Deobandi Books

افادات محمود - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

31 - 60
خلاصہ یہ ہوا کہ حواس کو ہر چند علم تو حاصل نہیں ہوتا، مگر حصولِ علم کے لیے حواس ظاہرہ واسطہ بے شک ہوتے ہیں اور یہ امر ایسا بدیہی ہے کہ جس کی تسلیم میں کسی صاحبِ فہم کو خلجان نہیں ہوسکتا۔
بعینہٖ اسی طرح صفتِ امانت کو خیال فرما لیجیے کہ اسی تعلقِ لطیف کی وجہ سے جو کہ انسان کے قویٰ ظاہرہ اور قویٰ باطنہ میں موجود ہے، اگر ہم چاہیں تو بلا تامل اُمورِ ظاہرہ کے ذریعہ سے کیفیتِ امانت کی تحصیل و تکمیل میں کوشش کرکے کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔
باقی رہا امرِ ثانی کہ کس کی رغبتِ طبعی اور میلان کو صحیح و معتبر سمجھیں اور کس پر غلط اور غیر معتبر ہونے کا حکم لگائیں۔ سو ہر چند اس کا جواب مختصر اور عقل کے مطابق صرف یہ ہے کہ جو طبیعت صحیح اور امراضِ مفسدۂ فطرت سے پاک ہوگی اس کا اعتبار ہوگا اور جس طبیعت کو امراض نے خراب اور فاسد کرکے اس کی مرغوبات کو کچھ کا کچھ کردیا ہو اور اُمور ۔ّحقہ واقعیہ سے متنفر اور غلط اور بے ہودہ اُمور کی طرف راغب اور مائل بنا دیا ہو۔ ایسی بے ہودہ، نکمّی طبیعت کی رغبت و نفرت کا اعتبار وہی کرسکتا ہے کہ جس کی طبیعت اور عقل دونوں مسخ ہوچکی ہوں۔
معقولات اور محسوساتِ انسانی دونوں کو ملاحظہ فرما لیجیے کہ ہر ایک میں کس قدر اختلافِ شدید موجود ہے۔ 
اُمورِ عقلیہ کے اختلافات کا تو ذکر بھی فضول ہے اور اُن سب کا شمار کرنا بھی ہماری قدرت کے احاطہ سے باہر ہے۔ محسوسات کہ جن سے زیادہ کوئی چیز ظاہر اور بدیہی نظر نہیں آتی اُن کو ملاحظہ فرما لیجیے۔
ایک صحیح النظر کسی چیز کو ایک کہتا ہے تو احول اسی چیز کو دو دیکھ رہا ہے۔ ایک صحیح المزاج کو ایک کپڑا سفید نظر آتا ہے وہی کپڑا مریضِ یرقان کو صاف زرد نظر آرہا ہے۔ ایک شخص کو مصری شیرین اور لذیذ معلوم ہوتی ہے دوسری کو غلبۂ صفرا میں ایلوہ سے کم محسوس نہیں ہوتی۔ ہم کو نیم کی پتی سخت تلخ معلوم ہو رہی ہیں، مار گزیدہ کو اُن میں قند و شکر کا مزہ آرہا ہے۔ عطر و گلاب کے سونگھنے سے ایک لطیف الدماغ کے گئے ہوئے ہوش لوٹ آتے ہیں، گندہ دماغ کے آئے ہوئے ہوش ان کی بو سے اُڑے جاتے ہیں۔
جس لالٹین میں مختلف الالوان آئینے ہوں اُس میں شمع کسی کو سرخ، کسی کو سبز، کسی کو زرد محسوس ہوتی ہے، حتی کہ سب کو معلوم ہے کہ بسا اوقات شدتِ خوف کی حالت میں آدمی کو آنکھوں سے صاف طور پر وہ اشکال نظر آتی ہیں جن کا نام و نشان بھی نہیں ہوتا اور ایسی آوازیں مسموع ہوتی ہیں کہ جن کا کہیں وجود بھی نہیں پایا جاتا۔
مگر ان بدیہی اختلافات کے دفع کرنے میں کسی عاقل کو دشواری نہیں ہوتی، بلکہ ہر کوئی یہ کہے گا کہ جمیع امثلۂ مذکورہ میں اعتبار اسی کی بات کا ہوگا جس کا حاسّہ صحیح ہو اور کسی امر عارضی اور مرضِ خارجی نے اس کے احساس کو خراب اور غلط نہ 

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 وحی اور اُس کی عظمت 2 1
3 لَا إِیْمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَۃَ لَہٗ 19 1
Flag Counter