Deobandi Books

افادات محمود - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

58 - 60
{یُّضِلُّ مَنْ یَّشَآئُط وَیَھْدِیْ مَنْ یَشَائُ}1 (1 النحل: ۹۳)
چناںچہ یہ دونوں اثر ہماری آنکھوں کے سامنے موجود ہیں جن کی تصدیق میں کوئی صاحبِ فہم و انصاف متأمل نہ ہوگا۔
ہم اپنی غفلت اور ہواؤ ہوس کے نشے سے متنبہ ہو کر انصاف سے دیکھ لیں کہ اہلِ علم و امانت اور اربابِ فتنہ و ضلالت کے بارے میں جو حضرت نبی کریم اور مربی رحیم نے ہم کو باتیں بتلائی ہیں وہ آج صاف صاف اپنے اندر اور دیگر حضرات کے اندر آنکھوں سے کھلے طور پر ہم کو نظر آتی ہیں یا نہیں۔ جس کے ملاحظہ کے بعد ہم کو ایمان و کفر، علم و جہل، امانت و فتنہ کی شناخت میں کوئی دشواری نہیں۔ ہاں! ہم دیکھنا ہی نہ چاہیں یا دیکھ کر بھی اپنی سینہ زوری کیے جاویں تو اس کا علاج کوئی نہیں کرسکتا، لیکن حق تعالیٰ کے یہاں سب کا علاج ہے اور سب کو معلوم ہے جو اُس کا یقین اب نہیں کرتا عن قریب مجبوراً کرنا پڑے گا۔
حضرت فخر الانبیاء  صلی اللہ علیہ و سلم  سے کسی نے ایمان کی علامت پوچھی یعنی ایمانِ ظاہری کی نہیں بلکہ ایمان اصلی حقیقی کی جو کہ قلب کے متعلق ہے، تو آپ نے جواب میں فرمایا: إِذا سَرَّتْکُ حَسَنَتُکَ وَسَائَ تْکَ سَیِّئَتُکَ فَـأَنْتَ مُؤْمِنٌ ہے۔ یعنی نیک کام کرکے تیرے دل میں مسرت ہو اور برا کام کرکے دل برا ہو تو تو مؤمن ہے اب ہم کم سے کم اپنے ایمانِ قلبی کو کہ جس کا معلوم کرنا جاننے والے جانتے ہیں کہ کس قدر دشوار ہے، اِسی کسوٹی پر کھینچ کر دیکھ لیں کہ کھڑا ہے یا کھوٹا اور کسی امر میں حق تعالیٰ کی اطاعت اور اُس کی عبادت کرنے سے ہم کو مسرت ہوئی یا نہیں اور ہوئی تو کس قدر علی ہذا القیاس گناہ کرکے ہمارا دل بُرا ہوا یا نہیں اور ہوا تو کس قدر، جس کے ذریعے سے ہم اپنے ایمان کی قوت و ضعف، وجود و عدم کو آسانی کے ساتھ سمجھ سکتے ہیں۔ اور اِسی ارشاد سے ہماری سمجھ میں بخوبی یہ بھی آگیا کہ اگر کوئی ایسا ہو کہ عبادت اور نیک کام کرکے بجائے مسرت اُس کے دل میں تنگی اور کدورت اور بڑائی پیدا ہو اور بُرا کام کرکے دل میں انشراح اور مسرت و خوشی پیدا ہو یا کوئی شخص ایسا ہو کہ کسی عبادتِ خاص مثل صوم و صلاۃ و حج و زکوٰۃ سے اُس کے دل میں نعوذ باللہ! اس قدر تنفر اور وحشت ہے کہ کسی حال اُس کے کرنے کا ارادہ بھی نہیں کرسکتا اور اُس کا متحمل ہی نہیں ہوسکتا تو ایسے شخص کو کیا سمجھنا چاہئے اور ہم کیا، ہر منصف فہیم بذریعۂ ارشادِ مذکور اُس کا حکم سمجھ سکتا ہے۔
اور اِس ارشادِ مذکورہ کی حقیقت سمجھنا چاہو تو وہی ہے جو بالتفصیل معلوم ہوچکی، یعنی جو شخص نیک کام کرکے مسرور اور بُرا کام کرکے مکدر و مغموم ہوتا ہے اُس شخص کی رغبت و میلان فطرتی یعنی صفتِ امانت معلوم ہوگیا کہ صحیح ہے، جس پر ایمان کا مدار ہے۔ اور جو شخص طاعت سے مکدر اور معصیت سے مسرور ہوتا ہے معلوم ہوگیا کہ اُس کی رغبت اور میلان قلبی یعنی امانت فاسد ہوچکی ہے اور لَا إِیْمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَۃَ لَہُ کا مصداق بن چکا ہے۔ فَإِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 وحی اور اُس کی عظمت 2 1
3 لَا إِیْمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَۃَ لَہٗ 19 1
Flag Counter