Deobandi Books

افادات محمود - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

40 - 60
متناہی مہبطِ انوارِ غیبی مخزن، اسرارِ لا ریبی یعنی حضراتِ انبیائے کرام  علیھم السلام  کو تمام کمالاتِ علمی و عملی میں ممتاز اور تمام ملکات و اخلاقِ حسنہ سے سرفراز اور اپنے تمام بندوں کی محبت و شفقت سے اُن کے قلوبِ مطہرہ کو مالا مال فرما کر گویا اپنی تمام مرضیات و غیر مرضیات کا اُن کو نمونہ اور نقشہ بنا کر حسبِ مقتضائے حکمت و ضرورت وقتاً فوقتاً اپنے بندوں کی طرف بھیجا۔ اور کیا عرض کروں کہ کس کس طرح سے ہر دو کمالِ مذکورہ علم و امانت اور دیگر اُمورِ مطلوبہ ضروریہ کی تحصیل و تکمیل کو اپنے بندوں پر سہل فرما دیا، جس کو دیکھ کر مایوسان کم ہمت بھی ’’نصیبے برم‘‘ کہنے کو تیار ہیں۔ فللّٰہ الحمد والثناء ولہ الشکر والفضل والسناء۔ 
اس کی توضیح اپنی لیاقت کے موافق اور اس مقام کے مناسب یہ ہے کہ بارگاہِ احکم الحاکمین میں جو قرب و امتیازِ محبوبیت و اعزاز مقبولیت و وجاہت، کرامت و سیادت حضراتِ انبیائے کرام  علیھم السلام  کو حاصل ہے کسی فردِ بشر کو نصیب نہیں اور جو کمالِ علمی و عملی اُن کو عطا ہوا ہے کسی کو میسر ہونا محال۔ تمام حکما و عقلا کے اخلاق و عقل کو اُن اور نگ نشینانِ محفلِ کمال کی عقل و اخلاق کے ساتھ وہی نسبت ہے جو دھوپ کو آفتاب سے اورپانی کی حرارت کو آگ سے۔ بارگاہِ رب الارباب میں اُن کا وہی درجہ ہے جو بارگاہِ سلطانی میں مقربانِ شاہی کا ہونا چاہیے کہ حکام ماتحت اور عام رعایا تلک جو احکام و انعاماتِ سلطانی پہنچتے ہیں انھیں کے ذریعہ سے پہنچتے ہیں، رعایا کی عرض داشت وہی مسموع ہوسکتی ہے جو اُن کے وسیلہ سے پیش ہو۔ اُن کی اطاعت بعینہٖ اطاعتِ سلطانی اور اُن سے سرکشی و تمرد بغاوتِ بادشاہی شمار ہوتی ہے۔ خلیفۂ کامل اور نائب بلا واسطہ ہیں تو وہی ہیں، باقی تمام عالم کو (کسے باشد) بعض کو بمنزلۂ حکام ِماتحت اور بعض کو بمنزلۂ رعایائے سلطانی سمجھنا چاہیے۔
بالجملہ حضرات انبیائے کرام  علیھم السلام  دربارۂ فیوضاتِ غیبی اور برکاتِ روحانی اور تحصیلِ سعادت و ہدایت اور تسہیلِ حصولِ جملہ کمالاتِ بشریت حق سبحانہ اور اُس کے بندوں کے مابین ایسے ہی واسطہ ہیں جیسے وہ اَشیا کہ آفتاب کے اور اُن کے درمیان کوئی چیز حاجب ہو اور اُن تلک نورِ آفتاب پہنچانے کے لیے آئینۂ مصفیٰ و مجلّٰی واسطہ ہوجاتا ہے۔
اور بعثتِ انبیا سے غرضِ اصل یہی ہے کہ بندگانِ جاہل و گمراہ علماً اور عملاً اپنے اصول و فروعِ ایمانی یعنی علوم و اعتقادات، اخلاق و حالات، اقوال افعال، عادات و عبارات، رسوم و معاملات میں ایسے مہذب ہوجاویں کہ دنیا میں انتظامِ معاش اور آخرت میں فلاحِ معاد بخوبی و سہولت حاصل کرسکیں جس سے اہلِ انصاف کو معلوم ہوسکتا ہے کہ اتباعِ انبیا کو صرف عبادات کے ساتھ مخصوص سمجھنا اُنھیں صاحبوں کا کام ہے جو بے علمی اور کوتاہ نظری کے ساتھ صفتِ امانت کو خراب و فاسد کرکے مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبْ فتنہ میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ اگر وجوبِ اتباعِ انبیا مسئلہ شرعی اور امر ِدینی ہے تو پھر ارشاد: 

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 وحی اور اُس کی عظمت 2 1
3 لَا إِیْمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَۃَ لَہٗ 19 1
Flag Counter