Deobandi Books

افادات محمود - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

41 - 60
أَنْتُمْ أَعْلَمُ بِأُمُوْرِ دُنْیَاکُمْ کے بھروسے متابعت رسول  صلی اللہ علیہ و سلم   کو صرف عبادات میں منحصر کرنا کس قدر سینہ زوری ہے اور اطاعتِ رسول کو امورِ دنیوی میں داخل کرنا تو اُسی کا کام ہے جو احاطۂ آدمیّت سے بھی خارج ہوچکا ہو۔
سب جانتے ہیں کہ ایک تو امر اور حکم ہوتا ہے اور ایک صلاح و مشورہ۔سو امر رسول اللہ ﷺ تو خواہ کسی چیز کے متعلق ہو، ہم بے شک اُس کے مامور ہیں اور مشورہ آپ کا ہو یا کسی اور کا ہم اُس کے مامور ہرگز نہیں۔ یہ امر دیگر ہے کہ بہ مقتضائے حسن ادب جو بوجۂ کمالِ عقل و مقبولیتِ انبیا  علیھم السلام  کے ساتھ ہونا چاہیے، اُن کے مشورہ کا اتباع بھی مستحب اور ان کا مشورہ بھی اوروں کے مشورے سے مقدم ہے۔ مگر یہ استحباب خارجی اور عرضی ہے، اس اتباع کی نسبت امر ِشرعی ہم کو نہیں ہوا جو اس کو امر شرعی کہا جائے۔ ادھر یہ بات ہے کہ مشورۂ مذکورہ کی گنجایش ہے تو منافع و مضارِ دنیوی میں ہے، دربارۂ منافع و مضارِ اُخروی انبیا کو مشیر سمجھنا، نبوت کا مدعی بننا یا انبیا کو عوام میں داخل کرنا ہے۔ اور یہ بھی خوب سمجھ لینا چاہیے کہ تحصیلِ منافعِ دنیا کے بعض طرق فلاحِ آخرت کے معارض ہوتے ہیں اور بعض موافق اور بعض نہ معارض نہ موافق۔ پہلے دو طریقوں میں حکمِ نبوی اور امر ِشرعی کا اتباع کرنا پڑے گا، البتہ تیسرا طریقہ یعنی جو فلاحِ آخرت کے نہ مخالف ہے نہ موافق، صرف اُس میں ہم کو توسع اور اختیار ہے کہ اُس کے ذریعہ سے ہم منفعتِ دنیوی حاصل کرسکتے ہیں۔ اُس میں فقط یہ ملحوظ رکھنا پڑے گا کہ کسی نہج سے فلاحِ آخرت کے معارض نہ ہوجاوے، باقی جس طرح چاہیں طریقۂ مذکورہ سے منفعت حاصل کریں چناںچہ بیوع و اجارات فاسدہ وغیرہ کی ممانعت اسی پر مبنی ہے۔
تو اب جو کوئی أَنْتُمْ أَعْلَمُ بِأُمُوْرِ دُنْیَاکُمْ کے ارشاد سے (جو آپ نے تابیرِ نخل کی نسبت فرمایا تھا) خود مختار بننا چاہے۔ اوّل اُس پر یہ لازم ہے کہ یہ سمجھ لے کہ آپ نے تابیرِ نخل سے جو روکا تھا یہ حکم اور امر تھا یا بہ تقاضائے خیر خواہی بطورِ مشورہ منع کیا تھا۔ اس کے بعد یہ دیکھ لے کہ اقسامِ ثلثہ مذکورہ میں سے تابیرِ نخل کس قسم میں داخل ہے۔ جس قسم میں داخل ہے صرف اُسی میں مختار بنے، جملہ اقسام میں خود مختاری اس سے حاصل کرنا بالکل یہ کہہ رہا ہے کہ حدیثِ مذکور کے موردِ اور اُس کے مطلب سمجھنے کا قصد بھی نہیں کیا۔ 
ہاں یہ بات ضرور ہے کہ درستیٔ آخرت چوںکہ مقصود بالذات ہے اور انتظامِ معاشِ دنیوی بالتبع مطلوب ہے تو اس لیے اگر کوئی چیز معاشِ دنیوی کے لیے مفید و نافع اور معاد و آخرت کے لیے مضر و نقصان دہ ہوگی تو وہ چیز ضرور قابلِ ممانعت اور واجب الاجتناب ہوگی اور اُس کا عکس قابلِ قبول اور واجب العمل ہوگا۔
اس مختصر قاعدہ کے سمجھ لینے کے بعد ان شاء اللہ جملہ اُن اُمور سے نجات مل سکتی ہے کہ جن سے وحیِ الٰہی تو روکتی ہے اور ہم کو اپنی عقل سے بڑے بڑے نفع اُن میں نظر آرہے ہیں یا وحیِ الٰہی تو اُس کی طرف شوق و رغبت دلاتی ہے اور ہمارا نفس 

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 وحی اور اُس کی عظمت 2 1
3 لَا إِیْمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَۃَ لَہٗ 19 1
Flag Counter