Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ذوالقعدہ ۱۴۲۸ھ دسمبر۲۰۰۶ء

ہ رسالہ

3 - 7
علامہ سید محمد یوسف بنوری اور خدمات حدیث
علامہ سید محمد یوسف بنوری اور خدمات حدیث (آخری قسط)


ہندوستان کے مشہور علمی ادارے ”مرکز الشیخ ابی الحسن الندوی للبحوث والدراسات الاسلامیة“ اعظم گڑھ یوپی میں صفر ۱۴۲۸ھ مطابق مارچ ۲۰۰۷ ء کو دو روزہ بین الاقوامی علمی سیمینار بعنوان ” ہندوستان اور علم حدیث تیرہویں اور چودہویں صدی میں“ منعقد ہوا ،جس میں جامعہ دارالعلوم فلاح دارین گجرات کے رئیس مولانا عبد اللہ صاحب کاپودروی نے بعنوان خاص” دور حاضر کے حافظ ابن حجر عسقلانی وانور شاہ کشمیری ثانی ، علم حدیث کے رمز شناس ، محدث جلیل علامہ محمد یوسف بنوری  اور خدمات حدیث “پراپنا قیمتی مقالہ پیش کیا ، قارئین بینات کے لیے برصغیر میں حضرت بنوری کی خدمات حدیث کے حوالے سے یہ معلوماتی مقالہ قسط وار پیش خدمت ہے ۔ (ادارہ)
حضرت مولانا محمد تقی عثمانی مدظلہ فرماتے ہیں:
”اللہ تعالیٰ نے حضرت بنوری کو اس دور میں علمی ودینی خدمات کے لئے نہ صرف چن لیا تھا‘ بلکہ ان کے کاموں میں غیر معمولی برکت عطا فرمائی تھی‘ ان کے علم وفضل کا سب سے بڑا شاہکار ان کی جامع ترمذی کی شرح معارف السنن ہے جو تقریباً تین ہزار صفحات پر مشتمل ہے اور چھ جلدوں میں شائع ہوچکی ہے‘ چونکہ پچھلے سات سال سے دار العلوم کراچی میں جامع ترمذی کا درس احقر کے سپرد ہے‘ اس لئے بفضلہ تعالیٰ مولانا کی اس کتاب کے مطالعہ کا خوب موقع ملا اور اگر میں یہ کہوں تو شاید مبالغہ نہ ہوگا کہ احقر کو اس کتاب کا ایک ایک صفحہ پڑھنے کا شرف حاصل ہوا ہے‘ لہذا اس میں بلاخوف تردید یہ کہہ سکتا ہوں کہ اگر حضرت علامہ محمد انور شاہ کشمیری کے محدثانہ مذاق کی جھلک کسی کتاب میں دیکھی جاسکتی ہے تو وہ معارف السنن ہے‘ افسوس ہے کہ علم وفضل کا یہ خزانہ تشنہٴ تمکیل رہے گا‘ اور کتاب الحج کے بعد اس کی تصنیف آگے نہ بڑھ سکی․․․ الخ“ (خصوصی نمبر ص:۶۹۱)
ردّ فتنہٴ پرویزیت
حضرت شیخ نے جہاں ردّ قادیانیت میں کمر کسی تھی وہاں فتنہٴ انکارِ حدیث (پرویزیت) کے رد میں بھی ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔
حنفیت اور امام ابوحنیفہ
مفتی ولی حسن ٹونکی نے تحریر فرمایا ہے کہ:
”ہم نے لکھا ہے کہ مولانا بنوری نے اس کتاب کے ذریعہ حنفیت کی بے بہا خدمت کی ہے اور مسائل خلافیہ میں حنفیہ کے موقف کو روایت ودرایت کی پوری قوت سے ثابت کیا ہے اس سلسلہ میں چند نمونے پیش ہیں:
#:․․․مسئلہٴ تیمم: معرکة الآراء مسئلہ ہے‘ امام احمد اور جمہور محدثین ایک طرف ہیں‘ امام ابوحنیفہ‘ امام مالک‘ امام شافعی رحمہم اللہ تعالیٰ دوسری جانب‘ احادیثِ صحاح جمہور محدثین کی مؤید ہیں ‘ احادیث حسان اور قیاس فقہاء کے ساتھ ہے‘ حافظ ابن حجر بھی ان احادیث صحاح سے متأثر ہیں اور تقریباً امام شافعی کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں‘ مولانا بنوری سب سے پہلے حافظ پر شدید تعقبات کرتے ہیں اور ان کے کلام کا فاضلانہ رد کرتے ہیں اور فقہاء کے مسلک کو روایت ودرایت سے ثابت کرتے ہیں اور حدیث عمار بن یاسر جو بقول محدثین اصح ما فی الباب ہے‘ اس میں اضطراب ثابت کرکے دوسری روایت کو ترجیح دیتے ہیں۔ حضرت عمار کے دو واقعے ہیں: اس کی فاضلانہ تحلیل کرتے ہیں اور مسئلہ منقح ہوجاتا ہے اور فقہائے کبار کا مسلک روز روشن کی طرح واضح ہوجاتاہے۔ (مسئلہ تیمم معارف السنن ج:۱‘ ص:۲۳۹)
#:․․․مسئلہ آخر وقت ظہر: یہ مسئلہ بھی معرکة الآراء ہے‘ حدیث جبریل بظاہر حجازیین کی مؤید ہے‘ امام ابوحنیفہ سے اس مسئلہ میں مختلف روایات ہیں‘ ان میں جمع وتطبیق اور مسلک امام کی ترجیح اور اپنے شیخ کی تحقیق کی روشنی میں فاضلانہ بحث اس کتاب کی خصائص میں سے ہے۔
#:․․․مسئلہ تامین مشہور مسئلہ ہے: سفیان وشعبہ کی روایتوں کا اختلاف‘ طریق شعبہ پر محدثین کے اعتراضات اور اس کے مسکت جوابات اور ترجیح روایت شعبہ پر دونوں روایتوں کو جمع ”تذئیل“ کے عنوان سے اپنے شیخ کے کلام کی شرح وتلخیص‘ جہر للتعلیم کے نظائر‘ مد اور خفض کو جمع کرنا قابل ملاحظہ ہے۔
(معارف السنن ج:۲‘ص:۴۰۰ بحوالہ خصوصی نمبر ص:۱۶۱)
حضرت بنوری کا درس بخاری شریف:
حضرت بنوری نے تقریباً پچاس برس حدیث پاک کا درس دیا ہے‘ خاص طور پر امام محمد بن اسماعیل کی الجامع الصحیح‘ امام محمد عیسیٰ الترمذی کی سنن ترمذی اور ابو داؤد شریف اکثر درس میں رہیں‘ حضرت کے ایک امریکی نو مسلم تلمیذ رشید جو انگریزی کے ادیب تھے‘ ساتھ ساتھ عربی زبان میں بہت عمدہ گفتگو کرتے تھے‘ شیخ الازہر نیوٹاؤن تشریف لائے تو ان کی عربی تقریر سن کر مبہوت رہ گئے‘ ان کا نام نامی محمد یوسف طلال ہے‘ فرماتے ہیں: حضرت مولانا بنوری کو امام بخاری کی کتاب الجامع الصحیح سے بے حد محبت اور عقیدت تھی‘ چالیس سال سے زیادہ اس کتاب کا درس دیتے رہے‘ متناً وسنداً‘ درایةً وروایةً‘ ذوقاً ووجداناً اس کتاب کے علمی نکات ‘ حقائق ودقائق اور غوامض ومشکلات کی جامع ترین تشریح وتوضیح نہایت دلبستگی کے ساتھ کرتے تھے‘ ایک دفعہ میں نے مولانا مرحوم سے کہا کہ ”اری البخاری ینعشکم“ (میرے خیال میں بخاری کی کتاب آپ کے لئے فرحت افزا ہے( انہوں نے بہت خوش ہوکر فرمایا: ”نعم‘ نعم‘ ہو ینعشنی“ (ہاں ہاں‘ میرے لئے فرحت بخش ضرور ہے) ان کا کمال تھا کہ ان کے طرز تدریس سے ایک قدیم ترین اسلامی کتاب بالکل ترو تازہ ہوکر طلبہ کی آنکھوں کے سامنے زندہ ہوجاتی تھی‘ فرمایا کرتے تھے کہ: میں اس لئے بخاری شریف پڑھاتاہوں کہ اس میں نہ صرف اوراق ہیں‘ بلکہ اس میں دین ہے‘ حضرت محمد ا کے انفاس قدسیہ ہیں‘ ہدایت واصلاح کا پورا سامان ہے۔ (خصوصی نمبر ص:۳۹۹)
علم حدیث میں وسعت معلومات:
حضرت بنوری کو علم حدیث میں جو بلند مقام حاصل ہوا اور جوگہرائی آپ کے درس وتالیفات میں پائی جاتی ہے‘ اس کا سبب یہ ہے کہ آپ نے کتب حدیث کے بہت بڑے ذخیرہ کو اپنے مطالعہ میں رکھا تھا‘ مولانا محمد طاسین صاحب (مجلس علمی کراچی) تحریر فرماتے ہیں کہ:
”علوم حدیث سے تعلق رکھنے والی جو کتابیں مولانا کے مطالعہ میں آئیں‘ ان میں سے بعض یہ ہیں:
۱:-”مقدمة علوم الحدیث المعروف بہ مقدمة ابن صلاح‘ ۲:-التقیید والایضاح للعراقی‘ ۳:-فتح المغیث بشرح الفیة الحدیث للعراقی‘۴:- فتح المغیث بشرح الفیة الحدیث للسخاوی‘۵:- الکفایة فی علم الروایة للخطیب‘ ۶:-معرفة علوم الحدیث للحاکم‘ ۷:-تدریب الراوی للسیوطی‘ ۸:-نزہة النظر شرح نخبة الفکر لابن حجر العسقلانی‘ ۹:-ظفر الامانی فی شرح مختصر الجرجانی لعبد الحئ اللکنوی‘ ۱۰:-کوثر النبی مع مناظرة الجلی لفرہاروی‘۱۱:- الباحث الحثیث لابن کثیر‘ ۱۲:-مفتاح السنة للخولی‘۱۳:-توجیہ النظر الی اصول علم الاثر للجزائری‘ ۱۴:-شروط الائمة الخمسة للحازمی‘ ۱۵:-مقدمة فتح الملہم للعثمانی‘۱۶:- مقدمة اعلاء السنن للتہانوی‘ ۱۷:-بلغة الغریب فی مصطلح آثار الحبیب للزبیدی‘۱۸:- الرسالة المستطرفة للکتانی‘ ۱۹:-بستان المحدثین اور۲۰:- عجالہ نافعہ لشاہ عبد العزیز الدہلوی‘ ۲۱:-السنة ومکانتہا فی التشریع الاسلامی للسباعی‘۲۲:- السنة قبل التدوین لمناظر احسن گیلانی‘ ۲۳:-ابن ماجہ اور علم حدیث لعبد الرشید نعمانی وغیرہ“۔
جہاں تک متون حدیث سے تعلق رکھنے والی کتابوں کا تعلق ہے ان میں جو درسی کتابیں ہیں جیسے صحاح ستہ‘مؤطا مالک‘ مشکوٰة المصابیح‘ معانی الآثار للطحاوی یہ کتابیں چونکہ مولانا نے درس میں پڑھائی ہیں‘ لہذا ان میں سے ہرکتاب اس کے شروح وحواشی کے ساتھ بار بار مولانا کی نظر سے گذری‘ صحیح البخاری کی شروح میں سے فتح الباری اور عمدة القاری تو ہر سال آپ کے مطالعہ میں رہیں‘ ان کے علاوہ حدیث شریف کی جو کتابیں آپ نے مطالعہ فرمائیں ان میں سے کچھ یہ ہیں:
”۱:․جامع الاسانید لامام ابی حنیفة‘ ۲:․کتاب الآثار لامام محمد بن حسن الشیبانی‘ ۳:․کتاب الاثار لامام ابی یوسف‘ ۴:․مؤطا لامام محمد الشیبانی‘ ۵:․سنن الشافعی‘ ۶:․مسند احمد بن حنبل‘۷:․ الفتح الربانی للساعاتی‘ ۸:․کتاب السنة لعبد اللہ احمد‘۹:․ مسند الربیع بن حبیب‘ ۱۰:․مسند ابی داؤد الطیالسی‘۱۱:․ المصنف لعبد الرزاق‘۱۲:․ المسند للحمیدی‘۱۳:․ المصنف لابن ابی شیبة‘ ۱۴:․سنن سعید بن منصور‘ ۱۵:․سنن الدرامی‘۱۶:․ المنتقی من السنن المسندة عن المصطفی لابی جارود‘ ۱۷:․مسند ابی عوانہ‘ ۱۸:․مشکل الآثار للطحاوی‘ ۱۹:․المعجم الصغیر للطبرانی‘۲۰:․ سنن الدار قطنی‘ ۲۱:․صحیح ابن خزیمة‘ ۲۲:․المستدرک للحاکم‘ ۲۳:․السنن الکبری للبیہقی‘ ۲۴:․الجوہر النقی فی الرد علی البیہقی لترکمانی‘ ۲۵:․الاعتبار فی بیان الناسخ والمنسوخ من الاخبار للحازمی‘۲۶:․ مشارق الانوار للصاغانی‘۲۷:․ الترغیب‘ والترہیب للمنذری‘۲۸:․ ریاض الصالحین للنووی‘ ۲۹:․کتاب الاسماء والصفات للبیہقی‘۳۰:․ شرح السنة للبغوی‘ ۳۱:․المحرر فی الحدیث لابن قدامة‘ ۳۲:․عمدة الاحکام من کلام خیر الانام لعبد الغنی المقدسی‘ ۳۳:․احکام الاحکام شرح عمدة الاحکام لابن دقیق العید‘ ۳۴:․المحلی لابن حزم‘۳۵:․ نصب الرایة فی تخریج احادیث الہدایة‘ ۳۶:․جامع العلوم والحکم لابن رجب‘ ۳۷:․طرح التثریب فی شرح التقریب للعراقی‘ ۳۸:․مجمع الزوائد ومنبع الفوائد للہیثمی‘ ۳۹:․التلخیص الحبیر فی تخریج احادیث الرافعی الکبیر لابن حجر‘ ۴۰:․الدرایة فی تخریج احادیث الہدایة لابن حجر‘ ۴۱:․بلوغ المرام من ادلة الاحکام لابن حجر‘ ۴۲:․الجامع الصغیر للسیوطی‘۴۳ :․فیض القدیر شرح الجامع الصغیر للمناوی‘۴۴:․ تیسیر الوصول الی جامع الاصول لابن الدیبع‘ ۴۵:․جامع الاصول لاحادیث الرسول لابن الاثیر الجزری‘ ۴۶:․کشف الغمة عن جمیع الامة للشعرانی‘ ۴۷:․کنز العمال فی سنن الاقوال والافعال لعلی متقی الہندی‘ ۴۸:․کنوز الحقائق فی حدیث خیر الخلائق للمناوی‘ ۴۹:․جمع الفوائد من جامع الاصول ومجمع الزوائد للفاسی‘ ۵۰:نیل الاوطار للشوکانی‘ ۵۱:․عقود الجواہر المنیفة للزبیدی‘۵۲:․ شرح رموز الاحادیث لضیاء الدین الکمشحانوی‘۵۳:․ آثار السنن للنیموی‘ ۵۴:․اعلاء السنن لظفر احمد تہانوی‘۵۵:․ ذخائر المواریث للنابلسی‘۵۶:․ فضل اللہ الصمد شرح ادب المفرد‘ ۵۷:․الاتحاف السنیة فی الاحادیث القدسیة للمدنی‘۵۸:․ عمل الیوم واللیلة لابن السنی‘ ۵۹:․لطائف المعارف لابن رجب‘ ۶۰:․الحصن الحصین للجزری‘۶۱:․ علل الحدیث لابن ابی حاتم‘۶۲:․ تاویل مختلف الحدیث لابن قتیبة‘۶۳:․ المقاصد الحسنة للسخاوی‘ ۶۴:․کشف الخفاء للعجلونی‘۶۵:․ الفوائد المجموعة فی الاحادیث الموضوعة للشوکانی‘۶۶:․ اللآلی المصنوعة فی الاحادیث الموضوعة للسیوطی‘۶۷: کتاب الموضوعات لابن الجوزی‘ ۶۸:․التعقبات علی الموضوعات للسیوطی‘ ۶۹:․تذکرة الموضوعات لطاہر پٹنی‘ ۷۰:․الموضوعات الکبیر لملا علی قاری‘۷۱:․ تنزیہ الشریعة المرفوعة للکنانی‘ ۷۲:․اسنی المطالب لابن درویش وغیرہا۔
لغات حدیث میں جو کتابیں مولانا کے مطالعہ میں آئیں، وہ یہ ہیں:
النہایة للجزری‘ الفائق للزمخشری‘ مجمع البحار لطاہر پٹنی اور اسماء الرجال کی ان سب کتابوں کا مولانا نے مطالعہ فرمایا جو مطبوعہ شکل میں عام طور سے دستیاب تھیں‘ مثلاً امام بخاری کی تاریخ الکبیر اور کتاب الضعفاء الصغیر‘ ابن ابی حاتم کی کتاب الجرح والتعدیل‘ ابن سعد کی الطبقات الکبیر‘ علامہ ذہبی کی تذکرة الحفاظ اور اس کے تین ذیل نیز میزان الاعتدال‘ المشتبہ فی الرجال‘ سیر اعلام النبلاء‘ تجرید اسماء الصحابة‘ رسالة فی المیزان‘ تعجیل المنفعة‘ تقریب التہذیب نیز الاصابة فی تمییز الصحابة اور طبقات المدلسین‘ علامہ الخزرجی کی خلاصة تذہیب الکمال‘ ابن القسیرانی کی الجمع بین رجال الصحیحین‘ طاہر پٹنی کی المغنی فی اسماء الرجال‘ابوتراب شاہ کی کشف الاستار عن رجال معانی الآثار‘ عبد الوہاب مدراسی کی کشف الاحوال فی نقد الرجال‘ الجرانی کی کتاب قرة العین فی ضبط اسماء رجال الصحیحین‘ دولابی کی کتاب الکنی والاسماء‘ علامہ ازدی کی المؤتلف والمختلف اور کتاب مشتبہ النسبة‘ جمال الدین الدمشقی کی الجرح والتعدیل‘ مولانا عبد الحئی لکھنوی کی الرفع والتکمیل‘ امام نووی کی اسماء والصفات‘ ابن عبد البر کی الاستیعاب‘ ابن اثیر جزری کی اسد الغابة‘ ابوعمر الکشی کی معرفة الرجال‘ حافظ برہان الدین کی التبیین لاسماء المدلسین اور الاغتباط بمن رمی بالاختلاط‘ محب طبری کی الریاض النضرة‘ علامہ بلاذری کی انساب الاشراف اور سمعانی کی کتاب الانساب‘ وغیرہا من الکتب۔ (خصوصی نمبر ص:۴۱۳تا۴۱۵)
حضرت بنوری کا ترمذی پر تخریج احادیث کا نمونہ
حضرت نے ابواب الطہور کے پہلے باب کی حدیث کی خود تخریج فرمائی اور حضرت اسی طرز پر پوری کتاب پر کام کروانا چاہتے تھے۔ ب
اب لاتقبل صلاة بغیر طہور
اس باب میں تین حدیثوں کا حوالہ دیا گیاہے:
۱- ”حدیث ابی الملیح عن ابیہ‘ نسائی اور ابوداؤد نے ”باب فرض الوضوء“ میں اور ابن ماجہ نے ”باب لاتقبل اللہ صلوة بغیر طہور“ میں۔
۲- حدیث ابی ہریرة ‘ صحیح بخاری ”باب لاتقبل صلوة بغیر طہور“ میں۔
۳- حدیث انس ‘ ابن ماجہ نے باب مذکور ہی میں‘ اس لئے ہیثمی کا اسے مجمع الزوائد میں ذکر کرنا درست نہیں۔لکھتے ہیں اس باب میں مندرجہٴ ذیل احادیث بھی موجود ہیں:
۱- حدیث ابی بکرة‘ ابن ماجہ میں۔
۲- حدیث ابی سعید‘ طبرانی اوسط اور بزار میں‘ اس میں عبید اللہ بن یزید القیروانی ہے۔
۳- حدیث ابن مسعود‘ طبرانی کبیر میں‘ اس میں عباد بن احمد عزرمی متروک راوی ہے۔
۴- حدیث عمران بن الحصین ‘ طبرانی کبیر میں ہیثمی کہتے ہیں اس کے رجال صحیح کے رجال ہیں۔
۵- حدیث ابی سبرة‘ طبرانی کبیر میں‘ اس میں یحیٰ بن یزید بن عبد اللہ انیس ہے جو ہیثمی کے یہاں غیر معروف ہے۔
۶- حدیث ابی الدرداء‘ طبرانی کبیر میں ہیثمی کہتے ہیں: اس کے رجال ثقہ ہیں۔
۷- حدیث ابن سبرة عن ابیہ عن جدہ‘ طبرانی اوسط میں۔
۸- حدیث جدة رباح بن عبد الرحمن‘ مسند احمد میں‘ اس کی سند میں ابوثفال ہے اور بقول امام بخاری جس کی احادیث قابل نظر ہیں۔ (ملاحظہ ہو ”مجمع الزوائد“)
۹- حدیث سعد بن عمارة ‘ طبرانی کبیر میں‘ بقول ہیثمی اس میں غیر معروف راوی ہے۔
ا س ایک معنی کی احادیث تیرہ صحابی روایت کررہے ہیں‘ لہذا یہ حدیث متواتر ہوگئی اور کتاب اور اجماع سے یہ حکم ثابت ہوگیا۔ (خصوصی نمبر ص:۲۷۹تا۲۷۸)
حضرت بنوری فرمایا کرتے تھے کہ: حدیث کی کسی کتاب کی شرح کرنا اس وقت تک درست نہیں جب تک شارح ‘ حدیث کا حافظ اور الفاظ وطرق سے واقف نہ ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ جب کسی عالم اور محدث کے سامنے کسی حدیث کے تمام رواة یعنی صحابہٴ کرام آجائیں گے اور حدیث کا درجہ تواتر‘ شہرت وغیرہ کے اعتبار سے معلوم ہوجائے گا تو یہ ان لوگوں کی تردیدکے لئے نہایت وزنی دلیل ہوگی جو اخبارِ آحاد کے منکر ہیں یا احادیث میں غلط تاویلات کا سہارا لیتے ہیں‘ خاص طور سے ہمارے پر آشوب اور پر فتن دور میں جس میں انکار حدیث اور تاویلات باطلہ وفاسدہ مفسدین وزائغین کا شیوہ بن گیا ہے۔ جامع ترمذی کی شرح کے دوران حضرت شیخ نے ”ما فی الباب“ کی احادیث کی تخریج کا عزم کیا اور بروز دو شنبہ ۷/رجب ۱۳۶۴ھ کو اس کام کی ابتداء کی۔چنانچہ حضرت شیخ نے ابواب العیدین کے ۵۲/باب‘ ابواب الزکوٰة کے ۳۸/ اور ابواب الصوم کے ۳۲/ ابواب کی تخریج فرمائی۔ ذیل میں بطور نمونہ ایک باب ذکر کیا جاتا ہے۔
باب المشی یوم العید
اس باب میں امام ترمذی نے کسی حدیث کا حوالہ نہیں دیا‘ حالانکہ اس باب میں مندرجہ ذیل حدیثیں پائی جاتی ہیں۔
۱- حدیث سعد القرظ‘ ابن ماجہ (ص:۹۳) باب ماجاء فی الخروج یوم العید ماشیا۔
۲- حدیث ابن عمر‘ ابن ماجہ (ص:۹۳) باب ماجاء فی الخروج یوم العید ماشیا۔
۳- حدیث ابی رافع‘ ابن ماجہ (ص:۹۳) باب ماجاء فی الخروج یوم العید ماشیا۔
لیکن سب کی سند ضعیف ہے۔ عید اور جنازہ کے موقع پر نبی کریم ا کے سواری پر سوار ہونے کے بارے میں جو روایت آتی ہے‘ اگرچہ اس کو ابن قدامہ وغیرہ نے ذکر کیا ہے لیکن وہ بے اصل ہے۔ (ملاحظہ ہو تلخیص الحبیر ص:۱۴۴)
۴- حدیث سعد بن ابی وقاص‘بزار نے تخریج کی ہے، لیکن اس میں خالد بن الیاس متروک راوی ہے۔ ملاحظہ ہو مجمع الزوائد ج:۲‘ ص:۲۰۱۔ (خصوصی نمبر ص:۲۷۴تا۲۷۶)
افسوس کہ یہ کام حضرت نور اللہ مرقدہ کی شدید خواہش کے باوجود مکمل نہ ہوسکا‘ حضرت نے پہلے حضرت مفتی ولی حسن سے اس کی تکمیل کی درخواست فرمائی اور ان کے بعد ڈاکٹر حبیب اللہ مختار شہید کو سپرد فرمایا‘ انہوں نے بہت محنت اور جانفشانی سے اس کو شروع فرمایا مگر افسوس کی تکمیل سے قبل ہی شہید کردئے گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
اشاعت ۲۰۰۷ ماہنامہ بینات, ذوالقعدہ ۱۴۲۸ھ دسمبر۲۰۰۶ء, جلد 70, شمارہ 11

    پچھلا مضمون: بچوں کو بڑوں کی صف میں کھڑا کرنا
Flag Counter