پر گراں گزرے ہوں توانہیں سید سلیمان ندوی صاحب رحمة اللہ علیہ کی سوانح کا مطالعہ فرمانا چاہئے ،امید ہے تسلی ہو جائے گی۔
باقی جہاں تک حضرت مفتی جمیل احمد تھانوی صاحب رحمة اللہ علیہ کے ذکر کردہ فتویٰ کا تعلق ہے اس کا فیصلہ راقم اور مضمون نگار سے کروانے کی بجائے مفتی اعظم مفتی محمد شفیع دیوبندی رحمة اللہ سے کرایا جائے تو زیادہ موزوں ہے کیونکہ مفتی تھانوی صاحب کے فتویٰ پر الجواب صحیح یا غیر صحیح لکھنے کے وہی زیادہ حقدار ہیں، یا اس سے بھی آگے جاکر حضرت تھانوی کا رسالہ” تصحیح العلم فی تقبیح الفلم“ سامنے رکھ لیا جائے تو امید ہے کہ حضرت مفتی جمیل احمد تھانوی صاحب رحمة اللہ کی تحریر کا مقام حجت ہونا واضح ہو جائے گا۔ بلکہ خودان کے ذکر کردہ الفاظ بھی بالکل واضح ہیں:” مختصر حکم اس کا یہی ہے کہ جو کام باہرمباح حرام یا مکروہ تحریمی بلکہ کفر و شرک ہے وہ اس ( ٹی وی )میں بھی حرام ،مکروہ ،کفر و شرک رہیں گے۔او رجو کام باہر جائز تھے وہ اس میں بھی جائز رہیں گے۔
اگر حضرت مفتی جمیل احمد تھانوی صاحب رحمة اللہ کے ان ذمہ دارانہ کلمات مبارکہ کو اپنے فکر و عمل کے لئے ڈھال بنائے بغیر دیکھا جائے تو زیر بحث مسئلہ میں ان کی رائے اور حضرت مفتی اعظم رحمہ اللہ اور دیگر اکابر کی رائے میں بُعد بیان کرنے کی قطعاً گنجائش نہیں رہتی کیونکہ اکابر کے بقول” تصویر“ کا حرام ہونا متفق علیہ مسئلہ ہے، ٹی،وی سے باہر اس کے حرام ہونے میں کسی کا اختلاف نہیں اسی طرح ٹی، وی کے اندر بھی حرام ہی رہے گی ۔یہاں پر ہمارے بعض کرم فرماوٴں کا کہنا یہ ہے کہ ٹی،وی پر دکھائی دینے والی جدید شکلیں تصویر کے پُرانے احکام کے زمرے میں نہیں آتیں، جبکہ ہماری رائے اس کے خلاف ہے، اور ہماری رائے کی بنیاد یہ ہے کہ بقول حضرت مفتی اعظم نور اللہ مرقدہ کے تصویر کے مقاصد کو پورا کرنے والی نئی شکلوں کو تصویر کے شرعی احکام سے خارج کہنا ” بدیہی غلطی اور خالص نفس کا فریب ہے، جس میں بہت سے متدین حضرات اور بعض علماء تک مبتلا ہوگئے ہیں، جبکہ احکام شرعیہ کی خلاف ورزی اس طرح کی حیلہٴ جوئی کے ذریعہ کھلے طور پر کرنا ایک گناہ کو دو گناہ بنادیتا ہے ،ایک اصل گناہ ،دوسرے اس گناہ کو حلال سمجھنے سمجھانے کی کوشش اور یہ دوسرا گناہ پہلے گناہ سے بھی زیادہ اشد ہے۔
کارہاباخلق آری جملہ راست
باخدا تزویر حیلہ کے رواست
یہی معاملہ ہمارے زیر بحث مسئلہ فوٹوگرافی میں ہوا ہے۔
( ماخوز از فوٹو کے متعلق شرعی احکام ،از حضرت مولانا مفتی محمد شفیع رحمة اللہ علیہ)
رہے محمود الملة والدین حضرت مفتی محمود صاحب رحمة اللہ علیہ اوران کا معاملہ کہ وہ ٹی،وی پر آئے تھے! ( اور ۱۹۷۰ء کے انتخابات میں انہوں نے ٹی، وی کے ذریعہ ووٹ مانگے تھے)
تو ہمارے معزز مضمون نگار کو یقیناً معلوم ہوگا کہ حضرت مفتی محمود صاحب رحمة اللہ علیہ کا مذکورہ عمل ان کی فقہی رائے اور شرعی فتویٰ ہرگز نہیں تھا، انہوں نے اپنے عمل اور ابتلاء کی وجہ سے شرعی مسئلہ میں تاویل و حیلہ جوئی سے کام نہیں لیا، بلکہ ہمارے علم کے مطابق برملا یہ کہا ، لکھا ور فتویٰ دیا کرتے تھے کہ میں تصویر وغیرہ کو ناجائز سمجھتا ہوں، میرا عمل ابتلاء عام کی زد میں ہونے کے باوجود تصویر کے جواز کی دلیل نہیں ہے، بلکہ انہوں نے تو یہ فتویٰ بھی دے رکھا ہے کہ جس مولوی کے گھر میں ٹی، وی ہو یا وہ ٹی وی دیکھتا ہو، وہ باقاعدہ امامت کا اہل نہیں ہے۔ جبکہ حضرت مفتی محمود رحمة اللہ علیہ اپنی فقاہت و ثقاہت کے ساتھ ساتھ سیاست کی پُر خار وادی میں کئی قافلوں کے حدی خواں بھی تھے، اس لئے یہ ماننا چاہئے کہ وہ سفینہٴ سیاست کے ناخدا ہو نے کے باوجود ” جدیدیت و اباحیت“ کے فکری طوفان میں بہہ جانے کی بجائے سنگ گراں ثابت ہوئے تھے، خدا نحواستہ اگر مفتی محمود صاحب رحمة اللہ علیہ مجوزین حضرات کی طرح تصویر اور ٹی، وی کے جواز کے قائل ہوتے اور اس پر دلائل و براہین سے دوسروں کو قائل کر نا چاہتے تو یقینا ان کے لئے مشکل نہیں تھا، لیکن وہ جانتے تھے کہ ایسا کرنا دوہرا گناہ ہے اور ایسے طرز عمل پر تو بہ کی توفیق بھی موقوف ہو جایا کرتی ہے، اس لئے انہوں نے ٹی، وی اور تصویر کے عدم جواز کے شرعی فتویٰ کو اپنے مقام سے ہٹانے کے لئے کسی قسم کے حیلہ یا تاویل سے کام نہیں لیا۔
اس لئے یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ ٹی ، وی اور تصویر کے بارے میں حضرت مفتی محمود صاحب رحمہ اللہ کی رائے وہی ہے جو مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع صاحب، حضرت بنوری اور حضرت مفتی رشید احمد صاحب رحمہم اللہ کی رائے ہے ۔
لہٰذا ہم مجوزین حضرات سے یہ گزارش کریں گے کہ اپنے مذاق و مزاج کو شرعی بتانے کے لئے اکابر کو آمنے سامنے نہ لایا جائے ۔دوسرے یہ کہ ٹی، وی کو ناجائز سمجھنے والے عوام کے گھر وں کو ٹی،وی سے محفوظ رہنے دیں، اگر آپ ٹی،وی کو ذاتی ،جماعتی، یا گروہی مقاصد کے لئے ضروری سمجھتے ہیں تو جذبہٴ نصح و خیر خواہی کے تحت ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ اسے ناجائز سمجھتے ہوئے استعمال کر یں، اور عوام میں تصویر اور ٹی،وی کی اباحت کی این، او،سی تقسیم نہ کریں، کیونکہ عدم جواز والوں کا فتویٰ صرف ”مدرسے مدرسے“تک پہنچاہے اور آپ کی N.O.C”گھر گھر“ تک پہنچ رہی ہے ۔اور عوام آپ کے کندھے پرپاوٴں رکھ کر معاصی کے تالاب میں کود رہے ہیں۔اور ہم یہ بھی عرض کرنا مناسب سمجھتے ہیں کہ آپ کی رائے کے مطابق” ٹی،وی اور تصویر مباحات میں سے ہیں۔“مباحات کے عام کرنے اور پرچار کرنے سے زیادہ اہم اور لازم منہیات سے بچنا ہے ،اس لئے مجوزین حضرات کے لئے دینی مشورہ یہ ہے کہ وہ عدم جواز والوں سے ناراضگی اور ان کی پُرانی تعبیرات پر اظہار برہمی کی بجائے اپنے طرز فکر پر سنجیدگی سے غور فرمائیں، اسی طرح اگر ہماے لفظی تسامحات اور نئی ابحاث کے لئے پرانی تعبیرات پر عفو و درگزر کا معاملہ بھی فرمائیں تو یہ ان کے بڑے پن کی علامت ہو گی۔
باقی موصوف کی آخری اور اہم بات پر ہم سب کو غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کس کا کہا اور سمجھا معتبر ہے اور کس کا نہیں؟ یعنی کسی مسئلے کے کہنے اور سمجھنے کا کوئی معیار ہو نا چاہئے؟یقینا یہی بنیادی مسئلہ ہے، اپنی سمجھ کو سب کچھ سمجھنے سے فتنے برپاہو تے رہے ہیں، اس لئے ہم میں سے جو بھی کچھ کہنا اور سمجھنا چاہے وہ اپنے اسلاف کو معیار بنا کر دو چار جدید و قدیم حضرات کو ملا کرکہے۔
جدید الیکٹرانک مناظر کے بارے میں پُرانی ابحاث کی خوشہ چینی کرتے ہوئے یہ چند گزارشات خدمت گزار کی گئی ہیں، اگر یہ گزارشات کسی بھی مسلمان بھائی بالخصوص میرے انتہائی قابلِ احترام مضمون نگار کی طبع عالی پر شاق و ناگوار ہوں تو ان سے اس امید پر معذرت خواہ ہوں کہ جو کچھ کہا اور لکھا گیا ہے دینی مسئلہ کی وضاحت کی خاطر کہا اور لکھا گیا ہے، اس کے بارے میں بجز ایں کچھ کہنا اور سمجھنا مناسب نہیں ہو گا۔
اللّٰہم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ۔
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , محرم الحرام ۱۴۳۰ھ - جنوری ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 1

    پچھلا مضمون: دمہ:اسباب اور علاج
Flag Counter