Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ذوالقعدہ ۱۴۲۸ھ دسمبر۲۰۰۶ء

ہ رسالہ

2 - 7
بچوں کو بڑوں کی صف میں کھڑا کرنا
بچوں کو بڑوں کی صف میں کھڑا کرنا


بچے نماز وغیرہ عبادات واحکامات کے مکلف نہیں ہیں‘ بالغ ہونے پر وہ مکلف ہوتے ہیں‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ انے ارشاد فرمایا:
”رفع القلم عن ثلاثة:عن النائم حتی یستیقظ وعن الصبی حتی یحتلم وعن المجنون حتی یعقل“۔ (سنن ابی داؤد ج:۲‘ ص:۲۴۹)
ترجمہ:․․․”تین قسم کے لوگ مرفوع القلم ہیں : سونے والا یہاں تک کہ وہ بیدار نہ ہوجائے‘ بچہ یہاں تک کہ وہ بالغ نہ ہوجائے اور مجنون یہاں تک کہ اسے جنون سے افاقہ نہ ہوجائے“۔
لیکن جب بچے قدرے سمجھدار ہوجائیں‘ تو اعتیاد اور تمرین علی العبادات کے لئے شریعت مطہرہ نے ان کو نماز کی تلقین وترغیب اور ایک مرحلہ پر تنبیہ وتادیب کی ہدایت کی ہے۔ چنانچہ رسول اللہ ا کا ارشاد ہے:
”مروا اولادکم بالصلوٰة وہم ابناء سبع سنین‘ واضربوا ہم علیہا وہم ابناء عشر‘ وفرقوا بینہم فی المضاجع“۔ (سنن ابی داؤد‘ ج:۱‘ص:۷۱ )
ترجمہ:․․․”اپنی اولاد کو جب وہ سات سال کے ہوجائیں‘ نماز کا حکم دو اور جب وہ دس سال کے ہوجائیں‘ تو نماز (چھوڑنے) پر ان کی سرزنش وتادیب کرو اور خواب گاہوں میں ان کو جدا کرو“۔
رہا یہ امر کہ کتنی عمر کے بچوں کو نماز کے لئے اپنے ساتھ مسجد لے جاسکتے ہیں‘ تو اس کے متعلق کتاب وسنت میں کوئی خاص تحدید وارد نہیں ہوئی ہے‘ لیکن یہاں دوسرا پہلو مسجد کے تقدس واحترام اور نظافت وصفائی کا ہے‘ جس کا پاس ولحاظ رکھنے کی انتہائی تاکید آئی ہے‘ جامع ترمذی وغیرہ میں ہے:
”عن عائشة  قالت: امر النبی ا ببناء المساجد فی الدور وان تنظف وتطیب“۔ (جامع ترمذی‘ ج:۱‘ ص:۱۳۰)
ترجمہ:․․․”حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی کریم ا نے ہر ہر محلہ میں مسجد یں بنانے کا حکم دیا اور یہ حکم فرمایا کہ وہ صاف اور خوشبودار رکھی جائیں“۔
صحیح بخاری وغیرہ میں حضرت انس  سے مروی ہے:
”قال النبی ا : البزاق فی المسجد خطیئة وکفارتہا دفنہا“۔ (صحح بخاری‘ ج:۱‘ص:۵۹)
ترجمہ:․․․”نبی کریم ا نے ارشاد فرمایا: کہ مسجد میں تھوکنا گناہ ہے‘ اور اس کا کفارہ اس کو دفن کردینا یعنی صاف کردینا ہے“۔
امام مسلم  نے اپنی صحیح میں ایک روایت نقل فرمائی ہے‘ جس کی اصل صحیح بخاری‘ کتاب الوضوء وغیرہ میں ہے: حضرت انس بن مالک  فرماتے ہیں:
”بینما نحن فی المسجد مع رسول اللہ ا اذ جاء اعرابی فقام یبول فی المسجد فقال اصحاب رسول اللہ ا: مہ مہ‘ قال: قال رسول اللہ ا : لاتزرموہ‘ دعوہ‘ فترکوہ‘ حتی بال‘ ثم ان رسول اللہ ا دعاہ فقال لہ: ان ہذہ المساجد لاتصلح لشئ من ہذا البول ولا القذر‘ انما ہی لذکر اللہ تعالیٰ والصلاة وقرأة القرآن او کما قال رسول اللہ ا“۔ (صحیح مسلم ج:۱‘ص:۱۳۸)
ترجمہ:․․․”اس دوران کہ ہم رسول اللہ ا کے ساتھ مسجد (نبوی) میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک اعرابی آئے اور کھڑے ہوکر مسجد میں پیشاب کرنے لگے‘ رسول اللہ ا کے صحابہ  نے فرمایا: ٹھہرجاؤ‘ رک جاؤ۔ راوی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ا نے فرمایا: ان کا پیشاب مت روکو‘ انہیں کرنے دو۔ چنانچہ انہوں نے اسے یونہی چھوڑدیا‘ یہاں تک کہ وہ پیشاب کرچکے‘ پھر رسول اللہ ا نے انہیں بلایا اور ان سے فرمایا کہ یہ مساجد پیشاب اور گندگی کے کسی کام کے لئے موزوں نہیں ہیں‘یہ تو صرف اللہ تعالیٰ کے ذکر‘ نماز اور تلاوتِ قرآن کے لئے ہیں یا اسی طرح کچھ رسول اللہ ا نے (ان سے) فرمایا“۔
حافظ ابن حجر عسقلانی حدیث ِ مذکور کے فوائد پر کلام کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
”وفیہ تعظیم المسجد وتنزیہہ عن الاقذار“۔ (فتح الباری ج:۱‘ ص:۳۸۸)
اس حدیث میں مسجد کی تعظیم اور اس کو قابلِ نفرت چیزوں سے پاک وصاف رکھنے کی تعلیم ہے۔
اسی طرح مسجد میں ہر ایسے کام سے منع کیا گیا‘ جس سے اس کا احترام ختم ہوجائے‘ یا جس سے عبادت میں مشغول لوگوں کے دل پراگندہ ہوں۔ چنانچہ مسجد میں گم شدہ چیز کا اعلان‘ خرید وفروخت اور بازاروں جیسا شور وشغف‘ حمد ونعت اور ضرورتِ شرعیہ کے بغیر اشعار سنانا یا بیت بازی کرنا‘ قصاص لینا اور سزائیں جاری کرنا‘ جنبی اور حائضہ یا نفساء کا داخل ہونا اور بدبو دار چیزوں کو مسجد میں لے جانا یا خود بدبودار ہو کر مسجد میں جانا وغیرہ امور سے ممانعت احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں‘ یہ سب امور احترام مسجد کے منافی ہیں اور ان میں سے بعض میں اللہ کے نیک بندوں یعنی فرشتوں اور نمازیوں کو تکلیف ہوتی ہے۔
حضرت عمر  کے متعلق حافظ ابن کثیر  تحریر فرماتے ہیں:
”وقد کان عمر بن الخطاب  اذا رأی صبیانا یلعبون فی المسجد ضربہم بالمخفقة وہی الدرة“۔ (تفسیر ابن کثیر ج:۳‘ ص:۲۷۵)
ترجمہ:․․․”حضرت عمربن الخطاب جب بچوں کو مسجد میں کھیلتے ہوئے دیکھتے تھے‘ تو ان کو درہ سے مارتے تھے“۔
احترام مسجد کے تأکد پر دلالت کرنے والی نصوص وآثار کو مدّ نظر رکھتے ہوئے حضرات فقہاء کرام نے بعض بچوں کو مسجد میں لانے کی اجازت دی ہے اور بعض کے لانے کو ممنوع ٹھہرایا ہے۔ یہاں یہ ملحوظ رہے کہ حضرت واثلہ بن الاسقع  وغیرہ کی ایک روایت ہے‘ رسول اللہ ا نے فرمایا:
”جنّبوا مساجدکم صبیانکم ومجانینکم“۔ (سنن ابن ماجہ‘ ص:۵۵)
ترجمہ:․․․”تم اپنی مسجدوں سے اپنے بچوں اور پاگلوں کو دور رکھو یعنی ان کو مسجدوں میں مت آنے دو“ فنی اعتبار سے اس روایت میں کلام ہے‘ چھوٹے بچوں کو مسجد میں لانے کی ممانعت اس روایت پر موقوف نہیں‘ جیساکہ بعض عمل بالحدیث کے دعویدار سمجھتے ہیں اور اس کی وجہ سے مقلدین حضرات پر اعتراض کرتے ہیں‘ بلکہ سطور بالا میں مذکور احترام مسجد کے تأکد پر دالّ صحیح اور صریح روایات جیسی روایات ونصوص سے ممانعت ثابت ہوتی ہے‘ کن بچوں کو مسجد میں لانے کی اجازت ہے اور کن کے لئے ممانعت ہے‘ اس کی تفصیل یہ ہے کہ نابالغ بچوں کی تین قسمیں ہیں:
۱- وہ بچے جو اتنے ناسمجھ اور کم عمر ہوں کہ انہیں پاکی وناپاکی اور مسجد وغیر مسجد کا بالکل شعور نہ ہو اور ان سے مسجد کے ناپاک ہوجانے کا ظن غالب ہو‘ ایسے بچوں کو مسجد میں لانا جائز نہیں‘ مکروہ تحریمی ہے۔
۲- وہ بچے جو تھوڑی بہت کچھ سمجھ رکھتے ہوں اور ان سے مسجد کی بے حرمتی اور ناپاک ہونے کا قوی اندیشہ نہ ہو‘ انہیں مسجد میں لاسکتے ہیں‘ مگر بہتر یہ ہے کہ نہ لایاجائے۔
۳- وہ بچے جو پوری طرح باشعور اور باتمیز ہوں‘ پاکی وناپاکی کو سمجھتے ہوں اور مسجد کا احترام ملحوظ رکھتے ہوں‘ انہیں مسجد میں لانا بلا کراہت جائز ہے‘ بلکہ نماز کی عادت ڈالنے کے لئے لانا ہی چاہیئے۔
یہاں یہ ملحوظ رہے کہ سن تمیز وشعور ہربچے میں یکساں نہیں ہوتا‘ بلکہ استعداد فطری کے لحاظ سے یہ عمر ہر بچے میں مختلف ہوتی ہے‘ اس لئے باشعور ہونے کی عمر کی تحدید وتعین نہیں ہوسکتا۔ اس اعتبار سے سات سال سے کم عمر بچہ بھی باشعور ہوسکتا ہے جبکہ اس کی دینی تربیت اور اخلاق وآداب کی تعلیم اچھی طرح ہوئی ہو۔ ویسے شعور کی ابتداء عام طور پر سات سال کی عمر میں ہوتی ہے‘ اور دس سال کی عمر میں اس کی تکمیل ہوتی ہے‘ اس لئے حدیث پاک میں سات سال کی عمر میں بچوں کو نماز کا حکم دینے اور دس سال کی عمر میں نماز چھوڑنے پر تادیب کا امر فرمایا گیا ہے اور پندرہ سال میں عقل وجسم میں پختگی آتی ہے‘ اس لئے اس وقت احکامِ شرع کا مکلف قرار دیا جاتاہے‘ جبکہ اس سے پہلے بلوغ کو نہ پہنچا ہو۔
”فی العلائیة: ویحرم ادخال صبیان ومجانین حیث غلب تنجیسہم والا فیکرہ وفی الشامیة تحتہ: (قولہ ویحرم الخ) ․․․ والمرادبالحرمة کراہیة التحریم․․․ والا فیکرہ ای تنزیہا․ تأمل․
(رد المحتار‘ کوئٹہ ج:۱‘ ص:۴۸۶)
وفی التحریر المختار: (قول الشارح والا فیکرہ) ای حیث لم یبالوا بمراعاة حق المسجد من مسح نخامة او تفل فی المسجد والا فاذا کانوا ممیزین ویعظمون المساجد بتعلم من ولیہم فلا کراہة فی دخولہم الخ سندی․ (التحریر المختار ‘ کوٹہ ج:۱‘ص:۸۶)
مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق جن بچوں کو مسجد میں لاسکتے ہیں یعنی لانا جائز ہے‘ ان کو جماعت میں کہاں کھڑا کرنا چاہئے؟ اس کی تفصیل حسب ذیل ہے: نابالغ بچوں کے بارے میں اصل حکم یہ ہے کہ اگر صرف ایک ہی نابالغ بچہ ہو‘ تو اس کو بالغوں‘ مردوں کے ساتھ ان کی صف ہی میں کھڑا کیا جائے اور اس میں کوئی کراہت نہیں ہے۔صحیح بخاری وغیرہ میں ہے:
”عن انس بن مالک ان جدتہ ملیکة دعت رسول اللہ ا لطعام صنعتہ لہ‘ فاکل منہ‘ ثم قال: قوموا فَلاُ صَلّی لکم‘ قال انس: فقمت الی حصیر لنا قد اسود من طول مالبس‘ فنضحتہ بماء فقام رسول اللہ ا وصففت انا والیتیم وراء ہ والعجوز من ورائنا‘ فصلی لنا رسول اللہ ا رکعتین ثم انصرف“۔ (صحیح بخاری‘ ج:۱‘ص:۵۵)
ترجمہ:․․․”حضرت انس بن مالک  سے مروی ہے کہ ان کی نانی (یا راوئ حدیث اسحاق بن عبد اللہ بن ابی طلحہ کی دادی) ملیکہ  نے رسول اللہ ا کو اس کھانے پر بلایا‘ جو انہوں نے آپ کے لئے تیار کیا تھا۔ آپ نے اس میں سے تناول فرمایا پھر آپ نے ارشاد فرمایا: چلو اٹھو! میں تمہیں نماز پڑھا دوں‘ حضرت انس  فرماتے ہیں کہ میں اپنی اس چٹائی کی طرف اٹھا جو کثرتِ استعمال کی وجہ سے سیاہ ہوچکی تھی‘ میں نے (اس کو نرم کرنے کے لئے) اس پر پانی چھڑکا (یا اس کے میل کو دور کرنے کے لئے اس پر پانی بہایا) پس رسول اللہ ا کھڑے ہوئے‘ میں نے اور یتیم (ضمیر ہ بن ابی ضمیرہ) نے آپ کے پیچھے صف بنائی اور بڑی بی نے ہمارے پیچھے صف بنائی‘ رسول اللہ انے ہمیں دو رکعت پڑھائی پھر آپ نے سلام پھیرا (یا اپنے دولت کدہ پر تشریف لے گئے)۔ علامہ عینی حدیث مذکور سے متعلق استنباط احکام کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”وفیہ قیام الطفل مع الرجال فی صف واحد“ (عمدة القاری‘ ج:۴‘ ص:۱۱۲‘ دار احیاء التراث العربی ‘ بیروت)
”اس حدیث میں بچے کا مردوں کے ساتھ ایک صف میں کھڑے ہونے کا ثبوت ہے“۔
حافظ ابن حجر عسقلانی نے بھی الفاظ کے قدرے فرق کے ساتھ یہی بات فوائد حدیث بیان کرتے ہوئے تحریر فرمائی ہے۔ (فتح الباری‘ ج:۱‘ص:۵۸۵‘مکتبہ ابن تییمیہ)
علامہ ابن نجیم فرماتے ہیں:
”ولم ار صریحا حکم ما اذا صلی ومعہ رجل وصبی وان کان داخلا تحت قولہ: (ای قول صاحب الکنز الامام حافظ الدین النسفی) والاثنان خلفہ‘ وظاہر حدیث انس انہ یسوی بین الرجل والصبی ویکونان خلفہ‘ فانہ قال: فصففت انا والیتیم وراء ہ والعجوز من ورائنا‘ ویقتضی ایضاً ان الصبی الواحد لایکون منفردا عن صف الرجال‘ بل یدخل فی صفہم“۔ (البحر الرائق‘ ج:۱‘ص:۳۵۳)
ترجمہ:․․․”جب کوئی آدمی نماز پڑھے اور اس کے ساتھ (جماعت میں) ایک مرد اور ایک بچہ ہو‘ تو (بچہ کہاں کھڑا ہو) اس کا حکم صراحتاً میں نے کہیں نہیں دیکھا اگر چہ یہ صورت ماتن کے قول: والاثنان خلفہ“ یعنی دو آدمی ہوں‘ تو امام کے پیچھے کھڑے رہیں میں داخل ہے ۔ خضرت انس کی حدیث کا ظاہریہ ہے کہ بچے اور مرد میں یکسانیت اور برابری ہے اور وہ دونوں امام کے پیچھے کھڑے ہوں گے‘ اس لئے کہ حضرت انس  نے فرمایا کہ میں نے اور یتیم نے آپ کے پیچھے صف بنائی اور بڑی بی نے ہمارے پیچھے صف بنائی‘ نیز یہ روایت تقاضا کرتی ہے کہ ایک بچہ مردوں کی صف سے الگ کھڑا نہیں ہوگا‘ بلکہ مردوں کی صف میں داخل ہو جائے گا“۔
اور اگر نابالغ لڑکے ایک سے زیادہ ہوں‘ تو ان کی الگ صف مردوں کی صف کے پیچھے ہونا چاہئے اور یہ حکم بطور سنت یا استحباب ہے‘ بطور وجوب نہیں۔
سنن ابی داؤد میں ہے:
”قال ابو مالک الاشعری: الا احدثکم بصلوة النبی ﷺ قال: فاقام الصلاة‘ فصف الرجال وصف الغلمان خلفہم‘ ثم صلی بہم‘ فذکر صلاتہ‘ ثم قال: ہکذا صلوة قال عبد الاعلی: لااحسبہ الا قال: امتی“۔ (سنن ابی داؤد ج:۱‘ ص:۹۸‘۹۹)
ترجمہ:․․․”حضرت ابومالک اشعری نے (ایک مرتبہ لوگوں سے) فرمایا کیا میں تم سے رسول اللہ ا کی نماز (کا طریقہ) بیان نہ کروں؟ (سنو! میں تمہارے سامنے آپ کی نماز کا طریقہ بیان کرتا ہوں)پھر بیان کیا کہ آپ نے نماز قائم فرمائی‘ تو پہلے آپ نے مردوں کی صفیں بنائیں‘ان کے پیچھے بچوں کی صفیں بنائیں‘ پھر آپ نے ان کو نماز پڑھائی ۔ ابومالک  نے آپ کی نماز کا طریقہ ذکر کیا‘ پھر رسول اللہ ا نے فرمایا کہ میری امت کی نماز کا یہی طریقہ ہے“۔
الدر المختار میں ہے:
”ویصف الرجال ثم الصبیان‘ ظاہرہ تعددہم‘ فلو واحدا دخل الصف“۔ (الدر المختار‘ مع رد المحتار ج:۱‘ ص:۴۲۲‘ کوئٹہ)
ترجمہ:․․․”مردوں کی صف بنائی جائے‘ پھر بچوں کی صف بنائی جائے۔ ”صبیان“ (بچوں) کا ظاہر بتلا رہاہے کہ وہ متعدد ہوں (یعنی مردوں کے پیچھے بچوں کی مستقل صف بنانے کا حکم اس وقت ہے‘ جب بچے متعدد ہوں) لیکن اگر بچہ ایک ہی ہو‘ تو وہ مردوں کی صف میں کھڑا ہوگا“۔
غنیة المستملی اور انوار المحمود علی سنن ابی داؤد میں ہے:
”ثم الترتیب بین الرجال والصبیان سنة‘ لافرض‘ ہو الصحیح“۔ (غنیة المستملی ص:۴۸۵‘انوار المحمود ج:۱‘ص:۲۴۵)
ترجمہ:․․․”پھر مردوں اور بچوں (کی صفوں) میں ترتیب سنت ہے‘ فرض نہیں ہے‘ یہی مفتی بہ قول ہے“۔
جماعت میں ایک سے زائد بچے ہونے کی صورت میں بچوں کی صف کو مردوں کی صف کے پیچھے بنانے کا یہ حکم اس وقت ہے‘ جبکہ مسجد میں آنے والے بچے باشعور ہونے کے ساتھ ساتھ تربیت یافتہ اور سلیقہ مند ہوں‘ مسجد میں شرارتیں نہ کریں‘ شور نہ مچائیں اور احترام مسجد کو ملحوظ رکھتے ہوئے خاموشی سے نماز ادا کریں‘ لیکن اگر صورت حال اس کے برعکس کرنے یا ان کے کسی طرز عمل اور شرارت سے مردوں کی نماز باطل ہوجانے کا قوی اندیشہ ہو‘ تو پھر ان کی الگ صف نہ بنائی جائے‘ بلکہ ان کو منتشر اور متفرق طور پر مردوں کی صفوں میں کھڑا کرنا چاہئے‘ نیز بچوں کو مردوں سے علیحدہ کھڑا کرنے میں اجتماع عظیم اور مجمع کثیر کی بناء پر بچوں کے گم ہوجانے یا اغوا ہونے یا اور کسی فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو‘ تو بچوں کو اپنے ساتھ مردوں کی صف میں متفرق طور پر کھڑا کیا جاسکتا ہے۔ آج کل عامةً دو یا زائد لڑکے جماعت میں یکجا جمع ہونے سے دھکم پیل شروع کردیتے ہیں‘ خوب ادھم چوکڑی مچاتے ہیں اور اس طرح شرارتیں کرکے اپنی نماز خراب وباطل کرتے ہیں‘ بلکہ بسااوقات بالغین کی نماز میں خلل پیدا کرتے ہیں‘ اس لئے جن مساجد میں یہ صورت حال ہو‘ وہاں مناسب یہ ہے کہ بچوں کی علیحدہ صف بنانے کی بجائے ان کو ان کے سر پرستان وغیرہ مردوں کی صف میں اپنے برابر کھڑا کرلیا کریں‘ تاکہ وہ نماز میں کوئی شرارت کرکے اپنی یا دوسروں کی نماز برباد نہ کریں۔ ایسی صورت میں مردوں کی صفوں میں ان کے کھڑے ہونے سے مردوں کی نماز میں کوئی کراہت نہ آئے گی‘ خواہ پہلی ہی صف میں کیوں نہ ہو؟ البتہ بہتر ہوگا کہ امام کے بالکل پیچھے یا قریب میں کھڑا نہ کیا جائے‘ کیونکہ حدث وغیرہ کی صورت میں استخلاف کی ضرورت پیش آسکتی ہے‘ جس میں بالغ ہی کی ضرورت پڑے گی‘ نیز سہو کی صورت میں اگر امام کو تنبیہ کرنے کی ضرورت پیش آجائے‘ تو بچے کے مقابلے میں بالغ یہ کام احسن طریقے سے انجام دے سکے اور یہ اس وقت آسانی سے ہوسکتا ہے جبکہ امام کے قریب میں بالغ لوگ کھڑے ہوں۔ علامہ رافعی رحمتی کے حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں:
”ربما یتعین فی زماننا ادخال الصبیان فی صفوف الرجال‘ لان المعہود منہم اذا اجتمع صبیان فاکثر‘ تبطل صلاة بعضہم ببعض‘ وربما تعدی ضررہم الی افساد صلاة الرجال“۔ (التحریر المختار ج:۱‘ص:۷۳‘ کوئٹہ)
ترجمہ:․․․”بسا اوقات ہمارے زمانے میں بچوں کو مردوں کی صفوں میں داخل کرنا (کھڑا کرنا) متعین ہوتا ہے‘ اس لئے کہ بچوں سے معہود ومعتاد یہ ہے کہ جب دو بچے یا اس سے زیادہ اکٹھے ہوں‘ تو ایک کی (شرارت کی ) وجہ سے دوسرے کی نماز (بھی) باطل ہوجاتی ہے اور بسا اوقات ان کا ضرر مردوں کی نماز فاسد کرنے تک متعدی ہوتا ہے“۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود  وغیرہ سے مروی ہے:
”قال رسول اللہ ا لیلینی منکم اولو الاحلام والنہی ثم الذین یلونہم ۰ثلاثا)۔ (صحیح مسلم‘ ج:۱‘ص:۱۸۱)
ترجمہ:․․․”رسول اللہ انے ارشاد فرمایا کہ چاہئے کہ تم میں سے بالغ اور عاقل لوگ میرے قریب کھڑے ہوں‘ پھر جو ان کے قریب ہوں (یعنی عقل یا بلوغ کے اعتبار سے ان سے کم درجہ ہوں جیسے مراہقین)“۔
علامہ ابی شارح مسلم فرماتے ہیں:
”وخص اولوا لاحلام بالتقدیم لانہ قد یحتاج الی استخلافہم ولانہم یتفطنون لتنبیہ الامام فی السہو علی مالا یتفطن الیہ غیرہم“۔
(شرح الابی والسنوسی علی صحیح مسلم ج:۳‘ص:۳۲۵)
ترجمہ:․․․”امام کے قریب کھڑا کرنے میں بالغوں کو خاص کیا گیا‘ اس لئے کہ کبھی ان کو نائب بنانے کی ضرورت پیش آتی ہے اور اس لئے بھی کہ سہو کی صورت میں امام کو آگاہ کرنے کو جیسا وہ سمجھتے ہیں ‘ دوسرے نہیں سمجھتے ہیں“۔
اب ذیل میں ہمارے اکابر کے اس سلسلہ کے چند فتاویٰ پیش کئے جارہے ہیں:
فقیہ العصر حضرت مولانا مفتی رشید احمد صاحب لدھیانوی کے فتاویٰ المعروف بہ ”احسن الفتاویٰ“ میں ہے:
سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ نابالغ لڑکے بالغین کے ساتھ نماز میں ایک صف میں کھڑے ہوسکتے ہیں یا نہیں؟ اور کیا وہ نابالغ لڑکے جو سمجھدار ہوں‘ یعنی اوقات نماز‘ تعداد رکعات‘ کیفیات اداء نماز وغیرہ جانتے ہوں‘ تو ان کا حکم الگ ہے یا یہ کہ سب کے لئے ایک حکم ہے؟ نیز یہ کہ صف اول‘ ثانی اور ثالث میں بھی کوئی فرق ہے یا سب صفوں کا ایک ہی حکم ہے؟ بینوا وتؤجروا․
الجواب باسم ملہم الصواب:
”اگر صرف ایک ہی نابالغ لڑکا ہو‘ تو اس کو بالغوں کے ساتھ ہی کھڑا کیا جائے۔ اگر نابالغ لڑکے زیادہ ہوں‘ تو ان کو پیچھے کھڑا کرنا مستحب ہے‘ واجب نہیں‘ مگر اس زمانہ میں لڑکوں کو مردوں کی صفوف ہی میں کھڑا کرنا چاہئے کیونکہ دو یا زیادہ لڑکے ایک جگہ جمع ہونے سے اپنی نماز خراب کرتے ہیں؟ بلکہ بالغین کی نماز میں بھی خلل پیدا کرتے ہیں۔
”قال العلامة الرافعی رحمہ اللہ تعالیٰ قولہ ذکرہ فی البحر بحثا قال الرحمتی: ربما یتعین فی زماننا ادخال الصبیان فی صفوف الرجال لان المعہود منہم اذا اجتمع صبیان فاکثر تبطل صلاة بعضہم ببعض‘ وربما تعدی ضررہم الی افساد صلاة الرجال“(التحریر المختار‘ ج:۱‘ص:۷۳)
چونکہ یہ قول مطلق ہے‘ لہذا صف اول‘ ثانی اور ثالث میں کوئی فرق نہیں ۔یہ حکم ان بچوں سے متعلق ہے جو نماز اور وضو وغیرہ کی تمیز رکھتے ہوں‘ زیادہ چھوٹے بچوں کو مردوں کی صف میں کھڑا کرنا مکروہ ہے‘ بلکہ مسجد میں لانا ہی جائز نہیں۔ (احسن الفتاویٰ‘ ج:۳‘ ص:۲۸۰)
حکیم العصر حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:
”جو بچے بالکل کم عمر ہوں‘ ان کو تو مسجد میں لانا ہی جائز نہیں۔نابالغ بچوں کے بارے میں اصل حکم تو یہی ہے کہ ان کی الگ صف بالغ مردوں کی صف سے پیچھے ہو‘ لیکن آج کل بچے جمع ہوکر زیادہ ادھم مچاتے ہیں اس لئے مناسب یہی ہے کہ بچوں کو ان کے اعزہ اپنے برابر کھڑا کرلیا کریں“۔(آپ کے مسائل اور ان کا حل ‘ ج:۲‘ص:۲۲۲)
ایک اور استفتاء کے جواب میں حضرت موصوف  تحریر فرماتے ہیں:
”اگر بچہ ایک ہو تو اس کو بالغ مردوں کی صف میں ہی کھڑا کیا جائے اور اگر بچے زیادہ ہوں‘ تو ان کی الگ صف بالغ مردوں سے پیچھے ہونی چاہئے اور یہ حکم بطور وجوب نہیں‘ بطور استحباب ہے‘ تاہم اگر بچے اکٹھے ہوکرنماز میں گڑبڑ کرتے ہوں‘ یا بڑا مجمع ہونے کی وجہ سے ان کے گم ہوجانے کا اندیشہ ہو تو ان کو بڑوں کی صف میں کھڑا کرنا چاہئے‘ تاکہ ان کی وجہ سے بڑوں کی نماز میں خلل نہ آئے اور یہ حکم ان بچوں کا ہے‘ جو نماز اور وضو کی تمیز رکھتے ہوں‘ ورنہ زیادہ چھوٹی عمر کے بچوں کو مسجد میں لانا جائز نہیں“۔ (آپ کے مسائل اور ان کا حل‘ ج:۲‘ص:۲۲۲)
اب ایشیاء کی عظیم دینی درسگاہ دار العلوم دیوبند کے دار الافتاء سے صادر ہونے والافتویٰ مع استفتاء ملاحظہ فرمایئے‘ جس میں مذکورہ دونوں اکابر کے فتاویٰ کی تصویب موجود ہے:
استفتاء:
بخدمت اقدس قبلہ مفتی صاحب دامت برکاتہم دار العلوم دیوبند
کیا فرماتے ہیں علماء عظام ومفتیان کرام مسائل ذیل ہیں:
۱- ہماری مسجد لندن شہر کی ایک بڑی مسجد ہے‘ جس میں جمعہ کا مجمع تقریباً ۱۳۰۰ سے ۱۵۰۰ مصلیوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ حنفی مسلک کی مسجد ہے‘ لیکن شہر کی مسجد ہونے کی وجہ سے مختلف ممالک کے حضرات مسجد میں آتے ہیں‘ نماز کا فریضہ انجام دینے کے لئے۔ ممالک عربیہ‘ پاکستان‘ ہندوستان‘ افریقہ وغیرہ کے حضرات‘ جو مختلف مسلک کے ہیں‘ چاروں مذاہب کے علاوہ غیر مقلد حضرات بھی ہوتے ہیں۔ عرصہٴ دراز سے یہ مسئلہ یہاں محل نزاع ہے (جھگڑے وفساد کا سبب بنا ہوا ہے) نابالغ بچوں کو جو نماز‘ وضو وغیرہ کا علم رکھتے ہیں‘ ان کو بالغوں کی صف میں کھڑا کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ کئی سالوں سے مسجد کا امام احسن الفتاویٰ جلد۳‘ آپ کے مسائل اور ان کا حل جلد۲‘ شیخ لدھیانوی کا حوالہ دے کر اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ بچوں کو اپنے والد کے ساتھ کھڑے ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں‘ تاکہ فتنہ وفساد کا اندیشہ نہ ہو اور بچوں کی شرارت بھی نہ ہو‘ چونکہ جب بھی بچوں کو اپنے والد سے علیحدہ کرنے کی بات کی جاتی ہے‘ تو فتنہ وفساد ہوتا ہے‘ کئی دفعہ تو گالم گلوچ اور مار پیٹ کی بھی نوبت آجاتی ہے۔ امام صاحب کا کہنا ہے کہ ایک مستحب پر عمل کروانے کے لئے اتنا فساد کسی بھی صورت میں صحیح نہیں‘ بلکہ حضرت مفتی عبد الرشید (رشید احمد) صاحب اور مولانامحمد یوسف لدھیانوی  کے فتاویٰ پر عمل کرلیا جائے‘ جن کی فوٹو ارسال کرہا ہوں۔ اب سوال یہ ہے کہ ہمارے امام صاحب کا یہ عمل شریعت کے مطابق ہے یا نہیں؟
۲- مسجد کے ایک ٹرسٹی جن کو اس مسئلہ پر اعتراض ہے اور وہ ان علمائے کرام کے فتاویٰ کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہے (کیونکہ یہ دار العلوم دیوبند کے فتاویٰ نہیں ہیں) حالانکہ ہمارے امام صاحب کا کہنا ہے کہ یہ اکابرین علماء دیوبند میں سے ہیں‘ کیا ا س ٹرسٹی صاحب کا یہ رویہ جو عالم نہیں ہیں‘ صحیح ہے یا نہیں؟
فقط حد ادب‘ محتاج دعا۔ موسیٰ حریف ‘ خادم مسجد‘ صدر مسجد عمر‘ لندن (انگلینڈ)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ العصمة والتوفیق
حامدا ومصلیا ومسلما
۱- امام صاحب کا قول وعمل مطابق شریعت اور درست ہے۔
۲- یہ تو صحیح ہے کہ احسن الفتاویٰ اور آپ کے مسائل سے نقل کردہ فتاویٰ درالعلوم دیوبند کے دار الافتاء سے صادر ہوئے فتاویٰ نہیں‘ مگر حضرت مولانا مفتی رشید احمد صاحب اور حضرت مولانا مفتی محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمہما اللہ تعالیٰ رحمة واسعة دونوں ہی بزرگ قریبی اکابر علماء دیوبند اور معتمد علیہ اہل فتویٰ میں سے ہیں۔ مسئلہ مذکورہ فی السؤال سے متعلق جو کچھ صراحت ان حضرات رحمہما اللہ نے اپنی اپنی کتابوں میں کی ہے‘ وہ ہمارے نزدیک درست ہے۔ فقط واللہ سبحانہ تعالیٰ اعلم۔ العبد احقر محمود بلند شہری غفرلہ دار العلوم دیوبند ۱۶/۲/۱۴۲۷ھ یوم الجمعہ
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ فرماتے ہیں:
”اب مفتی بہ قول یہ ہے کہ بچوں کو پیچھے کھڑا نہ کریں ‘ ورنہ وہ بہت شرارات کرتے ہیں‘ لہذا ان کو صفوں میں دائیں بائیں کھڑا کیاجائے تاکہ وہ شرارت کرکے نماز خراب نہ کریں ۔ علامہ رافعی نے یہ فتویٰ دیا ہے“۔ (انعام الباری دروس بخاری شریف‘ ج:۳‘ص:۵۴۹)
دارالعلوم کراچی کے نائب مفتی حضرت مولانا مفتی عبد الرؤف صاحب سکھروی دامت برکاتہم کا اس سلسلہ کا مفصل فتویٰ فقہی رسائل‘ ج:۱‘ص:۲۱۵تا۲۲۴ میں دیکھا جاسکتا ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم وعلمہ اتم واحکم۔
اشاعت ۲۰۰۷ ماہنامہ بینات, ذوالقعدہ ۱۴۲۸ھ دسمبر۲۰۰۶ء, جلد 70, شمارہ 11

    پچھلا مضمون: مسلمان بچوں کو مرتد بنانے کی سازش
Flag Counter