Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی محرم الحرام ۱۴۳۰ھ - جنوری ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

7 - 11
قرآن کریم کی مختلف وجوہ اعجاز جن کے ذریعے اقوام وامم کو چیلنج کیا گیا
قرآن کریم کی مختلف وجوہ اعجاز
جن کے ذریعے اقوام وامم کو چیلنج کیا گیا

میں مقصودی بحث سے نکل کر دور ہوگیا ،چنانچہ اب میں مقصد وموضوع کتاب کی طرف رجوع کرتا ہوں اور مقصد کی طرف رجوع واقعی قابل مدح وثناء ہوا کرتا ہے ۔یہ موضوع جس کے متعلق اب ہم بحث کریں گے گذشتہ تمام موضوعات میں سب سے زیادہ اہم اور لائق اعتناء ہے ‘ بلکہ یہ موضوع حقیقتاََ گذشتہ موضوعات کی حقیقی روح ہے۔ چنانچہ جان لینا چاہئے جیساکہ گذشتہ مباحث میں بھی راقم نے کچھ وضاحت پیش کی کہ تفسیر قرآن کے مختلف پہلو ہیں اوررجال کار نے اپنے اپنے علمی ادوار میں حسب ِوسعت وطاقت کسی ایک پہلو کو لیا اور اس کے متعلق کارہائے نمایاں انجام دیئے، اور اس بدیہی بات میں ہرگز شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ اللہ جل شانہ کی یہ کتاب تمام عالم کے لئے سب سے بڑا معجزہ ہے ،جس کا اعجاز قرناً بعد قرنِِ تسلیم کیا گیا ہے اور ابد الآباد تک یہ اعجاز برقرار رہے گا ۔اس معجز کتاب کے ذریعے خطبائے زمانہ اور فصحائے عرب کو چیلنج کیا گیا اور ان کے انس وجن اس کے مقابلے ومعارضے کے لئے بلائے گئے لیکن ان کی گویائی معطل ہوگئی اور ساری چیں وچنیں ناپائیدار ثابت ہوئی۔ اور جیساکہ آپ جانتے ہیں کہ فصاحت وبلاغت میں عرب کس اونچے رتبے فائز تھے‘ ان کے عجیب وغریب قصائد‘ رجزیہ اشعار‘ بلاغت سے بھر پور طویل ومختصر خطبات، خوب گونجتے مسجع کلام‘ منظم ومرتب نظمیں‘ اور خوبئ طرز وانداز رکھنے والی منثور عبارات کس قدر شہرت رکھتی تھیں، تاہم وہ عاجز وخاسر ہی رہے اور قرآن کریم کے علمی مجادلہ ومخاصمہ کے ورے ہی ان کی لالچ دھری رہ گئی۔
چنانچہ عملی ‘ قولی اور اعتقادی ہراعتبار سے اس کے سامنے جھک گئے اور ان کا عجز ایسا نمایاں ہوا کہ درست عقل وفہم رکھنے والا تجربہ کار شخص اس میں ذرہ بھر شک نہیں کرسکتا ۔ قرآن کریم تو اس خطیب بے نظیر و بے مثیل کی مانند ہے جو جس طرح بڑے مجمع کے آگے ببانگ دہل اپنی فصاحت وبلاغت کی طرف بلارہاہے، اسی طرح حکمت وفلسفے کے دعویدار کو نظام عالم کے قوانین ،تہذیب وثقافت کے دستور‘ ارتقاء مادی وروحانی کے اسرار وحکم‘ عالمی سیاست کی روح‘ ادارت واہتمام کے اسالیب اور حکمت وموعظت کے ساتھ خلقِ خدا کی راہ یابی وراہنمائی کے قواعد سے آشنائی کے حصول کی طرف دعوت دے رہا ہے اور اپنے اسلوب ومنہج اور بیان وتدوین میں ایسے قطعی دلائل وحجج بکھیر رہا ہے کہ چاہے حکیم وفلسفی ان کو محال یا مستعبد گردانتے ہوں لیکن اگرعقل کو غور وفکر کا آزادانہ موقع فراہم کیا جائے اور عقل کی فطری طبیعت کو ہرقسم کے زیغ وضلال اور حسد وعناد سے پاک کرکے ان براہین وبینات میں سوچنے دیا جائے تو یہ دلائل ان کے سینہ کو ٹھنڈا کردیں اور ان کے نفوس کو اطمینان بخشیں۔
بے شک وشبہ مادی دنیا علوم وفنون میں جس قدر ارتقاء پزیر ہو رہی ہے، اسی قدر خداوند تعالیٰ کی اس کتاب کے غرائب وعجائب صفحہٴ کائنات پر روشن ہورہے ہیں اور باطنی ذوق ووجدان اور روحانی برہان وایقان کو جلابخش رہے ہیں اور اسی طرح قرآن کریم ان ازمنہ وادوار کے گذرجانے کے بعد بھی معجز رہے گا اور بوسیدگی سے مکمل مبرا ومنزہ رہے گا اور تاقیامت یوں ہی برقرار رہے گا ۔راقم الحروف نے ایک مدحیہ نعتیہ قصیدہ تحریر کیا تھا جس کے درج ذیل اشعار چونکہ موضوع بحث کے مناسب ہیں ،اس لئے ذکر کئے جاتے ہیں:
”۱- محمد اقرآن کا معجزہ لے کر تشریف لائے جواب تک ہمارے لئے گویا خوب ہرا بھرا باغ ہے۔
۲- اس کے روشن احکام انسانیت کے لئے اصول ہدایت ہوگئے اور اس کی آیات تمام انسانیت کو راہ راست کی جانب راہ یاب کررہی ہیں۔
۳-الفاظ قرآن مرتب ومنظم موتی کی مانند ہیں اور اس کے لطائف باریک ہیں،توقعات سے بہت اونچا لطف رکھتے ہیں۔
۴-جیسا کہ تارہ جب خوب چمکے اور سورج جب خوب روشن ہواور چشمہ جب خوب ابل پڑے اور بارش جب خوب برسے ۔
۵- اس کے حقائق بلند وبالا ہیں اور بسائط ونکات خوب ہیں جو واضح نور کی جانب تیری راہنمائی کرے گا، ایساواضح نور کی طرف جس میں دلوں کے لیے شفا ہے۔
۶- اس کے باغات مہکتے ہیں اور عجائبات وسیع ترہیں ،گویا کہ ایسی بہتی بارش ہے سمندر کی مانندجو کبھی نہ سوکھے گی۔
۷- ایسا بحر بیکراں ہے جب تو غور وتدبر کی نظر وفکر لے کر اس میں غوطہ زن ہوگا تو قیمتی موتی تجھ کو بطور تحفہ وہدیہ دے گا۔
۸- اس کی فصاحت وبلاغت بلند وبالا پہاڑ کی چوٹیوں سے بھی بالا تر ہے، جس کی بلاغت کی حقیقت سمجھنے سے ذکی الحواس عاقل کی عقل بھی متحیرو سرگردان ہے۔“
قرآن کریم کے دیگر پہلوؤں کے متعلق بحث وتمحیص سے پیشتر یہ جان لینا ضروری ہے کہ وہ کون سی جہت اعجاز ہے جس کے ذریعے قرآن کا اعجاز کھل کر نمایاں ہوا، اور پہلی صدی کے تیز تند اور فصیح وبلیغ زبان رکھنے والے معارضین ومنکرین پر حجت غالبہ اور بولتا معجزہ بن کر ثبت ہوا ،قاضی ابوبکر باقلانی اعجاز القرآن ص: ۱۰ پر رقمطراز ہیں:
”جن نامی گرامی حضرات نے معانی قرآن‘ اور عربی لغت کے متعلق قرآنی لطائف سے بحث کی ہے ،ان کو یہ زیب دیتا تھا کہ وہ قرآن کریم کی وجہ اعجاز اور مرتبہ اعجاز قرآنی کے متعلق بھی ابحاث رقم کرتے ۔ فلسفیانہ ابحاث مثلاً :جزء لایتجزی کی بحث ،اعراض وجواہر ،ترکیبی عجائبات اور پوشیدہ نحوی تحقیقات کے متعلق تصنیفات تحریر کرنے کے بجائے قرآن کریم کی وجہ اعجاز کے متعلق تصنیف تحریر کرنا زیادہ موزوں اور لائقِ اعتناء تھا، اس لئے کہ وجہ اعجاز کی معرفت کی طرف احتیاج زیادہ تھی اور ان وجوہ اعجاز کے متعلق بحث وتمحیص میں اشتغال اہم تھا۔ اس مسئلے میں بعض علماء کی تقصیر وکوتاہی ایسی بڑھی کہ ایک طائفہ براہمہ کے نظریہ کا مؤید ہوگیا اور یہ رائے پیش کرنے لگا کہ ان عرب فصحاء کا عجز اور اس معجزہ کے مقابلے سے ان کی درماندگی اور ضعف ہی نے یہ بات واضح کی کہ اس معجزہ کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا ہے ۔لیکن ان کی یہ رائے محض تحکم ہے، اس لئے کہ ان علمائے کرام کو معلوم تھا کہ وہ فصحائے عرب اپنی جملہ عبارات میں دقیق نکتہ اختراع کرتے تھے اور اپنے کلام کی وضع وتدوین میں فصاحت وطلاقت لسانی کے عمدہ رتبہ پر فائز تھے، پھر انہوں نے دیکھا کہ جن علماء نے اس مبحث کے ذیل تصنیفات تحریر کی ہیں، وہ اپنے موضوع کے متعلق تمام معلومات فراہم نہیں کرتی ہیں اور ان تصانیف میں وجہ اعجازکے طرق کی تہذیب وتنقیح میں بھی خلل ہے اور اس کی ترتیب بیانی بھی مہمل سی ہے۔“ قرآن کریم کی وجوہ اعجاز ایک مستقل موضوع ہے ،جس کے متعلق قدماء ومتأخرین نے اپنی قلمی کاوشیں علیحدہ علیحدہ تصانیف کی صورت میں یادگار چھوڑی ہیں ،میرے علم کے مطابق اس موضوع کے متعلق سب سے اول ابو عثمان حاجظ متوفی: ۲۵۵ھ نے (جو ”البیان والتبیین‘ کتاب الحیوان اور کتاب الخلاء وغیرہ مشہور کتب کے مصنف تھے )قلم تصنیف اٹھایا اور ”نظم القرآن“ نامی ایک کتاب تالیف کی ،اس کتاب کے احوال بیان کرتے ہوئے امام قاضی ابوبکرباقلانی نے اپنی کتاب اعجاز القرآن میں فرمایا کہ : ”جاحظ نے ”نظم قرآنی“ کے متعلق ایک کتاب تصنیف کی جس میں صرف گذشتہ متکلمین کی ابحاث ذکر فرمائیں اور اس موضوع کے وہ اہم مضامین جن میں اشکال والتباس تھا ،واضح ہی نہیں فرمایا ہے۔“
ہم امام باقلانی پر ان کے اس تبصرہ کی بناء پر طعن درازی اور تہمت دری سے تو پرہیز کرتے ہیں ،جیساکہ شیخ رافعی نے اس تبصرہ کے متعلق چشم پوشی کی ہے، لیکن ہم انکی طرف سے معذرت گذاری ضرور کرتے ہیں کہ جاحظ وہ پہلی شخصیت ہے جس نے اس موضوع کے متعلق تصنیف فرمائی، چنانچہ اس سبقت وتقدم کی فضیلت اور شرف بہرحال ان کو حاصل ہے۔
جاحظ کے بعد شیخ ابو عبد اللہ واسطی معتزلی متوفی: ۳۰۶ھ نے ”اعجاز القرآن فی نظمہ وتالیفہ“ کے نام سے مذکورہ موضوع کے متعلق تصنیف فرمائی ۔صاحب کشف الظنون اور ابن الندیم نے اس کتاب کا تذکرہ فرمایا ہے، لیکن تاحال راقم اس کتاب پر مطلع نہ ہوسکا ۔
لیکن شیخ عبد القاہر جرجانی متوفی: ۴۷۴ھ نے (جو اسرار البلاغة اور دلائل الاعجاز جیسی نامی گرامی کتب کے مصنف ہیں )اس کتاب (”اعجاز القرآن فی نظمہ وتالیفہ“ )کی دو شروح لکھیں،ایک تفصیلی :جس کا نام انہوں نے ”المعتضد“ رکھا اور ایک اجمالی ومختصر شرح :جس کا نام معلوم نہیں ہو سکا ہے ،تحریر فرمائی ہے جو اس کتاب کی مزیت وفضیلت کے اظہار کے لئے کافی ہے۔
بعد ازاں ابو الحسن علی بن عیسی الرمانی متوفی: ۳۸۲ھ نے ایک مختصر رسالہ جس کا حجم تقریباً تیس صفحات پر مشتمل تحریر فرمایا، جس کا نام ”اعجاز القرآن“ رکھا ،حال ہی میں مکتبہ جامعہ ملیہ دہلی نے ہندوستان میں یہ کتاب شائع کردی ہے۔ راقم الحروف نے اس کا مطالعہ بھی کیا ہے، آج کل جبکہ علوم بلاغت کے متعلق لکھی گئی کتب کی خوب بہتات کے پیش نظر اس رسالہ میں کوئی ایسے مباحث نہیں ہیں جنہیں قابل قدر شمار کیا جاسکے ۔ شیخ رافعیکو یہاں مغالطہ ہوا ہے کہ انہوں نے اس رسالہ کا مصنف ”ابو عیسی الرمانی“ کو بتلایا ہے، حالانکہ وہ ابو عیسی نہیں بلکہ ابن عیسی ہیں ،جیساکہ ابن ندیم اور ابن خلکان وغیرہ حضرات اہل علم نے ذکر فر مایا ہے۔
ان حضرات کی تصانیف کے بعد شیخ امام قاضی ابوبکر باقلانی متوفی: ۴۰۳ ھ نے جو علم کے ٹھاٹھے مارتے سمندر اور مشہور زمانہ محقق ومتکلم تھے،جنہیں شیخ السنة ‘ لسان الامة کے خطاب سے دنیا پہچانتی ہے، اپنی مشہور ومعروف کتاب بنام ”اعجاز القرآن“ تصنیف فرمائی۔ شیخ رافعی نے قاضی باقلانی اور ان کی کتاب کی خوب تعریف بھی فرمائی اور اس سے استفادہ بھی فرمایا ہے لیکن اس کے باوجود قاضی باقلانی کی قدر ومنزلت کے متعلق ان سے فروگذاشت ہوئی ہے۔ راقم عرض کناں ہے کہ : قاضی باقلانی نے اس کتاب کے ذریعے امت مرحومہ پر بہت بڑا احسان فرمایا ہے، خاص طور پر شیخ رافعی پرھی‘ اس لئے کہ یہ امام باقلانی ہی ہیں جنہوں نے وجہ اعجاز کے متعلق دلائل وحجج کے مختلف طرق واضح فرمائے اور وجہ اعجاز کی راہ کو امت کے لئے نمایاں فرمایا ہے اور ان کی اس تصنیف پر ہزار سال بیت جانے کے باوجود اس کے جملہ مباحث تروتازہ ہیں اور فی زمانہ جبکہ نت نئے علوم وفنون آشکارا ہوکر مدون ہوچکے ہیں، اب بھی کبار افاضل اس کتاب سے مستغنی نہیں ہوسکتے ہیں ،اب ان ازمان وادوار کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے جبکہ اس حد تک علوم وفنون کا رواج نہ تھا اور کئی علوم کی تدوین وتنظیم تک نہ ہوئی تھی، خاص طور پر علوم بلاغت کہ جن کی بلاغت کے سرخ محلات اور فصاحت کے سبزمحلات کی مکمل تدوین وترتیب امام عبد القاہر جرجانی نے فرمائی ،ان تمام نمایاں خصوصیات کے ساتھ ساتھ علامہ باقلانی نے اپنی کتاب کو ایسی عبارات سے مزین فرمایا ہے کہ عقول وافہام جھوم جائیں اور اقلام واقدام رقص ومستی میں کھو جائیں۔
اسی طرح صاحب اتقان اور صاحب کشف الظنون کے مطابق من جملہ ان حضرات کے جنہوں نے اس موضوع کے متعلق قلمی شہسواری فرمائی، مشہور امام ومحدث احمد بن محمد خطابی سبتی شافعی متوفی: ۳۸۸ھ نے (جو ”معالم السنن“ کے مصنف بھی ہیں )بھی ہیں
اسی طرح ابن سراقہ رؤیانی متوفی :۵۰۶ھ اور شاید یہی ابو المحاسن رؤیانی ہیں جو اکابر علماء نے شوافع میں شمار کئے جاتے ہیں اور ”بحر المذہب“ مناصیص الشافعیہ“ جیسی مایہ ناز کتب کے مصنف ہیں ۔
اور امام رازی متوفی :۶۰۶ھ ‘ ابن ابی الاضبع متوفی: ۶۵۴ھ شیخ زملکانی متوفی :۷۲۷ھ غیرہ کبار علماء نے اس موضوع کے متعلق قلمی جانفشانی دکھائی ،عین ممکن ہے کہ ان کتب کے مراتب میں تفاوت ہو، جیساکہ شیخ رافعی نے بیان فرمایا ہے اور امید بھی ہے کہ ان حضرات کی یہ مختلف تالیفات خوب صورت اسالیب‘ عمدہ تعبیرات اور خوب روشن دلفریب اور پرکشش وجوہ اعجاز سے بھر پور ہوں گی لیکن صد افسوس! کہ امت نے اب تک ان قیمتی تعاون اور مہنگے خزانوں سے کما حقہا استفادہ نہیں کیا۔ امید ہے کہ شاید اللہ تعالیٰ اس کوتاہی وتقصیر کے بعد کوئی نیا معاملہ پیش فرمادیں ۔
ابن الندیم نے اپنی ”الفہرست“ میں ان مذکورہ مؤلفات کے علاوہ دو مزید کتابیں ذکر فرمائی ہیں: ایک ابن اخشد کی ”نظم القرآن“ اور دوسری ابو علی حسن بن علی بن نصر کی” نظم القرآن“۔ اسی طرح علامہ قاسم بن منیرہ شاطبی شافعی کا ایک رسالہ اور مطرزی کا ایک رسالہ بھی شمار کیا ہے
یہ تقریباً دس کتب قدماء ومتاخرین کی اس موضوع کے متعلق ایسی ہیں جہاں تک میرے علم وشمار کی رسائی ہوسکی ہے‘ پھر ان لمبی صدیوں کے گذرنے کے بعد اور ان ائمہ کبار کے بعد ادباء مصر کے نامور اور قابل قدر کاتب زمانہ، فاضل ادیب مصطفی صادق رافعی مرحوم جو اس صدی کے ادباء میں سرفہرست شمار کئے جانے کے واقعی لائق ہیں ،وہ اس میدان میں شہسواری کے لئے نمودار ہوئے اور بہترین عصری اسلوب پر ”اعجاز القرآن“ نامی کتاب تالیف فرمائی۔ جس میں گذشتہ ائمہ کے اجمالی بیانات کی تفصیل تحریر کی اور ان کے اشارات کو واضح کیا ۔نیز جدید ترقیات کے پیش نظر دیگر وجو ہ اعجاز نمایاں ہوئیں ان کو بھی بیان فرمایا اور ائمہ اسلاف کے کلمات کے مختلف اشارات کے بکھرے پہلوؤں کو کھول کھول بیان فرمایا، مگر یہ کہ موصوف نے باقلانی کے متعلق تبصرہ کرتے ہوئے کہا:
”باقلانی کی عبارات میں عجیب حیل واوضاع ترکیبی کی وسعت ہے اور وہ غایت درجہ درازگو کھلی زبان والے ہیں اور اپنے کلام میں جاحظ اور اس کے قلم ابن عمید کے مذہب کے خوب بصیرت وقدرت کے ساتھ اور خوبی اسلوبی کے ساتھ ان کے پیرو واقع ہوئے ہیں ……الخ۔“
موصوف خود بھی جاحظی الاسلوب ہیں، تعبیر وتقریر کے گھرے سمندر میں غوطہ زن ہوتے ہیں اور میدان تحریر وانشاء میں ان کا قلم مستی میں جھوم جھوم کر رقص کناں ہوتا ہے، گویا کہ موصوف رافعی چاہتے ہیں کہ قرآنی بلاغت کے اعتراف سے قبل ان کی بلاغت کے اعلیٰ پیمانے کا اعتراف کیا جائے اور اپنی تحریر میں اتنی وسعت سے کام لیتے ہیں کہ ہرخاص وعام اس میں دقت میں پڑ جاتا ہے۔رافعی نے ابن اثیر کی ”المثل السائر“ سے بہت استفادہ کیا ہے، چنانچہ اس استفادہ کی انہوں نے تصریح نہیں کی، لیکن بہرحال میں موصوف کے فضل وکمال کا منکر نہیں ، ان کے طرز تحریر وانشاء کی بنا پر میرے دل میں ان کا بہت اونچا مقام ومرتبہ ہے لیکن میں چاہتاہوں کہ ادبائے زمانہ میں سے کوئی ہمت کرکے موصوف کی اس ”اعجاز القرآن“ کی ایک تہائی کے بقدر اس کا خلاصہ لکھدے اور ایک تہائی بھی بہت زیادہ مقدار ہے، تب مناسب ہوگا کہ اس کتاب کو علم بلاغت کے نصاب میں داخل درس کیا جائے اور پھر اس کا نفع طلباء وعلماء میں عام ہوگا ان شاء اللہ۔ان یکجا مؤلفات کے علاوہ اس موضوع کے متعلق امت محمدیہ کے کبار علمائے کرام نے مختلف تصانیف میں جواہر ویواقیت بکھیرے ہیں، اگر ان بکھرے جواہر کو ایک تالیف کی صورت میں یکجا کردیا جائے تو وہ بلاغت کی گردن کے لئے ایک قیمتی ہار ہوگا اور کتب ادب وعلم کے ماتھے کے لئے روشنی اور نور ہوگا۔
ان بکھرے جواہر میں سے شیخ جرجانی کے بیان کردہ وہ لطائف جو انہوں نے اسرار البلاغت اور دلائل الاعجاز کی مختلف ابحاث کے ذیل ضمنی طور پر بیان فرمائے، نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔
اسی طرح امیر ایمانی نے ”الطراز“ نامی کتاب کی مختلف ابحاث میں جو نکات بیان فرمائے ہیں ،وہ بھی قابل قدر ہیں ۔امام رازی نے ”نہایة الاعجاز“ میں جو معارف ِاعجاز نمایاں کئے ہیں ،وہ بھی لائقِ التفات ہیں ،امام رازی نے یہ کتاب اگرچہ شیخ جرجانی کی دو تصانیف’ ’اسرار البلاغة“ اور”دلائل الاعجاز“ سے تلخیص واقتباس فرماکر تالیف فرمائی ہے ،تاہم ان کی اس کتاب کو ان دونوں تصانیف کا خلاصہ کہنا مجاز ہی ہوسکتا ہے۔
حافظ ابن قیم نے اپنی بعض کتب، مثلاً: بدائع الفوائد ،مدارج السالکین ”کتاب الفوائد“ وغیرہ میں ”انواع اعجاز“ کی انوکھی ابحاث تحریر فرمائی ہیں، وہ بھی قابل ذکر ہیں۔ اسی طرح متأخرین علمائے تفسیر جن میں صاحب الکشاف اورعلامہ زمخشری سربرآوردہ شخصیات میں سے ہیں ،انہوں نے بھی مختلف وجوہ اعجاز سے اپنی تفسیرمیں بحث وتمحیص فرمائی ہے ،بلکہ علامہ زمخشری اس قافلہ ٴ بلاغت کے رہنمااور علمائے بلاغت کے لئے بلند وبالا مینار کے روشن چراغ ہیں ۔
انہی مفسرین میں اما م رازی بھی شامل ہیں ،اسی طرح ابن اثیر نے ”المثل السائر“ میں ابو سعود نے اپنی تفسیر ”ارشاد العقل السلیم“ میں اور صاحب ”روح المعانی“ علامہ آلوسی نے اوران جیسے حضرات کبار کے علاوہ بھی شہسوران ِعلم اور ماہرینِ فن نے ایسے مباحث جابجا بکھیرے ہیں۔
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , محرم الحرام ۱۴۳۰ھ - جنوری ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 1

    پچھلا مضمون: انسانی حقوق اور اسلام
Flag Counter