Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاخریٰ۱۴۲۷ھ جولائی۲۰۰۶ء

ہ رسالہ

2 - 9
این جی اوز سے امداد اور گروی سے نفع اٹھانے کا حکم
این جی اوز سے امداد اور گروی سے نفع اٹھانے کا حکم

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ:
۱- ہمارا علاقہ دار السلام (کالاڈھاکہ) ایک پسماندہ علاقہ ہے اور اس وقت زلزلے سے متأثرہ بھی ہے‘ وہاں کے لوگوں کی اکثریت مسلک علمائے دیوبند سے وابستہ ہے۔ حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے این جی اوز وہاں کام کررہی ہے ‘ لوگوں کوامداد وغیرہ دیتے ہیں اور اس طرح وہ وہاں اپنا اثر رسوخ پیدا کررہے ہیں‘ لوگوں کا کہنا ہے کہ ہم ان سے امداد حاصل کرلیں گے‘ لیکن ان سے نہ متأثر ہوں گے اور نہ ان کو آئندہ کے لئے کام کرنے دیں گے (جبکہ ایسا بظاہر مشکل لگتاہے) این جی اوز کی طرف سے ابھی بظاہر کوئی مطالبہ بھی نہیں ہے تو کیا ان حالات میں ان سے امداد وصول کرنا شرعاً جائز ہے؟ جبکہ یہ اندیشہ ہے کہ اس طرح یہ لوگ اپنا اثر ورسوخ پیدا کرکے آئندہ کے لئے لوگوں کو گمراہ کردیں گے۔
۲-ہمارے ہاں لوگ اپنی زمین بطور رہن کسی اور کو دے دیتے ہیں اور ان سے ایک لاکھ یا دو لاکھ روپے قرض لے لیتے ہیں اور یہ زمین قرض دینے والے کے پاس رہتی ہے اور وہ اس وقت تک اس زمین سے فائدہ اٹھاتا رہتا ہے‘ جب تک کہ قرض لینے والا وہ سارا قرض ادا نہ کردے اور جب وہ قرض ادا کردیتاہے تو اسے اس کی زمین واپس مل جاتی ہے‘ اس عمل کو وہاں کی اصطلاح میں (گانڑہ) کہتے ہیں اب سوال یہ ہے کہ کیا ایسا کرناشرعاً جائز ہے؟
مستفتی :عزیز الرحمن کراچی
الجواب بعون الوہاب
۱- صورت مسئولہ میں زلزلہ سے متأثرین کے لئے غیر ملکی این جی اوز سے امداد لینے میں تفصیل یہ ہے کہ اگر غیر ملکی این جی اوز مسلمان ہیں ‘ تو ان سے امداد لینے میں کوئی قباحت نہیں ہے‘ اور اگر غیر ملکی این جی اوز مسلمان نہیں ہیں‘ بلکہ کافر ہیں تو اس صورت میں حکم یہ ہے کہ ان سے امداد لینے میں آئندہ زمانے میں یا موجودہ وقت میں دینی اعتبار سے نقصان کا غالب اندیشہ ہے تو ان سے امداد لینا جائز نہیں اور اگر کسی بھی صورت میں دینی اعتبار سے نقصان کا غالب اندیشہ نہیں ہو اور مسلمان ان کی امداد کے محتاج ہوں اور این جی اوز کے علاوہ امداد کی کوئی اور صورت ممکن نہ ہو تو پھر اس صورت میں ان سے امداد لینا جائز ہوجائے گا۔
چنانچہ تکملہ فتح الملہم میں ہے:
”والذی یتخلص من مجموع الروایات ان الامر فی الاستعانة بالمشرکین موکول الی مصلحة الاسلام والمسلمین‘ فان کان یؤمن علیہم من الفساد‘ وکان فی الاستعانة بہم مصلحة فلا بأس بذلک ان شاء اللہ اذا کان حکم الاسلام ہو الظاہر‘ ویکون الکفار تبعا للمسلمین‘ وان کان للمسلمین عنہم غنی او کانوا ہم القاد ة والمسلمون تبعالہم او یخاف منہم الفساد فلایجوز الاستعانة بہم“ ۔(ج:۳‘ ص:۲۶۹)
۲-صورت مسئولہ قرض خواہ کی زمین بطور رہن رکھ کر قرض کی واپسی تک اس زمین سے فائدہ اٹھاتے رہنا کھلم کھلا سود ہے‘ عموماً لوگ اسی سودی مقصد کے لئے یہ لین دین کرتے ہیں‘ لہذا رہن کی مذکورہ صورت بالکل ناجائز ہے‘ اس سے بچنا لازم ہے‘ جیساکہ کتب فتاویٰ میں ہے:
۱-”وفی حاشیة الطحطاوی علی الدر المختار: (قولہ وسیجی اخر الرہن) ذکر فیہ ان التعلیل بانہ ربا‘ یفید ان الکراہة تحریمیة‘ والغالب من احوال الناس انہم یریدون عند الدفع الانتفاع‘ ولولاہ لما اعطاہ الدراہم‘ وہذا بمنزلة الشرط‘ لان المعروف کالمشروط‘ وہو مما یعین المنع“۔ (حاشیة الطحطاوی علی الدر المختار‘ ج:۴‘ص:۴۳۲ )
۲- ”وفی الشامیة : لایحل لہ ان ینتفع بشئ منہ بوجہ من الوجوہ‘ وان اذن لہ الراہن‘ لانہ اذن لہ فی الربا‘ لانہ یستوفی دینہ کاملا فتبقی لہ المنفعة فضلا‘ فیکون ربا‘ فہذا امر عظیم“۔ (الفتاویٰ الشامیة‘ کتاب الرہن‘ ج:۶‘ص:۴۸۲)

الجواب صحیح الجواب صحیح
محمد عبد المجید دین پوری رفیق احمد
کتبہ
مولوی ایاز الحق
جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, جمادی الاخریٰ۱۴۲۷ھ جولائی۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 6

    پچھلا مضمون: فلم دی میسجThe Message 
Flag Counter