Deobandi Books

افادات محمود - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

42 - 60
اُس سے ڈراتا ہے۔ چناںچہ فی سبیل اللہ مال خرچ کرنے کے بارہ میں خود کلامِ الٰہی میں ارشاد ہے:
{اَلشَّیْطٰنُ یَعِدُکُمُ الْفَقْرَ وَیَاْمُرُکُمْ بِالْفَحْشَآئِج وَاللّٰہُ یَعِدُکُمْ مَّغْفِرَۃً مِّنْہُ وَفَضْلًاط وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌO}1 (1 البقرۃ: ۲۶۸) 
اس سے صاف معلوم ہوگیا کہ جب ہماری عقل و خواہش حکمِ الٰہی کے ناموافق ہوں تو ہم کو امرِ خداوندی کی متابعت چاہیے اور یہی ہمارے لیے موجبِ فلاحِ دارین ہے۔ مگر اِسی آیت کے متصل {یُؤتی الحکمۃ من یشاء} ارشاد فرما کر اس طرف بھی اشارہ فرما دیا کہ اس کو تسلیم کرنا انھیں کا کام ہے جو علم و عمل میں پختہ ہیں۔ جاہل ہوا پرست سے یہ کام نہیں ہوسکتا۔
جو نادان اپنی یا کسی دوسرے کی عقل کے بھروسہ کہ جس کو حسبِ حکم ِآیتِ سابقہ حقیقت میں اغوائے شیطانی کہنا چاہیے احکام وحی کی مزاحمت اور ان میں تصرفات کرنے پر آمادہ ہو، اُن نادان کو عظمت وحی تو در کنار خود اپنی بھی خبر نہیں۔ وہ بے چارہ علم و امانت سے اس قدر اجنبی اور بے نصیب ہے کہ صاحبِ علم وامانت کو اُس کی نسبت ’’نیستند آدم غلاف آدم اند‘‘ کہہ کر بھی صبر نہ آئے گا۔
ارشاد خدا:  {وأضلہ اللّٰہ علی علم} اور ارشادِ نبوی: اِتَّخَذُوْا رُؤُوْسًا جُھَّالًا، فَأَفْتَوْا بِغَیْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوْا وَأَضَلُّوْا کے پورے مصداق ایسے ہی لوگ ہیں۔ والعِیاذُ باللّٰہ۔
ای جذبہ ہمتے کہ دریں دشت ۔ُپر فریب
گم کردہ ایم قافلہ سالار خویش را
جب یہ مضمون محقق ہوگیا کہ تمام عالم کے لیے سر منشائے ہدایت اور سرچشمۂ جملہ کمالاتِ بنی آدم اگر ہیں تو انبیائے کرام  علیھم السلام  ہیں اور ہر ایک ادنیٰ اور اعلیٰ کو جو احکامات و انعامات خداوندی پہنچتے ہیں انھیں کی وساطت سے پہنتے ہیں تو اب کیسے ہوسکتا ہے کہ علم و امانت جن کو انعاماتِ خداوندی میں اعلیٰ اور کمالاتِ انسانی میں تمام کمالوں کے لیے سر منشا کہنا چاہیے وہ انبیا کے ذریعہ سے ہم کو نہ پہنچائے جائیں، بلکہ ضرور ہے کہ ان دونوں کمالوں کی ہم کو جس قدر احتیاج ہے اُسی قدر بذریعۂ انبیا ہم تلک پہنچانے میں اہتمام زیادہ فرمایا گیا ہو اور جس قدر اُن کی تحصیل میں دشواری تھی اُسی قدر بذریعۂ انبیا ہم پر اُن کی تحصیل کو سہل و آسان کردیا گیا ہو۔
سو الحمدللہ علم وامانت میں یہی قصہ ہے، دیکھ لیجیے اوّل تو انسان کو جوہرِ عقل اور علم عطا فرمایا، پھر اُس کی تائید کے لیے حواسِ ظاہرہ و باطنہ کس قدر عنایت کیے، پھر تعلیم و تعلم کے ایسے طریقے بتلا دیے کہ انسان ظلوم و جہول سہولت کے ساتھ تحصیل و تکمیلِ علم کرسکے، بلکہ مختلف علوم وفنون صنائع بدائع اپنی سمجھ اور تجربہ وغیرہ سے ایجاد کرسکے۔ چناں چہ آج جس قدر علوم و فنون ہماری نظر کے سامنے ہیں وہ سب ایسے ہی ہیں۔ صرف ایک علم جس کو علمِ مرضیاتِ الٰہی اور علمِ 

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 وحی اور اُس کی عظمت 2 1
3 لَا إِیْمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَۃَ لَہٗ 19 1
Flag Counter