Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الاول ۱۴۲۹ھ اپریل ۲۰۰۸ء

ہ رسالہ

5 - 12
شرعی پردہ
شرعی پردہ

قرآن وحدیث میں پردہ کے واضح احکام موجود ہیں‘ لیکن اس کے باوجود اس قرآنی حکم سے جس طرح اعراض برتاجارہا ہے یہ طرزِ عمل نہ صرف قابلِ مذمت ہے ‘ بلکہ دنیا وآخرت میں شدید نقصانات کا بھی باعث ہے۔ زیر نظر ارشادات حضرت مولانا ابرار الحق ہردوئی کے افادات سے ماخوذ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس حکم کی اہمیت سمجھنے اور عمل میں لانے کی توفیق عطا فرمائے ‘ آمین․
۱- فرمایا: پردہ شرعی آج کل صلحاء کے گھرانے میں بھی نہیں ہے -الا ماشاء اللہ- مثلاً چچی‘ ممانی اور تائی یا امی اور ان کی لڑکیوں سے پردہ کرنا چاہئے۔ اسی طرح پھوپھی زاد‘ خالہ زاد اور چچازاد بہنوں سے پردہ واجب ہے‘ اسی طرح وہ بوڑھی عورت جس کے چہرہ دیکھنے میں گنجائش ہے‘ مگر اس کے بالوں کا دیکھنا اس وقت بھی حرام ہے۔ (مجالس ابرار ج:۱‘ص:۲۳)
۲- فرمایا: شوہر کے حقیقی بھائی سے پردہ کے لئے دریافت کرنے پر حضور ا نے ارشاد فرمایا کہ: وہ تو موت ہے یعنی اس سے تو نہایت ہی احتیاط ضروری ہے (کیونکہ گھر میں آمد ورفت اس کی زیادہ ہوتی ہے اس لئے یہ محل فتنہ کے اعتبار سے زیادہ خطرناک ہے۔ (مجالس ابرار ج:۲‘ص:۳۹)
۳- فرمایا: مجھ سے ایک صاحب نے سوال کیا کہ کیا پردہ کا حکم قرآن وحدیث میں موجود ہے؟ میں نے کہا: ارے بھائی! قرآن وحدیث تو بڑی چیز ہے‘ خود فطرة سلیمہ کا تقاضا بھی پردہ شرعی کا حکم دیتا ہے‘ بہت تعجب سے پوچھا وہ کیسے؟میں نے کہا: روٹی کی حفاظت چوہے بلی سے کرتے ہیں‘ چیل کے خوف سے گوشت چھپاکر لاتے ہیں‘ تنخواہ پاتے ہیں تو نوٹوں کو جیب کتروں کے خوف سے چھپاکر لاتے ہیں‘ حالانکہ روٹی‘ گوشت اور نوٹ میں خود ان کے اچکنے والوں کے پاس کھنچ جانے کی صلاحیت نہیں ہے ‘ برعکس عورت کے کہ اچکنے والے بھی ہیں اور ان میں خود ان کی طرف کھینچ جانے کا مادہ بھی ہے۔ نیز روٹی‘ گوشت اور نوٹ اچکنے والوں سے واپس مل جانے کے بعد بھی قابل استعمال ہیں ‘ برعکس عورت اغوا ہونے کے بعد خاندان کی بھی گردن نیچا کردیتی ہے اور کوئی شریف انسان اس کو نکاح کے لئے قبول کرنے کو تیار نہ ہوگا‘ مردوں کے ساتھ عورتوں کو بھی حکم ہے کہ نامحرم مردوں سے نگاہ نیچی کر لیں۔ (مجالس ابرار)
۴- فرمایا: بے پردگی کے مفاسد کو اہل فتاویٰ سے پوچھئے۔ ایک عورت نے خط لکھا کہ میری بہن بے پردہ آتی جاتی تھی‘ میرے شوہر کا دل اس پر آگیا ہے‘ مجھے بھنگن کی طرح ذلیل رکھتا ہے‘ کوئی تعویذ دے دیجئے۔ بعض لوگ دل صاف اور نظر پاک کا بہانہ کرتے ہیں خواہ کتنا ہی دل صاف اور نظرپاک ہو لیکن بجلی (شہوت) کا کرنٹ آتے دیر نہیں لگتی۔ (مجالس ابرار)
۵- فرمایا: آج اکثر صلحاء کے گھروں میں بھی پردہ شرعی نظر نہیں آتا‘ اشراق وتلاوت اور تہجد ووظائف کی پابندی تو نہایت اہتمام سے جاری ہے‘ مگر چچی اور ممانی اور پھوپھی زاد‘ خالہ زاد اور چچا زاد بہنوں سے اور بھاوج سے پردہ نہیں کرتے۔ (مجالس ابرار)
۶- فرمایا: مدارس میں اس کا بھی خیال رہے کہ جو بچیاں عمر میں تو کم ہیں لیکن دیکھنے میں بڑی معلوم ہوں ان سے بھی پردہ ضروری ہے۔ (مجالس ابرار)
۷- فرمایا: اگر ہم اپنی بیویوں کو پردہ کرائیں‘ اس پر ہمارے دوست واحباب کو شکایت ہو تو معلوم ہوا کہ ان کو ہم سے زیادہ ان سے تعلق ہے‘ وہ ہم سے ملنے نہیں آئے‘ ہماری بیوی سے ملنے آئے ہیں۔ ہم کو دیکھنے نہیں آئے‘ ہماری بیوی کو دیکھنے آئے ہیں۔ یہ بات کتنی خطرناک ہے لیکن انسان کو چاہئے کہ ہرحال میں شریعت پر عمل کرے۔ بھائی! پردہ شریعت کا حکم ہے‘ رسول اللہ ا کا حکم ہے‘ اس پر تو عمل کرنا ہی ہے۔ آنا جانا بند ہوجائے کوئی بات نہیں ہے مگر شریعت کی خلاف ورزی نہیں کریں گے۔ بات یہ ہے کہ انسان ہمت وارادہ کرے پھر نصرت ہوتی ہے‘ راستے کھل جاتے ہیں‘ اس لئے شرعی پردہ کا اہتمام کرنا چاہئے۔
چند اشکالات اور ان کے جوابات
۱-فرمایا: اکثر لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہمارا دل صاف ہے فرمایا: حضرات صحابہ کرام کو تو یہ حکم ہورہا ہے کہ: جب پیغمبر علیہ السلام کی ازواج مطہرات سے کچھ بات کرنا چاہو تو پردے میں سے پوچھو‘یہ تو ان پاکیزہ نفوس کے لئے حکم ہے تو ہمارا کیا حال ہے جو ہم اس سے اپنے کو مستغنی سمجھتے ہیں۔ فرمایا: بعض لوگ دل صاف اور نظر پاک یا نظر صاف کا بہانہ کرتے ہیں‘ ان سے پوچھتاہوں کہ حضرت علی  کا دل اور ان کی نظر کے بارے میں کیا خیال ہے؟ یقینا ان کا دل پاک اور نظر صاف تھی پھر حضور ا نے ان کو کیوں حکم دیا کہ اے علی  پہلی اچانک نظر معاف ہے مگر خبردار دوسری نظر مت ڈالنا۔کیا آپ لوگوں کی نظر اور آپ لوگوں کا دل حضرت علی  سے زیادہ پاک صاف ہے؟
۲- بعض لوگ چھوٹے گھر اور زیادہ خاندان میں پردہ برقرار رکھنا مشکل سمجھتے ہیں‘ اس پر فرمایا: بعض گھرانے ایسے ہیں کہ چار بھائی ایک گھر میں رہتے ہیں مگر شرعی پردہ کا اہتمام ہے‘ آواز دے کر گھر میں داخل ہوتے ہیں تاکہ جو نامحرم ہو چہرہ چھپا لے۔
۳- بعض عورتیں اپنے جوان ملازم سے پردہ نہیں کرتیں کہ یہ تو بچپن سے ہمارے گھر کام کرتا آرہا ہے‘ اس پر فرمایا: چھوٹا ملازم بچہ جوان ہوگیاتو اب اس سے پردہ واجب ہوگیا۔ گھروں میں کہتی ہیں یہ تو میرے سامنے کل کا بچہ تھا اس سے کیا پردہ‘ یہ تو بچپن سے ہمیں دیکھتا تھا‘ یہ کیا نادانی ہے ۔ علمائے کرام سے احکام معلوم کریں ۔ فرمایا: حضرت تھانوی کے بھانجے مولانا سعید احمد  جب ۱۲/سال کے ہوگئے تو فرمایا: سعید احمد! تم ۱۲/سال کے ہوگئے‘ بتاؤ ممانی محرم ہے یا نامحرم۔ پس اسی وقت سے پردہ شروع کردیا‘ حالانکہ مولانا سعید احمد جب ڈھائی سال کے تھے ان کی والدہ کا انتقال ہوگیا تھا اسی وقت سے ممانی نے پرورش کی تھی۔
۴-فرمایا: بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہسپتال میں جو نرسیں ہیں حضور ا کے زمانے میں بھی عورتیں مرہم پٹی وغیرہ جہاد کے زخمیوں کا کیا کرتی تھیں اور جہاد میں شریک ہوا کرتی تھیں‘ اس کا جواب یہ ہے کہ ابتداء اسلام میں قبل نزول آیاتِ حجاب ایسا تھا‘ چنانچہ بعد نزول احکام پردہ بعض عورتوں نے عورتوں کی طرف سے نمائندگی کے طور پر بارگاہ رسالت ا سے جہاد کی شرکت کی اجازت چاہی توآپ ا نے منع فرمادیا اور فرمایا کہ تمہارا جہاد اپنے گھروں میں اپنے شوہروں کی خدمت ہے۔
دعوتِ فکر
قرآن پاک میں واضح طور پر حکم دیا گیا ہے کہ مومنوں کو کہہ دو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں‘ حدیث شریف میں بھی وارد ہے کہ :”لعن الناظر والمظور الیہا“ یعنی عورتوں کو قصد وارادہ سے دیکھنے والا ملعون ہے اور وہ عورت جو بے پردہ ہوکر دکھا رہی ہے ملعونہ ہے‘ لعنت کا مفہوم شریعت میں خدائے تعالیٰ کی رحمت سے دوری ہے اور بے پردہ عورت سے جتنے لوگ بدنگاہی میں مبتلا ہوں گے ان سب کو بھی گناہ تو الگ ہوگا مگر اس عورت کے سر سب کے گناہوں کا مجموعہ لادا جاوے گا او ر اس کے شوہر یا ماں باپ کو بھی جنہوں نے اسے پردہ میں رکھنے کی کوشش نہیں کی ان پر بھی سب کے گناہوں کا مجموعی طور پر وبال ہوگا۔ (مجالس ابرار ج:۱‘ص:۳۳)
کاش! ہم مذکورہ بالا معروضات پر غور کرکے شرعی پردہ کا اہتمام شروع کردیں‘ کیونکہ آجکل اس منکر کے عام ہونے کی وجہ سے بے حیائی اور فحاشی دن بدن بڑھتی جارہی ہے‘ نتیجةً پوری امت مبتلائے عذاب ہے‘ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح سمجھ اور توفیقِ عمل عطا فرمائے‘ آمین․
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , ربیع الاول ۱۴۲۹ھ اپریل ۲۰۰۸ء, جلد 71, شمارہ 3

    پچھلا مضمون: ستر اورھماری نمازیں
Flag Counter