Deobandi Books

افادات محمود - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

19 - 60
لَا إِیْمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَۃَ لَہٗ
پہلے یہ مضمون توضیح اور تفصیل کے ساتھ معروض ہوچکا ہے کہ عقائد و اعمال، عبادات و معاملات، اخلاق و اوضاع کی برائی بھلائی، صحت و سقم کا دار مدار وحیِ الٰہی پر ہے۔ بدون اتباعِ وحی ایمان اور دیگر اعمالِ حسنہ حقہ کا میسر آنا ایسا ہے جیسے بدون قوتِ باصرہ دیکھنے کی اور بغیر قوتِ سامعہ کوئی سننے کی توقع رکھے۔ اب یہ عنوان جو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے، یعنی لَا إِیْمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَۃَ لَہٗ جو بعینہ ارشادِ رسول اللہﷺ یعنی وحیِ الٰہی ہے اس کو دیکھ کر شاید یہ خدشہ ہو کہ وحی الٰہی پر تو ایمان کا موقوف ہونا سمجھ میں آتا تھا لیکن امانت پر ایمان کا موقوف ہونا اور امانت کے موجود اور معدوم ہونے پر ایمان کے وجود اور عدم کا متفرع ہونا کیسے قابل تسلیم ہوسکتا ہے؟ اس لیے اوّل تو یہ عرض ہے کہ تمام اہلِ عقل بالبداہۃ جانتے ہیں کہ ہر چیز اپنے وجود میں جیسے علتِ فاعلہ کی محتاج ہے ایسے ہی علتِ قابلہ کی دستِ نگر ہے۔ دیکھئے وجودِ زراعت جیسے تخم ریزی پر موقوف ہے ایسے ہی زمین کی جو قابلِ زراعت ہو محتاج ہے، ورنہ پتھر لوہے آگ پانی وغیرہ سب پر زراعت کرلیا کرتے۔ تعلیم میں جیسی فاعل یعنی معلم کی ضرورت ہے ایسی ہی جس کو تعلیم دی جائے اس کا قابل العلم ہونا لا ۔ّبدی ہے، ورنہ جمادات و نباتات و جملہ حیوانات کو بھی مثل انسان تعلیم دینا ممکن ہوتا۔ جب یہ مضمون دل نشین ہوگیا کہ ہر امر ِممکن کا موجود ہونا جیسا کہ وجودِ فاعل اور مؤثر پر موقوف اور اس کا محتاج ہے ایسا ہی اس امر کو اپنے تحقق میں قابل اور متاثر کی بھی احتیاج ہے اور جب تک یہ دونوں موقوف علیہ یعنی فاعل اور قابل متحقق نہ ہوں گے اُس وقت تک کوئی امر ممکن الوجود موجود نہ ہو سکے گا۔ تو اب یہ سمجھ لینا بھی کوئی دشوار نہیں کہ ایک چیز کے لیے اگر چند قابل ہوں تو اُن میں باہم فرقِ مدارج قابلیت بھی ہوا کرتا ہے، دیکھ لیجیے تمام قطعاتِ زمین قابلیتِ زراعت میں اور تمام افرادِ انسانی قابل العلم ہونے میں ہرگز ہرگز یکساں نہیں بلکہ ازحد مختلف ہیں۔ اب اس کے بعد یہ التماس ہے کہ اگر ایمان کے لیے وحی الٰہی کو بمنزلۂ علتِ فاعلہ مانا جائے اور امانت کو اُس کے لیے بمنزلۂ علتِ قابلہ کہا جائے تو اُس کا واجب التسلیم ہونا ایسا ہی بدیہی ہوگا جیسا کہ زراعت کے لیے تخم ریزی کو علت فاعلہ اور زمین کو علت قابلہ کہنا یا تعلیم کے لیے معلم کو علتِ فاعلہ اور فہمِ متعلم کو علتِ قابلہ کہنا بدیہی امر تھا۔ اس کے بعد عاقل منصف اگر کہہ سکتا ہے تو صرف اسی قدر کہہ سکتا ہے کہ یہ تو مسلم ہے کہ ایمان کے لیے بھی علتِ فاعلہ اور علتِ قابلہ دونوں کا ہونا ضروری امر ہے اور ایمان کے لیے وحیِ الٰہی کا بمنزلۂ علتِ فاعلہ ہونا بھی درست ہے جیسا کہ پہلے ثابت ہوچکا ہے لیکن امانت کو ایمان کے لیے علتِ قابلہ کہنا اس کی وجہ کوئی معلوم نہیں ہوتی، تو صرف اتنے خدشہ کا ازالہ بہت آسان ہے۔ امانت کے معنی اور مراد سمجھ لینے کے بعد ان شاء اللہ یہ خلجان پیش ہی نہ آئے گا بلکہ امانت کا ایمان کے لیے علتِ قابلہ اور موقوف علیہ ہونا ضروری التسلیم سمجھا جائے گا جو حدیثِ مذکورہ بالا کا عین مطلب ہے۔

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 وحی اور اُس کی عظمت 2 1
3 لَا إِیْمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَۃَ لَہٗ 19 1
Flag Counter