Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی شعبان المعظم۱۴۲۷ھ ستمبر۲۰۰۶ء

ہ رسالہ

8 - 10
ارکان اسلام کی نئی تعبیر دین سے انحراف
ارکان اسلام کی نئی تعبیر دین سے انحراف !


جس طرح نماز‘ زکاة‘ روزہ اور حج اسلام کے بنیادی احکام وعبادات ہیں اور دینِ اسلام میں ان کے مخصوص معنی اور مصداق ہیں‘ قرآن وحدیث کی نصوص اور حضرت رسول اللہ ا اور صحابہٴ کرام کے تعامل سے ان کی حقیقتیں اور عملی صورتیں واضح ومسلم ہوچکی ہیں اور چودہ سو سال میں امتِ محمدیہ اور اس کے علمأ ومحققین ان کو جس طرح سمجھتے اور عمل کرتے چلے آئے ہیں‘ اس تواتر وتوارث عملی نے اس پر مہرِ تصدیق ثبت کردی ہے‘ اب ان عبادات واحکام اور ان نصوص کی تعبیرات کو ان کے متواتر شرعی معانی سے نکال کرکوئی نئی تعبیر اور نیا مصداق قرار دینا یقیناً دین سے کھلا ہوا انحراف ہے‘ ٹھیک اسی طرح کفر‘ نفاق‘ الحاد‘ ارتداد اور فسق بھی اسلام کے بنیادی احکام ہیں‘ دینِ اسلام میں ان کے بھی مخصوص ومتعین معنیٰ اور مصداق ہیں‘ قرآن کریم اور نبی کریم علیہ الصلاة والتسلیم نے قطعی طور پر ان کی تعیین وتحدید فرمادی ہے‘ ان الفاظ کو بھی ان شرعی معانی ومصادیق سے نکالنا کھلا ہوا دین سے انحراف ہوگا اور ان کو از سر نو محلِ بحث ونظر بنانا اور امت نے چودہ سو سال میں ان کے جو معنی اور مفہوم سمجھے اور جانے ہیں نوبنو تاویلیں کرکے ان سے ہٹانا کھلا ہوا الحاد وزندقہ ہوگا۔
ایمان کا تعلق قلب کے یقین سے ہے اور خاص خاص چیزیں ہیں جن کو باور کرنا اور ماننا ایمان کے لئے ضروری ہے جو کوئی ان کو نہ مانے قرآن کریم کی اصطلاح اور اسلام کی زبان میں اس کا نام کفر ہے‘ اور وہ شخص کافر ہے۔ جس طرح ترکِ نماز‘ ترکِ زکاة‘ ترکِ روزہ اور ترکِ حج کا نام فسق ہے‘ بشرطیکہ ان کے فرض ہونے کو مانتا ہو‘ صرف ان پر عمل نہ کرتاہو اور اگر انہی تعبیرات ‘ صلاة‘ زکاة‘ صوم‘حج کو اختیار کرنے کے بعد کوئی شخص ان کو معروف ومتواتر شرعی معنی سے نکال کر غیر شرعی معنی میں استعمال کرے یا ان میں ایسی تاویلیں کرے جو چودہ سو سال کے عرصہ میں کسی بھی عالمِ دین نے نہ کی ہوں تو اس کا نام قرآن کی اصطلاح اور اسلام کی زبان میں الحاد ہے۔
قرآن کریم نے ان الفاظ‘ کفر‘ نفاق‘ الحاد‘ ارتداد کو استعمال فرمایا ہے اور جب تک روئے زمین پر قرآن کریم موجود رہے گا‘ یہ الفاظ بھی انہی معانی میں باقی رہیں گے۔ اب یہ علمأ امت کا فریضہ ہے کہ وہ امت کو بتلائیں کہ ان کا استعمال کہاں کہاں صحیح ہے اور کہاں کہاں غلط ہے؟ یعنی یہ بتلائیں کہ جس طرح ایک شخص یا فرقہ ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے کے بعد مومن ہوتا اور مسلمان کہلاتاہے‘ اسی طرح ان ایمان کے تقاضوں کو پورا نہ کرنے والا شخص یا فرقہ کافراور اسلام سے خارج ہے۔ نیز علمأ امت کا یہ بھی فرض ہے کہ ان حدودو تفصیلات کو یعنی ایمان کے تقاضوں کو اور ان کفریہ عقائد واعمال وافعال کو متعین کریں جن کے اختیار کرنے سے ایک مسلمان اسلام سے خارج ہوجاتاہے‘ تاکہ نہ کسی مومن کو کافر اور اسلام سے خارج کہا جاسکے اور نہ کسی کافر کو مومن ومسلمان کہا جاسکے،ورنہ اگر کفر وایمان کی حدود اس طرح مشخص ومتعین نہ ہوئیں تو دینِ اسلام بازیچہٴ اطفال بن کررہ جائے گا اور جنت وجہنم افسانے۔
یاد رکھیئے! اگر ایمان ایک متعین حقیقت ہے تو کفر بھی ایک متعین حقیقت ہے ‘ اگر کفر کے لفظ کو ختم کرنا ہے اور کسی کافر کو بھی کافر نہیں کہنا ہے پھر ایمان واسلام کا بھی نام نہ لو اور کسی بھی فرد یا قوم کو نہ مومن کہو نہ مسلمان‘ رات کے بغیر دن کو دن نہیں کہہ سکتے‘تاریکی کے بغیر روشنی کو روشنی نہیں کہہ سکتے‘ پھر کفر کے بغیر اسلام کو اسلام کیونکر کہہ سکتے ہو؟ اور پھر یہ کہنا اور فرق کرنا بھی سرے سے غلط ہوگا کہ: ”یہ مسلمانوں کی حکومت سیکولراسٹیٹ یعنی لادینی حکومت ہوگی“ غرض کفر اور کافر کا لفظ ختم کرنے کے بعد تو ”اسلامی حکومت“ کا دعویٰ ہی بے معنی ہوگا یا پھر یہ لفظ الیکشن جیتنے کے لئے ایک دل کش نعرہ اور حسین فریب ہوگا۔ غرض یہ ہے کہ علمأ پر کچھ بھی ہو‘ر ہتی دنیا تک یہ فریضہ عائد ہے اور رہے گا کہ وہ کافر پر کفر کا حکم اور فتویٰ لگائیں اور اس میں پوری پوری دیانت داری اور علم وتحقیق سے کام لیں اور ملحد وزندیق پر الحاد وزندقہ کا حکم اور فتویٰ لگائیں اور جو بھی فرد یا فرقہ قرآن وحدیث کی نصوص وتصریحات کی رو سے اسلام سے خارج ہو‘ اس پر اسلام سے خارج اور دین سے بے تعلق ہونے کا حکم اور فتویٰ لگائیں‘ جب تک سورج مغرب سے طلوع نہ ہو اور قیامت نہ آجائے،چونکہ کفر واسلام کے حکم لگانے کا معاملہ بے حد اہم اور انتہائی نازک ہے اور ایک شخص جذبات کی رو میں بھی بہہ سکتا ہے او رکفر ورائے میں غلطی بھی کرسکتا ہے‘ اس لئے علمأ امت کی ایک معتمد علیہ جماعت جب اس کا فیصلہ کرے گی تو وہ فیصلہ یقیناً حقیقت پر مبنی اور شک وشبہ سے بالا تر ہوجائے گا۔
بہرحال کافر‘ فاسق‘ ملحد‘ مرتد وغیرہ شرعی احکام واوصاف ہیں اور فرد یا جماعت کے عقائد یا اقوال وافعال پر مبنی ہوتے ہیں نہ کہ ان کی شخصیتوں اور ذاتوں پر‘ اس کے برعکس گالیاں جن کو دی جاتی ہیں ان کی ذاتوں اور شخصیتوں کو دی جاتی ہیں‘ لہذا اگر یہ الفاظ صحیح محل میں استعمال ہوتے ہیں تو یہ شرعی احکام ہیں‘ ان کو ”سب وشتم“ اور ان احکام کے لگانے کو ”دشنام طرازی“ کہنا یا جہالت ہے یا بے دینی‘ ہاں کوئی شخص غیط وغضب کی حالت میں یا از راہِ تعصب وعناد کسی مسلمان کو ”کافر“ کہہ دے تو یہ بے شک ”گالی“ ہے اور یہ گالی دینے والا خود فاسق ہوگا اور تعزیر کا مستحق‘ اور اگر کوئی شخص جان بوجھ کر کسی واقعی مسلمان کو ”کافر“ کہہ دے تو یہ کہنے والا خود ”کافر“ ہوجائے گا۔
علمأ حق جب کسی فرد یا جماعت کی تکفیر کرتے ہیں تو درحقیقت ”ایک کافر کو کافر بتلانے والے“ اور مسلمانوں کو اس کے کفر سے آگاہ کرنے والے ہوتے ہیں نہ کہ اس کو ”کافر بنانے“ والے‘ کافر تو وہ خود بنتا ہے جب کفریہ عقائد یا اقوال وافعال کا اس نے ارتکاب کیا اور ایمان کے ضروری تقاضوں کو پورا نہیں کیا تو وہ باختیارِ خود کا فر بن گیا‘ لہذا یہ کہنا کہ ”مولویوں کو کافر بنانے کے سوا اور کیا آتاہے“ سراسر جہالت ہے یا بے دینی۔
اگر علمأ ایمانی حقائق اور اسلام کی حدود کی حفاظت نہ کرتے تو اسلام کا نام ہی صفحہٴ ہستی سے کبھی کا مٹ چکا ہوتا‘ جس طرح کسی حکومت کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنی مملکت کی حدود کی حفاظت کرے اور ان کے تحفظ کے لئے فوجی طاقت اور دفاعی سامان جنگ وغیرہ کی تیاری میں ایک لمحہ کے لئے غافل نہ ہو‘ اسی طرح ایمان‘ اسلام‘ اسلامی معاشرہ ‘ مسلمانوں کے” دین وایمان“ کو ملحدوں‘ افترا پردازوں اور جاہلوں کے حملوں سے محفوظ رکھنا‘ علمأ حق اور فقہاء امت کے ذمہ فرض ہے‘ ابھی چند دنوں کا قصہ ہے جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا اور حکومتِ پاکستان نے ”جہاد“ کا اعلان کیا اور پاکستان کی افواجِ قاہرہ اور عوام نے اس جہاد میں جوش وخروش کے ساتھ حصہ لیا تو بھارت کے لوگوں کو یہ کہنے کا موقعہ مل گیا کہ ”پاکستان“ اسلامی حکومت“ نہیں ہے اور یہ لڑائی ”اسلامی جہاد“ نہیں ہے اور اگر ہے تو پھر ہندوستان بھی اسی طرح دار الاسلام ہے جس طرح پاکستان۔ ”اسلامی قانون“ نہ وہاں نافذ ہے نہ یہاں ”مسلمان“ وہاں بھی رہتے ہیں یہاں بھی۔ ”بھارت کو یہ کہنے کا موقعہ کیوں ملا؟ صرف اس لئے کہ نہ پاکستان میں ”اسلامی قانون“ نافذ ہے اور نہ ”اسلامی معاشرہ“ موجود ہے۔ یہ ہماری وہ کمزوریاں ہیں جن سے دشمن نے ایسے نازک موقعہ پر فائدہ اٹھایا ‘ اگر اس ملک کے اندر ”نبوت“ کا مدعی اور ”ختم نبوت“ کا منکر مرزا غلام احمد قادیانی کی ”امت“ (مرزائی فرقہ) بھی مسلمان ہے اور پورے اسلام کے چودہ سو سالہ اسلامی عبادات ومعاملات کے نقشہ کو مٹا ڈالنے والا اور جنت ودوزخ سے صریح انکار کرنے والا غلام احمد پرویز اور اس کی جماعت بھی مسلمان ہے اور اگر قرآن کے منصوص احکام کو عصری تقاضوں کے سانچوں میں ڈھالنے والا ”سنتِ رسول“ کو ایک ”تعاملی اصطلاح اور ”رواجی قانون“ بتلانے والا ”سود“ کی حرمت سے قرآن کو خاموش بتاکر حلال کرنے والا بھی نہ صرف مسلمان ہے بلکہ ”اسلامی تحقیقاتی ادارہ“ کا سربراہ ہے تو پھر یاد رہے کہ محض قرآن کریم کو ”زردوزی“ کے سنہری حروف “ میں لکھوانے سے قرآن کی حفاظت قیامت تک نہیں ہوسکتی اور یہ دعویٰ انتہائی مضحکہ خیز ہے یا پھر عوام کو بے وقوف بنانے کا ہتھکنڈہ ہے
ابھی کل تک یہی ”ملحدین“ مسلمانوں کو طعنہ دیا کرتے تھے کہ ”قرآن مجید اس لئے نازل نہیں ہوا ہے کہ ریشمی رومالوں میں لپیٹ کر اس کو بو سے دیئے جائیں‘ پیشانی سے لگا یا جائے اور سروں پر رکھا جائے۔ یہ تو مسلمانوں کے لئے ایک عملی قانون ہے‘ عمل کرنے کے لئے نازل ہوا ہے“۔ پھر آج اس حقیقت سے یہ بے اعتنائی کیوں ہے کہ ”باہمی رضامندی سے زنا کو “ جرم نہیں قرار دیا جاتا۔ ”بینکاری سود“ کو شیر ِ مادر کی طرح حلال قرار دے کر خود حکومت سودلے رہی اور دے رہی ہے ”ریس کورس“ جیسی مہذب قماربازی کے‘ شراب کی در آمد وبرآمد اور خرید وفروخت کے لائسنس دیئے جارہے ہیں ‘ نکاح وطلاق ووراثت کا قانون سب صریح قرآن وسنت کی تصریحات کے خلاف جاری ہے‘ جرائم اور سزاؤں کا تو کہنا ہی کیا؟ غرض قرآن وسنت کو بالا ئے طاق رکھ کر” قانون سازی ‘ کا سلسلہ جاری ہے اور زردوزی کے سنہری حرفوں میں لکھواکر قرآن عظیم کی حفاظت کا اہتمام بھی کیا جارہاہے‘ نہایت صبر آزما حقائق ہیں‘ آخر مسلمانوں کو کیا ہوگیا کہ واضح حقائق کی فہم کی توفیق بھی سلب ہوگئی؟
اللہم اہد قومی فانہم لایعلمون۔
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, شعبان المعظم۱۴۲۷ھ ستمبر۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 8

    پچھلا مضمون: حضرت ابوبکر  اور عملی تفسیر!
Flag Counter