Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاخریٰ۱۴۲۷ھ جولائی۲۰۰۶ء

ہ رسالہ

8 - 9
مولانا مفتی فقیراللہ اثری
مولانا مفتی فقیراللہ اثری

جامعہ حقانیہ ماموں کانجن کے بانی ومدیر‘ جامع مسجد فاطمة الزہراء کے خطیب ومتولی‘ خیر العلمأ حضرت مولانا خیر محمد جالندھری قدس سرہ کے شاگردِ رشید‘ حکیم العصر حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید کے تلمیذ‘ مسترشد وتربیت یافتہ اور ہمارے مخلص دوست حضرت مولانا مفتی فقیر اللہ اثری ۲۰/جنوری صبح ساڑھے دس بجے جامعہ فاروقیہ مانگامنڈی رائے ونڈ روڈ‘ لاہورمیں راہی عالم عقبیٰ ہوگئے:
انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان للہ ما اخذ ولہ ما اعطی وکل شئ عندہ باجل مسمیٰ
مولانا مفتی فقیر اللہ نے ۱۹۴۱ء کو ہندوستان کے مردم خیز خطہ ضلع جالندھر کی تحصیل نکودر کے ایک مضافاتی گاؤں ”ہردو سنگے“ میں ایک نہایت ہی متقی‘ دین دار‘ خدا ترس اور صوم وصلاة کے پابند مگر غریب گھرانے میں آنکھ کھولی‘ آپ کے والد ماجد جناب بابا عبد الحق صاحب پیشے کے اعتبار سے اگرچہ مزدور تھے مگر اس دور کے اکابر اور صلحأ کے ساتھ انہیں والہانہ عقیدت ومحبت کا تعلق تھا‘ آپ کا اصلاحی تعلق خانواوہ رائے پور کے چشم وچراغ حضرت مولانا عبد العزیز چک ۱۱-ایل چیچہ وطنی کے ساتھ تھا‘ان کی محبت وعقیدت اور خدمت وتعلق کی برکت تھی کہ شروع سے ہی آپ دین وشریعت کے پابند اور تقویٰ وطہارت سے متصف تھے‘دعاؤں‘ تمناؤں اور آرزؤں کے بعد جب بابا عبد الحق صاحب کے ہاں پہلے بیٹے کی ولادت ہوئی تو اس دور کے مشہور مجذوب صفت‘ درویش منش بزرگ اور حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہ کے فیض یافتہ جناب سائیں طور شاہ کی تجویز اور جامعہ رشیدیہ رائے پور گجراں کے بانی ومہتمم نامور عالم دین اور فرشتہ صفت بزرگ حضرت مولانا مفتی فقیر اللہ کے مشورہ سے نومولود کا نام فقیر اللہ تجویز کیاگیا۔
تقسیمِ ملک کے بعد آپ کے والد ماجد نے رائے پور سے ہجرت فرماکر ماموں کانجن ضلع فیصل آباد میں رہائش اختیار فرماکر اسے اپنا مستقر بنایا‘ تو وہاں کے دوسرے اکابر اور اہلِ علم کے علاوہ جناب حافظ حسام الدین سے بھی خصوصی تعلق اور برادر رانہ مراسم قائم ہوگئے‘ چنانچہ ہونہار فقیر اللہ کی ابتدائی تعلیم اور پرائمری کی تکمیل کے بعد حضرت حافظ حسام الدین کے مشورہ اور اصرار پر دینی تعلیم کے لئے اسے حضرت حافظ حسام الدین صاحب کی قائم کردہ دینی درسگاہ مدرسہ عربیہ احیأ العلوم ماموں کانجن میں داخل کردیا گیا۔ چنانچہ حضرت والد ماجد کے تقویٰ وطہارت‘نام کی نسبت مدرسہ احیأ العلوم کے رشک ملائک ماحول‘ قدسی صفات اساتذہ کی توجہ‘ صحبت اور تربیت کی برکت سے ہونہار فقیر اللہ نے سالوں کا کام مہینوں میں کیا‘ چنانچہ ہونہار فقیر اللہ مدرسہ عربیہ احیأ العلوم کے لائق وفائق اور ذہین وفطین طلبہ میں شمار ہونے لگے‘ چنانچہ جب ہردرجہ میں اعلیٰ نمبروں میں کامیابی آپ کا اختصاص بن گیا تو آپ اساتذہ کی محبت کا محور اور ان کی آنکھوں کا تارا بن گئے ۔ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع ہوشیار پوری اور حضرت مولانا محمدیوسف لدھیانوی شہید سے آپ کو خصوص واختصاص حاصل ہوا‘ چھوٹے درجات کی تکمیل کے بعد اعلیٰ درجات کی تعلیم کے لئے آپ نے ملک کی مشہور دینی درس گاہ جامعہ خیر المدارس ملتان کا رخ کیا‘ جہاں آپ نے حضرت مولانا خیر محمد جالندھری قدس سرہ ‘ حضرت مولانا محمد شریف کشمیری ایسے اکابر واساطین علم وفضل کے فیوض وبرکات اور علوم ومعارف سے بھر پور استفادہ فرمایا اور خیر المدارس ملتان سے ہی درس حدیث کی تکمیل کرکے فاتحہ فراغ پڑھا۔
دورہ حدیث سے فراغت کے بعد اکابر اساتذہ اور مشائخ کے مشورہ کے بعد آپ کو اپنی مادر علمی مدرسہ عربیہ احیأ العلوم ماموں کانجن کی مسند تدریس پر فائز کردیا گیا‘ چنانچہ موصوف  نے اپنے اساتذہ کے انتخاب واعتماد کی ایسی لاج رکھی کہ تھوڑے ہی عرصہ میں آپ کا شمار مدرسہ احیأ العلوم کے لائق وفائق اساتذہ اور اعلیٰ پائے کے مدرسین میں ہونے لگا‘ اس دوران آپ کو درس نظامی کے ابتدائی درجات سے لے کر یکے بعد دیگرے اعلیٰ درجات کی تمام کتب کی تدریس کا شرف واعزاز حاصل ہوا‘ جب آپ کی علمی قابلیت اور فنی مہارت کے جو ہر اور کمالات سامنے آئے تو مدرسہ عربیہ احیأ العلوم ماموں کانجن کی مسندِ افتأ بھی آپ کے سپرد کردی گئی‘ یوں آپ احقاقِ حق‘ تردیدِ باطل اور خصوصاً غیر مقلدین کی ریشہ دوانیوں کے تعاقب کا ذوق آپ کو خیر العلمأ حضرت مولانا خیر محمد جالندھری قدس سرہ سے ہی وراثت میں ملا تھا‘ اس لئے درس وتدریس اور فقہ وفتویٰ کے ساتھ ساتھ آپ نے اس موضوع اور عنوان پر بھی نہایت جانفشانی سے کام شروع فرمادیا تو آپ بہترین محقق‘ عمدہ باحث‘ عظیم نقاد اور کامیاب مصنف ومناظر بھی قرا پائے اور آپ کے قلم حقیقت رقم سے کئی ایک علمی اور تحقیقی کتب وجود میں آگئیں‘ اگرچہ آپ کی متعدد تحقیقی کتب تاحال زیرِ ترتیب تھیں‘ مگر کئی ایک زیورِ طبع سے آراستہ ہوکر اہلِ علم سے دادِ تحسین حاصل کر چکی ہیں‘ جن میں سے ترک رفع الیدین‘ تین طلاق کا شرعی حکم‘ خاتمة الکلام‘ شرائطِ جمعہ‘ عدالتِ صحابہ‘ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا سنت ہے‘ صراط مبین اور اکبر علی زئی کا رد وغیرہ آپ کی علمی یادگار اور اعلیٰ تحقیقات کا منہ بولتا ثبوت ہیں‘ اس کے علاوہ دوسری کئی ایک چھوٹی بڑی کتب تاحال طباعت کی منتظر ہیں‘ خداکرے کہ ان کے متعلقین ووارثین ان کے اس علمی ذخیرہ‘ کنز مکنون اور منتشر جواہر پاروں کو دریافت کرکے منصہٴ شہود پر لانے کی کوئی شکل بنادیں۔
بلامبالغہ ان مطبوعہ کتب میں سے متعدد ایسی ہیں جو اپنے فن وموضوع کے اعتبار سے بے مثال اور احاطہ ابحاث کی رو سے انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتی ہیں‘ بلاشبہ موصوف مجسمہ خلوص واخلاص تھے‘ آپ نے ساری زندگی درس وتدریس‘ تصنیف وتالیف‘ علم وتحقیق اور کتب بینی میں صرف کی‘ نئی سے نئی کتب کی تحصیل‘ مشکل سے مشکل ابحاث کے حل کی کوششیں اور باطل کے غلیظ پروپیگنڈہ کی جواب دہی میں صرف کی‘ علم‘ اصحابِ علم اور کتب سے ان کا مثالی رشتہ تھا‘ ان کی بہترین ساتھی کتاب ہوتی اور وہ ہمہ وقت مطالعہ اور کتب بینی میں مصروف نظر آتے۔
چنانچہ ان کا ذاتی کتب خانہ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے جس میں بلا مبالغہ سینکڑوں نایاب ونادر کتب ان کی کل کائنات اور زندگی کا اساسہ تھا‘ انہوں نے مکان‘ دوکان اور کاروبار کی طرف توجہ دینے کی بجائے زندگی بھر دین وشریعت اور علم وتحقیق سے رشتہ استوار کئے رکھا اور اسی کے لئے وہ مارے مارے پھرتے رہے‘جب بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اپنی مادر علمی مدرسہ عربیہ احیأ العلوم ماموں کانجن سے مجبوراً علیحدہ ہونا پڑا تو انہوں نے اپنے شیخ ومربی اور محبوب استاذ حکیم العصر حضرت مولانا محمدیوسف لدھیانوی شہید کے ایما اور مشورہ سے ماموں کانجن ہی میں جامع مسجد فاطمة الزہرا‘ جامعہ حقانیہ اور مدرسة البنات کی داغ بیل ڈالی‘ جامع مسجد فاطمة الزہرا ان کے وعظ وبیان اور اصلاحِ خلق کی جولا نگاہ تھی تو قوم کے نونہالوں کی تعلیم وتربیت کا سہرا جامعہ حقانیہ کے سررہا‘ اسی طرح مسلمان بچیوں کی دینی تعلیم وتربیت کے لئے انہوں مدرسة البنات قائم فرما کر تمام شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دیں‘ چنانچہ مرحوم ان سہ جہات خدمات کے علاوہ درس وتدریس‘ علم وتحقیق اور فقہ وفتویٰ کے علاوہ بحث ومناظرہ اور تصنیف وتالیف میں دل وجان سے مصروف رہے‘ آخر میں جب ان کو رفیقہ حیات کی جدائی کا صدمہ سہنا پڑا تو ٹوٹ سے گئے‘ مگر بایں ہمہ وہ اپنے فرائضِ منصبی سے کبھی بھی غافل نہیں رہے‘ امراض واسقام کے ہجوم خصوصاً ہائی بلڈپریشر‘ سوئے ہضم کے علاوہ دوسری متعدد امراض کا شکار ہوگئے تو ان کی خواہش تھی کہ اب جب دل ودماغ کام نہیں کرتے اور بصارت بھی حد درجہ تک کمزور ہوگئی ہے تو زندگی کے آخری ایام حرمین شریفین یا جوارِ بیت اللہ میں گزارے جائیں‘ انہوں نے اس سلسلہ میں کوششیں بھی کیں‘ مگر ان کی یہ تمنا بر نہ آئی اور حرمین میں مستقل قیام کی کوئی صورت نہ بن سکی۔
مفتی صاحب موصوف کے نام کی نسبت سے فقر وعسر اور صبر وقناعت نے کبھی ان کا ساتھ نہیں چھوڑا‘ مگر انہوں نے کبھی بھی زبان پر حرفِ شکایت لانا گوارہ نہیں فرمایا‘ ہمیشہ انہیں صابر وشاکر اور راضی بہ رضا پایا‘ ذاتی بنک بیلنس تو کجا‘ ذاتی مکان بھی نہیں تھا‘ ہمیشہ مدرسہ کی تنخواہ پر گزر بسر فرمایا اور جو کچھ بچ رہا اسے کتابوں کی خریداری میں صرف فرمادیا‘ بلکہ اکثر وبیشتر کتب بھی قرض پر لے لیا کرتے اور پس انداز کرکے آہستہ آہستہ اس قرض کو چکانے کی کوشش فرماتے۔ ایک بار کراچی تشریف لائے اور فرمایا مجھ میں کچھ ذاتی قرض ہے‘ میں چاہتاہوں کہ مرنے سے پہلے پہلے اس کی ادائیگی کی کوئی شکل ہوجائے‘ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں مرجاؤں اور میرے قرضے کو اتارنے والا کوئی نہ ہو‘ بعد میں معلوم ہوا بلکہ خود بتلایا کہ بحمد اللہ! اس کی ادائیگی ہوگئی ہے‘ آخری عمر میں راقم الحروف نے بہت چاہا کہ مولانا موصوف کراچی تشریف لے آئیں اور ہم ان کے علوم ومعارف اور بحث وتحقیق سے استفادہ کریں‘ موصوف نے اس کی ہامی بھرلی اور کراچی تشریف لے بھی آئے‘ مگر کراچی کی آب وہوانے ان کا ساتھ نہ دیا اور واپس تشریف لے گئے‘ یہ ان کے زہد کی علامت اور دلیل ہے کہ ان کا جنازہ گھر کی بجائے مدرسہ کی عمارت سے اٹھا۔ مزاج میں سادگی‘ عجز ونیاز اور تواضع حد درجہ کی تھی‘ ان کے کسی قول وفعل اور عمل سے محسوس نہیں ہوتا تھا کہ وہ اتنے بڑے عالم دین اور محقق مصنف ہیں‘ کسی مجلس میں امتیازی نشست کے روا دار نہ تھے حتی کہ اگر کسی جلسہ میں تشریف لے جاتے تو اسٹیج کی بجائے عوام میں بیٹھنے کو ترجیح دیتے‘ انہیں شہرت وناموری کے بجائے عزلت وکنج نشینی زیادہ محبوب تھی۔دوستوں کے دوست اور حد درجہ مہمان نواز تھے‘ حرمین سے عشق کی حد تک تعلق تھا‘ علمأ ‘ صلحأ کے قدردان تھے‘ اہلِ حق کی تمام دینی جماعتوں اور ان کے کارکنوں کے قدر دان تھے‘ مگر انہوں نے کبھی کسی عہدہ اور منصب کی خواہش نہیں کی ‘ دینی طلبہ کو اپنی اولاد سمجھتے اور ان کی ضروریات کو اپنی اولاد کی ضروریات پر ترجیح دیتے تھے‘ چونکہ خود ذہین تھے‘ اس لئے ذہین اور محنتی طلبہ کے دل وجان سے قدر دان تھے ‘ جیساکہ پہلے عرض کیا جاچکا ہے کہ زمانہ طالب علمی میں آپ مدرسہ کے تقریری وتحریری ہرامتحان میں اعلیٰ نمبروں سے کامیاب ہوتے اور بعض اکابر ممتحنین سے نقد انعام بھی وصول فرماتے تھے‘ چنانچہ ایک بار جامعہ رشیدیہ ساہیوال کے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد عبد اللہ رائے پوری قدس سرہ امتحان لینے تشریف لائے تو آپ سے اس قدر خوش ہوئے کہ اعزازی نمبروں کے علاوہ پانچ روپے نقد انعام سے بھی نوازا اور تحریر فرمایاکہ:
”بعض طلبہ نے اتنا اچھا سنایا کہ احقر کی سفری تھکان دور ہوگئی‘ اللہم زد فزد“
مطالعہ اور کتاب بینی کا جنون کی حد تک شوق تھا‘ بسا اوقات رات بھر جاگ کر مطالعہ میں گزاردیتے۔ سرعتِ مطالعہ کا یہ حال تھا کہ ضخیم ضخیم کتب ایک رات میں پڑھ لیتے اور اہم اہم مقامات کی حاشیہ میں نشاندہی بھی فرماتے جاتے‘ چنانچہ جامعہ ربانیہ بستی ریاض المسلمین ٹوبہ ٹیک سنگھ کے دار الافتأ کے ذمہ دار اور استاذ حضرت مولانا مفتی شیر محمد صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ:
”ایک حضرت مولانا مفتی فقیر اللہ صاحب کچھ دنوں کے لئے ہمارے ادارہ میں تشریف لائے اور مختلف نشستوں میں مدرسہ کے کتب خانہ کی کتب سے استفادہ فرماتے رہے‘ چند دنوں کے بعد فرمانے لگے:جناب میں نے آپ کے اس کتب خانہ کو تو پڑھ لیا ہے‘ مزید بتلائیں کہ دوسری کتابیں کہاں ہیں؟“۔
مفتی شیر محمد صاحب فرماتے ہیں کہ: ہمارے کتب خانہ کی غیر نصابی کتب کی تعداد بلاشبہ ہزاروں سے متجاوز ہے‘ مگر موصوف نے بہت ہی مختصر مدت میں ان تمام کا مطالعہ فرماکر ہمیں ورطہٴ حیرت میں ڈال دیا۔
موصوف جب مطالعہ کتب میں مصروف ہوتے تو انہیں ارد گرد کے ماحول سے کوئی سروکار نہ ہوتا‘ خصوصاً جب تصنیفی کام میں مشغول ہوتے تو ان کے سامنے کتابوں کا ڈھیر ہوتا‘ وہ کبھی کوئی کتاب کھولتے تو کبھی کوئی!
انہیں جب ان کا مطلوبہ حوالہ کسی کتاب سے مل جاتا تو ان کی مسرت دیدنی ہوتی‘ اللہ تعالیٰ نے ان کو افہام وتفہیم کا بے پناہ ملکہ عطا فرمایا تھا‘ چنانچہ ان کی درس گاہ میں کند ذہن طلبہ بھی سبق سمجھ کر اٹھتے‘ وہ مشکل سے مشکل کتاب کو اس قدر سادہ اور عام فہم انداز میں سمجھاتے کہ اکثر طلبہ درس گاہ سے ہی سبق یاد کرکے اٹھتے‘ کھانے پینے میں حد درجہ محتاط تھے‘ مشتبہ غذا سے پرہیز فرماتے‘ چنانچہ ان کے رفقأ نے بتلایا کہ: کبھی کسی ضروری کام سے تھانہ پولیس وغیرہ سے امن وامان کے سلسلہ میں میٹنگ ہوتی تو علمأ کے حکم پر اس وفد میں شامل ضرور ہوجاتے‘ مگر تھانے اور سرکاری افسران کی تواضع سے مکمل پرہیز فرماتے اور فرماتے: نامعلوم کن ذرائع سے یہ حاصل کی گئی ہوگی؟ آخری عمر میں چونکہ ضعف واضمحلال ہوگیا تھا اور یاد داشت بھی کسی قدر متأثر ہوگئی تھی‘ اس لئے مدرسہ کی آمد وخرچ کا حساب اپنے پاس نہیں رکھتے تھے‘ بلکہ فوراً ناظم مدرسہ کے حوالہ فرما دیتے تھے۔
مدرسہ سے ملنے والے مشاہرہ کا نصف بھی واپس مدرسہ کے خزانہ میں جمع کرادیتے‘ جبکہ مدرسہ سے کھانے کی رقم الگ سے جمع کراتے‘ شرم وحیا کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی‘ فحش گوئی وبدگوئی سے حددرجہ احتیاط فرماتے‘ شعائرِ اسلام کی پاسداری کے علاوہ کسی مسلمان کی توہین وتضحیک کے بھی روا دار نہ تھے۔ ان کے برادر خورد جناب مولانا حافظ حبیب اللہ صاحب فرماتے ہیں کہ:
”ان کے شرم وحیا کا یہ عالم تھا کہ کبھی اپنے بچوں تک کے سامنے کرتا نہیں اتار تے تھے‘ راقم نے ان کی جوانی کا دور بھی دیکھا ہے اور ان کی کبڈی کھیلنے کا دور بھی‘ مگر انہوں نے ہمیشہ شرعی حدود کی پاسداری کا خیال رکھا اور ناف سے گھٹنوں تک کا پاجامہ پہن کرہی ہمیشہ کھیل کھیلا‘ اسی طرح جوانی میں ورزش‘ گتگہ وغیرہ کے دوران بھی وہ ہمیشہ اس کا اہتمام فرماتے۔ غرض کھیل کا میدان ہو‘ یا علم وتحقیق کا‘ مناظرہ ہو یا مباحثہ انہوں نے کبھی شائستگی کا دامن نہیں چھوڑا“۔
وہ ہمیشہ سنجیدہ‘متین اور بامقصد گفتگو فرماتے۔ البتہ گاہ بگاہ علمی لطائف اور مناظرانہ انداز واسلوب اور مخالفین کی بے بسی کے واقعات پرلطف انداز میں سنایا کرتے۔ ۲۰/جنوری ۲۰۰۶ء جمعرات کی شام کو عشا کی نمازکے بعد بھی وہ اسی طرح اپنے دوستوں کے ہمراہ رات ۱۲/ بجے تک اسی طرح کی عامی موشگافیوں اور لطائف میں مصروف رہے‘ صبح با جماعت فجر کی نماز ادا فرمائی اور کچھ دیر اسم ذات کا ذکر فرمایا‘ تقریباً سات بجے کے قریب ان کے تلامذہ ناشتہ لائے‘ ناشتہ سے فراغت کے بعد تقریباً نو بجے کے قریب پیٹ میں درد کی شکایت ہوئی اور آپ کو الٹی ہوگئی‘ جس میں کچھ خون کی آمیزش تھی‘ قئے سے طبیعت کا بھاری پن کسی قدر کم ہوا تو لیٹ گئے‘ اچانک گیارہ بجے سینہ میں شدید درد اٹھا‘ تو نہایت ہی زور دار آواز سے دو بار لفظ اللہ اللہ نکلا اور پھر آپ بے ہوش ہوگئے اور اسی بے ہوشی کے عالم میں حرکت قلب بند ہوگئی اور آپ کی روح اس قفس عنصری سے پرواز کرگئی‘ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
یوں موصوف اپنے کمرہ اور درس گاہ میں ہی اپنے خالق حقیقی سے جاملے‘ دراصل ان دنوں حضرت مولانا مرحوم اپنے آبائی وطن اور قائم کردہ دینی درس گاہ جامعہ حقانیہ سے دور جامعہ فاروقیہ مانگا منڈی لاہور‘ کے مدیر جناب مولانا مفتی سید امجد حسین مدظلہ کے اصرار پر درس وتدریس اور تصنیف وتالیف کی خدمت پر مامور تھے اور یہاں ہی حالت مسافرت میں ان کا انتقال ہوگیا۔
مولانا موصوف کی وفات کی خبر اٰناً فاناً پھیل گئی‘ مرحوم کے متعلقین واعزہ کو اس کی اطلاع دی گئی‘ خیال تھا کہ جلد از جلد تکفین وتجہیز کے مراحل طے کرکے انہیں ان کی آخری منزل تک پہنچا دیا جائے‘ چنانچہ جیسے ہی ان کی تجہیز وتکفین کی تیاری شروع ہوئی تو آسمان پر بادل چھا گئے اور ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں کے ساتھ ساتھ ہلکی ہلکی پھنوار بھی شروع ہوگئی‘ موسم بالکل خوشگوار ہوگیا‘ چونکہ مولانا موصوف کی خواہش اور وصیت تھی کہ ان کو کسی بند کمرہ میں با مسقف جگہ پر غسل دیا جائے اور غسل وکفن میں بھی علمأ وصلحأ حضرات ہی شریک ہوں‘چنانچہ ان کی خوش نصیبی کہیے یا کرامت کہ بارش کی وجہ سے چھت کے نیچے ہی ان کے غسل کا انتظام ہوا اور علمأ وصلحأ نے ان کے غسل کی سعادت حاصل کی اور غسل وکفن کے تمام مراحل عین شریعت کے مطابق ادا کئے گئے‘ اتنے میں مرحوم کے متعلقین واعزہ بھی وہاں پہنچ گئے تو نماز مغرب کے بعد جامعہ فاروقیہ کے سبزہ زار میں پہلا جنازہ ہوا جس میں مدرسہ کے اساتذہ ‘ طلبہ اور عام مسلمانوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی‘ شام ساڑھے چھ بجے کے قریب مرحوم کے جسد خاکی کو ایمبولنس کے ذریعہ ماموں کانجن لے جایا گیا‘ رات دس بجے جب میت ماموں کانجن پہنچی تو علمأ‘ طلبہ اور عوام الناس کا ایک جم غفیر جمع ہوچکا تھا‘ رات بھر ذکر وتلاوت جاری رہی اور دوسرے دن صبح دس بجے کے قریب دوسرا جنازہ ہوا اور مرحوم کو آہوں اورسیسکوں کے ساتھ ان کے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا۔
اللہم اغفر لہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ‘ واکرم نزلہ وادخلہ الجنة
Flag Counter