Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ذوالقعدہ ۱۴۲۸ھ دسمبر۲۰۰۶ء

ہ رسالہ

4 - 7
 قرآنی علوم کے متعلق علمائے امت کے قابل تحسین کارنامے
قرآنی علوم کے متعلق علمائے امت کے قابل تحسین کارنامے یتیمة البیان فی شییٴ من علوم القرآن

قرآن کریم کی تفسیر وتشریح کے علمی میدان میں سب سے سبقت پانے والے خلفاء راشدین تھے اوران میں حضرت علی کا نام گرامی تو خاص طور پر سر فہرست ہے، پھرحضرت عبداللہ بن عباس ہیں،جنہیں ترجمان القرآن اور خیر الامة سے یاد کیا جاتا ہے اور ان کے بعد حضرت عبداللہ بن مسعود کا تفسیری درجہ ہے جوبقول حضرت عمر فاروق علم سے بھرے ہوئے میدان کی طرح تھے اوران کی وجہ سے اہلِ قادسیہ دیگرشہروالوں پر فضیلت دیے جانے لگے تھے، حضرت عمر فاروق نے ان کی مدح میں فرمایاتھا:
”کنیف ملییٴ علما، آثرت بہ اہل القادسیة“
(طبقات ابن سعد ۲-۱۵)
چنانچہ صاحب ”الجواہر الاحسان“ فرماتے ہیں :
”صحابہ کرام میں صدر المفسرین اور تائید ایزدی سے سب سے زیادہ موٴیدحضرت علی بن ابی طالب تھے اور ان کے بعد حضرت عبد اللہ ابن عباس کا درجہ تھا ، حضرت ابن عباس نے تو اسی تفسیرکے میدان میں یکسوئی اختیار کی اور اس تفسیری کام کو اپنی بساط کے مطابق مکمل فرمایا ۔کئی تابعین نے ان کی پیروی اور ان سے استفادہ کیا، جن میں حضرت مجاہد، سعید بن جبیر  وغیرہ حضرات کے نام سرفہرست ہیں ، اسی وجہ سے حضرت ابن عباس سے منقول تفسیری روایات حضرت علی سے منقول روایات کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں، جب کہ حضرت ابن عباس  فرمایا کرتے تھے: جو تفسیری نکات وفوائد مجھے حاصل ہوئے ہیں وہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا افادہ ہے، ادھر حضرت علی ، حضرت ابن عباس کی مدح فرماتے اور ان سے تفسیری استفادہ کی ترغیب دیا کرتے تھے ، اور ابن مسعود کہا کرتے تھے کہ: ”ہاں ! ترجمان القرآن حضرت عبد اللہ بن عباس ہیں“ ،اور انہی حضرت ابن عباس کے متعلق رسول کریم ا نے یوں دعا فرمائی:
”اللہم فقہہ فی الدین وعلمہ التأویل“
ترجمہ :اے اللہ !ان کو دین کی سمجھ بوجھ عطا فرمائیے اوران کو قرآنی تاویلات کا علم نصیب فرمائیے۔ حضرت ابن عباس کی قدر جاننے کے لیے ان کے حق میں رسول کریم ا کی یہ دعا ہی کافی ہے۔ حضرت ابن عباس کے بعد علم تفسیر میں حضرت عبد اللہ بن مسعود کا مرتبہ ہے اور ان کے بعد حضرت ابی بن کعب ، حضرت زید بن ثابت  اور حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص  کا درجہ ہے ،اور وہ تمام روایات جو صحابہ سے منقول ہیں وہ” حسن “اور تابعین سے منقول روایات پر مقدم شمار ہوں گی ۔ تابعین کرام میں تفسیر قرآن سے متعلق سربرآوردہ شخصیات میں حضرت حسن ابن ابی الحسن ، مجاہد ، سعید بن جبیر اور علقمہ شمار کیے جاتے ہیں ۔حضرت مجاہد نے توحضرت ابن عباس سے ہر آیت کے مفہوم کی واقفیت حاصل کی تھی ۔ان حضرات کے بعد حضرت عکرمہ اور ضحاک بن مزاحم کا رتبہ ہے، اگرچہ ضحاک نے ابن عباس سے استفادہ نہیں فرمایا، بلکہ ابن جبیر سے علم تفسیر اخذ کیا تھا۔ امام سدی کے بارے میں عامر شعبی نے طعن فرمایا ہے، اسی طرح ابی صلاح کے بارے میں بھی امام شعبی کا طعن مروی ہے، کیونکہ شعبی ان دونوں حضرات کو کوتاہ نظر وفکر کا حامل گردانتے تھے ۔ مذکورہ بالا علماء کے علاوہ قرآن کریم کی تفسیری روایات کو محفوظ کرنے میں ہر زمانے کے منصفین اور اعتدال پسندعلماء کی جماعت شامل رہی اور علم تفسیر پرہر دور میں علماء نے خامہ فرسائی کی ،جیسے عبد الرزاق ، مفضل ، علی بن ابی طلحہ اور امام بخاری رحمہم اللہ، بعد ازاں محمد بن جریر طبری نے مختلف تفاسیر کو یکجا کیا اورمنتشر روایات کو جمع فرماکر اسناد کے متعلق تشفی بخش خدمت سرانجام دی۔ متأخرین علماء میں علم تفسیر سے شغف رکھنے والوں میں سے ابو اسحاق الزجاج اور ابو علی الفارسی کو تو ضعیف بتایا جاتا ہے، جبکہ ابو بکر النقاش اور ابو جعفر النحاس رحمہما اللہ کے کلام پر علماء نے استدراک فرمایا ہے ، اسی طرح مکی بن ابی طالب اور ابو العباس المہدوی کے کلام میں علماء نے غلطیوں کی نشاندہی فرمائی ہے ، بہر حال یہ تمام حضرات مجتہدین تھے اور اپنے درجات کے اعتبار سے مأجور بھی ، رحمہم اللہ تعالی ونضر وجوہہم ۔ اس موضوع کے متعلق مزید تفصیل کے لیے ابن ندیم کی ”الفہرست“ دیکھی جاسکتی ہے اور خاص طور پر صفحہ: ۵۰ سے ۵۹(مطبوعہ مصر) تک انتہائی گرانقدر معلومات ملاحظہ کی جاسکتی ہیں ، اسی طرح صاحب ”کشف الظنون“نے جو علم تفسیر کے متعلق ذکر فرمایا ہے اور امام سیوطی کی ”الاتقان“ کی نوع ثمانین (باب نمبر: ۸۰) بھی اسی موضوع کے متعلق تفصیلات جاننے والوں کے لیے فائدہ مند ہوں گی۔ خلاصہٴ بحث یہ ہے کہ صحابہٴ کرام  امت کے وہ چیدہ اشخاص تھے جو اپنی درست سمجھ بوجھ ، صحیح علم اور عمل صالح میں ممتاز درجہ کے حامل تھے ، چنانچہ وہ علم میں راسخ اور اپنی درست دانستگی میں سب سے سبقت لے جانے والے تھے ،اور وہی اپنے اعمال کی طرف پوری توجہ دینے والے اور یکسوتھے اور نبی کریم ا کا ارشاد گرامی ہے کہ : یکسو رہنے والے لوگ سبقت لے گئے ، علامہ سیوطی نے اٹھترویں قسم میں ابن تیمیہ سے منقول یہ کلام نقل کیا ہے : اور یہ عقیدہ رکھنا بھی واجب ہے کہ جس طرح نبی کریم ا نے صحابہ کرام کے لئے قرآن کریم کے الفاظ بیان فرمائے ،اسی طرح ان کو قرآن کریم کے معانی سے بھی روشناس کروایا،ٍ چنانچہ فرمان باری: ”لتبین للناس ما نزل الیہم“ الفاظ ومعانی دونوں کو شامل ہے۔ امام احمد نے اپنی مسند میں نقل فرمایا ہے کہ حضرت ابوعبد الرحمن السلمی فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان بن عفان اور حضرت عبد اللہ ابن مسعود وغیرہ جیسے قرآن کریم پڑھنے والے حضرات نے ہمیں بتایا کہ وہ حضرات جب نبی کریم ا سے دس آیات سیکھ لیا کرتے تھے تو اگلی آیات اس وقت تک نہ سیکھتے جب تک کہ ان دس آیات کے متعلق کامل علم وعمل نہ سیکھ لیتے اور کہتے تھے کہ اسی وجہ سے ہم نے قرآن کریم ‘ علم وعمل سب ساتھ سیکھا ۔بنابریں ایک مدت تک ایک سورت ہی یاد کیا کرتے تھے ۔حضرت انس فرماتے ہیں کہ:” کوئی شخص اگر سورہ بقرہ اور آل عمران پڑھ لیتا تو ہماری نظروں میں بڑا عالی مرتبہ شمار ہوتا تھا “۔ امام سیوطی نے نقل کیا ہے کہ عارف ابن ابی حمزہ حضرت علی سے نقل فرماتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: ”اگر میں چاہوں کے سورہ فاتحہ کی تفسیر سے ستر اونٹوں کو بوجھل کردوں تو میں اس طرح کرسکتا ہوں۔“ (یعنی اس کی تفسیرمیں اس قدر علمی فوائد ونکات بیان کروں کہ ان کو اگر لکھا جائے تو یہ اوراق ستر اونٹوں کے بوجھ کے بقدر تعداد میں ہوجائیں) لیکن پھر حضرت علی نے عوام کی دانستگی کے معیار سے قریب قریب باتیں بیان فرمائیں۔ راقم الحروف کہتا ہے کہ حضرت باری تعالیٰ کا سورہ ٴ جمعہ میں مذکور فرمان:
﴿ہو الذی بعث فی الامیین رسولاً منہم یتلو علیہم اٰیاتہ ویزکیہم ویعلمہم الکتاب والحکمة وان کانوا من قبل لفی ضلال مبین﴾
اور سورہٴ آل عمران میں مذکور یہ فرمان:
﴿لقد من اللہ علی المؤمنین اذ بعث فیہم رسولاً من انفسہم یتلو علیہم اٰیاتہ ویزکیہم ویعلمہم الکتاب والحکمة وان کانوا من قبل لفی ضلال مبین﴾
اور سورہ بقرہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعاؤوں کی ذیل میں یہ فرمان:
﴿ربناو ابعث فیہم رسولا منہم یتلو علیہم اٰیاتک ویعلمہم الکتاب والحکمة ویزکیہم انک انت العزیز الحکیم﴾
یہ فرامین مقدسہ ابن تیمیہ وغیرہ حضرات کے کلام پر واضح ترین دلائل وشواہد ہیں اور صحابہ کرام الفاظ ومعانی کے جاننے والے کیونکر نہ ہوتے جبکہ باری تعالیٰ نے اس قرآن کو اتارا ہی اس واسطے ہے کہ اس کی آیات میں تدبر وتفکر کیا جائے ۔ چنانچہ فرمان باری ہے :
﴿کتاب انزلنٰہ الیک مبارک لیدبروا اٰیاتہ﴾
مزید برآں باری تعالیٰ غور وتدبر نہ کرنے والوں کی مذمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
﴿افلا یتدبرون القرآن ام علٰی قلوب اقفالہا﴾
ان فرامین کے پیش نظر صحابہ کرام تو امت میں سب سے زیادہ اس قرآن میں تدبر کرنے والے اور اس میں موجودہ احکامات پر سب سے زیادہ عامل ہونے ہی چاہئے تھے ،اس لئے کہ اگر صحابہ کرام کا وطیرہ غور وتدبر نہ ہوتا تو پھر ان کے بعد اور کون ہوسکتا تھا جو اس طریقہ اور وطیرہ کا حامل ہوتا، صحابہ کرام کی شان عظمت تو وہ تھی، جیساکہ ایک عربی شاعر گویا ہوا ہے:
لھم شمس النھار إذا استقلت
ونور ما یغیبہ العماء
ھم حلوا من الشرف المعلی
ومن حسب العشیرة حیث شاء وا
من البیض الوجوہ نجوم ھدی
لوأنک تستضیئ بھم أضاء وا
فلو أن السماء دنت لمجد
ومکرمةدنت لھم السماء
۱- ان کے واسطے تو دن میں روشن سورج کے مانند روشنی ہوا کرتی ہے ،گوکہ سورج کی روشنی ماند پڑجائے اور ان کے واسطے ایسا نور ہے جس کو نابینگی بھی کافور نہیں کرسکتی۔
۲- وہ خاندانی شرافت وکرامت اور حسب نسب کی بلند معیار گی میں وہ رتبہ پاگئے جو انہوں نے چاہا۔
۳- سفید چہروں والے ہدایت کے ستارے اگر تو ان سے روشنی کا طلبگار ہو تو وہ تجھ کو روشنی دیدیں۔
۴- چنانچہ اگر آسمان کسی کی بزرگی وبرتری کے قریب ہوتا تو وہ انہی حضرات کی شرافت وکرامت ہوتی۔
ان اشعار پر راقم الحروف نے یہ اضافہ کیا ہے کہ:
بحار معارف وعیون علم
بیانھم من الجھل شفاء
ترجمہ :وہ حضرات معارف وبصائر کے سمندر اور علوم کے سر چشمے تھے اور ان کا کسی چیز کو بیان کرنا جہالت کے مرض کے لئے شفا ہے۔ یہ موضوع کافی طوالت اور وسعت رکھتا ہے جس کے ہر پہلو کو واضح کرنا ہماری بحث سے متعلق نہیں اورجواس موضوع کے متعلق تفاصیل کے خواہاں ہوں وہ ”اتقان“ اور علوم القرآن کے موضوع پر لکھی گئی دیگرکتب کی مراجعت فرما سکتے ہیں۔ اور یہ اکثر جو راقم نے سپرد قلم کیا اورجو کچھ وضاحت کی ، یہ راقم کے کمزور تدبر وتأمل اور ناقص غور وفکر کی کار فرمائی تھی ،پھرمیں نے اکابر علماء کرام(جو اللہ کے ہاں اپنی دینی خدمات کی وجہ سے یقینا بڑے ثواب وانعام کے مستحق ہیں )کی کتب کو دیکھا تو جیساکہ محاورہ ہے کہ کبھی کبھار کسی کے دل کے خیالات دوسرے کے دل میں آنے والے خیالات سے ایسے ملتے جلتے ہوتے ہیں جیسے کہ کھرپرکھر پڑے ،چنانچہ بہت سے مواضع میں میری تعبیر وتصویر ان کی تعبیر وتصویر کے بالکل موافق ہے، صرف تھوڑاساطرز انشاء ،طریق تحریراور بعض مواضع میں تقدیم وتاخیر کا فرق ہے ۔
والحمد للہ علی ذلک حمداً کثیرا
ً اور یہ اتفاق آراء محض ان کی روحانیت کی برکات اور میرے ان کے متعلق حسن ظن کا ثمرہ ونتیجہ ہیں، اس لئے کہ بہرحال ان علمی میدانوں میں وہ سبقت کرنے والے اور برکاتی کرامات کے حامل ہیں ،اللہ تعالیٰ مجھے ان کے علوم ومعارف سے بہر ور فرمائے اور میرا ان کے زمرے میں حشر وحساب فرمائے۔ (آمین) اس بحث کے متعلق میں نے کچھ تفصیل سے اس لئے کام لیا کہ آج کل بہت سے ہم عصر اہل علم حضرات کو دیکھتا ہوں کہ جب وہ قرآن پاک کی تفسیر بیان کرتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ احادیث وآثار سے وہ بے نیازہیں اور محض لغت وتاریخ پر اعتماد کرکے سنت اور اجماع امت سے آنکھیں بندکرکے صرف نظر کرتے ہیں، بلکہ ان کی قدرومنزلت گھٹانے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کے بارے میں اپنی ہوس وخواہش کے پیش نظر جو چاہتے ہیں، کہتے پھرتے ہیں ۔جہاں حدیث وآثار ان کی رائے کے خلاف ہوں وہاں ان کو پس پشت ڈال کر اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں ،یہی الحاد وزندیقیت کا پہلا دروازہ ہے جس کے لیے ابو الکلام آزاد دہلوی کی ”ترجمان القرآن“ ہی کو ملاحظہ کر لیجئے کہ کس طرح تاریخ( جس کی بنیاد ہی بودی اور مضطرب ہے اور انہی کمزور رائے )کو فہم قرآن اور بلند پایہ الفاظ نصوص کے حل کے لئے مدار ومرکز ٹھہرایاہے ،ان کی تفسیر کے متعلق اگلے صفحات میں کلام کیا جائے گا۔ ”ان شاء اللہ“ ان کی مانند دیگر ہم عصر نے بھی یہ طرز اپنا رکھا ہے ،اللہ ہی توفیق دینے والے ہیں اوروہی حق کی طرف رہبری اور ہدایت دینے والے ہیں ۔
(جاری ہے)
اشاعت ۲۰۰۷ ماہنامہ بینات, ذوالقعدہ ۱۴۲۸ھ دسمبر۲۰۰۶ء, جلد 70, شمارہ 11

    پچھلا مضمون: علامہ سید محمد یوسف بنوری اور خدمات حدیث 
Flag Counter