Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی شعبان المعظم۱۴۲۷ھ ستمبر۲۰۰۶ء

ہ رسالہ

9 - 10
حضرت مولانا مفتی عبدالستار
حضرت مولانا مفتی عبدالستار


حضرت مفتی صاحب قدس سرہ اپنے محبوب استاذ حضرت مولانا مفتی محمد عبداللہ صاحب کے ادارہ ”نشرو اشاعت اسلامیات“ سے جامعہ خیرالمدارس کی تدریس‘ اعلیٰ کتب کی تعلیم اور دارالافتاء کی صدارت کے منصب پر کیسے فائز ہوئے؟ اس کی روئیداد خود حضرت مفتی صاحب کی زبانی سنئے اور ان کے علم و فضل کی داد دیجئے! حضرت مفتی صاحب لکھتے ہیں:
”امسال (تکمیل کے سال) نماز کی امامت بھی بندہ کے ذمہ تھی‘ نیز دارالافتاء میں بھی کچھ وقت کے لئے کام ہوتا تھا‘ آخر سال میں شدید بیمار ہوا‘ چنانچہ یکم شعبان ۱۳۷۱ھ کو امتحان دے کر گھر چلا گیا‘ کافی علاج معالجہ کے بعد اللہ پاک نے شفا عنایت فرمائی تو ہمارے عظیم محسن و مربی حضرت مفتی محمد عبداللہ نوراللہ مرقدہ نے ادارہ نشر و اشاعت اسلامیات ملتان میں کام کے لئے طلب فرمایا‘ چنانچہ چند سال تک ادارے میں کام کیا‘ بعض رسائل او ر شرعی ضابطہ دیوانی کی تصحیح و تحشیہ کا کام ان ایام میں ہی کیا گیا‘ ان دنوں حضرت مفتی صاحب کی بے حد شفقتیں اور احسانات اس ناکارہ پر ہوئے‘ اللہ پاک بے حد جزائے خیر عنایت فرماویں‘ بندہ کا قیام خیرالمدارس ہی میں تھا‘ اس لئے حضرت مولانا خیر محمد نوراللہ مرقدہ کی عنایت سے ایک‘ دو اسباق بھی مدرسہ کی طرف سے مل جاتے تھے‘ لیکن طبعی رجحان یہ تھا کہ پورا وقت مدرسہ میں ہو‘ حضرت مفتی صاحب کی خدمت میں عرض کیا تو حضرت نے فرمایا: یہاں کہنے میں تو ڈر لگتا ہے‘ چلو مدرسہ قاسم العلوم میں آپ کا تقرر کرادیتے ہیں‘ چنانچہ بندہ کو ساتھ لے کر حضرت مفتی صاحب‘ قاسم العلوم میں حضرت مولانا عبدالخالق مرحوم (جو ان دنوں وہاں کے شیخ الحدیث و صدر مدرس تھے) کے پاس تشریف لے گئے‘ اور مدعا ظاہر کیا‘ کچھ نیم رضا کا اظہار بھی ہوا‘ واپس مدرسہ خیرالمدارس آنے پر مجھے خیال ہوا کہ حضرت مولانا خیر محمد صاحب سے مشورہ اور اجازت حاصل کرلینا ضروری ہے‘ چنانچہ بندہ نے خدمتِ عالی میں عریضہ لکھا تو حضرت نے جواباً تحریر فرمایا کہ :آپ کا مدرسہ خیرالمدارس سے انقطاع تو گوارا نہیں‘ اس لئے تدریس کا ہی شوق ہو تو آپ کا تقررخیر المدارس میں کیا جاتا ہے۔ (بحاصلہ)
اندھے کو کیا چاہئے دو آنکھیں‘ حضرت اقدس کی اس عنایت پر بے حد مسرت ہوئی اور حضرت مفتی صاحب نے بھی بخوشی اسے قبول فرماتے ہوئے خیرالمدارس میں کام کرنے کی اجازت مرحمت فرمادی‘ خیرالمدارس میں بعض اسباق کے ساتھ ساتھ افتاء کی خدمت کسی نہ کسی شکل میں تقریباً مسلسل بندہ کے ذمہ رہی ہے‘ خداوند قدوس کے انعامات و احسانات کا اجتبائی معاملہ اسباق میں بھی اس ناکارہ کے ساتھ ظاہر ہوا‘ مشکوٰة شریف پڑھانے والے حضرات کو دیکھ کر رشک ہوتا تھا کہ ہمیں بھی کبھی حدیث پاک کی تھوڑی سی خدمت کا موقع ملے گا‘ دورئہ حدیث شریف اور دارالحدیث کی باتیں تو آرزو و تصور سے بالا تھیں‘ کبھی حاشیہٴ خیال میں بھی نہیں آیا تھا کہ دورئہ حدیث شریف کے اسباق میں سے کوئی سبق بھی ہمیں مل سکتا ہے‘ آج کے خیرالمدارس کو اس وقت کے خیرالمدارس پر قیاس نہیں کرنا چاہئے‘ اس دور میں یہ ممکن نہ تھا کہ کسی سبق کے بارے میں کوئی استاذ دعویٰ استحقاق کرے (بلکہ) کلی تفویض ہوتی تھی‘ بہرحال تقسیم اسباق کا نقشہ بننے لگا‘ حضرت مولانا خیر محمد نوراللہ مرقدہ نے غایت شفقت فرماتے ہوئے دورئہ حدیث کا سبق طحاوی شریف عنایت فرمایا‘ ہمیں عموماً اسباق کا علم‘ نقشہ تقسیم لٹکادیئے جانے کے بعد ہی ہوا کرتا تھا‘ اس سے قبل خواہ مخواہ کی دخل اندازی یا استراق یا کسی پر منصوبے بندی کی الحمدللہ! عادت ہی نہ تھی‘ بس جو سبق متعین ہوگیا‘ اسی کو غنیمت سمجھا لیا جاتا تھا‘ نہ بننے کی فکر‘ نہ کتابیں نکل جانے کی آرزو‘ کچھ بھی نہ تھی‘ یہ شعر تو یاد نہ تھا‘ لیکن بس نظر حق جل شانہ کی ذات کریم پر ہوتی تھی کہ جو ادھر سے ظہور میں آئے گا عین مصلحت ہوگا:”ہر چہ ساقی ماریخت عین الطافست“ نیز خیال ہوتا تھا کہ:
”فکرِ مادر کارِ ما آزارِما“واقعی اسی کا ظہور ہوا‘ بلا کسی ایماء‘ ترغیب‘ طلب اور تمام کتابیں نکالے براہِ قریب دورئہ حدیث شریف کے اسباق میں پہنچادیا گیا‘ شاید کسی نے اس ترجیح کو محسوس بھی کیا ہو‘ لیکن ”جف القلم“ والا معاملہ تھا‘ کسی کو مجالِ اعتراض نہ تھی‘ دو تین سال کے بعد بالکل اسی طرح پر ابوداؤد شریف کا سبق عنایت ہوا۔ یہ حضرت اقدس کی زندگی مبارک کا غالباً آخری سال ۱۳۸۹ھ تھا‘ رمضان المبارک سے قبل آپ کو گردے کی تکلیف ہوگئی تھی‘ صحت بہت علیل رہی‘ چھاؤنی ملٹری ہسپتال میں حضرت زیر علاج رہے‘ لیکن افاقہ نہ ہوا ‘پھر لاہور تشریف لے گئے‘ وہاں پر میو ہسپتال میں آپریشن کا طے ہوا‘ لیکن محترم جناب ڈاکٹر منیر صاحب کے مشورہ سے تجویز ہوا کہ آپریشن نشتر ہسپتال ملتان میں ہی کرانا چاہئے‘ چنانچہ حضرت لاہور سے ملتان نہایت ضعف و علالت کی حالت میں لائے گئے اور نشتر ہسپتال میں کامیاب آپریشن ہوا اور آپ خدا کے فضل و کرم سے صحت یاب ہوگئے‘ یہ حضرت کا آخری رمضان تھا‘ جو ہسپتالوں میں نہایت تکلیف میں گزرا‘ ابھی نشتر ہسپتال ہی میں تشریف رکھتے تھے کہ اوائل شوال میں مخصوص احباب سے یہ خواہش ظاہر فرمائی کہ حضرت مفتی محمد عبداللہ صاحب  کا تعلق تاحیات خیرالمدارس سے رہے‘ نیز یہ کہ اس سال ابو داؤد شریف کا سبق (حضرت مفتی) عبدالستار (صاحب) کو دیا جائے وغیرہ‘ پھر آپ شفایاب ہوکر دولت کدہ پر تشریف لے آئے‘ طبیعت سنبھل گئی‘ مدرسے کے داخلے مکمل ہوکر اسباق تقسیم ہوئے تو ابوداؤد شریف بندہ کے نام تحریر فرمالی گئی‘ پھر غایت توجہ‘ شفقت و تربیتی شان کا مظاہرہ اس طرح فرمایا کہ چونکہ اس اہم کتاب کی تدریس کا بندہ کا پہلا سال تھا‘ نااہلیت و عدمِ استعداد تو ظاہر ہے‘ ہوا یہ کہ بندہ جو سبق پڑھاتا‘ حضرت نوراللہ مرقدہ‘ ہر روز اپنے خادم مولوی عبدالشکور صاحب سے (جو اس وقت دورئہ حدیث شریف بھی پڑھ رہے تھے) باقاعدہ سنتے اور مسرت کا اظہار فرماتے‘ حضرت اقدس کی اس کرم فرمائی و ذرہ نوازی کا علم بندہ کو بہت دنوں بعد مولوی عبدالشکور صاحب موصوف کی زبانی ہوا‘ اول وہلہ میں سنتے ہی میرے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی کہ یہ کیا ہوا؟ بندہ کے ذہن میں کبھی اس سماع و اختبار کا تصور بھی نہیں آیا تھا‘ لیکن مولوی صاحب موصوف نے حضرت کے اطمینان و مسرت کا بتلایا تو جان میں جان آئی ‘والحمدللہ کثیراً‘ اسی سال ۱۳۹۰ھ کے آخر میں حضرت نوراللہ مرقدہ کا شعبان میں وصال ہوا۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ایک دو سال کے بعد پھر صحیح مسلم شریف کا سبق ملا‘ بخاری شریف اور ترمذی شریف مخدومنا المکرم حضرت علامہ کشمیری صاحب دامت برکاتہم کے پاس ہوتی تھیں‘ ان میں کسی تغیر و تبدل کا احتمال ہی نہ تھا‘ نہ کسی کو طمع ہوسکتی تھی کہ ان میں سے کوئی سبق کسی دوسرے کو مل سکتا ہے‘ مگر حسن اتفاق سے بخاری شریف مل گئی‘ توکلاً علی اللہ بخاری شریف کا سبق شروع کردیا گیا‘ مقدمہ بدؤالوحی اور کتاب الایمان کے تقریباً آخر تک کتاب ہوئی‘ طلبہ الحمدللہ! حسبِ سابق بالکل مطمئن تھے‘ حالانکہ ایسے انقلابی و ہنگامی حالات میں طلبہ جیسی قوم کا مطمئن ہونا انتہائی دشوار ہوتا ہے‘ اس مقدار کتاب پر بندہ کے امالی باریک خط سے کئی سو صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں‘ ایک مرتبہ شیخ الحدیث مولانا علی محمد صاحب مدظلہ کبیر والا سے تشریف لائے‘ موصوف عرصہ سے بخاری شریف پڑھارہے ہیں‘ بندہ نے کچھ عنوانات ذکر کئے کہ امالی میں یہ‘ یہ بحثیں شامل ہیں‘ نہایت تعجب سے خوشی کا اظہار فرماتے رہے کہ ایسی تفصیل تو اب تک ہمارے ہاں بھی نہیں ہے‘ کچھ آگے تک سبق پہنچا تھا کہ بندہ پر اچانک شدید مرض کا حملہ ہوا‘ علاج معالجے کے بعد بھی صحت‘ تدریس کی متحمل نہ ہوسکی تو بالآخر بیماری کی وجہ سے بخاری اول کی بجائے بخاری ثانی بندہ کے ذمہ ہوئی‘ بہ تکلف اس کا سبق ہوتا رہا‘ ایک سال ابن ماجہ اور موطا امام مالک کے بھی اسباق ہوئے‘ تکمیل کی جماعت نے حجةاللہ البالغہ‘ تاسیس النظر‘ درمختار اور عقود رسم المفتی وغیرہ کتب بھی پڑھیں۔
حضرت مولانا خیر محمد نوراللہ مرقدہ نے بخاری شریف پر شروح وغیرہ سے کچھ فوائد منتخب فرماکر جمع فرمائے تھے‘ غایت ِ احتیاط کی وجہ سے حضرت کی خواہش تھی کہ کوئی معتمد عالم اس پر نظر ثانی کرلے‘ پہلے کسی دوسری جگہ پر (غالباً مولانا محمد موسیٰ صاحب کے ہاں… ناقل) یہ کام ہوا‘ پھر حضرت اقدس نوراللہ مرقدہ کی نظر عنایت بندہ پر ہوئی اور نظر ثانی کا ارشاد فرمایا۔ حضرت کی نگرانی و مشورہ میں الحمدللہ! بعض مقامات پر اصلاحات بھی ہوئیں‘ طلبہ کے فائدہ کی غرض سے ان میں سے ایک مقام نقل کرتا ہوں: خیر الباری میں صلوٰة الخوف کی کیفیت کے بارے میں جو شافعیہ کا مذہب تھا (کہ امام پہلے گروہ کو ایک رکعت پڑھا کر انتظار کرے‘ حتی کہ وہ اپنی نماز پوری کرکے دشمن کی طرف واپس چلا جائے اور اب دوسرا گروہ آجائے‘ امام اس کو دوسری رکعت پڑھا کر پھر انتظار کرے‘ یہاں تک کہ وہ اپنی نماز پوری کرلے‘ تب امام ان کے ساتھ سلام پھیرے… ناقل) وہ مالکیہ کا مذہب لکھا گیا اور جو مالکیہ کا تھا (کہ امام دوسرے گروہ کو دوسری رکعت پڑھا کر ان کی تتمیم نماز کا انتظار کئے بغیر بلا تاخیر سلام پھیردے اور وہ طائفہ بعداز قعدہ امام کھڑے ہوکر اپنی نماز پوری کرتا رہے) وہ شافعیہ کا مذہب نقل ہوگیا تھا‘ بندہ کی مشکوٰة کی املائی تقریر میں بھی ایسے ہی تھا‘ لیکن کتابیں دیکھنے سے حقیقتِ حال سامنے آئی تو حضرت کی خدمت میں مشورہ کے لئے سب مالہ‘ و ما علیہ پیش کردیا‘حضرت نے فرمایا اور دیکھو‘ چنانچہ مزید دیکھا گیا تو بھی اس کے خلاف ثابت ہوا ‘تو حضرت نے اصلاح کی اجازت فرمادی۔ دراصل یہ خلطِ مذاہب فیض الباری میں واقع ہوا تھا‘ وہاں سے ہی حضرت نے یہ مذاہب نقل فرمائے تھے‘ پورا اطمینان فرمالینے کے بعد ارشاد فرمایا کہ :فیض الباری میں بھی تصحیح کردی جائے۔“
(مختصر حالات حضرت مفتی صاحب مندرجہ سوانح فتحیہ ص:۴۱۰‘۴۱۴)
بلاشبہ حضرت مفتی صاحب اگر علم و فضل اور اخذ و تحقیق میں اپنے اسلاف کے جانشین تھے‘ تو تقویٰ‘ طہارت‘ زہد‘ تکشف‘ صلاح‘ فلاح‘ طاعت اور عبادت میں بھی خیرالقرون کا نمونہ اور نقش ثانی تھے‘ اسی طرح تقریر‘ بیان‘ وعظ‘ نصیحت‘ تحریر اور انشاء کے میدان میں بھی وہ کسی سے پیچھے نہیں تھے۔ چنانچہ آپ کے علمی فتاویٰ‘ اور اصلاحی و تحقیقی مضامین اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں‘ مگر بایں ہمہ عجز‘ انکسار‘ تواضع‘ فروتنی‘ خمول اور گوشہ نشینی میں بھی اس دور میں آپ کا ہمسر نہیں تھا‘ چنانچہ اپنے چھوٹوں‘ شاگردوں اور شاگردوں کے شاگردوں کے ساتھ بھی وہ ایسا برتاؤ کرتے کہ آدمی پانی پانی ہوجاتا۔
راقم الحروف کو بھی حضرت مفتی صاحب سے ایک عرصہ سے نیاز حاصل تھا‘ جس کا بارہا بچشم سر مشاہدہ کیا۔ بلاشبہ آپ جس طرح اپنے چھوٹوں سے حوصلہ افزائی کا معاملہ کرتے‘ اس دور میں اس کی مثال مشکل سے ملے گی‘ آپ اپنے چھوٹوں کی علمی‘ عملی‘ تحقیقی اور اصلاحی تربیت ضرور فرماتے‘ مگر ان کی عزت نفس کو مجروح نہ ہونے دیتے‘ بلکہ ہر مرحلہ میں عجز و انکسار کے مظاہرہ سے ہی ان کی تربیت فرماتے‘ نمود‘ نمائش‘ شہرت و خودنمائی کی مروجہ شکلوں اور حیلوں بہانوں سے آپ کوسوں دور تھے‘ یہی وجہ ہے کہ آپ عموماً عوامی اجتماعات میں شرکت سے اجتناب فرماتے۔
ہمارے اکابر و اسلاف کا یہ امتیاز و اختصاص رہا ہے کہ وہ تعمیر ظاہر کے ساتھ ساتھ تعمیر باطن سے بھی کبھی غافل نہیں رہے‘ وہ علم کو حجاب اکبر سمجھتے تھے‘ ان کا کہنا تھا کہ علم بلاعمل سے انسان راہ اعتدال سے ہٹ بھی سکتا ہے‘ اس لئے وہ سلوک و احسان کے ذریعہ اپنے نفس کی تنابیں کھینچ کر رکھتے ہیں‘ اپنے آپ کو کسی اللہ والے کے سپرد کرکے اپنی نکیل ان کے حوالے کردیتے ہیں‘ عملی زندگی میں وہ ایسے باخدا حضرات سے بیعت کرکے گویا اپنے آپ کو ان کے ہاتھ بیچ دیتے ہیں اور اپنی مرضی کو ان کی مرضی میں ضم کرکے مردہ بدست زندہ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
بلاشبہ اس میدان میں بھی حضرت مفتی صاحب قدس سرہ نے کبھی بے اعتنائی نہیں برتی‘ چنانچہ آپ نے سب سے پہلا اصلاحی تعلق خیرالعلماء حضرت مولانا خیر محمد ‘ دوسرا‘ مادر زاد ولی حضرت مولانا مفتی محمد حسن امرتسری قدس سرہ سے‘ ان کی رحلت کے بعد قطب الارشاد حضرت مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی قدس سرہ‘ اس کے بعد زاہد وقت حضرت اقدس مولانا محمد عبداللہ بہلوی قدس سرہ سے‘ اس کے بعد حضرت مولانا عبدالعزیز  چک گیارہ والوں سے اور آخر میں مخدوم مکرم صوفی محمد اقبال قدس سرہ سے آپ کا اصلاحی تعلق رہا۔ موخر الذکر بزرگ جناب صوفی محمد اقبال صاحب نے آپ کو اجازت و خلافت سے سرفراز فرمایا‘ جبکہ امام القرأ حضرت مولانا قاری فتح محمد خلیفہ اجل حضرت مولانا مفتی محمد حسن قدس سرہ اور حضرت مولانا فضل علی قریشی قدس سرہ کے خلیفہ مجاز حضرت مولانا علی مرتضیٰ گدائی ضلع ڈیرہ غازی خان کی جانب سے بھی آپ کو سند خلافت و اجازت سے نوازا گیا۔
حضرت مفتی صاحب قدس سرہ خالص و متصلب اور پکے دیوبندی تھے‘ آپ اپنے اکابر کی تحقیق سے سرموانحراف کو برداشت نہ کرتے‘ آپ کے تصلب کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ کے شیخ جناب صوفی محمد اقبال صاحب نے جب ”اصلاح مفاہیم“ کے معاملہ میں کچھ نرمی دکھائی تو حضرت مفتی صاحب نے اپنے شیخ کے موقف کے برخلاف اکابر دیوبند کے موقف کی نہ صرف تائید کی بلکہ صاف اور واشگاف الفاظ میں حضرت صوفی صاحب کے موقف کے خلاف قلم اٹھایا۔ ماہنامہ ”الخیر“ کی فائلیں اس کی گواہ ہیں‘ جب تک حضرت صوفی صاحب کی طرف سے کامل اطمینان و وضاحت نہ آئی‘ حضرت مفتی صاحب کے موقف میں لچک نہیں آئی۔ بلاشبہ آج کے دور میں ایسے حضرات چراغ لے کر ڈھونڈھنے سے بھی نہیں ملتے۔
حضرت مفتی صاحب کا پاکستان بھر میں ا یک عظیم حلقہ ہے‘ آپ کے مسترشدین پر حضرت مفتی صاحب کا رنگ نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔
بلاشبہ حضرت مفتی صاحب کے فیض نظر سے سینکڑوں نہیں‘ ہزاروں افراد کی زندگیوں میں انقلاب برپا ہوا اور کئی ایک خوش قسمت افراد کو آپ نے اپنی اجازت وخلافت کے اعزاز سے سرفراز فرمایا۔
بلامبالغہ حضرت مفتی صاحب کی ذات اس وقت حلقہ دیوبند اور خصوصاً جنوبی پنجاب کی پٹی میں ایک شجر سایہ دار تھی‘ آپ کی رحلت سے ایک مہیب خلا پیدا ہوگیا۔ خداکرے ان کے متعلقین‘ منتسبین‘ مسترشدین اور خلفاء ان کے چھوڑے ہوئے مشن کو جاری رکھیں اور امت کی راہ نمائی کا فریضہ انجام دیتے رہیں۔ یوں تو حضرت مفتی صاحب قریب قریب نحیف و کمزور چلے آرہے تھے اور ان پر متعدد بار امراض و اسقام کے حملے ہوتے رہے‘ مگر ان دنوں حضرت مفتی صاحب بالکل صحت مند تھے‘ آخری دن مغرب کے وقت کچھ احباب کو گھر پر طلب فرمایا اور اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ مجھے مسجد لے چلو‘ رفقاء نے مسجد لے جانے کی تیاری کی مگر ایک دم سے طبیعت بگڑ گئی دل ڈوبنے لگا اور پھر آپ بے ہوش سے ہوگئے‘ آپ کو فوراً نشتر ہسپتال ملتان لے جایا گیا‘ جہاں ڈاکٹروں کی فوری کوشش سے طبیعت بحال ہوگئی‘ تو خدام سے فرمایا: مجھے گھر لے چلو‘ خدام نے عرض کیا: اگر ڈاکٹر اجازت دے دیں تو ابھی لے جائیں گے‘ طبیعت کی بحالی سے رفقاء اور خدام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی‘ مگر افسوس! کہ یہ خوشی دیرپا ثابت نہ ہوئی اور طبیعت اچانک دوبارہ خراب ہوگئی اور دل کی دھڑکن تیز ہوگئی‘ ڈاکٹروں نے اپنی سی پوری کوشش کرکے دیکھ لی مگر بے سود‘ آخر کار رات دس بجے ”اللہ‘ اللہ“ کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے اپنی جان‘ جان آفرین کے سپرد کردی۔ انا للہ ونا الیہ راجعون۔
آپ کی وفات کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی‘ ملک بھر سے خدام کے فون آنے لگے کہ جنازہ میں جلدی نہ کی جائے‘ چنانچہ اگلے روز عصر کے بعد جنازہ کا اعلان ہوا تو خیرالمدارس کا وسیع و عریض احاطہ اور قرب و جوار کی گلیاں تنگ ہوگئیں۔
آپ کی وصیت کے مطابق آپ کے خلیفہ مجاز حضرت مولانا سیّد جاوید حسین شاہ صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی اور اسی شام منظور آباد ملتان کے قبرستان میں اس خزانہ خوبی کو سپرد خاک کردیا گیا۔
اللہم اغفرلہ وارحمہ وعافعہ واعف عنہ واکرم نزلہ وادخلہ الجنة
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, شعبان المعظم۱۴۲۷ھ ستمبر۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 8

    پچھلا مضمون: ارکان اسلام کی نئی تعبیر دین سے انحراف 
Flag Counter