Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الاول ۱۴۲۹ھ اپریل ۲۰۰۸ء

ہ رسالہ

3 - 12
تعلیم و تربیت میںشدت نہیں شفقت کی ضرورت
تعلیم وتربیت میں شدت نہیں شفقت کی ضرورت

آج کل ہر چیز انحطاط پذیر ہے اور سب سے زیادہ انحطاط انسانی اقدار میں رونما ہوا ہے۔ سینکڑوں‘ ہزاروں افراد میں انسانی اقدار کے حامل معدودے چند ہی ملیں گے۔ حضور علیہ السلام کا فرمان ہے:
”انما الناس کالابل المائة لاتکاد تجد فیہا راحلة“ ۔(مشکوٰة:۴۵۸)․․․”
ترجمہ :۔لوگوں کی حالت ایسی ہے کہ سینکڑوں اونٹوں میں بمشکل کوئی ایک ہی سواری کے لائق ہوتا ہے“۔
اصل بات یہ ہے کہ انسان وہ ہے جس میں اخلاق خداوندی کاپر تو پایا جاتا ہو‘ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:
تخلقوا باخلاق اللہ“
اللہ والے اخلاق اپنے اندر پیدا کرو‘ اخلاق الٰہی اور اچھی صفات ایسے انسانوں کی صحبت سے میسر آتی ہیں جنہیں خود ان خوبیوں سے وافر حصہ ملا ہو۔
کورس تو الفاظ ہی سکھاتے ہیں
آدمی۔ آدمی بناتے ہیں
حضور علیہ السلام کا فرمان ہے:
”المرء علی دین خلیلہ فلینظر احدکم مع من یخالل“۔(مشکوٰة:۴۲۷):․․․
” انسان اپنے جگری دوست کے طور طریقے اختیار کرتا ہے‘ لہذا دیکھ بھال کر دوستی لگانی چاہئے“۔
شیخ سعدی نے اپنے شاعرانہ انداز میں یہی بات ”مٹی“ کی زبانی نہایت خوبصورت اور بلیغ انداز میں بیان کی ہے‘ فرماتے ہیں:
”میں ایک روز غسل کرنے کے لئے حمام میں گیا جہاں میرے ایک دوست نے مجھے خوشبو دار مٹی دی جسے ملنے سے جسم سے خوشگوار مہک اٹھنے لگتی ہے‘ میں اسے دیکھ کر بہت متعجب ہوا اور خود کلامی کے انداز میں اس سے پوچھا: تو مشک ہے یا عنبر ہے! تیری دل آویز خوشبو نے مجھے مست کرکے رکھ دیا ہے (اور پھر فوراً ہی اس کا جواب میرے کانوں میں گونجنے لگا‘ اسے اگر بولنے کی قوت حاصل ہوتی تو وہ یہی کہتی) کہ: میں ہوں تو ایک ناچیز مٹی! مگر مجھے ایک لمبے زمانہ تک گلاب کے پھولوں کی صحبت میسر آئی ہے“۔
جمال ہم نشیں در من اثر کرد
وگرنہ من ہما خاکم کہ ہستم
ترجمہ:․․․”میرے ہم نشیں کے حسن وجمال کا اثر میرے اندر بھی آگیا‘ ورنہ میں تو وہی مٹی ہوں جو ہوا کرتی ہے“۔فارسی کا مقولہ ہے:
صحبت صالح ترا صالح کند
صحبت طالح ترا طالح کند
ترجمہ:․․․”نیک لوگوں کی صحبت تجھے نیک بنائے گی اور برے لوگوں کی صحبت تجھے برا بنائے گی“۔
اس سے والدین اور اساتذہ کی یہ الجھن بڑی حد تک دور ہوسکتی ہے کہ آج ہمارے بچے نیکی اور خیر کے راستہ کی طرف کیوں نہیں آتے‘ ان کی اصلاح کے لئے ہمیں تشدد اور مارپیٹ کاراستہ کیوں اپنانا پڑتاہے۔ کسی بھی مربی یا استاد کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے آپ کو اخلاق اور کردار کے اعلیٰ معیار پر فائز کرے تاکہ اس کی صحبت میں بچہ بھی نیکی اور صلاح کا خوگر بن جائے‘ جب کوئی مربی اپنے متعلقین پر ناراضگی اور غصہ کے عالم میں تشدد پر اتر اہوا ہو یا کوئی استاد اپنے شاگردوں کو بے نقط سنا رہا ہو اور ڈنڈا لہرالہراکر انہیں سیدہا ہونے کی تلقین کررہاہو تو آپ یقین کرلیں کہ یہ والد یا استاد خود کسی نفسیاتی الجھن کا شکار ہے اور بڑی حد تک ان خوبیوں سے تہی دامت ہے جو وہ اپنے بچہ یا شاگرد میں پیدا کرنا چاہتاہے‘ جب کوئی اپنے شاگرد پر تھپڑوں اور مکوں کی بارش کررہا ہوتا ہے تو وہ درحقیقت اپنے عمل سے اپنی بے بسی اور اپنی شکست کا اعتراف کررہا ہوتاہے اور اپنی صلاحیتوں سے مایوس ہوکر غصہ اور ڈنڈے کا سہارا تلاش کررہا ہوتا ہے۔ حضور ا اپنی امت کے والد بھی تھے‘ پیر بھی تھے اور استاد بھی تھے‘ آپ نے امت کی اصلاح وتربیت کے لئے کبھی اخلاق سے گری ہوئی ناشائستہ باتوں یا ڈنڈے وغیرہ کا سہارا لینے کی کبھی کوشش نہیں کی‘ حضرت انس آپ کی رضاعی خالہ حضرت ام سلیم  کے صاحبزادے اور آپ کے خادم خاص تھے‘ سات آٹھ سال کی چھوٹی عمر میں ان کی والدہ نے آپ ا کی خدمت میں پیش کردیا تھا اور آپ ا کے انتقال تک دس سال کالمبا عرصہ خدمت نبوی میں رہے‘ گھر کا کام کاج بھی کرتے اور دوسرے صحابہ کی طرح قرآن کریم کی تعلیم بھی آپ ا سے حاصل کرتے‘ سفر وحضر میں ہمیشہ ساتھ رہے‘ فرماتے ہیں:
”خدمت النبی صلی اللہ علیہ وسلم عشر سنین فما قال لی اف قط لم صنعت ولا الا صنعت“۔ (مشکوٰة:۵۱۸)
ترجمہ:․․․”میں نے دس سال تک حضور علیہ السلام کی خدمت کی ہے اس عرصہ میں کبھی آپ نے مجھے ”ہوں“ تک نہیں کہا کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں نے کوئی کام کیا ہو اور آپ نے یہ کہا ہو کہ کیوں کیا اور میں نے کوئی کام نہ کیا ہو اور آپ نے کہا ہو کہ تونے یہ کام کیوں نہیں کیا“؟ ایک مرتبہ حضور ا نے مجھے کسی کام کے لئے بھیجا میں راستہ میں ایک تماشہ دیکھنے لگا‘ مجھے کچھ دیر ہوگئی‘ آپ ا میری تلاش میں نکلے اور میرے قریب آکر کھڑے ہوگئے‘ میں نے اچانک مڑکر دیکھا تو آپ کو اپنے سر پر کھڑے پایا‘ آپ نے اس سے زیادہ کچھ نہیں فرمایا: ”اُنیس“ یعنی منے انس! میں تیزی سے نکلا اور کام پورا کرکے آپ کو اطلاع دی‘ اللہ کی قسم! آپ نے نہ مجھے گھورا اور نہ ہی کوئی ڈانٹ ڈپٹ کی۔ صحابی رسول حضرت ابومسعود اپنے خادم کی غلطی پر اسے مارنے لگے تو فرماتے ہیں میں نے پیچھے سے کسی کی آواز سنی:
”اعلم ابا مسعود! اعلم‘ ابا مسعود!
ابو مسعود تمہیں معلوم ہونا چاہئے! ابومسعود تمہیں معلوم ہونا چاہئے! میں آواز کی طرف متوجہ ہوا تو دیکھا کہ حضور ا کھڑے ہیں‘ آپ نے فرمایا: ابو مسعود ! تمہیں یہ جان لینا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کو تمہارے اوپر اس سے بھی زیادہ قدرت حاصل ہے جتنی کہ تمہیں اس غلام پر حاصل ہے۔ نبی کریم انے تربیتی ذمہ داریاں پوری کرنے والوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ اگر تم اپنے ماتحت خادم یا شاگرد کو مارنے لگو تو پہلے سوچ لو کہ مجھ پر بالادستی رکھنے والا بھی کوئی ہے جو میری تقصیرات اور کوتاہیوں پر مجھے سزا دینے کا مکمل اختیار رکھتا ہے۔ بعض مربی حضرات کا یہ خیال ہے کہ: ”لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے“ اس لئے طلباء کو سزا دینا ضروری ہوتا ہے اور وہ ایسی احادیث کا سہارا لیتے ہیں جن میں ”تادیب“ کے لئے گھر میں کوڑا لٹکانے کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔حدیث شریف میں آتا ہے:
”رحم اللہ امرأ علق سوطہ وادب اہلہ“
اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائیں جو گھر میں کوڑا لٹکا کررکھے اور اپنے گھر والوں کی تادیب کرے“۔اس حدیث شریف کا مطلب بیان کرنا کہ: ”ڈنڈا ہاتھ میں لے کر بچوں کی ہڈی پسلی ایک کردے“ یہ حدیث کے ساتھ زیادتی ہے‘ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ بچوں کو یہ احساس دلایاجائے کہ ان کی غلط روش اور ناجائز حرکتوں پر انہیں سزا بھی مل سکتی ہے تاکہ بچے بے حجاب نہ ہوجائیں اور ضرورت سے زیادہ آزادی کے خوگر نہ بن جائیں۔ایک حدیث شریف میں آتا ہے:
”لان یؤدب الرجل ولدہ خیر لہ من ان یتصدق بصاع“ (مشکوٰة:۴۲۳)
․․․․․․․کسی شخص کا اپنے بچہ کو ادب سکھانا ایک صاع صدقہ کرنے سے بہتر ہے۔ بعض حضرات ”ادب سکھانے“ کا مطلب صرف مار دھاڑ کرناہی لیتے ہیں حالانکہ یہ صحیح نہیں ہے‘ ادب سکھانے سے مراد تربیت کرنا ہے ‘ چنانچہ حضور علیہ السلام کافرمان ہے:
”ادبنی ربی فاحسن تادیبی“
میرے رب نے میری بہترین تربیت فرمائی۔ یہاں حضور علیہ السلام نے ”تادیب“ کا لفظ استعمال فرمایا ہے جس کا ترجمہ کسی طرح بھی ”مارنا“ نہیں کیا جاسکتا۔ لہذا تادیب کا مطلب صرف ”مارنا“ بیان کرنا درست نہیں ہے۔ بلکہ تادیب کے صحیح معنی تو تربیت کرنے کے ہی ہیں‘ لیکن بعض اوقات تربیت کے لئے مارنے کی ضرورت بھی پیش آجاتی ہے‘ ایسے مواقع پر اس کے معنی میں مارنا شامل ہوسکتا ہے‘ لیکن یہ یاد رکھئے کہ اس بات کا فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے کہ اب ”مارنے“ کے علاوہ کوئی طریقہ تربیت کے لئے کار گر نہیں ہوسکتا‘ اور دوسری بات یہ ہے کہ بچہ کی کسی بات پر مشتعل ہوکر اسے مار پیٹ شروع کردینا یہ انتقامی کاروائی کہلاتا ہے جس سے آپ اپنا غصہ اتارنا چاہتے ہیں اس سے بچہ کی تربیت کا کوئی تعلق نہیں ہے‘ بلکہ بچہ پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ تشدد کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ بچہ آزاد ماحول میں کام کرنے کے جذبہ سے محروم ہوجاتا ہے اور اس کی عادت بن جاتی ہے کہ تشدد اور مار پیٹ کا دباؤ ہوگا تو کام کرے گا ورنہ بالکل ہی کام چھوڑ دے گا۔ دوسرا نقصان یہ ہے کہ بچہ ڈھیٹ اور کام چور ہوجائے گا۔ ایک نقصان یہ بھی ہے کہ مدرسہ اور استاد کے بارے میں بچہ کے دل میں نفرت کے جذبات پیدا ہونے لگتے ہیں اور نتیجہ کے طور پر بچہ تعلیم سے محروم رہ جاتا ہے‘ بہت سے طلباء دیکھے ہیں جو مار پیٹ کے خوف سے مدرسہ چھوڑ گئے اور حفظ قرآن جیسی نعمت عظمی سے محروم ہوگئے۔ کسی کو قرآن کریم سے محروم کرنا کتنا بڑا جرم ہے‘ اگر ہماری بے احتیاطی سے کوئی بچہ تعلیم قرآن سے محروم ہوگیا تو ہمارے لئے کتنے بڑے وبال کا باعث ہوگا اگر ”مارنے“ کے بغیر کوئی چارہٴ کار ہی نہ رہ جائے تو ایسی صورت میں مندرجہ ذیل باتیں پیش نظر رکھی جائیں:
۱-غصہ کی حالت میں نہ ماریں بلکہ ایسی حالت میں ماریں جب غصہ اتر چکا ہو حضور ا نے فرمایا:
”لایقضین حکم بین اثنین وہو غضبان“(مشکوٰة:۳۲۴)
فیصلہ کرتے وقت قاضی کو غصہ میں فیصلہ نہیں کرنا چاہئے۔ علماء فرماتے ہیں کہ غصہ کی حالت میں ذہنی کیفیت میں اعتدال نہیں ہوتا‘ اس لئے انصاف نہیں کرسکتا۔ مارنے والا بھی غصہ کی حالت میں بچہ کے ساتھ انصاف نہیں کرسکے گا۔
۲- لکڑی یا کوڑے سے نہ مارے بلکہ ہاتھ سے یا کپڑے سے مارلے۔
۳-اتنی زور سے نہ مارے کہ نشان پڑجائیں بعض استاد مارنے میں اپنی پوری قوت صرف کردیتے ہیں جس سے بچہ کے جسم پر انگلیوں کے نشان یا نیل اور کالے دھبے پڑ جاتے ہیں اس بے دردی سے مارنا شریعت کے خلاف ہے۔ سورہ نساء کی آیت نمبر ۳۴ میں اللہ تعالیٰ نے نافرمان بیویوں کی اصلاح کے لئے ”واضربوہن“ فرماکر مارنے کی اجازت دی ہے‘ اس کی تفسیر میں امام رازی  فرماتے ہیں:
”آیت کریمہ کے سیاق سے پتہ چلتا ہے کہ مار پیٹ کی بجائے وعظ ونصیحت پر اکتفاء کرنا بہتر ہے اور اگر مارنا ہی ضروری ہوجائے تو کوڑے یا لکڑی سے نہ مارے‘ کپڑے کو بل دیکر مار لے یا ہاتھ سے مار لے‘ مگر اتنا زور سے نہ مارے جس سے ہلاک ہوجانے یا زخم لگ جانے کا اندیشہ ہو‘چہرہ پر نہ مارے اور ایک ہی جگہ پر نہ مارے‘ بلکہ بدن کے مختلف حصوں پر مارے“۔ (تفسیر کبیر ص:۹۰ج:۱۰)
امام قرطبی اسی آیت کی تفسیر کے ضمن میں فرماتے ہیں:
”الضرب فی ہذہ الآیة ہو ضرب الادب غیر المبرح وہو الذی لایکسر عظما ولایشین جارحة کاللکزة ونحوہا وکذلک القول فی ضرب المؤدب غلامہ لتعلیم القرآن والادب“۔ (تفسیر قرطبی ص:۱۷۲‘ج:۵)
”اس آیت میں ضرب سے ایسی ضرب مراد ہے جس سے نشان نہ پڑے ‘ نہ ہڈی ٹوٹے اور نہ ہی کسی عضو میں خرابی پیدا ہو جیسے چپت وغیرہ رسید کردینا اپنے غلام کو قرآن کریم کی تعلیم یا اصلاح وتربیت کے لئے مارنے کا بھی یہی حکم ہے“۔
خلاصہ ٴ کلام یہ ہے کہ تعلیم وتربیت کا تعلق ماردھاڑ اور گالی گلوچ سے نہیں‘ بلکہ خود اپنی ذات کی اصلاح وتربیت کے ساتھ ہے‘ بناہوا انسان دوسروں کو بھی بنائے گا اور بگڑا ہوا انسان دوسروں کے بھی بگاڑ اور فساد کا ذریعہ بنے گا۔فارسی کا مقولہ ہے: ”خفتہ را خفتہ کے کند بیدار“ یعنی جو خود سورہا ہو وہ دوسرے سونے والے کو کب بیدار کرسکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق جوڑنے کے لئے کسی اللہ والے کی صحبت اختیار کیجئے! اپنی اولاد اور شاگردوں میں واضح تبدیلی محسوس کریں گے۔ آخر میں عرض ہے کہ تہجد میں رو رو کر اپنے بچوں اور شاگردوں کے لئے نام بنام دعاء کا بھی اہتمام کیجئے‘ حضرت اقدس مولانا قاری رحیم بخش  سے کسی نے عرض کیا کہ حضرت آپ کے ہاں محنت اور سختی بہت ہے مگر اس کے باوجود آپ کی کلاس میں داخلہ کے لئے طلباء کئی کئی سال تک اپنی باری آنے کا انتظار کرتے ہیں‘ آپ سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اور کلاس میں آنے کے بعد بھاگتے نہیں ہیں‘ حضرت نے فرمایا: آپ نے میری کلاس کی محنت اور سختی تو دیکھ لی مگر ان طلباء کے لئے میری تہجد کی دعائیں اور راتوں کا رونا نہیں دیکھا‘ میں تو حج اور عمرہ کے موقع پر بھی اپنے شاگردوں کو نہیں بھولتا اور غلاف کعبہ پکڑ پکڑ کر ان کے لئے دعائیں کرتا ہوں‘ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور اکی بعثت اور امت محمدیہ کا وجود حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعاء کا نتیجہ ہے‘ دعاء کے لئے ہاتھ پھیلا کر اللہ تعالیٰ سے اپنے بچوں اور شاگردوں کی زندگی میں تبدیلی کی درخواست کریں‘ یہ دعا ایسا نسخہ اکسیر ہے کہ اسلام لانے سے پہلے عمر بن خطاب جیسا سنگدل انسان بھی پسیج جاتا ہے اور حضور ا کی دعاء کی برکت سے خدمت نبوی میں حاضر ہوکر خادم قرآن اور فاروق اعظم کے خطاب سے سرفراز ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے قرآن کریم کے خادموں میں شامل فرمالیں اور دنیا وآخرت میں تلاوت قرآن کی لذت وحلاوت عطا فرمائیں۔
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , ربیع الاول ۱۴۲۹ھ اپریل ۲۰۰۸ء, جلد 71, شمارہ 3

    پچھلا مضمون: حرام کمائی کی وجہ سے عبادات چھوڑنا
Flag Counter