Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ذوالقعدہ ۱۴۲۸ھ دسمبر۲۰۰۶ء

ہ رسالہ

5 - 7
کامیاب استاذ کی صفات
کامیاب استاذ کی صفات


جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاوٴن کے رئیس وشیخ الحدیث حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندردامت برکاتہم العالیہ نے پاکستان اور بیرون پاکستان عربی لغت اور عربی بول چال کی تدریس اور طریقہ تعلیم کے دوران طلبہ کو جو نصائح اورمفید معلومات ارشادفرمائیں، ان کا مجموعہ” تعلیم اللغة العربیة لغیر الناطقین بھا“ کے عنوان سے عربی میں چھپ چکا ہے ،مدرسین اور نئے اساتذہ کے لیے کامیاب استاذ کی صفات کے نام سے ایک اہم مضمون اس میں درج ہے ،افادئہ عام کی غرض سے اس کااردوترجمہ ہدیہ قارئین ہے۔ (ادارہ)

تعلیم وتدریس ایک مقدس ومعزز اور قابل احترام منصب ہے، جس کے لیے کچھ شرائط اور آداب ہیں، جن کا جاننا اور ان کی عملی مشق کرنا ایساہی ضروری ہے، جیسے کسی فن کو سیکھنے کے لیے اس کی عملی مشق ضروری ہوتی ہے۔ فنِ تدریس کے لیے ذوق، فطری صلاحیت اوراس منصب کے تقاضوں کی ادائیگی کے لیے توجہ،محنت اور مشقت کی ضرورت ہے، تاکہ اسے سیکھنے والا ایک معلم کامل بن کر نکلے اور اس میں ایک کامیاب استاذ کی صفات اور خصائص موجود ہوں۔ جس سے اس کے تجربہ میں مزید اضافہ ہوتا رہے ۔نیز جب وہ تدریس کے میدان میں قدم رکھے تو طلبہ اس سے مستفید ہوں۔ اور وہ خود بھی علمی اور روحانی لذت محسوس کرسکے۔ تعلیم وتدریس ایک مقدس منصب ہے جو سیدالانبیاء حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی اعلیٰ صفات میں سے ایک صفت اور فرائض نبوت میں سے ایک فریضہ ہے۔ ارشاد باری ہے:
”لَقَدْ مَنَّ اللهُ عَلَی الْمُوٴْمِنِیْنَ اِذْبَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلاً مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْ عَلَیْھِمْ آیَاتِہ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَاِنْ کَانُوْا قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٍo (آل عمران ۔:۱۶۴)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
”إنَّ اللهَ لَمْ یَبْعَثْنِیْ مُعَنِّتًا وَلَا مُتَعَنِّتاً،وَلٰکِن بَعْثَنِی مُعَلِّمًا مُیَسِّراً۔“
(صحیح مسلم،کتاب الطلاق،باب بیان أن تخییرالمرأة لایکون طلاقاً)
اسی بناپرجو عالم دین، قرآن کریم یا کسی شرعی علم کی تدریس کا کام سرانجام دے رہا ہے، وہ اِس صفت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت کررہا ہے،لہٰذا اسے یہ جاننا چاہیے کہ وہ ایک سعادت مند انسان ہے اور اسے یہ سعادت مندی مبارک ہو۔ ان شرعی علوم میں سے ایک علم عربی لغت بھی ہے جو قرآن کریم کی زبان،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اور شریعتِ اسلامیہ کی زبان ہے۔ چونکہ تعلیم وتربیت کے ذریعہ استاذ کے اثرات شاگردوں پر پڑتے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو امت کے لیے معلم اور مربی بناکر بھیجا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم وتربیت خود اللہ تعالیٰ نے فرمائی،جیساکہ قرآن کریم ارشادہے
”وَعَلَّمَکَ مَالَمْ تَکُنْ تَعْلَمْ“ (النساء :۱۱۳)
اور خوب تربیت فرمائی،جیساکہ ارشادہے:
”وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْم۔“ (لقلم:۴)
اس لیے آپ ا ایک اعلیٰ اور کامل معلم تھے، ایسا باکمال معلم کہ نہ آپ سے پہلے کسی نے دیکھااور نہ آپ کے بعد کسی نے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اعلیٰ صفات میں کمالِ علم،عظیم حکمت،اعلیٰ اخلاق، شاگردوں کے ساتھ شفقت ورحمت، ان کی تعلیم و تربیت کے لیے نہایت عمدہ اور مفیداسالیب کا استعمال اور ان کی خبرگیری جیسے صفات اپنے کمال کی انتہاء کو پہنچے ہوئے تھے۔ اس لیے جو معلم اور استاذ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نائب بننا چاہے اور فنِ تدریس میں کمال تک پہنچنے کا خواہش مند ہوتو اُسے چاہیے کہ پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات وکمالات جو اِس میدان سے متعلق ہیں، معلوم کرے اور پھر اِن صفات میں آپ کے نقشِ قدم پر چلے۔جیساکہ ارشادباری ہے:
”لَقَدْکَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ۔“( الاحزاب :۲۱)
اب میں اختصار کے ساتھ چند ایسی صفات کا ذکر کروں گا جو ایک کامیاب استاذ اور مدرس کے لیے ضروری ہیں اور ضمنََا ان کی مثالوں کی طرف اشارہ کرتا جاؤں گا، کیونکہ میرے سامنے اِس وقت دورہٴ حدیث سے فارغ ہونے والے فضلاء ہیں اور یہ مثالیں اُن کے ذہنوں میں ابھی تروتازہ ہیں، کیونکہ وہ حال ہی میں احادیث پڑھ کر فارغ ہوئے ہیں۔وہ صفات مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ عِلم میں کمال
کامیاب استاذ کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ امکانی حد تک علم میں کمال رکھتاہو،خصوصاً اُس مضمون اور فن میں جس کے پڑھانے کی ذمہ داری اس پر ڈالی گئی ہے، کیونکہ استاذ کو جس مضمون میں جتنی مہارت اور دست رَس ہوگی اتنا ہی زیادہ وہ طلبہ کو فائدہ پہنچاسکے گا۔ لہٰذا متعلقہ مضمون میں کمال حاصل کرنے کے لیے استاذ کو چاہیے کہ وہ
۱:․اس مضمون کی بنیادی کتابیں ہمیشہ اپنے زیرمطالعہ رکھے ۔
۲:․ جو کتاب اُسے پڑھانی ہے اسے باربار دیکھے ۔
۳:․ دوران مطالعہ اگر کسی عبارت یا کسی مسئلہ کے سمجھنے میں دِقت پیش آئے تو اپنے استاذ سے مراجعت کرے ۔
۴:․ اگر اپنا استاذ نہ ہوتو اُس مضمون کے کسی ماہر استاذ سے رجوع کرے ،اس سے پوچھے ، اس کے ساتھ مذاکرہ کرے اور اس میں شرم محسوس نہ کرے، کیونکہ علم حاصل کرنے میں شرم نہیں۔
۲۔فصاحت وبلاغت
۱:․ایک کامیاب استاذ کے لیے فصیح وبلیغ ہونا ضروری ہے، لہٰذا جس زبان میں وہ طلبہ کو پڑھارہا ہے، اس زبان پر اُسے دَسترَس ہونی چاہیے، تاکہ وہ اپنے مافی الضمیر اور کتاب کے مضمون کو فصیح وبلیغ انداز میں طلبہ کے سامنے پیش کرسکے، جس سے ایک معمولی صلاحیت رکھنے والا طالب علم بھی اسے سمجھ سکے ۔
۲:․ دوران تدریس وہ زبان استعمال کرے جو سامنے بیٹھنے والے طلبہ کی ذہنی سطح کے مطابق ہو، نہ اُن کی سطح سے اتنا اونچی ہو کہ ان کی سمجھ سے بالاتر ہو اور نہ اتنا نیچی کہ استاذ عوامی سطح پر اتر آئے۔
۳:․گفتگو میں ایک ربط اور ترتیب ہو، ٹھہرٹھہر کر بولے، جلدی نہ کرے، تاکہ سننے والا اُستاذ کے ہرہرجملہ کو سنے اور سمجھ جائے۔
۴:․ اگر مضمون ایسا ہوجس میں جملوں کو دُھرانے اور بار بار کہنے کی ضرورت ہے، تو انہیں بار بار دھرائے، خصوصاً جب عربی زبان کا مضمون ہو۔
أم الموٴمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بحیثیت معلم کامل آپ کی صفات بیان کرتے ہوئے آپ اکے اندازِگفتگو کے بارہ میں فرماتی ہیں:
”کان رسول الله صلی الله علیہ وسلم لایسردالکلام کسردکم، ولکن إذاتکلم تکلم بکلامٍ فصل، یحفظہ من سمعہ۔“ (الفقیہ والمتفقہ للخطیب:۲/۱۲۴)
ترجمہ:․․․” رسول الله صلی الله علیہ وسلم تمہاری طرح جلدی جلدی گفتگو نہیں فرماتے تھے لیکن آپ جب گفتگو فرماتے تو ٹھہرٹھہر کر گفتگو فرماتے، جو بھی اسے سنتا وہ اسے یاد کرلیتا۔“
حضرت انس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں :
”أنہ کان إذاتکلّم بکلمة أعادھاثلاثا،حتی تفھم عنہ۔“(بخاری:۱/۱۲۹)
ترجمہ :․”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب گفتگو فرماتے تو(بوقت ضرورت) اسے تین بار دُھراتے، تاکہ سُننے والے اسے اچھی طرح سمجھ جائیں۔“
۳۔اسالیب اور اندازِ تعلیم
کامیاب استاذ کی صفات میں سے ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ تدریس کے مختلف اسالیب اور انداز سے واقف ہو، اور یہ جانتا ہو کہ کس فن کو کس طرح پڑھایا جاتاہے اور خصوصاً اس فن کو جسے وہ پڑھارہا ہے اور یہ بھی جانتا ہو کہ مضمون بدلنے یا طلبہ کی ذہنی سطح اور استعداد کے مختلف ہونے سے اسلوب کس طرح بدلاجاتاہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعلیم وتربیت میں مختلف اسالیب اور انداز استعمال فرماتے تھے ،جہاں آپ ا سامعین کی رعایت فرماتے ،وہاں ان کی حالت کے مطابق اسلوب بھی تبدیل فرماتے۔ یہ مستقل موضوع ہے جس پرایک مستقل رسالہ لکھاجاسکتا ہے۔ یہاں اختصار کے ساتھ چند اسالیب کا ذکرکیاجاتا ہے:
ا۔ نصوص اور عبارات کا یاد کرانا
بعض مضامین ایسے ہوتے ہیں جن کی نصوص اور عبارات کا یاد کرنااور ان کے الفاظ کی حفاظت کرنا ضروری ہوتا ہے ، جیسے قرآن کریم کی آیات اور ماثور دعائیں۔ اس سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کا انداز یہ تھا کہ آپ منبر پر بیٹھ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے قرآن کریم یا ماثور دعاؤں کا ایک ایک جملہ پڑھ کر سناتے اور صحابہ کرام اسے سن کر دُہراتے اور اُسے یاد کرتے۔ حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ:
”کان رسول الله صلی الله علیہ وسلم یعلّم الناس التشھد علی المنبرکمایعلّم المکتب الصبیان‘ ‘(الفقیہ والمتفقہ للخطیب:۲/۱۲۴)
ترجمہ :․”رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر بیٹھ کر لوگوں کو تشہد اس طرح سکھاتے تھے جیسے استاذ مکتب والے بچوں کو سبق یاد کراتا ہے۔“
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
”کان رسول الله صلی الله علیہ وسلم یُعلِّمنا الاستخارة فی الأمرکماکان یعلمنا السورة من القرآن“
(جامع مسانید الإمام الأعظم للخوارزمی: ۱/۳۸۵)
یعنی رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں دعاءِ استخارہ اس طرح سکھاتے تھے جس طرح آپ ہمیں قرآن کی سورت سکھاتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ:
”أن النبی صلی الله علیہ وسلم کان یعلّمھم الدعاء کما یعلّمھم السورة من القرآن، یقول:قولوا: اللھم إنی اعوذبک من عذاب جہنم،واعوذبک من عذاب القبر، واعوذبک من فتنة المسیح الدجّال، واعوذبک من فتنة المحیا والممات ۔“ ( مسنداحمدبن حنبل:۴/۲۷)
یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کو دعاء اس طرح سکھاتے تھے جس طرح ان کو قرآن کریم کی سورت سکھاتے تھے۔آپ اصحابہ کرام کوفرماتے: کہو، اے اللہ! میں جہنم کے عذاب سے آپ کی پناہ چاہتا ہوں، میں قبر کے عذاب سے آپ کی پناہ چاہتا ہوں، مسیح دجّال کے فتنہ سے آپ کی پناہ چاہتا ہوں، زندگی اور موت کے فتنہ سے آپ کی پناہ چاہتا ہوں۔ تعلیمی میدان میں جن مضامین کی عبارات اور نصوص کا یاد کرنا ضروری ہوتا ہے، اس کے لیے یہی اسلوب زیادہ مناسب او رمفید ہے، جیسے آج بھی اسکولوں میں پہاڑے اور گنتی یاد کرائی جاتی ہے۔
ب۔ تعلیم بذریعہ سوال وجواب
تعلیم کا ایک اسلوب یہ بھی ہے کہ استاذ ایک طالب علم کو سب طلبہ کے سامنے کھڑاکرے اور اس سے سوال کرے اور وہ طالب علم سب طلبہ کے سامنے اس کا جواب دے ،یا استاذدوطالب علموں کو کھڑا کرے جن میں سے ایک دوسرے سے سوال کرے اور دوسرا اسے جواب دے۔ اس اندازِ تعلیم میں طلبہ کو تعلیم پر توجہ زیادہ رہتی ہے اور اس سے ان کے دلوں میں تعلیم کا شوق اورولولہ پیدا ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں طلبہ اپنی آنکھ،کان اور فکر کے ساتھ متکلم کی طرف ہمہ تن متوجہ ہوجاتے ہیں، جس سے وہ علمی مضمون دل میں اچھی طرح بیٹھ جاتا ہے۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم دین کے کسی اہم مسئلہ کی تعلیم کے وقت عموماََیہ انداز اختیار فرماتے تھے، جیسے عقائد اور مغیبات وغیرہ کی تعلیم کے وقت۔ جس کی مثال حضرت جبریل علیہ السلام کی وہ مشہور حدیث ہے جس میں ایمان،اسلام،احسان اور علاماتِ قیامت کا ذکرکیاگیاہے۔ روایت میں ہے کہ ایک نوجوان ایک طالب علم کی صورت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر ہوا،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بیٹھے تھے، وہ نوجوان باادب حضور ا کے متصل سامنے بیٹھ گیا ،اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دین کے بارے میں چند سوالات کئے ، آپ انے ان کے جوابات دئیے، صحابہ کرام یہ سارا منظر دیکھ او رسن رہے تھے او راس سے مستفید ہورہے تھے۔ اس کے سوالات یہ تھے:
سوال:آپ مجھے بتائیں کہ اسلام کیا ہے؟
جواب: آپ ا نے ارشاد فرمایا:اسلام یہ ہے کہ تم اس بات کی گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور تو نماز قائم کرے، اور زکوٰة ادا کرے اور رمضان کے روزے رکھے اور بیت اللہ کا حج کرے، اگر تو وہاں جانے کی استطاعت رکھتا ہے۔
سوال:آپ مجھے ایمان کے بارے میں بتائیں کہ ایمان کیا ہے؟
جواب: آپ ا نے ارشاد فرمایا:ایمان یہ ہے کہ تم ایمان لاؤ اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر،اس کے رسولوں پر، قیامت کے دن پر ، اور تم ایمان لاؤ اچھی اور بُری تقدیرپر۔
سوال: آپ مجھے احسان کے بارے میں بتائیں کہ احسان کیا ہے؟
جواب: آپ ا نے ارشاد فرمایا: احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح بجالاؤ کہ گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، اگر تم اسے دیکھ نہیں سکتے تو یہ خیال کرلوکہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔
سوال:قیامت کب آئے گی؟
جواب:حضور انے فرمایا:جس سے تم پوچھ رہے ہو ،وہ سائل سے زیادہ اس بارے میں نہیں جانتا۔
سوال:آپ مجھے قیامت کی علامات بتائیں؟
جواب: آپ ا نے فرمایا:قیامت کی علامات میں سے یہ ہے کہ باندی اپنے مالک کو جنے گی، اور تم ایسے لوگوں کودیکھوگے جو ننگے پاؤں ، ننگے بدن ، غریب اور بکریاں چرانے والے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر لمبی لمبی عمارتیں بنانے لگیں گے۔
یہ آنے والا طالب علم آپ سے سوال وجواب کے بعد مجلس سے اُٹھ کر چلاگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمررضی اللہ عنہ سے پوچھا: جانتے ہو، یہ کون ہے؟انہوں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ جبریل(علیہ السلام) ہیں، وہ اِس لیے آئے تھے تاکہ تمہیں تمہارا دین سکھائیں۔(حدیث کی اصل عبارت کو صحیحین میں دیکھاجائے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان میں غور کریں:
(إِنَّہُ جِبْرِیْلُ أَتَاکُمْ یُعَلِّمُکُمْ دِیْنَکُمْ)
کہ حضرت جبریل علیہ السلام نے صحابہ کو دین سکھانے کے لیے ”سوال وجواب“ کا انداز اختیار کیا!جس سے معلوم ہوا کہ سیکھنے سکھانے کا یہ اسلوب اور انداز بہت ہی قابل عمل اور مفید ہے۔
ج۔تعلیم بذریعہ عمل
اسلام کی زیادہ تر تعلیمات عمل سے تعلق رکھتی ہیں، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان تعلیمات کو عملاً صحابہ کرام کے سامنے پیش فرماتے تھے اورصحابہ کرام آپ کوعمل کرتے ہوئے دیکھ کر آپ کی اتباع کرتے تھے،چنانچہ جب نماز فرض ہوئی اور (اَقِیْمُواالصَّلَاةَ)کاحکم نازل ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عملاً صحابہ کرام کے سامنے نماز ادا کی اور فرمایا:”صَلُّوْا کَمَارَأیْتُمُو نِیْ اُصَلِّیْ۔“ تم اسی طرح نماز ادا کرو، جس طرح تم مجھے نماز ادا کرتے ہوئے دیکھتے ہو۔
اسی طرح جب حج کی فرضیت ا س آیت مبارکہ :
”وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلاً۔“(آل عمران :۹۷)
کے ذریعہ نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹنی پر بیٹھ کر مناسک حج ادا کئے، تاکہ ہر شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر ویسا ہی عمل کرے جیسے آپ عمل فرمارہے ہیں، اور آپ نے اعلان فرمایا:”خُذُوْا عَنِّی مَنَاسِکَکُمْ۔“یعنی اپنی عبادت کے طریقے مجھ سے سیکھ لو۔ احادیث میں اس طرح کی بہت سی مثالیں ہیں، اورعملی احکام کو سکھانے کے لیے یہی کامیاب طریقہ ہے اور جدید علمی اداروں میں عملی مضامین میں یہی اسلوب اختیارکیاجاتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ فقہاء کرام اور علماء اصول کے ہاں تواتر عملی ایک اہم شرعی دلیل شمار کی جاتی ہے۔
د۔ تعلیم بواسطہ قول وعمل
اس کی صورت یہ ہے کہ متعلقہ مضمون کی عبارت اور نصوص کے معانی اور مطالب کو پہلے اس طرح بیان کردیا جائے کہ سب طلبہ اس کو اچھی طرح سمجھ جائیں ، اگر اُس کا تعلق عمل سے بھی ہو توپھر استاذ ان کے سامنے اسے عملاً پیش کرے۔ اس اندازِ تعلیم سے طلبہ کے لیے علم اور عمل دونوں کا سیکھنا بہت ہی آسان ہوجاتاہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ :
”ہم جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دس آیات سیکھ لیتے تو اس وقت تک بعدوالی دس آیات نہ سیکھتے جب تک ان دس آیات پر عمل کرنا نہ سیکھ لیتے۔“
(المستدرک للحاکم:۱/۵۵۷)
۵۔تعلیم میں نقشہ اور تختہ سیاہ کا استعمال
بعض مضامین ایسے ہوتے ہیں جن کو سمجھانے کے لیے تختہ سیاہ اور نقشہ کی ضرورت پڑتی ہے، جس کے ذریعہ بعض حقائق کا طلبہ کو سکھانا آسان ہوجاتاہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض معنوی حقائق کو سمجھانے کے لیے یہ انداز بھی اختیار فرمایا ہے۔جیساکہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مربع خط کھینچا۔ پھر اس مربع خط کے درمیان میں ایک خط کھینچا پھر اس درمیانے خط کے دونوں جانب چھوٹے چھوٹے خط کھینچے اور ایک خط مربع خط کے باہر کھینچا۔پھر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے فرمایا: جانتے ہو یہ کیا ہے؟سب نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ درمیانہ خط انسان کی مثال ہے، اور اس کے دائیں بائیں چھوٹے چھوٹے خطوط وہ عوارض ہیں جو اُسے زندگی میں پیش آتے ہیں،اگر ایک سے چُھوٹ گیا تو دوسرا پکڑلیتا ہے اور جو مربع خط ہے یہ اس کی اجل ہے اور اس کے ساتھ جو خط باہر جارہا ہے ، وہ اس کی اُمیدیں اور آرزوئیں ہیں۔ (مسندامام احمد:۵/۲۳۷)
۶۔تعلیم بذریعہ ضرب المثل
کسی معنوی اورغیرمحسوس حقیقت کو سمجھانے کے لیے اچھا طریقہ یہ ہے کہ استاذطلبہ کے سامنے اس کی ایک حِسّی مثال پیش کرے اور پھر اس معنوی حقیقت کو اس پر قیاس کرکے طلبہ کے اذھان کے قریب کردے۔ کتبِ حدیث میں اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ یہاں اُن میں سے ایک مثال ذکر کی جاتی ہے،جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اچھے اور بُرے ہم نشین اور ساتھی کے اثرات کو بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:
”اچھے ہم نشین اور بُرے ہم نشین کی مثال ایسی ہے جیسے مُشک بیچنے والا اور بھٹیارہ۔ پس مُشک بیچنے والا یا تو تمہیں مُشک پیش کرے گا یا تم خود اس سے مُشک خریدلوگے، یا(کم ازکم)اس کے پاس سے خوشبو آتی رہے گی۔ اور بھٹیارہ یا تو تمہارے کپڑے جلادے گا۔یا(کم ازکم) اس سے بدبو تمہیں پہنچے گی۔“ (متفق علیہ)
۷۔سوال کے ذریعہ اذھان کو مشغول کرنا
تعلیم کا ایک انداز یہ بھی ہے کہ استاذ پڑھاتے وقت طلبہ کے سامنے ایک یا ایک سے زائد سوال پیش کرکے سب کے اذھان کو مشغول کردے، تاکہ وہ جواب سوچیں، پھر ان سے جواب سنے۔اگر جواب صحیح ہے تو ان کی تصویب کرے ۔وگرنہ صحیح جواب کی طرف ان کی راہنمائی کرے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کی تعلیم میں یہ اسلوب بھی اختیار فرماتے تھے، خصوصاً جب کسی کا امتحان لینا مقصودہو۔ نیز اس انداز سے طلبہ میں سوچنے اور حقائق میں غوروفکر کرنے کی عادت پڑتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذبن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب یمن کا گورنراور قاضی بناکر بھیجنا چاہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے سوال کیا کہ لوگوں کے مقدمات کا فیصلہ کیسے کروگے؟ اس پر حضرت معاذ نے تفصیلی جواب دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا جواب سُن کر ان کی تصویب فرمائی اور اس پر اللہ کا شکرادا کیا۔ تعلیم وتدریس کے ان اسالیب کے علاوہ اور بھی مختلف انداز ہیں جن کا تعلق تعلیم کے اعلیٰ مراحل سے ہے،اس لیے اُن کو یہاں ذکرنہیں کیاگیا، لہٰذا عربی کے اساتذہ کرام کو چاہیے کہ مذکورہ بالااسالیب میں سے جو اسلوب بھی مناسب سمجھیں اسے موقع ومحل اور مخاطب کے اعتبار سے استعمال میں لائیں۔
۴۔درس کی تیاری
عربی پڑھانے والے اساتذہ کرام اگر چاہتے ہیں کہ وہ کامیاب مدرس بنیں اور طلبہ ان سے خوب فائدہ اٹھائیں، تو انہیں چاہیے کہ ہر سبق پڑھانے سے پہلے اسے خوب دیکھیں اور اچھی طرح اس کا مطالعہ کریں، اگر کسی عبارت یا لفظ میں طباعت کی غلطی دیکھیں تو اسے درست کردیں اور پڑھاتے وقت طلبہ سے بھی وہ غلطی درست کرالیں۔ نیزسبق پڑھانے سے پہلے سبق کامکمل نقشہ ذہن میں بنالیں کہ آپ اسے کس طرح طلبہ کو پڑھائیں گے۔
تنبیہ
یاد رہے کہ کتابوں میں کبھی کاتب کی غلطی سے (جو عموماً غیرعلماء ہوتے ہیں)یا حروف جوڑتے وقت یا ٹائپ کرتے وقت بعض آیات کریمہ، اسی طرح احاد یث شریفہ یا کسی عبارت میں طباعت کی غلطیاں رہ جاتی ہیں،لہٰذا ایسی ا غلاط کوبجائے اس کے کہ مصنف کی طرف منسوب کرکے اسے تحریف کا مرتکب قرار دیا جائے ،جو کہ ایک موٴمن کی دیانت کے خلاف ہے ،بلکہ اسے درست کرلینا چاہیے۔ خصوصاً جب کہ وہ عالم ثقہ،بااعتماداوراہلِ علم میں مسلمہ شخصیت بھی ہو۔
ترغیب
طلبہ کے دلوں میں ترغیب کے ذریعہ علم اور اُس مضمون کا شوق پیدا کرنا ایک کامیاب استاذ کی صفات میں سے ہے، تاکہ طلبہ کے ذہنوں میں اس علم اورمضمون کی اہمیت پیدا ہو، اور وہ اس علم کوشوق ورغبت سے حاصل کریں۔اس کے لیے استاذ کو کتبِ حدیث میں ”کتاب العلم“کا مطالعہ کرکے اس میں سے چندمطلوبہ احادیث کا انتخاب کرنا چاہیے۔
طلبہ کے ساتھ شفقت ورحمت
استاذ کو طلبہ پر نہایت شفیق اور ان کے ساتھ نرمی اور رحم کا سلوک کرنا چاہیے،استاذ طلبہ کو اپنی اولاد کی طرح عزیز سمجھے، ان کی تعلیم پر خصوصی توجہ دے۔ ان کی تربیت،علم،اخلاق،اور اچھی عادات اپنانے میں ان پراس طرح محنت کرے جس طرح اپنی اولاد کے لئے کرتا ہے ۔
طلبہ کی نگرانی
استاذ کے فرائضِ منصبی میں یہ بھی داخل ہے کہ درسگاہ اور درسگاہ سے باہر حتی الامکان طلبہ پر نگاہ رکھے اور دیکھے کہ وہ علم میں آگے بڑھ رہے ہیں یا نہیں؟خصوصاً اس مضمون میں جس کو وہ استاذ انہیں پڑھارہا ہے اور دیکھے کہ کیا وہ درسگاہ میں سبق کے دوران توجہ سے بیٹھتے ہیں؟ کیا وہ محنت کرتے ہیں؟تکرار اور مطالعہ کرتے ہیں؟اسباق میں پابندی سے حاضر ہوتے ہیں یانہیں؟ وغیرہ نیز جہاں تک ممکن ہو ان کی اخلاقی حالت کا بھی خیال رکھے، وقتاََفوقتاََ ان کے حالات معلوم کرتا رہے کہ وہ درسگاہ سے باہر کیسے رہتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کی خبرگیری فرماتے تھے، اگر کسی کو نہ دیکھ پاتے توپوچھتے کہ فلاں کیوں نہیں آئے؟ اگر معلوم ہوا کہ وہ بیمار ہیں تو آپ ان کی بیمارپُرسی کے لیے تشریف لے جاتے۔
عربی زبان کی قدرومنزلت
ایک طالب علم میں بنیادی طور پر علم کا شوق اور اس کے حصول کا جذبہ ہونا چاہیے، تاکہ وہ علم کو اپنا مقصد بناکر اسے حاصل کرنے کے لیے پوری پوری محنت کرے۔ طالبِ علم میں علم کا شوق اوراس کی محبت کبھی فطری ہوتی ہے، افراد کے اعتبار سے اس میں قلت وکثرت کااعتباراگرچہ رہتاہے اور بعض میں یہ شوق بہت ہی کم ہوتا ہے۔ دونوں صورتوں میں اسے پیدا کرنے اور اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس میں استاذ کے عمل اور کردار کو بڑادخل ہے۔ ایک عقل مند اور تجربہ کار استاذ ہی طلبہ میں یہ شوق وذوق پیدا کرسکتا ہے اور اسے مزید آگے بڑھاسکتا ہے ۔ اس کا اچھا اور آسان طریقہ یہ ہے کہ استاذ تعلیم شروع کرنے سے پہلے اور تعلیم کے دوران وقتاً فوقتاً طلبہ کے سامنے علم اور علماء کے فضائل،ان کامرتبہ ومقام ،خصوصاً عربی زبان کی فضیلت اور اس کی اہمیت بیان کرتا رہے اورطلبہ کو بتائے کہ عربی زبان کی قدرومنزلت دینی، اجتماعی اور سیاسی ہراعتبار سے بہت اونچی ہے۔ عربی زبان قرآن کریم اور وحی کی زبان ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان ہے جو سب سے زیادہ فصیح وبلیغ اور جَوامِعُ الکَلِم کے حامل تھے،لہٰذا شرعی احکام کو اس کے صاف ستھرے مصادر سے براہِ راست حاصل کرنے اور اسلامی ثقافت کو اسلام کی علمی تُراث سے حاصل کرنے کے لیے عربی زبان پر دسترس ضروری ہے،خصوصاً اسلام کے دورسے پہلے کی عربی زبان جس میں یہ قرآن نازل ہوا، اس سے قرآن کے سمجھنے میں مدد ملتی ہے، کیونکہ یہی لوگ اس کے پہلے مخاطب تھے، اس لیے ایک مسلمان طالب علم کے سامنے عربی سیکھنے کا یہی اعلیٰ مقصد ہونا چاہیے۔ جہاں تک عربی زبان کی اجتماعی اور سیاسی اعتبار سے اہمیت ہے،تو یہ عرب،اسلامی ممالک اور امتِ اسلامیہ کے مختلف افراد کے درمیان ایمان کے بعد مضبوط ترین رابطہ ہے۔ چنانچہ جب عربی جاننے والے دومسلمان ایک مشرق اور دوسرا مغرب کا رہنے والا باہم ملتے ہیں،تو ان کے لیے آپس میں افہام وتفہیم بہت آسان ہوجاتی ہے۔ ہر ایک دوسرے کے سامنے اپنے دلی جذبات اور محبت کا اظہار کرسکتا ہے ، ایک دوسرے کے حالات اور مسائل سے براہ راست مطلع ہوسکتا ہے ،جب کہ بسااوقات عالمی اجنبی خبررساں ایجنسیاں مسلمانوں کے حالات کو مسخ کرکے پیش کرتی ہیں جو ان کے لیے مزید پریشانی کا سبب بنتی ہیں۔ اگر عربی سیکھنے والوں میں ایسے طلبہ بھی ہوں جو علم کے بجائے زبان کو بحیثیت زبان سیکھنا چاہتے ہیں تو ان کو بھی شوق دلایاجائے کہ اگروہ کسی عرب ملک میں ملازمت یا سیاحت کے لیے جائیں گے تو وہ عربی زبان جاننے کی بنا پر اپنے مقصد میں زیادہ کامیاب رہیں گے۔ اب یہ ایک اچھے تجربہ کار استاذ کا کام ہے کہ عربی کی تعلیم کے دوران ایسے طلبہ کی روحانی اور فکری تربیت کرے اور ان کو دین اور دینی اعمال کی طرف دعوت دے۔ اگر عربی کا استاذ کسی مسجد میں امام اور خطیب ہے تو اسے چاہیے کہ اپنے مقتدیوں کو عربی زبان سیکھنے کی ترغیب دے ، ان کے لیے مسجد یا مسجد سے متصل کسی ہال میں ان کے پڑھانے کا انتظام کرے ۔ روزانہ یا ہفتہ میں تین دن ان کو پڑھائے اور ان کی ذہنی اور دینی تربیت کرے۔ اگر عربی کا استاذ کسی غیرمسلم ملک میں ہے، اور وہاں مسلمان اقلیت میں ہیں اور عربی پڑھنے کا شوق رکھتے ہیں تو اسے چاہیے کہ ان کے لیے بھی عربی پڑھانے کا انتظام کرے۔ اور دورانِ تعلیم ان کے سامنے نہایت حکمت کے ساتھ اسلام کے محاسن اور اس کی عمدہ اور آسان تعلیمات کا تذکرہ کرتا رہے، شاید یہی بات ان کے لیے ہدایت کا سبب بن جائے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ فرمان پیشِ نظر رہے ،جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضر ت علی رضی اللہ عنہ کو فرمایا تھا کہ: اگر اللہ تعالیٰ تمہاری وجہ سے کسی ایک شخص کو بھی ہدایت نصیب کردے تو یہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔ نیز مقتدیوں کو عربی پڑھانے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ وہ عربی سیکھنے کے بعد جمعہ کا خطبہ او رنماز میں پڑھی جانے والی سورتیں اور مختلف اوراد کسی درجہ میں سمجھنے لگیں گے۔ اس طرح امام اور مقتدیوں میں بحیثیت استاذو شاگرد مزید ایک قلبی اور روحانی تعلق بڑھ جائے گا اور ایسے مسائل بھی رونما نہیں ہوں گے جو عموماً امام اور مقتدیوں کے درمیان بُعد کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔
واللہ ولی التوفیق۔
اشاعت ۲۰۰۷ ماہنامہ بینات, ذوالقعدہ ۱۴۲۸ھ دسمبر۲۰۰۶ء, جلد 70, شمارہ 11

    پچھلا مضمون: قرآنی علوم کے متعلق علمائے امت کے قابل تحسین کارنامے 
Flag Counter