Deobandi Books

افادات محمود - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

45 - 60
اور معتمد علیہ ہیں اور حضراتِ انبیا  علیھم السلام  کا علم و دیانت، راستی و صداقت، عبودیت و عصمت، اخلاقِ فاضلہ اور شفقتِ کاملہ، تعلیم و تفہیمِ عباد میں یہ کمال ہے جو معروض ہوچکا تو اب ان جملہ انتظاماتِ کاملہ کے بعد فرمایئے کہ علمِ مرضیات الٰہی کی تحصیل و تسہیل میں کون سی دقت اور اُس کے معتبر اور ہر طرح سے قابلِ وثوق ہونے میں کون سی کسر باقی رہ گئی۔
کلامِ الٰہی جو فی نفسہ ارشاد: {اِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْکَ قَوْلًا ثَقِیْلًاO}1 (1 المزمل: ۵) کا مصداق ہے اُس کی نسبت اُن سہولتوں کے بعد جو مذکور ہوئیں صاف صاف اور بار بار {وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّکْرِ فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍO}1 (1 القمر:۱۷) فرما دینا ہمارے مدعی کی ایسی دلیل ہے کہ پھر کسی دلیل کی حاجت نہیں۔
ہمارے بیانات سے جیسا یہ ثابت ہوا کہ تحصیلِ علمِ وحی بذریعۂ انبیائے کرام  علیھم السلام  ہم پر سہل بلکہ اسہل فرما دی گئی، جس کا بیان کرنا اِس موقع پر ہم کو مقصود تھا، ایسا ہی یہ امر بھی خوب محقق ہوگیا کہ وحیِ الٰہی کے نزول اور اُس کی تبلیغ و حفاظت میں اس قدر اہتمام ہر طرف سے فرمایا گیا ہے کہ تمام جن و انس مل کر بھی اُس میں ادنیٰ سا خلل ہرگز نہیں ڈال سکتی۔ چناںچہ اس حفاظت و حمایت کو ادنیٰ اعلیٰ سب پر واضح کردینے کی غرض سے حق سبحانہ نے تاکیدی الفاظ میں یہ وعدہ فرما دیا {اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَO}۔1 (1 الحجر: ۹)
اب اہلِ عقل و انصاف اوّل تو نزولِ وحی کے ارکانِ ضروریہ، یعنی وحی نازل فرمانے والے اور وحی کے لانے والے اور جس پر وحی نازل ہوئی ان تینوں کی جلالت و عظمت و رفعت کو حسبِ بیاناتِ سابقہ ملاحظہ فرمائیں۔ ان سب کے بعد حق تعالیٰ کے اِس وعدۂ مستحکم کو دیکھیں پھر فرمائیں کہ اِس سنگین، بلکہ آہنی قلعہ میں کون خلل ڈال سکتا ہے؟ اور فلسفۂ قدیم کے پٹاخے اور فلسفۂ جدید کی مہتابیاں اس مستحکم قلعہ پر کیا اثر پہنچا سکتی ہیں؟ اور اِنَّ مِنَ الْعِلْمِ لجھلًا کے علما اور بَعْضُ الْعَقْلِ عِقَالٌ کے عقلا اپنی ٹکروں سے اُس کی بنیادوں کو کہاں تک متزلزل کرسکتی ہیں۔ واللہ اتنا بھی اثر نہیں پہنچا سکتے کہ جتنا پیل مست کو مچھر کی لات اور رعد کی آواز کو مکھی کی  بھن بھناہٹ۔
جب علمِ وحی کا بذریعۂ انبیائے کرام  علیھم السلام  ہم پر طرح طرح سے سہل ہوجانا بالتفصیل معلوم ہوچکا تو اب صفتِ امانت کو بھی اُس پر قیاس فرما لیجیے کہ اوّل تو ملکۂ امانت ہمارے قلوب میں مثل دیگر ملکات خلقتاً اور فطرتاً رکھ دیا گیا اُس کے بعد علم و عقل و جملہ ملکاتِ حسنہ اور اخلاقِ فاضلہ، حلم و حیا، صدق و صفا، سخاوت و شجاعت، عفت و دیانت، انصاف و مروت وغیرہ کے ذریعہ سے ملکۂ امانت کے کسب و ترقی میں آسانی اور سہولت کردی گئی کہ ان کی اعانت سے صفتِ امانت کو تقویت پہنچے اور انسان مغلوب ہوا و ہوس جملہ خیانتوں سے اور بے جا خواہشوں سے محفوظ رہ کر صراطِ مستقیم پر بہ سہولت 

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 وحی اور اُس کی عظمت 2 1
3 لَا إِیْمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَۃَ لَہٗ 19 1
Flag Counter