Deobandi Books

افادات محمود - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

38 - 60
کیوںکہ جیسا امانت کی حقیقت یہ ہے کہ انسان کو امورِ حسیہ واقعیہ کی طرف راغب بنائے اور غلط اور باطل باتوں سے نفرت دلائے ایسا ہی فتنہ درحقیقت اُس حالت اور کیفیت کا نام ہے جو ہماری نظروں میں سچی باتوں کو غلط اور غلط باتوں کو سچا کر دکھائے اور مرغوبات اصلیہ کو مکروہ اور مکروہاتِ اصلیہ کو مرغوب بناوے جو سخت مہلک مرض۔ نعوذ باللّٰہ من الفتن ما ظہر منھا و ما بطن۔1 (1 ہم خدا تعالیٰ سے ظاہری و باطنی فتنوں سے پناہ مانگتے ہیں۔) 
اب ان شاء اللہ ہر ایک عاقل منصف بے سمجھائے سمجھ سکتا ہے کہ فطرتِ سلیمہ اور امانتِ صحیحہ کی پوری اور بے تکلف یہ شناخت ہے کہ عقل و علم کی تابع ہو، بالخصوص علمِ وحی کی جس میں کسی قسم کی غلطی کا امکان بھی نہیں اور اُس کا مطابقِ واقع، یعنی اُس کا علم ہونا قطعی اور یقینی ہے۔ اُس کی پیروی اور موافقت تو امانتِ صحیحہ کے لیے اور اُس کی مخالفت امانتِ فاسدہ کے لیے اوّل اور قوی تر شناخت ہے۔ اور جیسا کسی کا علم واقع اور علم و احکامِ خداوندی کے مخالف ہو کر علم نہیں ہوسکتا بلکہ جہلِ مرکب بن جاتا ہے، اسی طرح پر وہ فطرت و امانت جو علم اور عقل اور واقع کے خلاف ہو ہرگز امانت ہی نہیں ہوسکتی، حقیقت شناس بے تامل اُس کو فتنہ کہیں گے۔ وَالْفِتْنَۃُ أَشدُّمنِ الْقَتْلِ۔ (اور فتنہ قتل سے بھی بڑھ کر ہے) 
ہم کو اُمید ہوتی ہے کہ ہماری تمام معروضات کو سمجھ کر ان شاء اللہ اہلِ فہم و انصاف کو حدیث شریف مرقومہ عنوان کے سمجھنے میں کوئی اشتباہ خلجان میں نہ ڈالے گا اور ایمان کے لیے وحی کو بمنزلۂ علتِ فاعلہ اور صفتِ امانت کو بمنزلۂ علتِ قابلہ تسلیم کرنے میں کسی قسم کا تردد پیش نہ آئے گا اور خوب سمجھ لے گا کہ ایمان کا حاصل ہونا علمِ وحی اور صفتِ امانت دونوں پر موقوف ہے۔ جس کو ان دونوں کمالوں سے جتنا حصہ ملے گا اُسی درجہ کا اُس کا ایمان سمجھا جائے گا اور ان ہر دو کمال میں سے اگر ایک کمال سے بھی کوئی محروم ہوگا تو پھر حصولِ ایمان کی توقع ’’ایں خیال ست و محال ست و جنوں‘‘ کا مصداق ہے۔ تمام جہان کے کمالات بھی اگر کسی میں تجویز کرلیے جاویں تو ان ہر دو کمال میں سے کسی ایک کمال کی بھی مکافات نہیں کرسکتے۔
عاقل، عالم، حکیم، موجد، علامہ، وحیدِ دہر، مصلحِ قوم، وسیع الحوصلہ، اولو العزم، دور اندیش، محقق، ماہر وغیرہ وغیرہ جس قدر خطابات چاہییں کسی کو دیے جائیں مگر مؤمن ہونے کا استحقاق کسی کو جب ہی نصیب ہوسکتا ہے کہ ہر دو کمالِ مذکورۂ بالا سے کافی اور ضروری حصہ حاصل کرلے۔
بلکہ حسبِ ارشادِ سیّد المرسلین علیہ الصلاۃ والتسلیم یُقَالُ: مَا أَظْرَفَہ وَ مَا أَجْلَدَہُ وَمَا فِيْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِنْ إِیْمَانٍ أَوْ کَمَا قَالَ۔ (یعنی قربِ قیامت میں یہ حالت ہوگی کہ بعض لوگوں کی نسبت لوگ کہیں گے کہ نہایت ہی عاقل، نہایت ہی ظریف، نہایت ہی جری آدمی ہے حالاںکہ اُس کے دل میں ذرّہ بھر ایمان بھی نہیں ہوگا)۔ بغیر حصولِ دولتِ ایمان کوئی کمال اور 

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 وحی اور اُس کی عظمت 2 1
3 لَا إِیْمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَۃَ لَہٗ 19 1
Flag Counter