Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الاول ۱۴۲۹ھ اپریل ۲۰۰۸ء

ہ رسالہ

11 - 12
کسی جماعت سے اتحاد کی شرائط
کسی جماعت سے اتحاد کی شرائط

انسان اس کا مکلف ہے کہ وہ اپنی قدرت‘ اپنے علم‘ اپنی فہم‘ اپنی صلاحیت اور اپنی صوابدید کے مطابق قدم اٹھائے‘ انسان کی مسئولیت یہی ہے‘ کامیابی وناکامی اس کے اختیار سے بالاتر ہے‘ کہا جاتاہے:
”السعی منی والاتمام من اللہ“
․․․ یعنی کوشش کرنا میرا فرض ہے ،باقی تکمیل تک پہنچانا یہ حق تعالیٰ کا کام ہے۔ نتیجة ہمیشہ حق تعالیٰ کے قبضہٴ قدرت میں رہتا ہے‘ اس کی تکوینی مصلحت وحکمت کا جو تقاضا ہوگا وہی ہوگا‘ اختیار تمامتر اللہ تعالیٰ کا ہے‘ نیز انسان اس کا مکلف ہے کہ جو کام کرے وہ اخلاص سے کرے یعنی پہلے یہ سوچ لے کہ حق تعالیٰ کی مرضی کیا ہے‘ مقصد رضائے الٰہی ہو‘ نفسانی خواہش نہ ہو‘ یہ مرحلہ بہت باریک اور بہت مشکل ہے‘ پہلے تو نفسیاتی مکائد کی وجہ سے اور شیطانی وسائس اور وساوس کی وجہ سے نفسانی خواہشات کا تجزیہ کرنا ہی بہت مشکل ہے ”کارے دارد“ کسی مقصد کا ایسا تجزیہ کرنا کہ رضائے الٰہی کتنی ہے اور نفس کی خواہش کتنی ہے آسان نہیں‘ پھر نفسانی خواہش کو یک قلم چھوڑ کر حق تعالیٰ کی خوشنودی ہی منزل مقصود ہو‘ بڑا کٹھن مرحلہ ہے‘ بسا اوقات مقصد صحیح ہوتا ہے‘ عمل درست ہوتا ہے لیکن نیت صحیح نہیں ہوتی‘ بلکہ نفس کا کھوٹ اور دنیا کا کوئی مقصد اس میں شامل ہوجاتاہے جس سے وہ سارا عمل بیکار ہوجاتاہے‘ شیطان ِ لعین جو انسان کا عدو مبین ہے اس کا کام یہ ہوتا ہے کہ کسی طرح اگر وہ نیک کام نہیں چھڑا سکتا ہے تو کم از کم اس کو دنیا کی کسی غایت وغرض سے ملوث کردیتا ہے اور آدمی
”ویحسبون انہم یحسنون صنعاً“
․․․یعنی وہ گمان کرتے ہیں کہ ہم تو اچھا کام کرتے ہیں․․․ کا مصداق بن جاتاہے اور اس طرح وہ صحیح مقصد اور صحیح عمل کی برکات سے محروم ہوجاتاہے‘ بہرحال پہلے یہ سوچنا کہ کام صحیح بھی ہے یا نہیں‘ پھر اس میں صحیح قدم رکھنا‘ دنیا کی کسی وجاہت وعزت‘ حب جاہ یا حب مال کا ذریعہ تو نہیں ان مراحل سے گزرنا بے حد مشکل ہے۔
”چو گل بسیار شد پیلان بلغزند“
یہ محض توفیقِ الٰہی سے نصیب ہوتا ہے‘ اس کی دینی تدابیر یہ ہیں کہ انسان بارگاہِ ربوبیت میں نہایت عاجزانہ انداز سے التجاء کرے اور والہانہ دعائیں کرتا رہے‘ اربابِ عقل وتجربہ اور صالحین سے مشورہ کرے‘ استخارہ کرے‘ غرض پھونک پھونک کرکے قدم رکھے اور پھربھی یہ خطرہ پیش نظر رہے کہ ممکن ہے میری رائے یا میرا عمل صحیح نہ ہو‘ تب جاکر کہیں مسئولیت کا حق ادا ہوگا‘ بہرحال اس مرحلے پر پہنچ کر اس کا فرض ادا ہوگیا‘ آگے یہ ضروری نہیں کہ وہ کام تکمیل تک پہنچ بھی جائے‘ یہ کام حق تعالیٰ کا ہے۔ اس دنیا میں حضرات انبیاءِ کرام علیہم الصلوات والسلام تشریف لائے‘ ان کے تقدس واخلاص اور ان کے فضائل وکمالات کا کیا کہنا‘ انسانیت کا انتہائی معراج کمال‘ خداپرستی کا انتہائی عروج‘ خداترسی کی سب سے بڑی بلندی‘ یہ ادنیٰ سے ادنیٰ نبوت کا خاصہ ہے :
”ولیس منہم دنی“
اس کی رہنمائی اور اس کی توفیق کا سلسلہ حق تعالیٰ سے براہِ راست بلاواسطہ قائم ہوتا ہے:
”وما رمیت اذ رمیت“
کے منصب سے ان کو سرفراز کیا جاتاہے‘ کوئی قدم بھی منشأ الٰہی کے خلاف نہیں اٹھ سکتا‘ جس کو ہم ظاہر میں غلط سمجھیں‘ وہ بھی حق تعالیٰ کے تکوینی نظام کا عین مقتضاء ہوتا ہے‘ اگر کوئی ظاہری عتاب بھی ہوتا ہے تو وہ بھی کسی منشاء الٰہی کو پورا کرتا ہے‘ بہرحال وہ نفس کی خواہشات سے بالا تر ہو کر معصومیت کی معراج پر پہنچ چکا ہوتا ہے:
”فبی یبصر وبی یسمع“
․․․وہ میرے دکھائے دیکھتا ہے اور میرے سنائے سنتا ہے ․․․ کے مقامات طے کرتا ہے‘ امت محمدیہ کے اولیاء اللہ کو یہ کمال جب حاصل ہوجاتاہے تو حضرات انبیاء کرام علیہم الصلاة والسلام کے مراتب کمال کا تو کیا ٹھکانا ہے‘ لیکن ان تمام کمالات کے باوجود دنیا میں جس مقصد کے لئے وہ مبعوث ہوتے ہیں اس میں کوئی کامیاب ہوتا ہے اور کوئی بظاہر کامیاب دکھائی نہیں دیتا‘ لیکن ان میں جو بظاہر ناکام نظر آتے ہیں درحقیقت وہ بھی کامیاب ہی ہیں‘ اس لئے کہ انہوں نے اپنی مسئولیت پوری کردی‘ مقصود رضائے الٰہی تھی وہ حاصل ہوگئی۔ بہرحال اگر مقصد ہمارا صحیح ہے اور بہت غور وخوض اور دینی تدابیر کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس طرح یہ کام انجام تک پہنچاناہے اور مقصد حق تعالیٰ کی خوشنودی ہے اور ملک وملت کی خدمت بھی حق تعالیٰ کی رضا کے لئے کرنی ہے تو جادہٴ حق سے کسی وقت بھی ہمارے قدم ڈگمگانے نہیں چاہئیں‘ کوئی ساتھ دے یا نہ دے‘ محض تکثیر سواد کی خاطر تاکہ جماعت قوی ہوجائے‘ ایسے افراد یا جماعتوں سے معاہدہ کرنا جن کا ماضی داغدار ہے یا شرعی معیار پر ان میں نقائص موجود ہیں یا جن کا مقصد محض سیاسی اقتدار وزعامت ہے اور ان معاہدوں سے ان کی دینی غلطیوں پر پردہ پڑ جانے اور آئندہ نسل پر ان کا دینی مسلم مشتبہ ہوجانے کا اندیشہ ہو تو یہ کہاں تک درست ہوگا؟ اس وقت علماء کرام کی جماعتوں میں آراء کا اختلاف بھی ہے اور طریقہ کار کا اختلاف بھی ہے لیکن الحمد للہ! کہ مقصد ایک ہے‘ وہ باطل اور اہل باطل کی سرکوبی ہے‘ اس لئے عوام کو یہ اختلاف برداشت کرنا چاہئے ‘لیکن جو چیز ہروقت پیش نظر رہنی چاہئے وہ یہ ہے کہ ہر جماعت کو اپنی قوت حاصل کرنے کے پیش نظر کوئی قدم ایسا نہیں اٹھانا چاہئے جس سے باطل کو (غیر شعوری ہی سہی ) تائید حاصل ہو اور
”اثمہما اکبر من نفعہما“
․․․یعنی نفع سے نقصان زیادہ ہو ․․․ کا مصداق بن جائے‘ ہم اس کے مکلف ہی نہیں کہ دنیا کی معروف کامیابی سے سرفرازی ہو‘ ہم اس کے مکلف ہیں کہ قدم صحیح اٹھائیں‘ چاہے متعارف کامیابی ہو یا نہ ہو۔ یہ مقصد نہیں کہ صحیح اور جائز‘ معقول اور مؤثر تدابیر اختیار کرنے میں کوتاہی کی جائے‘ اس کے لئے جو ممکن جد وجہد ہو اس میں کوئی کوتاہی نہیں ہونی چاہئے۔ یہ مقصد بھی نہیں کہ اسلامی جماعتوں کے اتحاد کی کوشش سے گریز کیا جائے بلکہ مقصد یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو اختلاف اگر ختم نہ ہوسکے تو اسے کم سے کم کرنے کی کوشش کی جائے‘ لیکن اتحاد کے لئے سب سے اہم شرط دین اور مسلک کا اتحاد ہے‘ یہ معاہدات بھی ایسے ہیں جیسے شرعی معاہدہ عقدِ نکاح ہوتا ہے‘ حدیث میں آتا ہے کہ نکاح میں چار باتوں کا خیال عموماً کیا جاتاہے‘ مال یا حسن وجمال یا دنیوی شرافت وجاہ‘ یا دین‘ حضرت رسول اللہ انے فرمایا :
”تنکح المرأة لأربع لمالہا ولجمالہا ولحسبہا ولدینہا“
پھر فرمایا:
”فاظفر بذات الدین“
یعنی دین ہی کی جہت کو اپنی ظفر وکامیابی سمجھو۔ درحقیقت نبوت کی زبان فیضِ ترجمان سے ایک اصولی بات معلوم ہوئی کہ تمام ظاہری محاسن حسن وجمال‘ ثروت ومال یا وجاہت ومنصب کے بالمقابل صرف دین کو ترجیح دینی چاہئے‘ ظاہری تدبیریں‘ تنظمیں‘ اخبارات‘ پریس کی قوت اور مال ودولت کی شان وشوکت کے مقابل ان جماعتوں یا افراد کو ترجیح وبرتری ہوگی جن میں دین اور دینی خد وخال نمایاں ہوں‘ اتحاد مطلوب ہے تو ان افراد واشخاص یا جماعتوں سے ہو جن کا مقصد دین ہو‘ اور وہ خود دین پر عامل ہوں‘ ورنہ نتیجہ سوائے خسران اور ناکامی اور کیا ہوگا؟ نیز جس جماعت سے معاہدہ ہو تو معاہدے کے اصول سے ہو یعنی مساوات واعتدال کا حامل ہو نہ یہ کہ ایسی جماعت سے معاہدہ کیا جائے کہ آپ کی حیثیت صرف تابعِ مہمل کی ہوجائے‘ آج کل یہی ہورہا ہے کہ ضعیف جماعت کا قوی جماعت سے معاہدہ ہوتا ہے یا تو یہ ضعیف اس قوی میں بالکلیة مدغم ہوکر اپنی حیثیت وشخصیت کھو بیٹھتی ہے یا پھر محض تابع ہوکر اپنی خود داری ختم کر دیتی ہے‘ یہ تمام محنتیں صرف اس لئے کی جاتی ہیں اور نامعقول وناپسندیدہ اشیاء کو برداشت کیا جاتا ہے کہ انتخابات میں کامیابی نصیب ہو اور چند سیٹیں مل جائیں‘ تو کیا الیکشن میں کامیاب ہوناہی اصل مقصد اور منزل مقصود ہے؟ اور کیا الیکشن ہی تمام خرابیوں اور امراض کی دواء ہے؟ کیا اسمبلی کا نظام ہی نسخہٴ شفا اور اکسیر بے نظیر ہے؟ کیا یہ مداہنت فی الدین اسی امید موہوم کے لئے برداشت کی جاتی ہے؟ کیا ہم اس کے مکلف ہیں؟ غور کرنا ہوگا کہ صرف جماعتی وقار اور معاہدہ کی خاطر تمام دین کو پائمال کیا جاسکتا ہے؟
”بسوخت عقل زحیرت کہ ایں چہ بو العجبی ست“
اللہ تعالیٰ صحیح عقل وادراک عطا فرمائے آمین‘ بہرحال جو کچھ خیالِ ناقص میں آیا عرض کردیا گیا۔
حافظ وظیفہٴ تو دعا گفتن است وبس دربندِ آن مباش کہ نشنید یا شنید
قول وعمل کا تضاد اور اسلام
آسمانی وحی میں جن بڑے بڑے جرائم کو حق تعالیٰ کے شدید غضب وناراضی کا سبب قرادیا گیا ہے ان میں سے قول وعمل کے تضاد کو بھی ذکر فرمایا گیاہے‘ قرآن کریم میں سورہٴ صف میں ارشاد ہے:
”یا ایہا الذین آمنوا لم تقولون ما لاتفعلون کبر مقتاً عند اللہ ان تقولوا ما لاتفعلون“۔ (الصف:۲)
ترجمہ:․․․”اے ایمان والو! ایسی بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو خدا کے نزدیک یہ بہت ناراضی کی بات ہے کہ ایسی بات کہو جو کرو نہیں“۔ درحقیقت نفاق بھی یہی چیز ہے کہ زبان پر کچھ ہے اور دل میں کچھ ہے منافقوں کے لئے سزا اور وعید بھی قرآن کریم میں شدید آئی ہے:
”ان المنافقین فی الدرک الاسفل من النار“ (النساء:۱۴۵)
ترجمہ:․․․”بلاشبہ منافقین دوزخ کے سب سے نچلے طبقہ میں جائیں گے“۔
نفاق کی تین صورتیں
اسلام کی اصطلاح میں الحاد اور زندیقیت کا بھی یہی مفہوم ہے‘چنانچہ فقہاء کرام نے زندیق اسی کو بتایا ہے جو زبان سے اسلام کا دعویٰ کرے اور دل میں کفر چھپائے‘ گویا قول وعمل کے تضاد کا نام نفاق ہے اور اس کی تین صورتیں ہیں:
۱:- اول یہ کہ قلبی اعتقاد تو صحیح ہو‘ مگر عمل‘ دعویٰ کے خلاف ہو‘ یہ نفاق فی العمل ہے۔ ۲:- دوم یہ کہ دل سے خدا ورسول کی بات پر سرے سے اعتقاد ہی نہ ہو‘ بلکہ صرف ظاہرداری کے لئے ایمان واسلام کے زبانی دعوے کئے جائیں‘ یہ نفاق اعتقادی کہلاتاہے جو کفر خالص ہے اور اس کے لئے دوزخ کے سب سے نچلے طبقہ کی وعید ہے۔۳:- سوم یہ کہ ایک شخص دل میں عقیدہٴ کفر رکھتا ہے مگر ظاہری طور پر اسلام کا انکار نہ کرے‘ بلکہ بظاہر اسلام کا اقرار کرے اور قرآن وحدیث کی نصوص میں تاویل وتحریف کرکے انہیں اپنے عقائدِ باطلہ پرچسپاں کرے‘ یہ زندقہ اورالحاد کہلاتا ہے جو نفاق فی التعبیر سے پیدا ہوا اور نفاق کا یہ درجہ سب سے اشد ہے‘چنانچہ منافق کی توبہ بالاتفاق مقبول ہے‘ لیکن زندیق کی توبہ بعض علماء کے نزدیک لائق التفات نہیں‘ ان تین مراتب نفاق میں فرق یہ ہے کہ نفاق عملی کی صورت میں ایمان واعتقاد باقی ہے اور عمل کے بہت شعبے بھی موجود ہیں مگر کسی خاص شعبہٴ عمل میں نفاق ہے اور نفاق اعتقادی میں نہ ایمان ہے نہ اسلام‘ نہ عقیدہ ہے نہ عمل‘ صرف ظاہر داری کے لئے دعویٰ ہے‘ یعنی خالص کفر کے باوجود اسلام کا دعویٰ کیا جاتا ہے اور تیسرا مرتبہ اس سے بھی بدتر ہے کہ اس میں نفاق اعتقادی کے ساتھ نصوص میں تحریف کا اضافہ ہوجاتا ہے‘ گویا خالص کفر کوتاویلات کے ذریعے اسلام ثابت کیا جاتاہے‘ الغرض قول وعمل کا تضاد ہو یا نفاق ہو حق تعالیٰ کے نزدیک بدترین جرم ہے اور شدید غضبِ الٰہی کا سبب ہے۔ آج مسلمانوں کا بظاہر عام جرم یہی ہے کہ زبان سے اسلام کا دعویٰ ہے‘ لیکن عمل وہ ہیں جن سے کافر بھی شرمائے اور افرادواشخاص ہوں یا حکومتیں‘ راعی ہوں یا رعایا سب آج اس عظیم معصیت میں مبتلا ہیں‘ نفاق عملی میں تو قریباً سبھی مبتلا ہیں کہ زبان سے دعوے کچھ کئے جاتے ہیں اور عمل کچھ اور ہوتا ہے لیکن بہت سے لوگ تو واقعةً نفاق اعتقادی کے مریض ہیں‘یعنی وہ مسلمان صرف ا س لئے کہلاتے ہیں کہ ان کو مسلمانوں سے واسطہ ہے‘ ورنہ ان کے دل میں اسلام نہیں‘ نہ رسول اللہ ا کے دین کی عظمت ہے‘ نہ رسول اللہا کے فرمودات کا اعتقاد ہے‘ اور بہت سے لوگ اسلام کی پیمائش نفس وشکم کے پیمانے سے کرتے ہیں‘ گویا انسان کو دین اسلام کی اطاعت وفرمانبرداری کے لئے پیدا نہیں کیا گیا‘ بلکہ خود اسلام کو انسانی خواہشات کے پیچھے چلنے کے لئے نازل کیا گیا ہے‘ وہ مسلمانوں پر یہ فرض عائد نہیں کرتے کہ وہ اپنی زندگی اسلام کے ڈھانچے میں ڈھالیں بلکہ وہ اسلام پر یہ فرض عائد کرتے ہیں کہ وہ انسانی خواہشات کے سانچے میں ڈھلتا رہے‘ یہ موجودہ دور میں زندقہ کی ترقی یافتہ شکل ہے‘ خلاصہ یہ ہے کہ آج عمومی طور پر مسلمان نفاق عملی یا اعتقادی میں مبتلا ہے‘ آج ہمیں جو ذلت ونکبت نصیب ہورہی ہے در حقیقت اس منافقانہ طرز زندگی کی سزا ہے۔ 
Flag Counter