Deobandi Books

افادات محمود - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

37 - 60
سمجھنے یا کہنے سے جو امر واقعی ہے وہ بدل کر اُن کے علم کے موافق اور اُس کا تابع ہوجائے۔ اور یہ بات ایسی بدیہی ہے جس کی تسلیم میں کوئی فہیم متامل نہیں ہوسکتا۔
جب یہ قاعدہ ذہن نشین ہوچکا کہ انسان کے ہر ایک کمال، ہر ایک ادراک کے لیے ضروری ہے کہ کوئی امر خاص اور منفعت مخصوص اُس سے مطلوب ہو کہ بہ پابندیٔ قیودِ معتبرہ و حدودِ مقررہ وہ غرض اُس کمال سے حاصل کی جاسکے۔
تو اب صفتِ امانت کہ جس کی صحت و فساد کا قاعدہ معلوم کرنا اس موقع پر ہم کو مقصود ہے اُس کو بھی ہم اگر اس قاعدہ کی عینک لگا کر دیکھتے ہیں تو الحمدللہ کہ کوئی خلجان اور دشواری نظر نہیں آتی، بلکہ جیسا تمام حواسِ ظاہرہ اور عقل و علم کی صحت و سقم میں اس مختصر قاعدہ سے ہم تمیز کرسکتے ہیں اُسی طرح صفتِ امانت کی صحت و قسم کو بے تکلف قاعدۂ مذکور کے ذریعہ سے ہم سمجھ سکتے ہیں۔
اوراقِ گزشتہ میں بالتفصیل گزر چکا ہے کہ جوہر ِعقل و علم جو انسان کو ہر چیز کی حقیقت شناسی اور مرتبہ دانی کے لیے عطا ہوا تھا اُس کی تائید و تکمیل کے لیے ہم کو قدرت و اختیار عنایت ہوا تھا، تاکہ حسبِ ہدایتِ علم اپنے قوی و اعضا سے اعمالِ حسنہ بھی کرسکیں۔ لیکن قوت بہیمیہ جو انسان کی عقل و علم پر غالب آکر اُس قدرت سے بسا اوقات خلافِ عقل و علم کام لینے لگتی ہے تو خالق حکیم نے انسان کو اس مضرت سے محفوظ رکھنے کے لیے عقل و علم کو ایک مددگار خاص مرحمت فرمایا کہ قوتِ بہیمیہ کے تغلب سے ہم کو بچائے اور ہماری قدرت و اختیار کو عقل و علم کی نافرمانی سے روکے اور اُسی کا نام فطرت اور امانت ہے، انتہی۔
اب اس مضمونِ مذکورۂ اوراقِ بالا سے صفتِ امانت کا حال بخوبی معلوم ہوتا ہے، یعنی یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ صفتِ امانت سے مقصودِ اصلی کیا ہے اور یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ صفتِ امانت کی کار پردازی کے لیے کون سا احاطہ محدود ہے۔
دیکھ لیجیے غرضِ اصلی صفتِ امانت کی تو یہ ہوئی کہ ہم کو قوتِ بہیمیہ کی مضرت سے بچائے اور ۔ُبری باتوں سے روکے اور بھلی باتوں پر چلائے اور اُن کی طرف کھینچے۔
اور حد اور احاطہ کی بابت یہ بات تو واضح ہوگئی کہ یہ امر ضروری ہے کہ صفتِ امانت متابعتِ علم اور اعانتِ عقل سے سر مو متجاوز نہ ہو۔ اس کے سوا اگر اور حدود و قیود بھی اُس کے لیے ہوں تو اُن سے ہم کو انکار نہیں، ہم کو تو صرف یہ مقصود ہے کہ اگر صفتِ امانت متابعتِ عقل و علم سے ذرا بھی متجاوز ہوگی تو وہ امانتِ صحیحہ نہیں ہوسکتی۔ بلکہ جیسا علم اپنے احاطہ سے نکل کر علم نہیں رہتا ضدِ علم یعنی جہل ہوجاتا ہے، بعینہٖ اسی طرح امانت اپنی حد سے اِدھر اُدھر ہو کر حقیقت میں امانت نہ رہے گی بلکہ ضدِ امانت ہوجائے گی جس کو حقائق شناس فتنہ کہتے ہیں۔

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 وحی اور اُس کی عظمت 2 1
3 لَا إِیْمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَۃَ لَہٗ 19 1
Flag Counter