Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاخریٰ۱۴۲۷ھ جولائی۲۰۰۶ء

ہ رسالہ

4 - 9
دینی مدارس اسلامی تہذیب و روایات کے امین
دینی مدارس اسلامی تہذیب و روایات کے امین

ڈائنامائٹ، ایٹم بم یا ہائیڈروجن بم بنانا اتنا اہم نہیں ہے جتنا ان کے صحیح مصرف کا علم لوگوں کو دینا اہم ہے، ورنہ ہوگا یہ کہ ڈائنامائٹ کو تخریب کار (علمِ صحیح نہ ہونے کی وجہ سے) اپنے کام میں لائیں گے اور ہائیڈروجن بم، ایٹم بم کی طاقت سے ظالم اپنی ناجائز بات کمزور سے منوائیں گے۔
دُنیا دیکھ رہی ہے کہ آج یہی ہو رہا ہے، تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں کے پاس ایک زمانہ میں ہائیڈروجن بم، ایٹم بم سے بڑی طاقت تھی یعنی ایمان کی طاقت، لیکن ان مسلمانوں نے کبھی مفتوح قوم سے اپنی ناجائز بات نہیں منوائی، بلکہ کسی ملک کو فتح کرنے کے بعد جب اس میں داخل ہوتے، تو گردن اکڑاکر اِتراتے ہوئے نہیں، بلکہ گردن جھکاکر اور اپنے رَبّ کی حمد و ثنا کرتے ہوئے داخل ہوتے۔
ہائیڈروجن بم، ایٹم بم انسان کے لئے اتنا ہی ضروری ہوتے تو اللہ تعالیٰ اگر چاہتے تو نبیوں سے انہیں بنوالیتے، لیکن نبیوں سے اللہ تعالیٰ نے ایسے انسان بنوائے جو تلوار کے استعمال کا بھی صحیح علم رکھتے تھے اور اپنی جائز باتوں کے منوانے اور ناجائز باتوں کو ترک کرنے کا بھی، یہی صفت ان کے پیروکاروں کی بھی رہی۔ لیکن ایسے لوگ مدرسوں اور علمی حلقوں سے بنے تھے، اسکول یا کالج سے نہیں، اٹھارویں صدی میں ہندوستان میں اسکول برائے نام تھے اور مسلمانوں میں مدرسے اور ہندووٴں میں پاٹھ شالہ ہوتے تھے، اور ان میں یقینا اسکولوں سے بہتر علم دیا جاتا تھا۔
لیکن دُنیا کے پجاری ایسٹ انڈیا کمپنی والوں نے ۱۷۹۲ء میں یہ بات قطعی گوارا نہیں کی اور کہا کہ:
”ایک مذہب کے قائم ہوجانے سے انسانوں کے مقاصد متحد ہوجاتے ہیں اور اگر یہ ہوگیا تو ہندوستان میں انگریزوں کی برتری کا خاتمہ ہوجائے گا، لوگوں کو اپنے مذہب میں لانے یا رہنے دینے کا اُصول خلافِ مصلحت ہے۔“ (نقشِ حیات ج:۱ ص:۱۸۵)
کون سی مصلحت؟ یہی ناں کہ علمِ صحیح آجانے سے مسلمان یہ سمجھ جائے گا کہ مسلمانوں ہی میں اختلاف پیدا کرکے اور انہیں آپس میں لڑاکر یہ اپنی حکومت دُنیا پر قائم رکھے ہوئے ہیں اور پھر آزادی کے لئے اگر مسلمان کمربستہ ہوگیا تو ان کا اقتدار ختم ہوجائے گا، اور چونکہ اسلام اور انسانیت آزادی ہی میں پھل پھول سکتی ہے، غلامی میں نہیں، اس لئے اسلام کے دُشمن آج مسلمانوں کو علمِ صحیح سے دُور رکھ کر ہر جگہ غلام بنائے ہوئے ہیں۔
اسی لئے دُنیا پرست یہ چاہتے ہیں کہ ہم وہ علم (مدرسوں اور دینی حلقوں والا) حاصل نہ کرسکیں، جس کی طاقت سے ہم ماضی کی طرح ان کو ہر محاذ پر شکست دے سکیں۔ میکس مولر لکھتا ہے کہ:
”انگریزی عملداری سے قبل صرف بنگال میں اسّی ہزار مدارس تھے، اس طرح چار سو آدمیوں کے لئے ایک مدرسہ اوسط ہوتا تھا۔“ (نقشِ حیات ج:۱ ص۱۸۲)
پھر دُنیا پرستوں نے مدارس اور پاٹھ شالاوٴں کو مٹاکر اسکول قائم کئے اور اسکولوں کے ذریعہ اپنے غلام بنائے، جو بقول لارڈمیکالے کہ:
”خون اور رنگ کے اعتبار سے تو ہندوستانی ہوں، مگر مذاق، رائے، الفاظ اور سمجھ کے اعتبار سے انگریز ہوں۔“ (نقشِ حیات ج:۱ ص:۱۸۶)
انگریز کے ایسا کرنے کے بعد اُنیسویں صدی میں ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر نے کیا خوب حقیقت بیان کی تھی، لکھتا ہے:
”ہمارے انگلوانڈین اسکولوں سے کوئی نوجوان خواہ ہندو ہو یا مسلمان، ایسا نہیں نکلتا جو اپنے آباء و اجداد کے مذہب سے انکار کرنا نہ جانتا ہو۔ ایشیا کے پھلنے پھولنے والے مذاہب جب مغربی سائنس بستہ حقائق کے مقابلہ میں آتے ہیں تو سوکھ کر لکڑی ہوجاتے ہیں۔“ (نقشِ حیات ج:۱ ص:۱۸۷)
وجہ اس کی یہ ہے کہ سائنس کی ترقی کے ساتھ ساتھ انسانیت کی ترقی تو ہوئی نہیں، اور آدمی کو اَب مادّی زندگی سے بے پناہ محبت جو پیدا ہوگئی، اب بھلا انسان ایثار، قربانی اور نفس کے خلاف جہاد کیسے کرسکتا ہے؟
کیوں نہ بجائے مدرسے ختم کرنے کے سارے اسکولوں کے نام و نشان مٹادئیے جائیں اور ”اسکول“ کے نام کی جگہ ”اقرأ“ کا لفظ استعمال کیا جائے، جہاں پڑھائی بلاشبہ بظاہر اسکولوں کی طرز کی ہو، لیکن نصاب وہ ہو جو ہمارے بزرگ حضرت مولانا محمد یوسف بنوری نور اللہ مرقدہ اور دُوسرے علماء نے حکومتِ پاکستان کو بہت پہلے دے دیا تھا، جس سے بہتر نصاب کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا (عصرِ حاضر کی ضروریات کے مطابق علاوہ ”چند“ ترامیم کے، وہ بھی برائے نام، ورنہ اس کی بھی ضرورت نہیں ہے) ایسے اسکولوں کے نام رکھے جائیں ”فلاں ․․․․ اقرأ انگلش نحو مدرسہ“، ”فلاں ․․․․․ اقرأ انگلش مدرسہ“۔ یہ عرض کرنا بے محل نہ ہوگا کہ ”انگلش“ کا لفظ اس لئے استعمال کرنے کا مشورہ دیا ہے کہ انسانیت کے دُشمنوں نے صدیوں کی محنت سے لوگوں کے مزاج میں انگلش ایسی گھسادی ہے کہ انگلش اور انگلش سے تعلق رکھنے والی ہر شے میں انہیں دین، ایمان، زندگی کا نصب العین، زندگی کی لذت، زندگی کی کامیابی، اللہ کی رضا اور آخرت کی نجات نظر آنے لگی ہے۔ اس لئے مسلمان کو کم سے کم اس دھوکے سے نکالنے کے لئے وہی طریقہ اختیار کرنا ہوگا جس طریقے سے ان کو اس دھوکا میں لے جایا گیا ہے (جائز و ناجائز طریقے کا خیال رکھتے ہوئے) بتدریج ان کو اس غفلت سے بیدار کرکے حقیقت کی دُنیا میں لایا جائے۔ خنزیر کھانے والوں کی زبان اور اس سے تعلق رکھنے والے معاشرے کا نشہ مسلمانوں پر ایسا چڑھ گیا ہے جیسے شراب کی حرمت سے قبل شراب کی لذت اور اس سے محبت کا نشہ لوگوں پر چڑھ گیا تھا، اور جیسے انسان کے خالق نے انسان کی فطرت جانتے ہوئے بتدریج ان سے شراب چھڑوائی، ہم بھی بتدریج ہی انگریز کے ان بے دام غلاموں کو انگریز کی غلامی سے نکال سکتے ہیں، کیونکہ جس طرح یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی ایک چیز اگر پانی سے تر ہوجائے تو تیل اس پر زیادہ اثر نہیں کرتا، یا اگر تیل میں پہلے تر ہوجائے تو بعد میں پانی کوئی خاص اثر نہیں کرتا، اسی طرح بچوں کے مزاج پر اگر مغربی فلسفہ پہلے چڑھ گیا تو مذہب کی حقیقت، حقانیت اور اس کی ضرورت ان کی سمجھ میں جیسی آنی چاہئے، ویسی نہیں آپائے گی، اسی لئے اعلیٰ فراست والے اکابرِ دیوبند، دارالعلوم دیوبند میں یونانی یا مغربی فلسفہ پہلے یا ساتھ ساتھ پڑھانے سے منع کرتے تھے، وہ لوگ مغربی فلسفہ پڑھانے سے قطعی انکار نہیں کرتے تھے، بلکہ پہلے دینی علم حاصل کرنا ضروری قرار دیتے تھے، پھر مغربی علم۔
یہی وجہ تھی کہ جب امام العصر حضرت علامہ محمد انور شاہ کشمیری کے بعد شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنی، جن کی فراست اور مقام کے بارے میں حضرت علامہ سیّد محمد یوسف بنوری نے فرمایا تھا کہ:
”ہمارے ملک پر جو آفات و بلیات کا متواتر نزول ہو رہا ہے، اس کا باطنی سبب یہ ہے کہ لوگوں نے حضرت مدنی قدس سرہ کی بڑی توہین کی ہے اور انہیں ایذائیں پہنچائیں ہیں۔“ (بینات شہید نمبر ص:۳۷۰)
اور بقول حضرت لدھیانوی شہید:
”ابھی وقت ہے، اس جرم سے پوری قوم توبہ کرے۔“ (بینات شہید نمبر ص:۳۷۱)
وہ حضرت مدنی رحمة اللہ علیہ جب دارالعلوم دیوبند میں شیخ الحدیث بنے تو آپ نے انگلش کی تعلیم کے لئے فوراً معلّم کا تقرر کرایا۔
لیکن شیخ العرب والعجم حضرت مدنی قدس سرہ بھی یونانی یا یورپی فلسفہ کے لچر ہونے سے بخوبی واقف تھے اور جیسا کہ صحیح حدیث کا مفہوم ہے کہ:
”اتقوا فراسة الموٴمن فانہ یریٰ بنور الله۔“ (ترمذی، ج:۲، ص:۱۴۰)
ترجمہ:- ”موٴمن کی فراست سے بچو کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔“
حضرت مدنی قدس سرہ بھی یونانی اور یورپی فلسفہ کو اللہ کے نور سے دیکھتے تھے اور فرماتے تھے کہ:
”فلسفہ خواہ یونانی ہو یا یورپی، قلبی اور روحی حالتِ دُرستگی میں تغیر پیدا کرتا ہے، اور جو دُرستگی شرعی اور آسمانی تعلیمات سے آتی ہے، اس میں بگاڑ کردیتا ہے۔ یونانی اور یورپی فلاسفہ علومِ الٰہیہ سے کہیں بھی مناسبت نہ رکھنے کی وجہ سے مبغوض ہیں۔“ (مکتوبات ص:۱۸۰)
حضرت مدنی قدس سرہ کی ساری زندگی میں کوئی عمل یا کوئی قول ایسا نہ تھا جو اللہ کے بندوں کو علم اور ذکر یعنی معرفتِ الٰہی اور تعلقِ الٰہی کی ترغیب نہ دیتا ہو، اور یہی وہ علم ہے جس پر ساری انسانیت کی فلاح موقوف ہے، اور اسی علم کو آپ نے مختلف مواقع پر اور مدارس میں ساری عمر پڑھایا اور اسی کو بتانے کے لئے انبیاء اور رسول آئے، اسی علم کی ہر دور میں مخالفت کرنے والے بھی ہوئے اور آج بھی ہیں۔ کاش! اللہ تعالیٰ حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنی قدس سرہ جیسی شخصیت پھر سے ہم کم نصیبوں کو عطا کردیں، جس نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور مسلمانوں کی خیرخواہی کے لئے صَرف کردیا، لیکن:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
اب یہ کہاں ممکن ہے کہ اسکول، کالج اور یونیورسٹی سے نجات حاصل کی جائے؟ اسلام دُشمنوں نے ان زہریلے پودوں کی جڑیں بہت گہرائی تک پہنچادی ہیں۔ فرعون کو کالج بنانے کا مشورہ دے دیا جاتا تو بچوں کے قتل سے ہاتھ رنگنے کی اسے ضرورت پیش نہ آتی۔ یہود و نصاریٰ، فرعون کے مشن میں جو کمی رہ گئی تھی، اس کو اسکول، کالج میں بخوبی پورا کر رہے ہیں۔
یہود و نصاریٰ کا اجتماع انسانیت کی راہ میں سب سے بڑا اور سنگین پتھر ہے جو کسی بھی طرح اللہ کے بندوں کا اللہ کی راہ میں چلنا پسند نہیں کرتا۔ اگر ساری دُنیا والے یا دُنیا کی اکثریت انسانیت کا سبق پڑھ کر سادہ زندگی، بھائی چارے سے رہنا شروع کردیں تو پھر ان لوگوں کے سامانِ تعیش اور لہو و لعب یا تخریب کا سامان کون خریدے گا؟ ان کی آمدنیاں ختم ہوجائیں گی اور فیکٹریاں بند ہوجائیں گی۔ بھلا جو لوگ دُنیا میں بدنظمی یا Chaos چاہتے ہوں وہ کب یہ پسند کریں گے کہ انسان زیادہ بنیں، وہ تو شیطان زیادہ بنانا چاہیں گے، جو آنکھ بند کرکے ان کے اشاروں پر چلیں۔ (ترکِ موالات کا فتویٰ جو ہند کے پانچ سو علماء کے دستخطوں سے منظور ہوا تھا، اس میں یہی مصلحت تھی کہ ان شیطانوں کی ہر قسم کی تجارت کو نقصان پہنچایا جائے تو ان کی شیطانیت جس سوراخ سے نکلی تھی، اسی میں خودبخود واپس چلی جائے گی)۔
طاغوتی قوموں کو اپنا مقصد اسکولوں کو فروغ دے کر اور مدارس کو بند کرکے ہی پورا ہوتا نظر آتا ہے، کیونکہ جس طرح شیطان کا سب سے بڑا دُشمن ایک اچھا اور سچا مسلمان ہے، ایک پکا غیرمسلم نہیں، وہ تو شیطان کا ایک اچھا اور سچا شاگرد ہو ہی گیا ہے اور شیطان کے اشاروں پر چل رہا ہے، ایک مسلمان ہی اس سے ٹکر لے رہا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ بھی کب تک؟ شیطان کی یلغار چومکھی نہیں بلکہ ہزار مکھی ہے، ٹی وی، میگزین، اخبار، فلمیں، اسکولوں کے مغربی نصاب، ریڈیو وغیرہ اس کے آلاتِ حرب ہیں۔ اور اب تو ان سب سے ہزار درجہ بڑھی ہوئی خرافات کمپیوٹر پر آگئی ہیں، جہاں سے اسے قابو میں رکھنا نہ اب کسی ادارے کے بس میں ہے، نہ والدین کے بس میں، اور ”امر بالمعروف ونہی عن المنکر“ کا کام کچھ لوگ برائے نام ہی کر رہے ہیں، اور نتیجہ اسی کام کا سامنے آتا ہے جس پر محنت زیادہ ہو رہی ہوتی ہے۔ شاید ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھ کر مغرب بھی سخت ترین محنت کر رہا ہے، فرق اگر ہے تو صرف یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیر کے لئے محنت کی، اور مغرب شر کے لئے کر رہا ہے، ایک کی محنت سے اعلیٰ ترین انسان بنے اور دُنیا امن و امان کا گہوارہ بن گئی تھی، تو دُوسرے کی محنت سے دُنیا جہنم بن رہی ہے اور قیامت قریب آرہی ہے۔
یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ ایک طالبِ علم کسی مدرسے سے ناظرہ یا حفظ یا عالم کا کورس کرنے کے بعد دُنیا کی تعلیم بھی سرٹیفکیٹ، ڈپلومہ یا ڈگری کی شکل میں حاصل کرکے جب دفاتر، ہسپتال یا فیکٹری میں جاتا ہے تو بہت بہتر انسان ثابت ہوتا ہے، بہ نسبت ان کے جو اسکول، کالج یا یونیورسٹی سے نکل کر آتے ہیں، جہاں کے ٹیچرز، لیکچررز یا پروفیسرز اور طالبِ علم کو نہ وقت کی پابندی سے کوئی سروکار ہوتا ہے، نہ وعدہ خلافی و عہد شکنی سے کوئی فرق پڑتا ہے، نہ حلال رزق کے اثرات سکھائے جاتے ہیں اور نہ حرام مال کے نقصانات بتائے جاتے ہیں، جہاں End Justifies the Means (خاتمہ ذریعہ کی حقانیت ظاہر کرتا ہے) سکھایا جاتا ہے۔
جبکہ مدارس اور دینی حلقوں میں اس کے برعکس سکھایا جاتا ہے یعنی Means Justify the End (ذریعہ خاتمہ کی حقانیت ظاہر کرتا ہے)۔ مغربی تعلیم سکھاتی ہے کہ ذرائع کسی نے خواہ کتنے ہی ظالمانہ استعمال کئے ہوئے ہوں، منزل تو بہرحال حاصل کر ہی لی، اب اس کا حق ہے کہ مستفید ہو اور عیش کرے۔ مدارس یہ تعلیم دیتے ہیں کہ اگر کوئی ظالمانہ ذرائع کے استعمال سے منزل پر پہنچا ہے تو اسے کامیاب نہیں مانا جائے گا، بلکہ وہ اس دُنیا میں بھی احتساب کا سامنا کرے اور سزا بھگتے اور اس دُنیا کی زندگی کے بعد ان مراحل کی فکر کرے جہاں اسے تکالیف کا سامنا کرنا پڑے گا۔
قیامت حیوان صفت لوگوں پر ہی آئے گی، اور قیامت کو لانے کے لئے اسی طرح ہوگا کہ انسانیت کے دُشمن، انسانوں کو مختلف طریقوں سے حیوان بنادیں گے اور انسان کو حیوان بنانے کا کام اسکول، کالج (بقول ساحر لدھیانوی: لڑکیوں کے لئے عشق کا میدان ہے کالج، لڑکوں کے لئے عیش کا سامان ہے کالج)، یونیورسٹی، ٹی وی، اخبار، ڈائجسٹ، فلم، وی سی آر، کیبل، ڈِش اینٹینا، کمپیوٹر وغیرہ سے بہتر اور کون کرسکتا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ ان سب کی وباء اس قدر پھیل گئی ہے کہ ان کو پھیلانے والوں کو بھی اپنی کامیابی کا اتنا یقین نہیں تھا، اور صورتِ حال یہ ہے کہ انسان کو حیوان بنانے والا جن بوتل سے باہر آگیا ہے اور ان کے بھی قابو میں نہیں ہے جو اس خیال سے اسے باہر لائے تھے کہ ہم جب چاہیں گے اسے دوبارہ بوتل میں بند کردیں گے۔ اگر دینی مدارس بند کردئیے گئے، یا دینی مدارس نے اپنے فرائض سے غفلت برتی، تو قیامت آنے میں زیادہ دیر نہیں ہوگی، اور پھر خالقِ مطلق ہی اس جن کو بوتل میں بند کرے گا۔ شمالی اور جنوبی ممالک میں سردیاں بڑی تکلیف دہ ہوتی ہیں، لوگ موسمِ بہار کی اُمید پر دِن گزارتے ہیں، شیلے (Shelley) نے کہا تھا:
If winter comes, can spring be far behind? (اگر سردی آجائے تو کیا بہار زیادہ دُور رہ جائے گی؟)
اور اب معاملہ یہ ہے کہ حضرتِ انسان حیوانوں کی دُنیا میں پہنچ کر سمجھ رہا ہے کہ میری زندگی میں "Spring" یعنی موسمِ بہار آگیا ہے، لیکن اسی شعر کو تھوڑا سا تبدیل کردیں تو دُوسری حقیقت بھی سمجھ میں آسکتی ہے کہ:
If spring comes, can winter be far behind? (اگر بہار آجائے تو کیا سردی زیادہ دُور رہ جائے گی؟)
ابھی اگر یہ اپنی زندگی کو غفلت کی بنا پر Spring (بہار) کے موسم میں سمجھ رہے ہیں، تو اس بات کو نہ بھولیں کہ اس کے بعد ان کی Winter (سردی) یعنی قیامت آئے گی اور قیامت کی ہولناکیاں اور تکالیف ہزارہا Winter (سردیوں) کی تکالیف سے زیادہ ہوں گی، یہ بات خوابِ خرگوش کے مزے لینے والے یقین کرلیں تو اچھا ہو:
جو چمن سے گزرے تُو اسے صبا تو یہ کہنا بلبل زار سے
خزاں کے دن بھی ہیں سامنے نہ لگانا دِل کو بہار سے
کسی کو اگر قیامت کے آنے اور دُنیا کے ختم ہونے کا یقین نہ آئے اور سوچے کہ اتنی مستحکم تعمیر شدہ دُنیا کیسے تباہ ہوسکتی ہے؟ اسے اس مثال سے شاید سمجھ میں آئے کہ کسی مکان کی بہت اچھی تعمیر ہوئی ہو، اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی تعمیر میں نقص آئے، دراڑیں پڑنی شروع ہوجائیں اور ان کی مرمت نہ کی جائے تو ایک دن وہ مکان ضرور گر جائے گا۔ اسی طرح دُنیا میں جو نقص آرہے ہیں، اگر ان کی اصلاح کوئی نہیں کرے گا تو دُنیا بھی یقینا ایک دِن تباہ ہوجائے گی۔ یہ ایک مُسلَّمہ حقیقت ہے کہ جو کچھ خالق نے تخلیق کردیا ہے، ایک دن ضرور سب ختم ہوجائے گا، صرف خالق ہی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ کسی کے ماننے یا نہ ماننے سے حقائق نہیں بدلا کرتے۔
ہر ملک میں جمہوریت کا راگ اتنا الاپا گیا کہ جمہوریت ایک عبادت، انسانوں کی عظیم خدمت اور انسانیت کا معیار سمجھی جانے لگی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اکثریت کو بڑی خوبی سے خوابِ غفلت میں مبتلا رکھ کر چند ذہین اور شاطر لوگ، سیدھے سادے لوگوں پر مسلط ہوکر عیش کر رہے ہیں، کیونکہ واقعہ یہ ہے کہ سیدھے سادے لوگ دُنیا میں زیادہ ہیں اور عقلمند کم، اور جیسا کہ مولانا محمد حسین الٰہ آبادی نے سر سیّد احمد خان سے کہا تھا کہ:
”آپ لو گ جو کثرتِ رائے پر فیصلہ کرتے ہیں، اس کا حاصل یہ ہے کہ حماقت کی رائے پر فیصلہ کرتے ہو، کیونکہ قانونِ فطرت یہ ہے کہ دُنیا میں عقلاء کم ہیں اور بیوقوف زیادہ، تو اس قاعدے کی بناء پر کثرتِ رائے کا فیصلہ بیوقوفی کا فیصلہ ہوگا۔“ (معارف حکیم الاُمت ص:۶۲۶)
اور اللہ تعالیٰ بھی فرماتے ہیں:
”اور اگر آپ زمین والوں کی اکثریت کی اطاعت کروگے تو وہ آپ کو اللہ کے راستے سے گمراہ کردیں گے، وہ محض بے اصل خیالات پر چلتے ہیں اور بالکل قیاسی باتیں کرتے ہیں۔“ (سورة الانعام :۱۱۶)
اس حقیقت سے آج کون انکار کرسکتا ہے کہ انہی بیوقوفوں کی کثرتِ رائے سے بہت سے مغربی ممالک میں مرد کی مرد سے شادی، عصمت فروشی اور بے شمار شرمناک کاموں کی قانوناً اجازت دے دی گئی ہے، جو انسانیت کے نام پر انتہائی بدنما داغ ہیں۔
اور آج یہی چند یہود و نصاریٰ، شاطر عقلاء، شیطان کی رہبری میں دُنیا کے کم عقل لوگوں کو عام طور پر اور مسلمانوں کو خاص طور پر بیوقوف بنا رہے ہیں اور اپنا مطلب حاصل کر رہے ہیں، اور کم عقل لوگ، خواہ کافر ہوں یا مسلمان، ان کے اشاروں پر ایسے رقص کر رہے ہیں، جیسے نعوذ باللہ وہ یہود و نصاریٰ ان کے رہبر ہوں۔ یہ اجتماعی سفید فام قوم انگریز کی شکل میں ہر جگہ ہر قسم کا حربہ شر و فساد پھیلانے کے لئے استعمال کر رہی ہے اور بقول ایک فلسطینی بزرگ کہ:
”اگر سمندر کی مچھلیوں میں جنگ ہو تو انگریز کی شرارت سمجھو!“
(”پرانے چراغ“ از مولانا سیّد ابوالحسن علی ندوی ج اوّل ص:۷۳)
یہی کثرتِ رائے والے، مدارس کے خلاف بھی خوب لکھ رہے ہیں اور قوم کے ذہن میں یہ بات جمانے کی کوششیں کر رہے ہیں کہ مدارس سے انسان کو نقصان زیادہ ہے اور فائدہ کم۔
حضرت شیخ الہند کے الفاظ ایک تازیانے کی طرح ہیں، جن کو حضرت مولانا عاشق الٰہی میرٹھی نے بیان فرمایا ہے، ۱۸۵۷ء کے انقلاب کے ذکر کے ساتھ وہ حضرت شیخ الہند کے یہ الفاظ لکھتے ہیں:
”․․․․․ پھانسی گڑی ہوئی تھی اور ان ناکردہ مظلوموں کا پرا بندھا ہوا تھا، جن کو پھانسی کا حکم دیا جاچکا تھا، وہ لوگ آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کہ ایک نعش کو اُتارا جارہا ہے اور دُوسرے کو چڑھایا جارہا ہے، اس طرح موت ان کی نظر کے سامنے تھی اور ان کو عین الیقین تھا کہ چند منٹ بعد ان کا شمار مُردوں میں ہوا چاہتا ہے۔ باایں ہمہ کوئی جھونٹوں بھی ان کے متعلق ضعفِ ایمان کا یہ الزام نہیں لگاسکتا کہ کسی بچے نے بھی موت سے ڈر کر اسلام سے انحراف یا تبدیلیٴ مذہب کا خیال کیا ہو، باوجود قلتِ علم اور غلبہٴ جہالت (یعنی عام آدمی ہونے کے) ان کا ایمان اتنا پختہ تھا کہ مرنا قبول تھا، مگر مذہب پر حرف آنا قبول نہ تھا، اور آج باایں کثرتِ علم، ضعفِ ایمان کا یہ حال ہے کہ ذرا ڈنڈے کے خوف یا دو پیسے، بلکہ دو حروف انگریزی (یعنی خطاب جیسے: ”ڈاکٹر“ یا ”سر“) کے عطا کی طمع دِلاکر جو چاہے لکھوالو اور جو چاہے کرالو۔ عجیب بات ہے کہ قلتِ علم کے وقت ایمان میں اتنی قوّت اور کثرتِ علم کے زمانے میں ایمان کی اتنی کمزوری۔“
حضرت عمر بن عبدالعزیز (جن کو ان کی مرضی کے برخلاف سلیمان نے خلیفہ بنادیا تھا) نے حضرت حسن بصری کو جب لکھا کہ کیا کروں؟ حکومت کے کام کس طرح چلاوٴں؟ کام کرنے والے نہیں ملتے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ:
”دین دار تو تم تک آئیں گے نہیں، اور نہ ان کو آنا چاہئے، تم شریفوں کو پکڑ لو کہ وہ شرافت کے خیال سے صحیح کام کریں گے۔“
اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ خلیفہٴ اوّل کبھی نہیں چاہتے تھے کہ مسلمانوں کی ذمہ داری ان پر آئے، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں اپنی زندگی ہی میں کئی معاملات میں اپنا خلیفہ بنادیا تو آپ کا حکم ایسا نہیں تھا کہ تعمیل نہ کی جائے، پھر حضرت عمر کو جب خلیفہ رسول اللہ نے اپنا خلیفہ بنایا تو نہ چاہتے ہوئے بھی انہیں قبول کرنا پڑا، اور جب حضرت عمر کے خلیفہ کے لئے لوگوں نے حضرت عبداللہ بن عمر کا نام پیش کیا تو حضرت عمر نے سختی سے رَدّ کردیا اور فرمایا کہ:
”خطاب کے خاندان میں ایک کے لئے یہ آزمائش کافی تھی۔“
ایک روایت کے مطابق امامِ اعظم نے لوگوں کی ذمہ داریاں لینے سے منع فرمایا ہے، حتیٰ کہ نمازیوں کی امامت سے بچنے تک کی وصیت کی ہے۔ حکومت کی ذمہ داری کیا ہے؟ کاش! کوئی حضرت عمر بن عبدالعزیز ہی کی زندگی کا مطالعہ کرلے، ساری ساری راتیں جب رو رو کر گزارنے لگے تو ایک رات ان کی اہلیہ فاطمہ نے دریافت کیا کہ: آخر کیا وجہ ہے کہ تم ساری ساری رات روتے ہوئے گزار دیتے ہو؟ جواب میں فرمایا:
”فاطمہ! میں نے غور کیا تو پایا کہ میں اس اُمت کے سیاہ و سفید پر حاکم ہوں، پھر مجھے بھوکے فقیر، بے حال مسافر، مظلوم قیدی، کم مال اور کثیر عیال کے افراد اور وہ لوگ یاد آتے ہیں جو دُور دُور کے علاقوں اور زمین کے گوشے گوشے میں پھیلے ہوئے ہیں، پھر مجھے یقین ہوا کہ اللہ تعالیٰ اس سب رعایا کے بارے میں مجھ سے سوال کریں گے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سب کی طرف سے میرے مقابلے میں وکیل استغاثہ ہوں گے، مجھے اندیشہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں میرے کسی عذر، معذرت کو نہیں سنیں گے، نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں مجھ سے کوئی حجت پیش کی جاسکے گی، جب مجھے یہ خیالات آتے ہیں تو آنسو رُکتے نہیں ہیں۔“
یہ ہوتی ہے حکومت کی ذمہ داری! اِس عظیم انسان پر زبردستی عین جوانی (۳۵ سال کی عمر) میں بارِ خلافت ڈال دیا گیا اور اس کی ذمہ داری، مصروفیت اور خوفِ الٰہی سے دو سال تک غسلِ جنابت کی نوبت نہیں آئی۔
اسی لئے اگر تبلیغ کا کام اور علماء اپنی ذمہ داریاں خاطر خواہ ادا نہیں کریں گے تو بُرائی بڑھتی جائے گی، اور یہی ہو رہا ہے، جب تک برسرِ اقتدار حاکم خود پائے کا عالم نہیں ہوگا (دینی تعلیم کی تکمیل کے بعد مغربی فلسفہ کا بھی ماہر) اس وقت تک اسلام ترقی نہیں کرسکتا، کیونکہ غیرعالم حاکم اپنی من مانی کرے گا اور علماء کی وہی بات مانے گا جس سے اس کے خیا ل میں سپر پاور ناراض نہیں ہوگی، چاہے سپریم پاور (اللہ تعالیٰ) ناراض ہوجائے، جبکہ صحیح عالم حاکم سپریم پاور کی ناراضگی کا خیال رکھے گا۔ ہندوستان کی تاریخ میں جتنے بھی فاتح آئے، ان میں سے انہی کی حکومت قابلِ رشک رہی ہے جو بہترین عالم بھی تھے اور حکمران بھی۔
عرب سیاح ابنِ بطوطہ اپنا چشم دید واقعہ لکھتا ہے کہ:
”جب قاضی نے ایک عام ہندو کے حق میں فیصلہ دے دیا تو اس کے بیٹے نے بھری عدالت میں سلطان محمد بن تغلق کے ۲۵ چھڑیاں ماریں، ایک بار تو سلطان کی ٹوپی بھی گر گئی تھی، سلطان کو صرف اللہ کے خوف اور انصاف نے اس پر مجبور کیا۔“
اسی طرح اورنگزیب نے ایک عام ہندو کی بیٹی کو اپنے ہی مقرر کردہ مسلمان گورنر کے ظلم سے بچایا اور برسرِ عام اپنے گورنر کو پھانسی دی۔ آج کوئی حکمران ہے ایسی مثال والا؟ ایسے حکمرانوں کے کارناموں سے جو کہ بیک وقت عالم بھی تھے اور حکمران بھی، تاریخ بھری پڑی ہے۔
لیکن اکبر کے بعد جہانگیر ۱۶۰۵ء میں بادشاہ بنا، نہ اکبر کی دینی تعلیم مکمل تھی، نہ جہانگیر کی، (اسی وجہ سے ان دونوں کے داڑھیاں بھی نہیں تھیں) اور اس نے ۱۶۱۲ء میں جو سب سے بڑی غلطی کی، وہ یہ کہ خنزیر کھانے والی سفید فام قوم کو ملک میں کاروبار کرنے کی اجازت دے دی۔ اس کے بعد شاہجہان نے ایک قدم اور آگے بڑھایا اور ۱۶۳۶ء میں زمینیں بھی انہیں پٹے پر دے دیں، اور اس طرح بُرائی کے پھلنے پھولنے کے لئے راستہ ہموار کیا۔ اس کے بعد اس سفید فام قوم نے اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ کیا کیا؟ اس کی ایک لامتناہی تاریخ ہے جسے پڑھنے کے لئے فولاد کا دِل بھی کمزور ثابت ہوگا۔
ایک بزرگ نے فرمایا کہ:
”اگر سوئی بھی اسلام کے دُشمن کے ملک کی استعمال کی گئی تو اس کا بھی اثر مسلمان کی زندگی پر پڑے گا۔“
دراصل ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اُمتِ مسلمہ کو اسلام کے دُشمنوں سے (جن کی نشاندہی اور تفصیل قرآن میں آگئی ہے اور اس سے بہتر کوئی نہیں بتاسکتا) اس طرح بچانا چاہئے تھا جس طرح چھوت کی بیماری سے صحت مند لوگوں کو بچاتے ہیں، اور چھوٹی سی خرابی کا بھی شروع ہی سے سدِ باب ہونا چاہئے تھا، مگر یہ نہ ہوسکا، اور اب یہ عالم ہے کہ: ”تو نہیں تیرا غم نہیں اور تیری جستجو بھی نہیں، (دین نہیں، دین کا غم نہیں، اور دین کی جستجو بھی نہیں) گزر رہی ہے اس طرح زندگی کہ گویا ارضی جنت مل گئی“ استغفر اللہ۔ آج چلتے پھرتے، راستوں میں، بازاروں میں، ہوٹلوں میں یا اخبار میں مذہب کی کچھ اُلٹی سیدھی یا سطحی باتیں پڑھ کر لوگ خود کو امام ابوحنیفہ یا امام بخاری سے کم ماننے کو تیار نہیں ہیں، ان سے بات کرنا خود کو حماقت میں ڈالنے کے برابر ہوتا ہے، جو یہ مانے کہ مسجد اور بازار برابر نہیں ہوسکتے، تو مسجد میں حاصل کردہ علم اور بازار میں پڑھے جانے والے اخبار کی باتیں کیسے برابر ہوسکتی ہیں؟ مسجد میں تو شیطان اور فرعون کا نام قرآن اور دُوسری دینی کتابوں میں پڑھنا بھی عبادت ہے، جبکہ بازار میں ایسا نہیں۔ مساجد اور غیرمساجد کے علم کا کوئی مقابلہ ہی نہیں، اس کے فرق کو اللہ کی توفیق ہی سے سمجھا جاسکتا ہے، انسان یہ اسی وقت کہہ سکتا ہے جب اسے محرومی کا احساس ہوجائے۔ آج اللہ نے احقر کو سب کچھ دیا، لیکن دینی علم کی کمی کا شدت سے احساس ہے۔ ہندوستان میں غیر مسلم اُساتذہ سے بہت پڑھا، لیکن دیوبند کے کسی چھوٹے سے چھوٹے اُستاذ کی یا وہاں کے خاکروبوں کی جوتیاں بھی سیدھی کرنے کو مل جاتیں تو دامن ایسا خالی نہ ہوتا اور کچھ اطمینان ہوتا، اپنی زبان تو اس لائق بھی نہیں کہ وہاں کے اکابر کا نام تک لے سکے۔
آج ہمیں ورثے میں مسلمانی اور اسلامی ذہنیت تو مل گئی، لیکن اس پر اسلامی محنت نہیں ہوئی، بلکہ مغرب نے اپنی محنت کر ڈالی اور حاصل یہ ہوگیا کہ ہماری ذہنیت اسلامی ہے لیکن مزاج مغربی، اور یہ دونوں ایک دُوسرے کی ضد ہیں، ایک کی تعلیم میں سراسر فلاح و بہبود ہے تو دُوسرے کی تعلیم میں سراسر گمراہی اور تباہی۔ دُوسری قوموں سے اختلاط اور پڑوسی اقوام میں اس درجہ گھل مل جانا کہ اپنے پلے کچھ نہ رہ جائے اور دُوسروں کے رسم و رواج کو ہی عین شریعت سمجھ کر اس درجہ مضبوطی سے اس پر قائم ہوجانے اور مزید یہ کہ علمائے سوء کا ایسے گروہ کی تائید پر آمادہ ہوکر نصوصِ شرعیہ کی تأویلاتِ رکیکہ کردینا، اس نے دین کے شیرازے کو منتشر کردیا گیا ہے۔ بقول حضرت علامہ سیّد سلیمان ندوی:
”․․․․ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جو علماء کا فریضہ تھا، وہ مسامحت اور مداہنت میں بدلتا جاتا ہے۔ ہم بُرائیاں دیکھتے ہیں، بدعات روزمرّہ نظر سے گزرتی ہیں، مگر سوسائٹی کی تأثیر، کبھی مصلحت کا خیال، کبھی بڑوں کی بڑائی اور اکثر حبِ جاہ اور طمعِ دُنیا، کلمہٴ حق کے اظہار سے باز رکھتا ہے۔“
اسلامی تہذیب اور روایات پر مکمل عمل کرنے سے مسلمان کو ساری دُنیا میں امتیازی مقام حاصل تھا، اس کو چھوڑ کر جب اُمتِ مسلمہ ذہنی اور اخلاقی اعتبار سے دُوسری اقوام کی تقلید کرنے لگی تو وہ کہیں کی نہیں رہی، ہم نہ سفید انگریز بن سکے، نہ سچے مسلمان رہ سکے۔ مثالی سادگی حتیٰ کہ فاقہ کشی، جو ایمان اور تقویٰ کی روح ہے، کو لچر تأویلات دے دے کر علمائے سوء نے قوم کو وہاں پہنچادیا جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا، اور اب ہم ہیں اور دُنیا کی ہوس اور غلامی ہے، اور مقدر میں ذلت و خواری ہے۔
(جاری ہے )
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, جمادی الاخریٰ۱۴۲۷ھ جولائی۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 6

    پچھلا مضمون: روشن خیالی اور جدیدیت کی تاریخ
Flag Counter